میرے شہر والے…….29
پروفیسر غفور..شاہ احمد نورانی…جاوید جبار…سید تاج حیدر
پیشہ اور مشن.
مخلوق خدا کے کام آنے والی کوشش یعنی خدمت خلق میں اور لوگوں کے کام کرکے روزی کمانے یعنی پیشے میں فرق کرنے والی چیز میرے نزدیک صرف "نیت" ہے.
یہی نیت واضح کرتی ہے کہ کونسا کام مشن ہے اور کونسا پیشہ.میں صرف تعلیم کی مثال دوں گا. جب قوم میں تعلیم عام کرنے کیلئے علیگڈھ مسلم یونیورسٹی، اسلامیہ کالج ،سندھ مدرستہ السلام اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے ادارے قائم کئے جاتےہیں تو یہ خدمت خلق کہلاتی ہے اور ان کے قائم کرنے والوں کے نام سر سید،عبدالله صاحب،حسن علی آفندی اور حکیم سعید ہوتے ہیں. اور جب یہی ادارے Little Bo Peep Nursery اور یہ ہاؤس اور وہ ھاؤس قسم کے تعلیمی ادارے، جہاں کچی پہلی (LKG)میں پڑھنے والے بچے کی ایک ماہ کی فیس، میری اور آپ کی تمام تعلیمی زندگی کی فیس سے بھی زیادہ ہو تو یہ کاروبار کہلاتاہے اور جو یہ کاروبار کرتےہیں وہ….رہنے دیں..ناموں میں کیا رکھا ہے. آپ سب جانتےہیں. ان میں سے کچھ حضرات ہماری قومی زندگی میں تبدیلیاں لانے میں کوشاں ہیں.
رب کائنات کی دنیا بڑی وسیع ہے اور صاحبان نظر کیلئے اس میں بھر پور مواقع ہیں. عقلمند اور ہوشیار، اس دنیا میں بکھرے ہوئے لاتعداد زرائع سے خوب فائدے حاصل کرتےہیں اور ایک سے دو اور دو سے چار کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں کاروباری ادارے Business Empire کھڑے کرتےہیں. ان کا مال و متاع ملکوں ملکوں پھیلا ہوتا ہے. یہ بہت کامیاب لوگ کہلاتے ہیں. ان کے بھی نام جانے دیں. Google پر سرچ کرکے دیکھ لیں. آپ تھک جائیں گے لیکن انکے مال واسباب کی فہرست ختم نہیں ہوگی.
دوسری قسم ان کی ہے جو اس دنیا سے جو کچھ لیتےہیں اس سے کئی گنا زیادہ اس دنیا کو لوٹا دیتےہیں.
اول الذکر پیٹ بھر کے اور بہت اچھا کھاتے ہیں.
دوسری قسم کے لوگ صرف سوتے بہت اچھا ہیں یعنی پرسکون اور مطمئن.
میرے نزدیک خدمت خلق کا سب سے اعلیٰ زریعہ 'سیاست' ہے.
سیاستدان خلق خدا کی زندگیوں میں بہتری لانے کے بارےمیں سوچتےہیں. لوگوںکے مسائل کی نشاندہی کرتےہیں، ان کا حل ڈھونڈتے ہیں. ان کے حل کیلئے قانون سازی کرتےہیں اور ان قوانين کو نافذ کرنےکی تگ و دو کرتےہیں. وہ اس پر نظر رکھتےہیں کہ عوام الناس کو انکی صلاحیت اور محنت کے مطابق ان کا حق مل رہا ہے یا نہیں. بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کا حصول یقینی بناتے ہیں.
یہی سیاستدان معاشرت، معیشت اور تمام اجتماعی امور کی نگہداشت کرتے ہیں اور اجتماعی زندگی کے اصول طے کرتے ہیں.
غرضیکہ سیاست ایک مقدس عمل ہے. ' پیشہ نہیں.
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس مقدس کام کو گالی بنادیاگیا ہے. عوام الناس سیاستدانوں سے متنفر ہیں اور کیوں نہ ہوں. جب اکھاڑ پچھاڑ، چالاکی،سازش،منافقت، جھوٹ، ابن الوقتی، موقع پرستی، بد عنوانی، بد معاشی اور بد قماشی سیاست کی پہچان بن جائے تو کون شریف انسان اس کے قریب پھٹکنے کا تصور بھی کر سکتاہے.
جہاں مخالفت کو دشمنی، ایک دوسرےکی پگڑیاں آچھالنا باعث فخر، مخالف کی تذلیل کو اپنی جیت سمجھا جائے. جہاں دلیل کے بجائے ذاتیات اور مخالف کے اہل خانہ تک کی عزت دسر عام برباد کرنا ایک کارنامہ ہو. گالی گلوچ عام انداز گفتگو بن جائے.
