میرے شہر والے…….39
ہمیں ہنسانے والے
ففٹی ففٹی والے…..ملک انوکھا
لقد خلقناالانسان فی کبد…..یقیناﹰ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا (البلد)
سدھارتھ نے جب آنکھ کھولی تو اپنے چاروں اور دکھ،تکلیف،اشانتی اور کٹھنائیں پائیں. سارے جگ میں کون تھا جو دکھی نہیں تھا. اس کا حساس من اتنے دکھ دیکھ نہیں پایا اور دنیا کو تیاگ کر نروان کی تلاش میں بن میں جا کر بس گیا. اس کی تپسیا نے اسے ادھ موا کردیا یہاں تک کہ پیٹ پیٹھ سے لگ گیا اور اس کا شریر ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گیا.
گوتم (سدھارتھ) نے تو دنیا سے مکھ موڑ کر اپنے من کو سکھی کرنا چاہا مگر وہ کیا کرتے جو اس دکھ ساگر میں ہاتھ پاؤں مارنے کیلئے رہ گئےتھے.
دنیا میں ایسا کون ہے جسے کوئی نہ کوئی دکھ نہیں ہے. یہ اور بات ہے کہ ہم نے دوسروں کے سامنے اپنا بھرم رکھنے اور غم کو چھپانے کا سلیقہ سیکھ لیا ہے. کوئی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ جو بیٹھا ہنس رہا ہے اپنے اندر کیا کیا لئے ہوئے ہے.
دکھ کا کوئی ایک نام نہیں. کوئی بھوک سے بے حال ہے تو کوئی کسی روگ اور بیماری کے ہاتھوں پریشان ہے.اور غربت تو ہے ہی تمام دکھوں کی ماں.
پھر کوئی اولاد نہ ہونے پر افسردہ ہے تو کوئی اولاد ہی کے ہاتھوں دکھی ہے. کوئی مال و دولت کے انبار لئے بیٹھا ہے، لیکن تنہا ہے اور کوئی کثیرالعیال ہے، لیکن کنگال ہے. کوئی اپنی ضرورت کیلئے عزت کا سودا کر رہا ہے اور کہیں کوئی سفید پوش غیرتمند اپنی مشکل دوسروں سے کہنے سے پہلے نجانے کس کرب سے گذر رہا ہے. کہیں بوڑھے والدین بیٹی کے بالوں میں چاندی کے تار دیکھ کر ہول کھا رہے ہیں اور کہیں کوئی کسی کو یاد کر کے رو رہا ہے.
ایسے میں وہ جو ان دکھیوں کے چہرے پہ مسکان لانے کے جتن کرتےہیں، یقین کیجئے بہت بڑا کام کرتےہیں. جو دوسروں کو خوش کرتےہیں، انہیں ہنساتے ہیں اور ان کےزخمی دلوں پر مرہم رکھتےہیں، انسانیت کے محسن ہیں.
لیکن کوئی نہیں جانتا کہ جو دوسروں کی زندگیوں میں رنگ بکھیرتے ہیں خود کس عالم میں ہوتےہیں.
خود اندھیرے میں ہیں اوروں کو دکھاتے ہیں چراغ
ایسے چند لوگوں کو میں نے ذرا قریب سے جھانکا تو پتہ چلا کہ یہ تو اپنے سوز کو ترنّم اور اپنی آہ کو تبسّم میں ڈھالنے والے فنکار ہیں.
ہمارے دور کے سب سے عظیم مزاحیہ فنکار معین اختر کے ساتھ مجھے بحرین میں دو دن ساتھ رہنےکا موقع ملا. ان کے ساتھ ایک فلم بھی دیکھی. ان دو دنوں میں،میں نے ایکبار بھی معین کو ہنستے یا مذاق کرتے نہیں دیکھا. وہ پوری سنجیدگی سے اپنے پروگرام اور ساتھی فنکاروں تاج ملتانی اور نگہت سیما کی ریہرسل پر توجہ دیے ہوئےتھے.
