جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔8
راج کمار، راج مندر اور راج محل
جے پور جانے والی سڑک بھی ویسی ہی تھی جیسے پاک وہند کے چھوٹے شہروں کے درمیان کی سڑکیں ہوتی ہیں۔ تنگ اور ٹوٹی پھوٹی ۔ یہ دو رویہ سڑک تھی اور بسیں اور ٹرک ایک دوسرے کے سامنے سے آجا رہے تھے۔ بعض اوقات سڑک اتنی تنگ ہوتی کہ لگتاکہ آمنے سامنے کی گاڑیاں ایک دوسرے کو چھو جائیں گی۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ کسی ایک کو سڑک کنارے رک کر دوسری گاڑی کو راستہ دنیا پڑتا۔ راستے بھر کھیت کھلیان اور جھاڑیوں کے جنگل نظر آتے۔ شاید ڈھائی یا تین گھنٹے میں ہم جے پور کے نارائن سنگھ بس اڈے پر کھڑے تھے۔
یہاں ٹیکسیاں کم ہی نظر آرہی تھیں۔ ہمارا اٹھارہ بیس لوگوں کا کٹم اپنے سامان کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ شہر جانے کا کیا طریقہ ہو۔ یہاں سائیکل رکشے بھی نظر آرہے تھے جن پر سوار لوگوں کی چہرے سے بے فکری نظر آتی تھی۔ مجھے یہ سواری نجانے کیوں زہر لگتی ہے۔ میں اسے انسانیت کی تذلیل سمجھتا ہوں، لیکن یہاں شاید اسے قبول کر لیا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کراچی میں بھی سائیکل رکشے نظر آتے تھے لیکن غالبا” سن باسٹھ میں ان پر پابندی لگ گئی۔
زیادہ تر سواریاں آٹو رکشے استعمال کررہی تھیں۔ ان رکشوں کی کوئی متعین شکل نہیں تھی۔ کسی میں صرف دو یا تین مسافر بیٹھ سکتے تھے تو کسی میں آمنے سامنے کل آٹھ لوگ بیٹھ سکتے تھے اور ایک سواری ڈرائیور کے ساتھ بھی بیٹھ سکتی تھی۔
“آپ سب ساتھ ہو؟” پکے سانولے رنگ کا ایک تیس بتیس سالہ نوجوان ہمارے قریب آیا۔ وہ ہمیں ناپ تول کر دیکھ رہا تھا۔
” ابے کمار ادھر آئیو” اس نے اپنے ہم عمر ایک دوسرے ڈرائیور کو آواز دی۔
” آپ سارے لوگ ان دو گاڑیوں میں آسکتے ہو” ہماری ٹولی میں زیادہ تراکہرے بدن کے لوگ اور بچے تھے۔ صرف سسٹر اور فوزان فربہی مائل تھے۔
” جانا کہاں ہے”
” ہمیں شہر کے قریب کسی ایسے ہوٹل میں جانا ہے جہاں شاکاہاری ، ماسا ہاری دونوں کھانے مل سکیں۔ ” فوزان نہ بھی بتاتا تو ڈرائیور پہچان گیا تھا کہ ہم کون ہیں اور کس قسم کا ہوٹل چاہتے ہیں۔
“آپ سب ساتھ چلو گے۔ میرا مطلب ہے کہ پہلے آپ میں سے دو تین آدمی جاکر شہر میں ہوٹل پسند کرلو پھر ماتا لوگ کو ساتھ لے جائیں گے”۔ آدمی معقول اور سمجھدار نظر آتا تھا۔
فوزان ،بڑے بھائی اور آزاد آپس میں مشورہ کررہے تھے۔ فوزان کے دوستوں نے ایک ہوٹل کا بتا یا تھا لیکن وہاں گوشت نہیں ملتا تھا۔
اور یہ گوشت بھی مسلمان کی بڑی مجبوری ہے، اس کےبغیر ایمان نامکمل رہ جاتا ہے۔ ایسے بھی ہیں کہ جمعہ کی نماز کا ناغہ منظور ، لیکن گوشت کو قضا نہیں کیا جا سکتا۔
اور یہ بات گوشت کی بھی نہیں۔بھارت میں دراصل گوشت سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے یا ہوٹل میں مسلمان بھی رہتے ہیں، اور سیدھی طرح سے یہ بات کہنے کی بجائے زرا گھما پھرا کر اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھےاور کچھ دن پہلے بھیونڈی میں کچھ ناخوشگوار واقعات ہو چکے تھے۔ ہر قدم پھونک کر ہی رکھنا تھا۔