زباں بگڑی سو بگڑی خبر لیجئے دہن بگڑا.
ایسی ایسی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کیجائے. مخالف کو اوئے،ابے کہ کر مخاطب کیا جائے. بجائے اپنا منشور بیان کرنیکے،مخالف کو دیکھ لینے،سڑکوںپر گھسیٹنے، پھانسی دینے کی بات کیجائے.
جہاں اصول پسندگی،نظریاتی پختگی وغیرہ صرف باتوں تک محدود ہو وہ کام کیسے ایک شریفانہ اور باعزت کام مانا جائےگا.
ایسے ماحول اور منظر میں اگر ایک آدھ رجل الرشید میسر اجائے تو کیا اسکی توصیف نہ کیجانی چاہئے.
میری آج کی شخصیات کی سیاسی وابستگیوں، ان کے نظریات، ان کے سیاسی فیصلوں سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن میرے نزدیک یہ وہ ناپید نسل endangered species iہے جنکی حفاظت کیجانی چاہٰے.
یہ وہ ہیں جو اپنے اصول اور نظریئے سے وفاداری کی مثال ہیں. جنھوں نے سیاست میں شرافت، شائستگی اور وضعداری کے پرچم کو تھامے رکھا.
آپ ان سے اختلاف کرسکتےہیں لیکن انکی شرافت پر انگلی نہیں اٹھا سکتے.
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
شرافت کا مینار
میں کراچی کی Pakistan Institute of Industrial Accountants( جسکا نام اب غالباﹰ انسٹیٹوٹ آف کاسٹ اینڈ مینیجمنٹ اکاؤنٹنٹس ہوگیاہے) میں نیا نیا داخل ہوا تھا. ایک شام، جی ہاں وہاں شام کو.بھی کلاسز ہوتی تھیں، ایک صاحب ایک اور استاد کے ساتھ اسٹاف روم سے نکلے اور باتیں کرتے ہوئے کلاسز کی طرف چلےگئے. سفید کرتا پاجامہ اس پر واسکٹ اور جماعت اسلامی والوں کی طرز کی داڑھی. مجھے اپنے محلے کے ایک بزرگ یاد آئے جنکا تعلق بھی جماعت سے تھا . میں سوچ ہی رہا تھا کہ انہیں کہاں دیکھا ہے کہ میرے ساتھی طالبعلم نے کہا اوہو آج تو غفور صاحب بھی آئےہیں. مجھے دفعتا ً یاد آیا کہ پروفیسر غفور صاحب کبھی شام کی سینئیر کلاسوں کو لیکچر دینے آتےہیں.
پروفیسر صاحب اس وقت تک مملکت پاکستان کا آئین تحریر کر چکے تھے (وہ اس کمیٹی کے سب سے فعال رکن تھے جس نے دستور پاکستان کا ڈرافٹ تیار کیا تھا.)
ان دنوں جماعت اور پیپلزپارٹی کی مخاصمت زوروں پر تھی اور میں نے انکے کچھ مخالفین کے منہ سے انکے لئے لفظ "غفورا" بھی سنا تھا.
چند سالوں بعد دہلی جانے کا موقع ملا تو وہاں پارلیمنٹ ہاؤس سے گذرتے ہوئے ایک مجسمہ نظر آیا. بعد میں کہیں پڑھا کہ یہ بابا صاحب امبیدکر کا مجسمہ تھا جنہون نے بھارت کا آئین تحریر کیا تھا.
جماعت اسلامی کی اسمبلی میں صرف چار نشستیں تھیں اور پانچویں مولانا ظفر احمد انصاری جماعت کی حمایت سے منتخب ہوئےتھے. یہ ساڑھے چار ارکان پوری اسمبلی میں سب سے زیادہ فعال تھے اور صحیح معنوں میں حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہے تھے.
پھر جب تحریک نظام مصطفٰے کی وجہ سے بھٹو صاحب کی حکومت حزب اختلاف سے مذاکرات پر مجبور ھوئی تو مذاکراتی کمیٹی جو غفور صاحب کے علاوہ مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ خان پر مشتمل تھی اس میں بھی پروفیسر صاحب نے سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کیا.
عین مذاکرت کے دوران جب بھٹو صاحب نے عرب امارت کے دورے کا فیصلہ کیا تو یہ پروفیسر صاحب ہی تھے جنھوں نے بڑے خلوص سے بھٹو صاحب کو آنےوالے خطرے سے آگاه کرتےہوئے دورہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا.