سوسائٹی میں ہمارے محلے (حیدر علی روڈ) کے قریب پہاڑیوں میں فلم نئی لیلیٰ نیا مجنوں کی شوٹنگ ہو رہی تھی. اداکار کمال اور اداکارہ نسیمہ خان تو ایک کار کی چھت سے کہنیاں ٹکائے باتوں میں مصروف تھے.ان سے ہٹ کر ایک طرف کرسی پر لہری صاحب بیٹھے ہوئےتھے. یقین کیجئے کہ اگر کوئی مجھ سے لفظ گھمبیرتا کے معنی پوچھے تو میں اسے لہری صاحب کی اس وقت کی تصویر دکھا دوں.
لیکن جو چہرہ مجھے نہیں بھولتا وہ اداکار ننھا کا ہے. انہیں پردے پر ہمیشہ ہنستے بولتے ہی دیکھا.لیکن ایک بار میں کراچی میں میٹروپول ہوٹل کے سامنے ٹیکسی کی تلاش میں کھڑا تھا کہ ایک ٹیکسی میرے قریب آکر رکی. ایک شخص اتر کر ہوٹل میں غائب ہوگیا. میں ڈرائیور سے پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ کیا ٹیکسی خالی ہے کہ میری نظر پچھلی سیٹ پر،پولیس کی وردی میں ملبوس ایک گول مٹول سے شخص پر پڑی. یہ ننھا تھے اور کسی فلم کی شوٹنگ سے آرہےتھے. یقین جانئے ان کے چہرے کی سنجیدگی دیکھ کر خوف آرہا تھا. چند سال بعد سنا کہ ننھا نے خود کشی کرلی. نجانے کیا دکھ اسے کھائے جا رہا تھا.
یہ واقعہ شاید آپ نے سن رکھا ہو. مضائقہ نہیں کہ ایکبار اور سن لیں.
ایک شخص ڈاکٹر کے پاس گیا کہ ڈاکٹر صاحب میں ہر طرح سے صحتمند ہوں بس ایک بیماری ہے کہ مجھے ہنسی نہیں آتی. کئی سال ہو گئے مجھے ہنسے ہوئے. میں ہنسنا چاہتاہوں.
ڈاکٹر نے کہا تم بڑے صحیح وقت میں آئے ہو. تمھارا علاج آسان ہے. آجکل شہر میں سرکس آیا ہواہے وہاں پیٹر نام کا ایک مسخره (کلاؤن) ہے. وہ اس قدر مزیدار حرکتیں کرتا ہے کہ لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں. مجھے یقین ہے کہ تم پیٹر کا تماشہ دیکھو گے تو فوراﹰ ہنس پڑوگے. اس شخص نے کہا……ڈاکٹر صاحب….میں پیٹر ہوں.
ایسے ہی کئی پیٹر میرے شہر والوں کو ہنساتے رہے.
شہر میں ہونے والے ورائٹی پروگراموں اور فنکشنوں نے ہمارے ملک کو فن کی دنیا کے کئی بڑے نام دیے. لہری، نرالا،معین اختر،آغا سرور، رنگیلا کراچی والا،صلاح الدین طوفانی،افضال و شوکت، صبغت اللہ باری وغیرہ ان پروگراموں کی جان ہوتےتھے.
آج کے شہنشاہ ظرافت عمر شریف پر تو کبھی تفصیل سے بات ہوگی، میں آج کچھ ایسے فنکاروں کو یاد کر رہا ہوں جن کے نام تو اتنے مشہور نہیں لیکن میرے نزدیک یہ فنکار کسی بھی سپر اسٹار سے کم نہیں.
ففٹی ففٹی والے……
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الف اور نون ایک بے حد مقبول پروگرام تھا اور اس میں معاشرے میں پھیلی بے ایمانی اور منافقت کا کچا چٹھا کھولا جاتا تھا. لیکن یہ ٹی وی کے بہت ابتدائی دنوں میں پیش ہوا. پھر چند سال بعد اسے دوبارہ اور رنگین پیش گیا، پھر اس کے پروگراموں کی تعداد بھی بہت زیاده نہیں تھی.