فیصلہ ہوا کہ سب اسی ہوٹل چلتے ہیں۔ آج رات کیسے بھی گذارہ کرلیں گے، کل جب باہر نکلیں گے تو اپنی مرضی کا کھانا بھی کھالیں گے۔
” شیکھر ہوٹل” فوزان نے بتایا تو ڈرائیور اور کمار سوچنے لگے، پھر شاید انہیں یاد آگیا کہ وہ ہوٹل کہاں ہے۔ ہم ظاہر ہے کسی تیسرے درجے کے ایسے ہوٹل جو ریلوے اسٹیشنوں اور لاری اڈوں کے آس پاس ہوتے ہیں ، میں ہی جا سکتے تھے۔ فوزان تنہا ان سب کو لے کر آیا تھا۔ سارے اخراجات اور انتظامات اسی نے کئے تھے۔
شیکھر ہوٹل لیکن اسٹیشن یا بس اڈوں جیسا نہیں تھا۔ یہ ایک صاف ستھرے علاقے میں اور خاصا نیا اور روشن ہوٹل تھا۔ کمرے بھی کشادہ اور مناسب فرنیچر سے آراستہ تھے اور بستروں پر نئی دھلی چادریں تھیں ۔ غسل خانے بھی صاف ستھرے تھے اور کسی ناگواری کا آحساس نہیں ہوتا تھا۔
ہم کچھ دیر بعد ہوٹل میں داخل ہورہے تھے ۔
“میرا نام راج ہےاور یہ کمار ہے”۔ ڈرائیور نے بتایا۔
آپ چاہو تو ہم روج آجائیں ، آپ کو جے پور کی سیر کرادیں گے۔
ہماری میٹنگ پھر شروع ہوگئی۔ یہ مشاورتی کمیٹی فوزان ، بڑے بھائی اور آزاد پر مشتمل تھی اور میں اس کا اعزازی رکن تھا کہ مجھے یہاں کے بارے میں تو کوئی علم نہیں تھا لیکن ہوٹل جیسے معاملات میں مجھے بھی شامل مشورہ کیا جاتا۔
فیصلہ ہوا کہ ہر روز سواری کی تلاش اورکرائے کے مول تول کے بجائے راج اور کمار سے ہی معاملہ کر لیا جائے۔ راج خاصا دوستانہ طبیعت کا نظر آتا تھا۔
” ابھی تو آپ لوگ آرام کرو، شام میں ٹائم بھی کم رہ گیاہے۔ کہیں جانے کا فائدہ نہیں۔ آپ لوگ رات کا کھانا کھالو، ہم آکر آپ کو ‘ راج مندر’ لے چلیں گے۔
” بھیا ہم کیا کریں گے مندر جاکر؟ ؟ ” میری آواز میں شرمندگی اور معذرت سبھی کچھ تھا۔ جیسے کسی ایسے کو نماز کے لئے چلنے کہنا جو عید بقرعید ہی نماز پڑھتا ہو اور وہ کہے کہ تم چلو میرا وضو نہیں ہے۔
اور یہ بھی خیال تھا کہ راج اور کمار کیا سوچیں گے کہ کیسے ناستک ہیں ، مندر جانے سے منع کررہے ہیں ۔
اس ایک لمحے میں کیا کیا نہ خیال آکر گذر گئے۔ اتنی رات کو بھگوان کے درشن کرنے کا من بالکل نہیں تھا، اور نہ جانے یہاں کس کی پوجا ہوتی ہو۔ کہیں کالی ماتا کا مندر نہ ہو۔ لال زبان والی اس مورتی سے ہمیشہ خوف آتا تھا۔ یہاں کون سا بھگوان زیادہ مقبول ہوگا۔ بمبئی اور مہاراشٹر میں تو زیادہ تر ‘گنپتی ، (گنیش) کے بھگت ہیں، کلکتہ میں درگا دیوی کے پجاری زیادہ ہیں۔ ان میں بھی تو دیوبندی اور بریلوی ہوتے ہونگے۔
شاید یہ کوئی تاریخی مندر ہوگا، جبھی تو راج ہمیں آج کے آج دکھانا چاہتا ہے۔ ہم بھی تو اپنے ہاں آنے والوں کو بادشاہی مسجد اور فیصل مسجد دکھانے لے جاتے ہیں۔
”
“وہاں نیا فلم لگا ہے۔ آپ چاہے فلم نہ دیکھو، یہاں آنے والے یاتری ویسے بھی راج مندر جرور دیکھتے ہیں۔ ”
