میرے شہر والے۔۔۔۔17
جہانگیر خان۔۔۔۔۔جاوید میانداد
یار دوست مذاق اڑاتے ہیں، کہتے ہیں آنکھیں کھولو اور آج کی دنیا کو دیکھو۔ یہ کیا ہر وقت ماضی کے قصے لئے بیٹھے رہتے ہو۔ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ دنیا بدل چکی ہے اور بہت آگے جا چکی ہے۔ تم وقت کے پہئے کو الٹا نہیں گھما سکتے۔ نہ پچھلے دنوں کو واپس لا سکتے ہو۔ جو ہونا ہی نہیں ہے اسے کیوں یاد کرتے ہو۔
میری موٹی عقل میں لیکن نہیں آتا کہ آگے بڑھ جانے سے کیا مراد ہے۔ کیا نت نئی ایجادات اور ہر ایک کی ان تک پہنچ کا مطلب آگے بڑھ جانا ہے۔ اگر ایسا ہے تو جس رفتار سے دنیا میں سائنسی ترقی ہورہی ہے تو آج کی بہترین ایجاد یا مشین سال بھر کے بعد زمانہ قدیم کی شے دکھائی دیتی ہے۔ وہ موبائل فون جسے میں نے بڑی چاہ سے دو سال قبل حاصل کیا تھا، بچے اسے دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں انکل یہ دیکھئے میرا اسمارٹ فون۔ اس میں کیمرہ بھی ہے، اس پر فلم بھی دیکھ سکتے ہیں، اس سے تصویر بھی بھیج سکتے ہیں اور نجانے کیا کیا کرسکتے ہیں۔
اور شاید ایسا ہی ہو۔۔ میں ٹھہرا اگلے وقتوں کا آدمی، یہ باتیں میری فہم سے بالا ہیں۔
مجھے تو اپنی نوجوانی یاد ہے کہ اس میں ٹکنالوجی نام کی کسی چیز کا دخل نہیں تھا اور ہم اپنی تفریح کے زرائع اپنے جسم و جاں، اپنی عقل وفہم اور اپنے ہاتھ پیروں سے پیدا کرتے تھے۔
اسکول کالج میں، مضمون نویسی، تقریری مقابلے، ڈرامے، موسیقی، حسن قرات، مصوری، معلومات عامہ اور کھیلوں کے مقابلے ہوتے۔ گھر آنے کے بعد یا تو گلی محلے میں یا میدان میں، فٹبال، کرکٹ، ہاکی، والی بال اور پتہ نہیں کون کون سے کھیل کھیلتے۔ ہماری ساری سوچ اور ساری فکر یہ ہوتی کہ ہماری قومی ٹیم ہر جگہ کامیابی حاصل کرے اور ہم بھی اس مقام تک پہنچیں کہ اپنے ملک کیلئے کھیلیں۔
ہماری دیوانگی کی یہ عالم تھا کہ اگر پاکستانی ٹیم اولمپک کا فائنل یا سیمی فائنل کھیل رہی ہوتی تو ہم جمعہ کی نماز سے پہلے محلے کی مسجد کے امام صاحب کو ایک پرچی پہنچاتے کہ آج جمعہ میں پاکستان کی کامیابی کیلئے دعا کریں۔ اور ہمارے مولوی صاحب بھی یہ کام کر گذرتے۔ اس دعا کے بعد آمین کی آواز سب سے بلند ہوتی کہ یہ ہمارے دل سے نکلتی تھی۔
کرکٹ کا کھیل تو بہت بعد میں اس قدر مقبول ہوا۔ مجھے یاد ہے ساٹھ کے عشرے کی ابتدا میں جب میں بہار کالونی، لیاری میں رہتا تھا وہاں جامع مسجد سے متصل میدان میں شہر کی بہترین فٹبال ٹیمیں کھیلنے آتیں۔ تقریباً ہر اتوار کو ہمارے محلے کی ٹیم کا میچ ہوتا۔ اور جب کبھی ٹورنامنٹ ہوتا تو گویا میلہ سا لگ جاتا۔ کلری اسپورٹس، بغدادی جیمخانہ، ینگ کلاں کوٹ اور ہمارے محلے کی الیون اسٹارکے نام مجھے اب تک یاد ہیں، قومی ٹیم کے کھلاڑی غفور، اللہ بخش، عمر، تراب علی، چنگیزی وغیرہ بھی ان میچوں میں نظر آتے۔ اور جس دن خبر ہوتی کہ آج فلاں ٹیم کا میچ ہے جس میں فلاں کھلاڑی بھی ہے تو ہم اسکول کا کام جلد از جلد ختم کرکے عصر کے فورا بعد میدان میں پہنچ جاتے۔ یقین جانئیے ، بہار کالونی فٹبال میدان کے چاروں طرف بنے ہوئے گھروں کے آگے اور میدان کے چاروں جانب ایسا مجمع ہوتا کہ آج کے بڑے بڑے میچوں میں بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔
یہی حال کرکٹ اور ہاکی کا تھا۔ ناظم آباد بڑا میدان میں ناظم آباد جیمخانہ کے کرکٹ میچوں کے دوران تماشائیوں کا ہجوم ہوا کرتا۔ یہی حال شہر کے دوسرے علاقوں میں ہوتا۔
میں نے ہاکی بہت دیر سے کھیلنا شروع کی، لیکن بہت سے کھیل جو میں کھیلتا رہا ان میں سب سے بہتر کارکردگی شاید ہاکی میں رہی۔ کورنگی، لانڈھی، ملیر، ڈرگ روڈ وغیرہ میں ہم کھیلنے جاتے۔ اگر کبھی یوم آزادی یا یوم دفاع جیسے دنوں میں کوئی نمائشی میچ ہوتا تو تماشائیوں کی تعداد ایسی ہوتی کہ ہم اپنے آپ کو اولمپک اسٹیڈیم میں کھیلتا ہوا محسوس کرتے۔
قصہ مختصر، کھیلوں کا ہماری زندگی میں اس قدر دخل تھا کہ ہمیں اور تفریحات کا ہوش ہی نہیں رہتا تھا۔ اور جب بات میرے شہر کی آتی ہے تو یہ کوئی تعلٰی یا بڑائی نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے کہ میرا شہر تمام بڑے کھیلوں یعنی کرکٹ،
ہاکی، فٹبال میں پورے ملک سے آگے ہوتا، وجہ یہ بھی تھی کہ ملک کے تمام بڑے کھلاڑی بہتر روزگار اور مواقع کی تلاش میں کراچی آتے اور یہاں کی ٹیموں میں کھیلتے۔ پی آئی اے ، کسٹمز کے بعد سب سے زیادہ قومی ہاکی چیمپئین شپ کراچی نےجیتی۔ اسی طرح قائداعظم ٹرافی، ایوب زونل جسے بعد میں پیٹرنز ٹرافی کا نام دیا گیا اس میں بھی کراچی کی ٹیم ہی سب سے زیادہ مرتبہ کامران ہوئی۔
فٹبال کی آدھی سے زیادہ قومی ٹیم کراچی بلکہ لیاری کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی۔
جاوید برکی، سعید احمد، ظہیر عباس جیسے کھلاڑیوں کے آبائی شہر ملک کے دوسرے علاقوں میں تھے لیکن وہ کراچی کیلئے بھی کھیلتے رہے۔
آج میرے شہر کے دو ایسے ناموں کی بات کرتے ہیں جن کا نام میرے ملک ہی نہیں دنیا میں چاند تاروں کی طرح جگمگاتا ہے۔
فاتح عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبحدم حسب معمول اخبار اٹھانے کیلئے دروازہ کھولا۔ نیم روشن کوریڈور میں اخبار کے پہلے صفحے پر ایک تصویر دیکھ جی دھک سے رہ گیا۔ یہ جہانگیر خان کی تصویر تھی جس کا بڑا بھائی کچھ ہی سال پہلے اسکواش کھیلتے ہوئے ہی جاں کی بازی ہار گیا تھا۔۔ فکر مندی کے عالم میں اخبار گھر کی روشنی میں دیکھا۔ جہانگیر کی تصویر کے اوپر سرخی تھی۔ Jahangir Beaten!!! یعنی جہانگیر ہار گیا۔
مجھے نہیں یاد کہ کسی کھلاڑی کی شکست کی خبر کبھی پہلے صفحے پر دیکھی ہو۔ لیکن سچ تو یہ ہے جہانگیر کے معاملے میں یہ واقعی بہت بڑی خبر تھی۔ جہانگیر، جس کے مقابل کھیلنے کا صرف ایک ہی نتیجہ ہوتا تھا یعنی شکست۔ جو پانچ سال سے ناقابل شکست چلا آرہا تھا۔ پانچ سو پچپن مقابلے لگاتار جیتنے والا کسی دن ہار جائے تو خبر تو بنتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے۔ لیکن یہ اصول جہانگیر پر لاگو نہیں تھا۔ جہانگیر سے کھیلنے کا نتیجہ صرف ہار ہی ہوتا تھا۔ آج یہ قانون ختم ہوگیا تھا۔