غفور صاحب پیپلزپارٹی کے شدید مخالفین میں تھے لیکن جب بھٹو صاحب کے بارےمیں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا بھٹو کرپٹ تھے تو پروفیسر صاحب نے جواب دیا کہ ہرگزنہیں.
پیدا کہاں ہیں ایسی پراگندہ طبع لوگ.
شرافت اور وضعداری کا یہ مینار آج سے دو سال قبل ہم سے رخصت ہوا.
اللە انکی خطاؤں سے درگذر کرے اور انکے درجات بلند فرماۓ.
چابی جس کی نشانی
اپنے محلے واقعہ حیدرعلی روڈ میں جلسہ سیرت النبی میں مولانا شاہ احمد نورانی کو نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کی سیرت پر تقریر کرتےہوئے سنا. سامعین دم بخود جیسے عقیدت و محبت نبی کے دریا میں بہتے چلے جارہے تھے. اس قدر مٹھاس شاز ہی کسی مقرر کے بیان میں دیکھی.
مولان ساسمبلی کی ممبری کے دوران بھی رمضان میں مسجد قصاباں ( یا شاید نورانی مسجد نام تھا) تراویح کی امامت فرماتے تھے. اس دور میں سیاستدان اپنے عمومی فرائض سے غافل نہیں رہتےتھے اور عوام کے ساتھ رشته برقرار رکھتے تھے.
ورلڈ اسلامک مشن جس کے وہ سربراہ تھے، کے زریعے افریقہ کے دور دراز علاقوں میں اسلام کا نور پھیلایا. نرم خو اور حلیم الطبع مولانا کے دل میں نہ کسی کیلئے میل تھا نہ کوئی ان کیلئے میل رکھتاتھا.
ایک بار کسی نے حلوے اور مولوی کے حوالے سے کوئی چوٹ کی تو مولانا نے برجستہ فرمایا کہ میا ں اسی حلوے کی بدولت ہماری زبان میں مٹھاس ہے.
اب کہاں ایسے شیریں بیاں لوگ.
باوقار
جاوید جبار کے لئے سیاست صرف ایک مقصد اور مشن تھی. جب انہوں نے اس کو اپنے معیار کے مطابق نہ پایا تو عملی سیاست سے کنارہ کشی کرلی. لیکن اپنی ذات کو عوام الناس سے متعلق دوسرے پلیٹ فارم پر مشغول رکھا.
ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ اور دانشور شخصیت کے مالک،گفتگو میں نہایت شائستہ، انگریزی اور اردو دونوں پر ایک جیسا عبوررکھنے والے جے جے ہمہ جہت انسان ہیں.
فلم نگری میں آئے تو پاکستان کی پہلی انگریزی فلم بنائی. لیکن میں ان سے متاثر اس وقت سے تھا جب وہ پی ٹی وی پر In Retrospect پیش کیا کرتےتھے اور میں ان کی انگریزی سے مرعوب رہتاتھا.
خوش لباس و خوش گفتار جاوید جبار نے اپنے ادارے JJ Advertisorsکے تحت Willss والوں کے لئے جو کرکٹ کے اشتہار بنائے وہ آج بھی ایک خوشگوار سی یاد کے طور پر دل و دماغ کو فرحت بخشتے ہیں
.
کچھ captionss ملاحظہ کیجئیے.
At home a devoted father, in the field, leader of a dynamic team. Asif Iqbal.
A panther in the field, Always crazy for cheeky singles,Javed Miandad
Spearheaded of Pakistan's pace attack, who broke up many line ups with his fire and speed, Imran Khan, Darling of the crowd wherever cricket is played.
کہیئے کچھ یاد آیا.
اول تا آخر جیالا
سید تاج حیدر پیپلزپارٹی پارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں. آج تک انکی اپنے نظریے سے وابستگی میں ذره برابر بھی فرق نہیں آیا.
وسیع المطالعہ اور سلیم الطبع تاج حیدر …نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پرواہ ..اپنی جماعت کے ان چند اکابرین میں سے ہیں جنھیں گفتگو کا سلیقہ آتا ہے اور جو حفظ مراتب کی پاسداری کرتےہیں.
تاج حیدر پی ٹی وی کیلئے ڈرامے لکھ چکےہیں. شاید اسی لئے ڈرامہ بازی سے دور رہتے ہیں.
میری آج کی یہ ٹوٹی پھوٹی باتیں ان سیاستدانوں کو خراج تحسين و عقیدت پیش کرنے کیلئے ہیں جنہوں نے سیاست کی اعلیٰ قدروں کی پاسداری کی.یءی
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