” بمبئی والا مراٹھا مندر کا مالک بھی یہی ہے، ، مراٹھا مندر جس میں ” مگلے آجم ” لگی تھی ۔ یہ یہاں کا سب سے بڑا سنیما ہے” راج نے مزید معلومات دیں تو میری جان میں جان آئی، ورنہ میں تو اپنے آپ کو اندھیرے مندر میں ماں کالی کے روبرو دیکھ رہا تھا۔ اور یہ فلم کا بھی خوب ہے۔ ہندوستان میں شاید کسی کو یہ خبر نہ ہو کہ دلی میں آج کل پردھان منتری کون لگا ہوا ہے، لیکن کشور کمار نے چوتھی شادی کس سے کی یہ سارے انڈیا کو خبر ہوگی۔
فلم کا سن کر ہماری بچہ اور نوجوان پارٹی مچل گئی کہ ہاں رات کو فلم دیکھیں گے ۔ فلم بینی، فلمی گپ شپ، فلمی معلومات ۔ فلمی مباحثے ہندوستان کی سوشل لائف کا اہم ترین جزو ہیں۔ ہمارے رشتہ دار جب بھی وہاں جاتے ہیں تو مہمان کو فلم دکھانے کو میزبانی کی معراج سمجھا جاتا ہے۔
میں کبھی فلموں کا دیوانہ ہوا کرتا تھا۔ بحرین میں دو تین بار میں نے ایک دن میں دو دو فلمیں بھی دیکھیں کہ وہاں فلم صرف ایک دن کے لئے آتی تھی اور دو مختلف سنیماؤں میں اگر ایک ہی دن دو ” اہم’ فلمیں آجائیں تو دو مختلف شوز میں فلم دیکھنا فرض تھا۔
لیکن جب سے پاکستانی ٹی وی کے ڈراموں کے ویڈیو کیسیٹ سعودی عرب اور خلیجی ملکوں میں آنے لگے اور میں نے دوبئی چلو، وارث، دہلیز، سونا چاندی جیسے ڈرامے دیکھے تو میرا فلموں سے جی اچاٹ ہوگیا۔ یہ غیر حقیقی کہانیاں، بناوٹی اداکاری اب ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ ہاں البتہ دو ایک چنندہ ھدایت کارو ں کی فلمیں دیکھ لیتا تھا جیسے گلزار، رشی کیش مکرجی اور شیام بینیگل وغیرہ۔
راج اور کمار یعنی راج کمار سے کہہ دیا گیا کہ آٹھ بجے آجاؤ، ہم سب کھانا کھا کر تیار رہیں گے۔ خالو ابا، خالہ اماں اور ننھی ثمین گھر پر رہنے والے تھے۔ میں نے بھی گھر پر رہنے کی خواہش ظاہر کی لیکن سب پیچھے پڑگئی کے تمہارے لئے تو ہم جارہے ہیں، پھر ‘راج مندر’ کی دھوم تو سارے انڈیا میں ہے۔ تم جے پور آؤ اور راج مندر نہ دیکھو یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
اور تیاری کے معاملے میں ہماری اس ٹولی کی خواتین بھی دوسری عورتوں سے پیچھے نہیں تھیں لیکن جب معاملہ شاپنگ یا فلم کا ہو تو ان کی پھرتی اور چابکدستی دیکھ کر فوجی جوان بھی شرما جائیں۔ مغرب سے فارغ ہوتے ہے ہوٹل کے کچن سے شاکاہاری بھوجن تناول کیا۔ مجھے تو راجستھانی کھانے میں مزہ آیا۔ خاص طور پر ” بڑیوں ” کا سالن شاید میں نے گھر کے باہر پہلی بار کھایا تھا۔
راج کمار آٹھ بجے سے پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ وہ آئیں گے۔ ہوسکتا ہے انہیں کوئی دور کی اور منافع بخش سواری مل جائے، لیکن وہ راجپوت ہی کیا جو اپنی بات کا پاس نہ رکھے۔ آج بھی اور اس کے بعد بھی انہوں نے طے شدہ معاوضے سے زیادہ طلب نہیں کیا۔ مجھے رہ رہ کر اپنے کراچی کے اہل ایمان رکشہ اور ٹیکسی والوں کا خیال آتا تھا۔قوموں کی برتری دولت اور فوجی طاقت سے ہی نہیں ہوتی، اقدار کی پاسداری اور اصولوں اور قانون کی پابندی کا بھی ایک کردار ہوتا ہے۔
میں نے بہت کوشش کی کہ میں ٹکٹ خریدوں ۔ میں سب کو یہ فلم دکھانا چاہتا تھا۔ لیکن فوزان اور آزاد سختی سے اڑ گئے۔ انہیں گوارا نہیں تھا کہ بی بی جان کا بابو ان کے پاس آئے اور کچھ خرچ کرے۔