ففٹی ففٹی وہ پروگرام تھا جس نے مقبولیت کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے. اسکی ایک وجہ تو اس میں پیش کیے جانے والے چھوٹے چھوٹے خاکے ہوتے تھے جن سے ہر ذوق اور عمر کے ناظرین محظوظ ہوتےتھے، پھر یہ بڑے متنوع ہوتےتھے ـان میں رقص،فلموں کی نقلیں،گانے،انٹرویو، خبریں اور حالات حاضرہ پر فوری طنز اور نجانے کیا کچھ ہوتا تھا. اسکی سب سے بڑی خوبی ان خاکوں کا عام فہم ہونا تھا.
ففٹی ففٹی کے فنکاروں کی تو خوبیاں کیا بیان کروں. گو کہ اس میں اشرف خان،سخی کمال،روؤف عالم،عادل واڈیا،لطیف کپاڈیا،بشریٰ انصاری اور عمر شریف نےبھی کام کیا لیکن جو شہرت اسمعیل تارا، ماجد جہانگیر اور زیبا شہناز کے حصے میں آئی اور جس طرح ان تینوں نے اپنے فن کا سکّہ بٹھایا وہ آج تک ناظرین کے ذہنوں میں موجود ہے.
اگر میں اس کے مختلف یاد گار خاکوں کی بات کروں تو یہ پوسٹ بہت طویل ہوجاۓ گی. میرے سارے احباب ان تینوں کو جانتے ہیں اور ان سے محبت کرتےہیں.
میں تو فقط آپ کو یاد دلانا چاہ رہا تھا کہ ففٹی ففٹی والے میرے ملک کا فخر ہیں اور یہ میرے شہر میں رہتےتھے.
چھوٹے نام کا بہت بڑا فنکار.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بدقسمتی سے ہمارے ہاں فن کو ناپنے اور جانچنے کے پیمانے صرف مرکزی کرداروں تک محدود ہیں.ریڈیو ٹی وی پر بے شمار ایسے فنکار ہیں جن کے نام بھی لوگ نہیں جانتے لیکن وہ صلاحیت میں بڑے بڑے سپر اسٹارز سے کہیں آگے ہیں.
مثلاﹰ لاہور ٹی وی کے ایک فنکار ایوب خان تھے. میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر وہ کہیں مغرب میں ہوتے تو ان کا درجہ بڑے فنکاروں میں ہوتا جبکہ ہمارے ہاں شاید بہت سے انکے نام سے بھی واقف نہیں ہونگے.
ملک انوکھا بھی ایسے ہی ایک فنکار تھے . انہیں مزاحیہ ادا کاروں میں شمار کیا جاتا تھا لیکن وہ ایک حقیقی ادا کار تھے. جو بھی کردار وہ ادا کرتےتھے وہ بالکل اصل معلوم ہوتا. مختلف زبانوں اور انکے مخصوص لیجے پر انہیں ایسی قدرت حاصل تھی کہ میں بہت عرصہ تک انکی زبان اور قومیت نہیں جان سکا.
وہ سندھی،پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، مارواڑی اور نجانے کتنے لہجوں پر قادر تھے اور یہ ساری زبانیں بولنا بھی جانتےتھے.
دوبئی چلو کا شاطر نوسر باز، وارث کا مہنگا،سیڑھیاں کا پولیس حوالدار، با ادب با ملاحظہ کا شہزادہ اور منڈی کا آڑھتی کا منشی.
ان کی بول چال، لباس،چال ڈھال ایسی ہوتی کہ صرف وہ کردار یاد رہ جاتا.
میں نے اپنے اس سلسلے، میرے شہر والے، میں بہت سے بہت ہی بڑے لوگوں کا تذکرہ کیا. شاید بہت سے احباب کو اچنبھا ہو کہ میں نے ایک غیر معروف ہستی کا ذکر کیوں کر کیا.
میرے نزدیک ملک انوکھا ایک بہت قد آور فنکار تھا اور پھر وہ میرے شہر کا بھی تو تھا.
اللہ اسکی روح کو سکھی رکھے کہ وہ ہمیں خوش رکھتاتھا.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