کراچی کے جٹ لائنز کے علاقے میں سرکاری کوارٹروں میں رہنے والا یہ کمزور سا بچہ ، جس کے باپ نے، جو اپنے وقت کا برٹش اوپن چیمپئین رہ چکا تھا، کھیلنے کودنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اپنا شوق گھر کے کمروں میں دیواروں کے ساتھ اکیلا کھیل کر پورا کرتا تھا۔
اور جب ہرنیا کے تین آپرشنز کے بعد اسکے شوق کو دیکھتے ہوئے باپ نے کھیلنے کی اجازت دی، اسے ۱۹۷۹ میں پندرہ سال کی عمر میں صرف اس لئے منتخب نہیں کیا گیا کہ یہ ناتواں سا بچہ اس سخت کوش کھیل کا دباؤ نہیں سہار سکتا۔ لیکن آسٹریلیا میں ہونے والی اسی عالمی چیمپئین شپ میں اس نے شوقیہ کھلاڑی کے طور پر حصہ لیا اور عالمی چمپئین بن کر دس سال تک اسکواش کی دنیا کا بے تاج بادشاہ رہا۔
دنیا کے کسی کھیل میں، کسی کھلاڑی نے اتنی ساری کامیابیاں نہیں حاصل کیں جو "کنگ خان" کے حصے میں آئیں۔ "جہانگیر" جس کے معنی ہی دنیا پر حکومت کرنے والا ہے۔ ایک انتہائی شریف النفس کھلاڑی ، اتنے طویل عرصے کھیل سے وابستگی کے دوران جس کے ساتھ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ یہی وجہ تھی کہ کھیل سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی اسی عزت و احترام سے دیکھا گیا اور سکواش کے کھلاڑیوں کی عالمی انجمن کا صدر رہا۔
جہانگیر کے کارناموں کے اعداد شمار گنوانے بیٹھ جاؤں تو یہ مضمون کہیں ختم ہی نہ ہو۔ کھیل کا وہ کونسا اعزاز ہے جو جہانگیر نے حاصل نہیں کیا۔
پانچ مرتبہ عالمی چیمپئن ، اور دس سال لگاتار " برٹش اوپن "چیمپئن رہنے والے جہانگیر نے ایسے ٹورنامنٹ بھی جیتے جس میں انہوں نے ایک پوائنٹ بھی نہیں ہارا۔ کھیل کا طویل ترین مقابلہ جسمیں دو گھنٹے چالیس منٹ کے طویل ترین مقابلے میں اپنے وقت کے عظیم کھلاڑی جیف ہنٹ کو شکست دی۔
لیکن اللہ نے ہر انسان کی، ہر عروج کی ایک حد رکھی ہے۔ ۱۹۸۶میں فرانس میں نیوزی لینڈ کے راس نارمن نے جہانگیر کی فتح کے تسلسل کو توڑا۔ جہانگیر نے اس کے بعد بھی مقابلے اور چیمپئن شپ جیتیں۔
کچھ عرصہ بعد میرے ملک سے ایک اور ستارہ "جان شیر" خان کے نام سے ابھرا۔ پھر ساری اسکواش کی دنیا میں صرف دو ہی نام نظر آتے ،جہانگیر اور جان شیر،
یہاں ان دونوں "خانوں" نے یکے بعد دیگرے کھیل کو خیرباد کہا اور یہیں سے اس کھیل سے پاکستان کی حکومت ختم ہوتی چلی گئی جس پر پچاس کی دہائی سے میرے ملک کی حکمرانی چلی آرہی تھی۔ جس پر جہانگیر سے پہلے ہاشم خان، اعظم خان، روشن خان، قمر زمان اور جہانگیر کے بعد جان شیر چیمپئین رہ چکے تھے۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ جس کھیل کے دس میں سے نصف سے زیادہ پوزیشنیں میرے ملک کی ہوتی تھیں، اس میں آج میرے ملک کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔
فاعتبرو یا اولی الا بصار
اسٹریٹ فائٹر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن ٹھیک سے یاد نہیں ، شاید انیس سو تہتر کی بات ہے۔ ہمارے کالج کے پاس کوئی کھیل کا میدان نہیں تھا۔ کالج سے متصل ڈی جے کالج کا میدان ہمیں کبھی کبھار مل جاتا تھا ورنہ ہم کچھ فاصلے پر واقع "مسلم جیمخانہ" میں کرایہ پر پریکٹس کرتے۔