یہ آخری شو تھا۔ ہم سب راج مندرکے وسیع وعریض ویٹنگ روم میں بیٹھے شو ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ سسٹر کی مزیدار باتیں چل رہی تھیں اور ساتھ ہی راج مندر کی کافی کا لطف لیا جارہا تھا۔ بھارت میں پاکستان کی نسبت کافی کا رواج زیادہ ہے۔ مجھے عموماً چائے پسند ہے، لیکن یہ کافی واقعی بہترین تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں بھی بعض سنیما ہال اپنی کافی ، سینڈویچ اور بن کباب کے لئے بھی مشہور ہوتے تھے۔
یہ شبانہ اعظمی ، ریکھا اور جیتیندر کی کوئی فلم تھی۔ میں بیزاری سے فلم ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ شاید کسی اور کو بھی مزہ نہیں آرہا تھا لیکن فلم دیکھنا چونکہ ضروری تھی اس لئے سب خاموش تھے۔ فلم کے بعد بھی کسی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ بمبئی کی زبان میں فلموں کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہوتی ہے ” سالڈ” یعںنی زبردست، ” ٹائم پاس” یعنی گوارا اور ” بنڈل” یعںی بکواس۔۔۔ یہ فلم شاید ٹائم پاس تھی۔
ہوٹل پہنچے تو خالو ابا اور خالہ اماں جاگ رہے تھے۔ ثمین سو چکی تھی۔ خالو ابا نے پوچھا فلم کیسی لگی۔
” ٹائم پاس” ۔میرا جواب تھا۔ ۔۔مجھے بھی روم میں رہ کر رومنوں کی طرح رہنا آتا جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جے پور۔۔۔۔ گلابی نگری
ہندوستان کی عظمت رفتہ کو اگر اس کے شاندار ترین روپ میں دیکھنا ہو تو میرا مشورہ ہے کہ آپ جے پور ضرور جائیں۔
بمبئی ، ہندوستان کا دل اور جان ہے، جیسے کراچی پاکستان کا۔ لیکن بمبئی میں زیادہ تر انگریز راج کی نشانیاں نظر آتی ہیں، جیسے گیٹ وے آف انڈیا، وکٹوریہ ٹرمینس وغیرہ۔
دہلی ، بھارت کا دارالحکومت ، لیکن یہ زیادہ تر مسلم اور مغلیہ دور کی نشانیاں اپنے سینے پر سجائے ہے جیسے قطب مینار، لال قلعہ، جامع مسجد وغیرہ۔ ہندو تہذیب کی لے دے کہ شاید ایک ہی نشانی ہے اور وہ ہے اشوک کی لاٹ یعنی محض ایک ستون۔
کلکتہ، چنئی ، بنگلور اور حیدرآباد کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ میں نے یہ شہر نہیں دیکھے۔ لیکن جے پور دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رجواڑوں اور ریاستوں وغیرہ کی کیا شان ہوتی ہوگی۔ جا بجا بکھرے ہوئے محلات، قلعے، مندر، باغات اور مختلف راجاؤں کی تعمیرات اسے ایک منفرد شہر بناتی ہیں۔
یہ مارچ کا مہینہ تھا اور ہوا میں خنکی تھی۔ سب اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے۔ خالو ابا اور خالہ اماں بھی فجر پڑھ کر دوبارہ سو چکے تھے۔ مجھے لیکن صبح جلدی اٹھنے کی عادت تھی اور میں دوبارہ نہیں سو پاتا۔ مجھے ناشتہ بھی علی الصبح کرنے کی عادت ہے گو کہ یہ محض ایک چائے کی پیالی اور دو توس ہوتا ہے۔ ہوٹل میں کھانے کا انتظام چھت پر تھا۔ چھت کی منڈیروں کے ساتھ سائبانوں کے نیچے میز کرسیاں تھیں۔ کچھ میزیں کھلے میں ، دھوپ میں بھی تھیں، دھوپ نکلنا شروع ہوگئی تھی اور اس خنکی میں بڑا لطف دیتی تھی۔ میں نے بھی وہیں ایک میز پر بیٹھ کر چائے کا آرڈر دیا۔ دھوپ اور چائے اور سردی اور چائے کے بعد سگریٹ ، میں اپنے آپ کو بھی مہاراجہ پر تاب سنگھ سمجھ کر ٹانگیں پسار کر آنکھیں بند کرنا چاہتا تھا کہ آزاد مجھے ڈھونڈتے آنکلے۔ انہیں بھی صبح جلدی اٹھنے کی عادت ہے۔
