“ پلے کرکٹ” ( کرکٹ کھیلو) پویلئین کی جانب سے ایک آواز ابھری۔
میں نے مڑ کر دیکھا۔ یہ ایک ادھیڑ عمر گورا تھا ۔یہ بڑی عجیب سی بات تھی۔ انگریز عموماً ہماری طرح آوازے نہیں کستے۔
دوبئی کے دارجلنگ کلب میں ہماری ٹیم کا میچ گوروں کی ٹیم سے ہورہا تھا۔ ہمارا ایک ساتھی کھلاڑی کسی بات پر امپائر سے الجھ رہا تھا۔ ہمارے کپتان اور ایک دو سینئر کھلاڑیوں کی مداخلت پر بات آئی گئی ہوگئی اور کھیل پھر شروع ہوگیا۔
“ پلے کرکٹ۔۔پلے کرکٹ۔۔پلے کرکٹ” بڑے میاں کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ ہم کرکٹ ہی تو کھیل رہے تھے۔ لیکن یہ گورے اور خاص طور پر انگریز جب کوئی بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی نہ کوئی گہرائی ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ بات بظاہر سادہ سی ہوتی ہے لیکن بڑے معنی لیے ہوتی ہے۔
پلے کرکٹ ، یعنی کرکٹ کھیلو۔۔یعنی کرکٹ کے اصولوں کے مطابق کھیلو۔ اور انگریز جب کہتا ہے “ یہ کرکٹ نہیں ہے”
This is not cricket “
تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بات غیر اصولی، غیر مناسب اور ناپسندیدہ ہے۔ کرکٹ گوروں کے لیے کھیل سے زیادہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ لیکن یہ وہ کرکٹ ہے جو مجھ جیسے روایتی کرکٹ پسند کرنے والے جانتے ہیں۔ آج کرکٹ، کاروبار کا نام ہے۔ کرکٹ جسے کہتے ہیں کب کی “ گئی تیمور کے گھر سے”۔
“ کرکٹ تو تمہارا قومی کھیل ہے؟” میں نے اپنے انگریز مینیجر ، نیل ڈیوینپورٹ ، سے کہا۔
“ نہیں کرکٹ ہمارا قومی وقت گذاری کا مشغلہ ہے”
“Cricket is our national pass time”
میری کمپنی کے لڑکے کرکٹ میچ کھیلنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ نیل کرکٹ نہیں کھیلتا، وہ رگبی کا پیشہ ور کھلاڑی ہے اور بات بے بات چہار حرفی الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر کرکٹ کھیلا ہوتا تو شاید شریفانہ گفتگو بھی سیکھ لیتا۔
“ ٹھیک ہے میں اپنا بار بی کیو کا سامان لے آؤں گا۔ تم اپنے ، حلال گوشت، کا انتظام کرو”۔ وہ کرکٹ کو تفریح کے طور پر لیتا ہے۔ اس نے اپنے بڑے بوڑھوں کو دیکھا ہے جو اتوار کے دن اپنے اپنے کلب میں بیٹھے کرکٹ میچ دیکھتے ہیں، بئیر پیتے ہیں، فائنانشیل ٹائمز پڑھتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، عورتیں سوئٹر بنتی ہیں ، دوسری عورتوں کی طلاق، منگنی، شادی وغیرہ کی خبریں ایک دوسری کو سناتی ہیں ۔
لیکن مجھ سے پوچھیے تو کرکٹ ایک طرز زندگی کا نام ہے۔ ایک ایسی زندگی جو اعلا اصولوں کے ساتھ گذاری جاتی ہے، جس میں غیر اصولی بات، بداخلاقی، بد تہذیبی اور بے ایمانی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کرکٹ سکھاتی ہے کہ زندگی کے اتار چڑھاؤ سے کیسے نبردآزما ہوا جاتا ہے، صبر وتحمل، عزم وہ ہمت، حوصلہ، جدوجہد یہ سارے مرحلے اس کھیل میں آتے ہیں جو سکھاتا ہے کہ جیت کو کس و قار کے ساتھ منایا جاتا ہے اور شکست کو کیسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا ہے۔۔ ہار اور جیت زندگی کے بھی رنگ ہیں اور کرکٹ کی یا کسی بھی کھیل کی تربیت سکھاتی ہے کہ ہارا اور جیتا کیسے جاتا ہے۔
میرا بیٹا بہت چھوٹا تھا۔ ہم ایک دن ومبلڈن ٹینس کا میچ دیکھ رہے تھے۔ میچ ختم ہونے والا تھا۔بیٹا اٹھ کر جانے لگا۔ میں نے اسے روک لیا۔
“ یہ دیکھو ہارنے والے نے آگے بڑھ کر جیتنے والے کو مبارکباد دی ہے۔ وہ اس سے ہاتھ ملا رہا ہے اور جیتنے والے نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ اسے کہتے ہیں “ اسپورٹسمین اسپرٹ”۔ زندگی میں بھی ہمیں ایسا ہی کشادہ دل ہونا چاہیے۔ شکست کو کھلے دل سے ماننا اور آئندہ کے لیے زیادہ محنت کرنا”۔ میں اپنے بچے کو کھیل کے اعلا اصولوں سے روشناس کرا رہا تھا۔