ایک شام جب ہم میدان کے ایک جانب اور دوسری جانب مسلم جیمخانہ کی اپنی ٹیم پریکٹس کر رہے تھے، ہمارا کپتان ہم سے الگ کھڑا دوسری جانب کے کھلاڑیوں کو تکے جا رہا تھا۔ میں گیند اٹھانے اس کے قریب پہنچا تو اسکی محویت میں مخل ہوا۔ یار رفیق کیا دیکھ رہا ہے؟۔۔رفیق کچھ چونکا۔ " وہ سامنے دیکھ رہا ہے اس چھوٹے سے لونڈے کو ، وہی جو باؤلنگ کرا رہا ہے۔ بڑی زبردست اسپن کراتا ہے۔ " رفیق نے بتایا ۔
"کون ہے یہ؟"
"یار نام نہیں یاد، یہ میانداد صاحب کا بیٹا ہے"
میانداد صاحب، مسلم جیمخانہ کے سکریٹری وغیرہ کچھ تھے۔ میرے ابا سے بھی ان کی واقفیت تھی۔
پھر کچھ دنوں بعد "سیلون " کی ٹیم پاکستان آئی۔ جی ہاں یہ سری لنکا والے تھے جو ان دنوں سیلون کہلاتے تھے۔ مجھے ابا کے توسط سے وی آئی پی پاس مل جاتے تھے۔ کھیل سے پہلے دونوں ٹیموں کے گروپ فوٹو ہو رہے تھے۔ پاکستان ٹیم کے ایک سرے پر ایک گہرا سانولا سا ' دبلا پتلا سا لڑکا کھڑا تھا۔ میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے رضا اللہ بیگ جو سندھ کرکٹ ایسوسیشن کی عہدیدار تھے اور اس وقت اپنے داہنے جانب بیٹھے، سابق ٹیسٹ کرکٹر' شفقت رانا' سے باتیں کر رہے تھے، سے پوچھا کہ یہ کون ہے۔ رضا انکل کا بھی وہی جواب تھا کہ میانداد صاحب کا بیٹا ہے، نام نہیں معلوم۔
یہ بار ہواں کھلاڑی تھا۔ کچھ دیر بعد کوئی کھلاڑی میدان سے باہر آیا تو وہی لڑکا میدان میں آیا۔ اس وقت پاکستان کی ٹیم میں بیٹسمین اور بالر تو بڑے نامور ہوتے تھے لیکن فیلڈنگ کو کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ سنا تھا کہ کوئی کھلاڑی والس متھائس ہوا کرتا تھا جس کا انتخاب اسکی فیلڈنگ کی صلاحیت کی بناء پر ہوتا تھا۔ پھر ہم نے اپنے زمانے میں آصف اقبال کو دیکھا اور ایک اور نوجوان کھلاڑی آفتاب بلوچ بھی منظر عام پر آیا جن کے بارے میں فیلڈنگ کے حوالے سے بھی بات ہوتی۔
آج یہ لڑکا گیند پر چیتے کی طرح جھپٹتا، باؤنڈری لائن سے گیند یوں پھینکتا کہ وکٹ کیپر وسیم باری اسے عین وکٹوں کے اوپر کیچ کرتے۔ اب پورا اسٹیڈیم جان گیا تھا کہ اس کانام 'جاوید میانداد' ہے اور یہ کہ یہ میدان میں اس لئے نہیں ہے کہ یہ میانداد صاحب کا بیٹا ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ اس کا نام جاوید میانداد ہے۔
پھر انیس سو پچہتر آیا اور اسکول کا یہ طالبعلم پہلے عالمی کپ میں پاکستان کیلئے کھیل رہا تھا۔ اور یہاں سے دنیا نے ایک ایسے کھلاڑی کو دیکھا کہ وہ جب تک میدان میں ہوتا حریف اپنا سکھ چین بھول جاتے۔ کرکٹ نے شاید میانداد سے زیادہ شاطر، ذہین، بہادر، جی دار اور جنگجو کھلاڑی نہیں دیکھا۔
اسٹریٹ فائٹر کی خوبیوں والے میانداد کے کھیل کا اپنا قانون تھا۔ کھیل کی صورتحال کا صحیح ادراک، اس کی بہترین حکمت عملی اور اسے سر انجام دینے کی صلاحیت، میرا دعوی ہے کہ دنیا کا کوئی کھلاڑی اس میں میانداد کی ہمسری نہیں کرسکتا۔
مجھے نہیں یاد کہ میانداد کے کریز پر موجود ہوتے ہوئے پاکستان نے کبھی کوئی مقابلہ ہارا ہو۔ یا تو وہ وہاں سے فتح حاصل کر کے لوٹے گا یا پھر کسی ہارے ہوئے ٹیسٹ میچ کو ڈرا میں تبدیل کر رہا ہوگا۔