راج اور کمار حسب وعدہ پہنچ چکے تھے، ہم سب رکشوں میں سوار ہوئے۔ اور جے پور شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ مجھے راج نے اپنے ساتھ والی گدی پر بیٹھنے کا اعزاز عطا کیا۔
جے پور بھی انگڑائی لے کر اٹھ رہا تھا۔ یونیفارم پہنے اسکولوں کے بچے، بسوں ، سائیکل رکشہ اور سائیکلوں پر سوار ملازمت پیشہ اور کاروباری لوگ اپنی اہنی منزلوں کی جانب رواں دواں تھے۔ سائیکلوں اور سائیکل رکشاؤں نے تقریباً ساری سڑکیں گھیر رکھی تھیں ۔ ایک گلی سے گذرے تو دیکھا سامنے سے ہاتھی چلا آہا ہے، اس کا مہاوت آگے آگے، شاید اسے کسی سیاحوں کی دلچسپی کی جگہ لے جارہا ہو۔
ایک قدیم سی عمارت کی پیشانی پر سندھی تحریر دیکھ کر میں چونکا۔ اس کی نیچے دیوناگری میں کچھ لکھا تھا۔ انگریزی میں کچھ نہیں تھا۔ شاید یہ سندھی یا راجپوت انگریز سے مرعوب نہیں تھے۔ سندھی میں کسی نام کے آگے ” پاث شالہ” قسم کا کوئی لفظ لکھا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ شاید کوئی اسکول یا مدرسہ تھا۔
راج مجھے جے پوراور آس پاس کی عمارتوں ، بازاروں کے بارے میں بتاتا جارہا تھا۔ ایک لفظ بار بار سنائی دیتا ” ہمارے حکم، ۔۔”۔۔ہمارے حکم” نے یہ کہا ،” ہمارے حکم “کہتے ہیں۔ پہلے تو میں کچھ سمجھ نہ پایا پھر اندازہ ہوا کہ یہ اپنے کسی ٹھاکر کا ذکر کررہا ہے۔ مالک اور آقا کے لئے ” حکم” کا لفظ بڑا معنی خیز تھا ۔ اصل چیز تو حکم ہی ہوتا ہے۔ انسان تو فانی ہے، آج ہے ، کل نہیں۔
” جے پور کو سوائی جے سنگھ مہاراج نے بسایا” راج نے مجھے اطلاع دی۔ ” وہ آمر کے قلعے میں رہتے تھے۔ آپ کو آمر کے قلعہ بھی لے چلیں گے”
میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ میں نے تو جب سے ہوش سنبھالاہے آمر ہی کے قلعہ میں رہتا آیا ہوں۔ اب بھی (۱۹۸۲) آمر کا ہی راج ہے اور ہم آج بھی اسی کے قلعے میں رہتے ہیں جسے ہم پیار سے اسلام کا قلعہ بھی کہتے ہیں۔
بمبئی کے بے ہنگم اور گنجان شہر، اجمیر کی درگاہ کے آس پا س کی تنگ گلیوں کے بعد یہ کھلا کھلا، گلابی رنگ میں بسا نگر ، آنکھوں کو بھاتا تھا۔ شہر کے مکانات، عمارتیں اور دکانیں سب گلابی رنگ میں رنگے تھے۔ جے پور جسے گلابی شہر (Pink City) کہتے ہیں ، یہاں اندرونی شہر میں شاید قانونا” مکانوں اور دکانوں کو گلابی ہی رنگا جاتا ہےاور سنا ہے کہ اس کی آدھا خرچ سرکار دیتی ہے۔ یہ اتنا گلابی بھی نہیں بلکہ سرخ پکی ہوئی اینٹوں کے جیسا رنگ ہوتا ہے۔ دن کی دھوپ میں یہ آنکھوں کو بھاتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ رنگ بہت بد نما بھی محسوس ہوتا ہے۔ ایسی جگہیں لیکن کم ہی ہیں۔
سرخ رنگ کے بنے ایک لمبے چوڑے محل نما دروازے کے سامنے ہمارے رکشہ رک گئے۔ دروازہ بہت بلند تھا اور ایک بڑی سی محراب میں تھا جس پر نہایت خوبصورت راجھستانی انداز کی ملمع کاری اسے اور بھاری بھر کم بناتی تھی۔ یہ سٹی پیلس تھا۔
اندر ایک وسیع و عریض صحن کے ایک جانب سرخ اینٹوں کا اور دوسری جانب سفید پتھر کا کئی منزلہ محل تھا۔ یہ چندر محل اور مبارک محل تھے۔ جس کے ایک برآمدے میں ہم کھڑے تھے اور محل کے دوسری جانب بنے وسیع صحن اور برآمدوں کی طرف جانا چاہتے تھے کہ خاکی وردی میں ، کمان نما مونچھوں والے ایک سپاہی نے ہمیں روک دیا۔
” ابھی ادھر جانے کا آڈر نہیں ہے، دوپہر میں آؤ”
یہاں فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اب ہم نے دیکھا ایک جانب کیمرے اور شوٹنگ کا سامان نظر آرہا تھا ، ایک جانب ایک ترپال کے بنے سائبان کے نیچے ، بینڈ باجے ، بجانے والوں جیسے لباس میں اور ہاتھ میں تلوار لئے، اداکار کملاہاسن بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ کوئی کاسٹیوم فلم تھی، راجے مہاراجوں والی اور تلواروں اور گھوڑوں والی۔
اس فلم میں سنا کہ دھرمیندر، سنیل دت اور راج کمار ، اور ہیما مالنی وغیرہ بھی تھے لیکن ہمارے حصے میں کملاہاسن آئے تھے اور ان کی جانب دیکھنا کوئی ایسا خوشگوار عمل نہیں تھا کہ اس طرح کے ہیرو پہلے نظر سے نہیں گذرے تھے۔ ہیروئن یا کوئی اور اداکارہ نظر نہیں آرہی تھی۔ اس وقت شوٹنگ بھی نہیں ہورہی تھے بس تیاریاں چل رہی تھیں۔ ہم بہت بیزار ہوکر باہر آئے اور راج اور کمار ہمیں پیدل ہی دوسری جانب لے گئے جہاں سامنے ” ہوا محل” کی خوبصورت اور عالیشان عمارت سر اٹھائے کھڑی تھی۔
“کرشن بھگوان ” کے مکٹ (تاج) کے انداز میں بنائی گئی یہ پانچ منزلہ سرخ عمارت راجھستانی فن تعمیر کا ایک شاہکار تھی جس میں شہد کے چھتوں جیسی سینکڑوں کھڑکیاں تھیں۔
” ان کھڑکیوں سے اندر نہیں دیکھ سکتے، ہاں اندر والے باہر دیکھ سکتے ہیں ” راج نے بتایا۔
یہ محل راج پریوار کی مہیلاؤں کے لئے بنایا گیا تھا کہ وہ یہاں سے باہر کا تماشہ دیکھیں لیکن باہر والوں کو نظر نہ آئیں ۔ راجپوتوں میں پردہ، مسلمانوں سے زیادہ سخت تھا۔ اب بھی کئی راجپوت گھرانوں میں بہو اپنے سسر سے بھی پردہ کرتی ہے اور یہ منظر میں نے کراچی میں بھی اپنے راجپوت پڑوسیوں کے گھر میں دیکھا ہے۔
یہاں کھڑکیاں روزن اور روشندان کچھ اس انداز سے بنائے گئے تھے کمروں اور جھروکوں میںروشنی تو رہے لیکن دھوپ نہ آئے اور ہوا چھن چھن کر ان کمروں سے گذرے۔ اسی مناسبت سے اسے ہوا محل کہا گیا ہوگا۔
تاریخ کی اتنی سیر ہماری خواتین کے لئے بہت کافی تھی، یہاں سے بازار قریب تھا، بلکہ یہ بازار کے ہی علاقے میں تھا چنانچہ ان کا مطالبہ تھا کہ ” خریدی” کے لئے چلا جائے۔ یہ لفظ اب میری چڑ بنتا جارہا تھا۔ مجھے قدرت نے ہندوستان دیکھنے کا موقع دیا اور فوزان کی مہربانی سے یہ تاریخی مقامات دیکھنے مل رہے تھے، لیکن ہماری خواتین کے نزدیک یہ کسی خاص اہمیت کی چیزیں نہیں تھیں ۔ بس اک نظر دیکھ لیا۔ اب آگے بڑھیں۔ ہاں لیکن شاپنگ میں گھنٹوں بیت جائیں تو کوئی بات نہیں ۔