اگر صرف بیٹنگ کے زریعے کسی کی زندگی بچائی جا سکتی ہو تو اس کام کیلئے میانداد کے علاوہ کوئی کھلاڑی نہیں ہوسکتا۔
یہ وہ کھلاڑی نہیں ہے جسے اعداد و شمار میں تولا جائے۔ پھر بھی اسکے بنائے ہوئے بیٹنگ کے ریکارڈ اب کہیں بیس سال بعد جا کر ٹوٹنا شروع ہوئے ہیں۔ یہ وہ بے غرض کھلاڑی تھا جو صرف اور صرف ملک کے مفاد کیلئے کھیلتا تھا جب کہ ہمارے اور دوسری ٹیموں کے کئی عظیم کھلاڑی صرف اپنے اعزازات پر نظر رکھتے تھے۔ کئی موقعوں پر میانداد نے اپنے کھیل کی رفتار صرف اس لئے سست کی کے دوسری طرف کھڑے اپنے ساتھی کی سنچری مکمل کرو اسکے۔ جاوید میانداد صرف اپنے لئے کھیلتا تو اسکے بنائے ہوئے ریکارڈ شاید آج بھی کوئی نہ توڑ پاتا۔
کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ ایک کھلاڑی دوستو اسی رنز بنا کر ناٹ آؤٹ ہے اور عالمی ریکارڈ توڑنے کی پوزیشن میں ہےاور کپتان اس واپس بلا لے کہ اسے میچ جیتنے کی فکر ہے، اور اسکے باوجود کے پاکستان سیریز جیت چکا ہے، یہ میانداد ہی تھا جو ٹیم کی خاطر باہر چلا آتا ہے ورنہ ہم نے ٹنڈولکر جیسے کھلاڑی کو پریس کانفرنس میں اپنے کپتان راہول ڈرا ویڈ پر تنقید کرتے دیکھا جنہوں نے انہیں ڈبل سنچری کرنے سے پہلے واپس بلا لیا تھا۔
ہمارے ایک کپتان جو ہماری عالمی کپ کی کامیابی کا سہرا صرف اپنے ہی سر باندھتے ہیں اور انہیں پاکستان کا کامیاب ترین کپتان کہا جاتا ہے، انکی کامیابی زیادہ تر انکے نائب ، جاوید میانداد ، کی مرہون منت ہے۔ یہ میانداد تھا جو بیماری کے باوجود اس کمزور سی ٹیم کو فائنل تک لے گیا، جس نے ہر میچ میں جونئیر ' سینئیر حتی کہ کپتان تک کو انگلی پکڑ کر چلایا۔ ایک ایک گیند پر جا کر ساتھی کا حوصلہ بڑھانا، اسکی رہنمائی کرنا یہ میانداد کا ہمیشہ کا وطیرہ تھا۔
آج کل بہت سے کھلاڑی چھکے لگانے کے ماہر بن چکے ہیں، ایک میچ میں تیرہ تیرہ، پندرہ پندرہ چھکے اب معمول لی بات بن گئے ہیں۔ میانداد سے پہلے بھی بہت سے کھلاڑی اپنے چھکوں کیلئے مشہور تھے اور میانداد کے بعد بھی بہت سے کھلاڑیوں نے بے تحاشا چھکے لگائے، لیکن دنیا کو اگر کوئی ایک چھکا یاد ہےتو وہ میانداد کا شارجہ میں لگایا ہوا چھکا ہے۔ آج تقریباً تیس سال بعد بھی شارجہ کا وہ میچ میانداد کے چھکے والا میچ کہلاتا ہے۔
اپنے پہلے ہی ٹسٹ میچ میں 163رنز کی ناقابل شکست اننگز، دوسرے ہی ٹسٹ میں ڈبل سنچری ، سب سے کم عمر ی میں سنچری اور ڈبل سنچری، پاکستان کا کم عمر ترین کپتان، پاکستان کیلئے سب سے زیادہ رنز، سب سے زیادہ سنچریاں، ایک میچ کی دونوں اننگز میں سنچری، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے علاوہ ہر ملک کے خلاف ڈبل سنچری اور نہ جانے ایسے کتنے اعزازات میانداد کے نام ہیں۔
جیسا میں نے کہا نا کہ اعداد و شمار سے آپ نہیں جان سکتے۔ یہ تو وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے میانداد کو کھیلتے دیکھا کہ کھلاڑی تو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن جاوید میانداد !!
تم سا نہیں دیکھا
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