یہاں ایک مارکیٹ میں ساڑھیوں کی ایک کے بعد دوسری دکان کا طواف جاری تھا۔ خالو ابا اور اماں کے لئے یہاں کھڑا رہنا مشکل تھا۔ ہم تینوں نے ایک رکشہ لیا اور ” شیکھر ہوٹل” واپس آگئے۔
دوپہر سے کچھ پہلے وہ سب بھی واپس آنے والے تھے۔ کچھ دیر بعد غلام نبی بھائ جان اور بڑے بھائی بھی ہوٹل آگئے۔
” اب آئیں گے تو سب کو بھوک لگی ہوگی” خالہ اماں فکرمندی سے بولیں۔
اور آج شاید کسی کا دال بھاجی کھانے کا موڈ نہیں تھا۔ بڑے بھائی نے تجویزا کہ میں اور وہ قریب کے بازار جاکر کوئی مسلم ریسٹورنٹ تلاش کریں ۔ اور ہوسکے تو کھانا گھر لے آئیں ۔ خالہ نے سامان سے ایک بڑا سا برتن نکال کر دیا کہ اس میں سالن لے آؤ۔
” آپ آرام کریں، میں چلا جاتا ہوں” میں نے بڑے بھائی سے کہا تو وہ فورا” مان گئے، شاید وہ بھی تھک گئے تھے اور سستانا چاہتے تھے۔
لوگوں سے پوچھتا پاچھتا میں جس جگہ جا نکلا وہ اندرون لاہور کی یاد دلاتی تھی۔ یہاں بہت سارے دروازے تھے جیسے لاہور میں بھاٹی، لوہاری اور موچی دروازے ہیں۔ میں ہوٹل کی تلاش میں تھا کہ فٹ پاتھ پر یہ موٹی موٹی سرخ گاجریں نظر آئیں۔ جی چاہا کہچکھ کر دیکھوں۔ ایک راجھستانی عورت یہ گاجریں بیچ رہی تھی۔ میں نے ایک گاجر کا ٹکڑا چبایا۔ اُف کیا ہی رسیلی اور میٹھی گاجر تھی۔ میں نے عورت سے کہا کہ پانچ روپے کے دیدے، سوچا کھانے کے ساتھ سلاد کے طور پر لے لوں۔
” لاؤ برتن آگے کرو”
” اس میں تو سالن لینا ہے، تمہارے پاس کاغذ کی تھیلی نہیں ہے؟ ”
اس کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں نے دیگچہ آگے بڑھا دیا۔ اس نے پورا گاجروں سے بھر دیا اور مجھے تین روپے واپس کردیئے کہ اس میں اور زیادہ نہیں آسکتے۔
اب میں پریشان کہ کیا کروں۔ سالن کس میں لوں، ان دنوں پلاسٹک شاپنگ بیگ کی بدعت رائج نہیں ہوئی تھی۔ لوگ باگ پٹ سن کی بنی تھیلیوں اور کھجور یا پلاسٹک کی بنی باسکٹ میں سودا سلف لاتے تھے۔ ہماری امی کی تو محلے میں پہچان ان کی سبزی گوشت لانے کی ٹوکری ہی تھی۔
چارو ناچار ہوٹل واپس آکر گاجریں ” آف لوڈ’ کی اور پھر ہوٹل کی تلاش میں روانہ ہوا۔
ہماری خواتین کا ایک خاص وصف ان کی جنگجویانہ طبیعت تھی۔ بمبئی میں روزمرہ دکان داروں سے لین دین کر کے انہیں بھاؤ تاؤ میں بحث اور جھگڑنے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔
آخر کار مجھے ایک مسلم ہوٹل مل ہی گیا۔ سالن تیار ہونے میں کچھ دیر باقی تھی میں نے باہر ایک کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ سلگائی ہی تھی کہ سامنے ایک اسکوٹر آکر رکی اور ایک چھوٹے قد کا نوجوان اتر کر میری جانب آیا۔
” سلام بھائی جی”
” جی سلام”
” بھیا آپ ہی بمبئی سے آئے ہوئے سیٹھ لوگوں کے ساتھ ہو؟”
” جی بھائی، بمبئی سے تو آیا ہوں لیکن سیٹھ نہیں ہوں۔ نہ وہ سیٹھ ہیں ”
” میں شیکھر ہوٹل سے آرہا ہوں، انہوں نے بتایا کہ آپ ہوٹل کا پتہ پوچھ کر نکلے تھے۔ آپ کے گھر سے ماتا لوگ میری دکان پر آئی تھیں۔انہوں نے ساڑھیاں لیں لیکن بہت مول تول کرتی رہیں”
” تو بھیا ، سب خیر تو ہے” میں فکر مند ہوگیا۔
” ہاں بھائی جی سب کشل منگل ہی ہے۔۔ بس ایک ماتا جی نے بہت جھگڑا کیا اور ایک دو ساڑھیاں واپس کیں، جب وہ گئیں تو ہم نے حساب کیا تو وہ سو روپے کم دے گئی تھیں۔ ”
” تمہیں کیسے پتہ کہ وہ ہی کم دے گئی ہیں”
” بھیا ہم گاہک کے جاتے پی حساب کرتے ہیں اور ہمارا حساب کبھی غلط نہیں ہوتا۔ آپ خود سوچو ، اگر نہ کیا ہوتا تو مجھے کیا پڑی تھی کی دکان چھوڑ کر آپ کے ہوٹل آتا اور وہاں سے آپ کے پاس آتا۔‘
” تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں” سو روپے اس زمانے میں خاصی قدر رکھتے تھے اور میں اتنی آسانی سے اس کی بات پر یقین کرکے اسے سو روپے نہیں دے سکتا تھا۔
” تم انہیں پہچان لوگے اگر میں تمہارے ساتھ ہوٹل چلوں؟”
” بالکل جی ، کیوں نہیں”
” لیکن یہ سالن لے کر کس طرح تمہاری اسکوٹر پر بیٹھوں گا۔”
” اس کی فکر نہ کریں۔”
اس نے ہوٹل والے کو ہدایت کی کہ شیکھر ہوٹل سالن اور روٹیاں پہنچادے، چھوٹا شہر تھا اور شاید وہ ہوٹل والے کو جانتا تھا۔
میں اس کے ساتھ اسکوٹر پر ہوٹل واپس آیا تو ہماری ٹولی بھی واپس آچکی تھی اور استقبالیہ کے سامنے چھوٹے سے ہال میں صوفوں پر پیر پسارے تھکن دور ہورہی تھی۔
میں نے باہر ہی سے اس سے پوچھا کہ کون سی ماتا جی تھیں۔ اس نے چاچی کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ خاموشی سے میرے ساتھ آئے اور کوئی بات نہ کرے۔ میں خود معاملہ سنبھالنے کی کوشش کروں گا۔
” ارے تم کہاں رہ گئے تھے” مجھے آتا دیکھ کر کئی آوازیں ابھریں۔
میں ایک دو باتیں کرکے چاچی کی طرف متوجہ ہوا،
” چاچی کیا خرید لائیں آج”
چاچی ذوق شوق سے خریداری کی تفصیلات بتاتی رہیں، انہوں نے کچھ اور نہیں صرف ساڑھیاں ہی لی تھیں اور اسی دکان سے لی تھیں۔
آپ کتنے پیسے لے کر گئی تھیں ؟
کیوں ؟
انہیں وہاں ایک سو کا نوٹ ملا ہے، لگتا ہے کا آپ کا گرا ہے۔
میں نے دکاندار کی طرف اشارہ کیا تو چاچی بھی چونکیں۔
چاچی نے مجھے بتایا کہ کتنے پیسے لے کر بازار گئی تھیں، اور کیا خریداری کی۔ میں نے کہا آپ اپنے پیسے گن لیں، چاچی کچھ گو مگو کے عالم میں نظر آئیں۔ کم تو کیا، ان کے پاس سو روپے زیادہ نظر آرہے تھے۔
” ہاں چاچی، آپ کے پیسے گرے نہیں ہیں بلکہ آپ ان کو کم دے کر آئی ہیں ”
” ارے یہ بکواس کرتا ہے،” چاچی کو شاید وہ جھگڑا یاد آگیا۔ ان کی جنگجویانہ طبیعت عود کر آئی تھی۔
” نہیں چاچی، آپ وہ پیسے اسے دے دیں۔ یہ صحیح کہ رہا ہے”
دکاندار میرا شکریہ ادا کرتا اور سب سے معافی مانگتا اور سلام کرتا واپس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد ہم کمروں کے جانب جانے کے لئے اٹھ ہی رہے تھے کہ وہ پھر نظر آیا۔ وہ میری جانب ہی آرہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا۔ اسے مجھے دے کر پر نام کرکے وہ باہر جاکر اسکوٹر پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
میں نے ڈبہ کھولا۔ اس میں پیڑے تھے۔
(باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/643685769152287