الحمدللّٰہ عمر کی چھیاسٹھ بہاریں دیکھ لیں ۔کرکٹ کا شوق چھ سال کی عمر سے ہی تھا۔ اتوار کے دن سفید قمیض پتلون اور سفید جوتوں میں اپنے چچا اور دوسرے کھلاڑیوں کو دیکھ کر کرکٹ کا ایک رعب دل پر طاری ہوتا۔یہ فٹبال کی طرح نہیں تھا کہ نیکر پہنی اور گیند کو ٹھوکریں مارتے ہوئے گلی میں نکل آئے۔ کرکٹر بڑے باوقار لگتے۔ اور جب پہلی بار نیشنل اسٹیڈیم میں میچ دیکھا تو کھلاڑیوں کے انداز دل میں کھب کھب جاتے۔
میں نے بہت کم عرصہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ چھٹی جماعت میں تھا جب اپنی عمر سے بہت بڑے لوگوں کےساتھ ہاکی کھیلتا تھا ، جن میں سے کئی تو شادی شدہ تھے۔ لیکن اتوار کے دن ہم کرکٹ کھیلتے اور میں اپنے بڑوں کے اطوار وانداز دیکھتا۔ یہ سارے پڑھے لکھے لوگ تھے۔ کرکٹ کی زیادہ تر بلکہ ساری اصطلاحات انگریزی میں تھیں، مجھ اردو میڈیم کو بھی انگریزی کی شدھ بدھ ہونے لگی۔ اور جب عمر قریشی اور جمشید مارکر اپنی شاندار انگریزی میں کمینٹری کرتے تو تقریباً ساری کمینٹری سمجھ آتی بلکہ کمینٹری کی بدولت کچھ اور انگریزی بھی سیکھنے ملی۔
اور میں دیکھتا کہ جس دن میچ ہوتا ہم ایک دن پہلے سے ہی “ کٹ “ کی تیاری میں لگ جاتے، سفید قمیض، پتلون اور جوتے تیار رکھے جاتے۔ میچ سے پہلے مخالف ٹیم کے تمام کھلاڑیوں سے ہاتھ ملایا جاتا۔ دونوں کپتان میچ کا دورانیہ، اننگز کی تعداد وغیرہ طے کرتے۔ ان دنوں محدود اوورز کی کرکٹ نہیں ہوتی تھی۔ ایک یا دو اننگز کا میچ کھیلا جاتا یعنی ہار جیت کے علاوہ ، ڈرا بھی ہوتا تھا اور زیادہ تر میچ ڈرا ہی ہوتے تھے۔
کرکٹ ظاہر ہے وہی ہے جو اب بھی کھیلی جاتی ہے۔ فرق صرف روئیوں کا ہے۔ فیلڈنگ کرنے والی ٹیم افتتاحی بیٹسمینوں کا تالی بجا کر استقبال کرتی۔ اسی طرح جب مخالف ٹیم کا کپتان بیٹنگ کے لیے آتا تو پوری ٹیم تالیاں بجا کر اس کا استقبال اور تکریم کرتی۔ اگر مخالف بالر کوئی اچھی گیند کرواتا تو بیٹسمین “ ویل باؤلڈ” کہہ کر گیند باز کی تعریف کرتا۔ اسی طرح اگر بلے باز چوکا یا چھکا مارتا تو بالر بھی تالیاں بجا کر داد دیتا۔ اب بھی آپ پرانی ویڈیوز میں یہ مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اگر امپائر کوئی اپیل مسترد کرتا تو گیند باز امپائر سے معذرت کرتا۔ میں نے سعودی عرب اور عرب امارات میں بہت عرصہ امپائرنگ بھی کی ہے اور اسی بلکہ نوے کی دہائی تک کرکٹ اسی شرافت سے کھیلی جاتی تھی۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ اپیل مسترد ہونے پر منہ ہی منہ میں ضرور بڑبڑایا جاتا ہے۔ جیسے ہی بالر لیگ سائڈ سے گیند مس کراتا ہے وکٹ کیپر فورا “ کاٹ بی ہائنڈ” کی اپیل کرتا ہے تاکہ امپائر کی توجہ مبذول ہو اور وہ “ وائیڈ” نہ دیدے۔ اسی طرح جب امپائر تھرڈ امپائر سے رجوع کرتا ہے تو غیر ضروری طور پر جشن شروع کردیا جاتا ہے کہ امپائر دباؤ میں آکرباؤلنگ کرنے والی ٹیم کے حق میں فیصلہ دے۔
ہم ماجد خان اور آصف اقبال جیسے کھلاڑیوں کو دیکھتے تھے کہ بلے کے باہری کنارے سے گیند لگنے پر پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے اور اگر کیچ ہوجاتا تو امپائر کی جانب دیکھے بغیر ہی کریز چھوڑ دیتے۔ آصف اقبال پر یاد آیا کہ انہیں دیکھتے کہ چیونگم کا پیکٹ پھاڑ کر کاغذ ہمیشہ جیب میں رکھ لیتے۔ اسی طرح ظہیر عباس کو دیکھتے کہ پانی ہمیشہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پیتے۔
اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آسٹریلیا میں کپلر ویسلز نے جب وہ آسٹریلیا کے لیے کھیلتے تھے، پاکستان کے قاسم عمر کا کیچ لیا اور امپائر نے آؤٹ بھی دے دیا۔ لیکن ویسلز نے فورا امپائر کو بتایا کہ کیچ ٹھیک نہیں تھا۔ امپائر نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا ۔ قاسم عمر نے نئی زندگی پاکر اپنی سنچری مکمل کی اور سب سے پہلے ویسلز کے پاس جاکر ہاتھ ملا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔
مجھے شارجہ کا وہ واقعہ بھی یاد ہے جب نیوزی لینڈ کے باؤلر نے پاکستانی امپائر سے بدتمیزی کرتے ہوئے گالیاں دی جن کی آواز امپائر تک تو نہیں پہنچی لیکن ساتھ کھڑے بھارتی بیٹسمین مہندر امرناتھ نی سن لیں۔ وہ بالر کی طرف مڑے اور سخت لہجے میں کہا کہ تمہارے ہاں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی گئی۔ اور یہ جمی امرناتھ کیسے نہ کہتا۔ لالہ امرناتھ جیسے عظیم کھلاڑی کی تربیت ایسے ہی بیٹے پیدا کرتی ہے۔
یہ سب بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن کچے اور نوخیز ذہن اپنے ہیروز کی نقل کرتے ہیں اور ان سے سیکھتے ہیں۔کھلاڑیوں اور مشہور لوگوں کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری بھی ہے۔ یہ اگر برا کرینگے تو بچے بھی برا ہی سیکھیں گے۔
میں اکثر یہ قصہ لوگوں کو سناتا ہوں۔ شارجہ میں پاک بھارت میچ تھا۔ میں اور میرا بیٹا جو اس وقت بہت چھوٹا تھا میچ دیکھ رہے تھے۔ پاکستان کی کوئی وکٹ نہیں گر رہی تھی۔ بالآخر ایک کیچ سارو گنگولی کی طرف آیا ۔ کیچ پکڑ کر سارو نے گیند کو نفرت آمیز انداز میں زمین پر پٹخ دیا۔ اگلے دن میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا اپنے کمرے میں دیوار پر گیند مار کر کیچ پکڑ رہا ہے اور سارو گنگولی کے انداز میں زمین پر پٹخ رہا ہے۔ اس کے نزدیک جارحیت کا یہ انداز شاید بہت پسندیدہ تھا۔
کرکٹ تب تک خوبصورت ہے جب تک کرکٹ کے اصولوں اور روایات کے مطابق کھیلی جائے۔ جب اس میں جوا، میچ فکسنگ، اسپاٹ فکسنگ، بال ٹیمپرنگ جیسی بیماریاں درآئیں جو کہ کھیل میں پیسے اور تجارت کے بڑھتے ہوئے اثر کا نتیجہ ہیں تو پھر یہ کھیل نہیں جھوٹ، بدتمیزی اور بے ایمانی کا بازار نظر آتی ہے۔ جہاں صرف جیت ہی اعلا ترین مقصد ہو چاہے کسی بھی قیمت پر حاصل ہو، وہاں مخالف کھلاڑی کی تعریف تو کیا کی جائے گی ، البتہ گالیوں ( Sledging ) سے ضرور نوازا جائے گا۔ اور اس کے بانی بلاشبہ موجودہ بلکہ ہر دور کی مضبوط ترین ٹیم آسٹریلیا ہیں اور اب دوسری ٹیمیں بھی ان کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔،
اور خود انگریز جو دوسروں کو تلقین کرتے ہیں کہ “ پلے کرکٹ”۔ ان کا اپنا رویہ بھی کوئی ایسا قابل فخر نہیں رہا، یہ وہی انگریز ہیں جنہوں نے پاکستانی امپائر ادریس بیگ کو اٹھا کر ہوٹل کے سوئمنگ پول میں پھینک دیا تھا۔ اور یہ وہی انگلستان ہے جس کے کپتان نے امپائر شکور رانا کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ایسے واقعات واقعی کرکٹ نہیں ہیں ۔
This is not cricket.
جاوید میانداد اور ڈینس للی کا واقعہ بھی کوئی اچھی مثال نہیں۔ لیکن کرکٹ اب بھی اپنی اعلا روایتوں کے بل بوتے پر ہی زندہ ہے۔ ہم کبھی دیکھتے تھے کہ کس طرح لالہ امرناتھ اور فضل محمود مخالف ٹیموں میں ہونے کے باوجود میدان میں ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے نظر آتے۔ پاکستان کا ظہیر عباس، بھارت کے محمداظہرالدین کو اس کی بیٹنگ کی خامیاں دور کرنا سکھا رہا ہے۔ آسٹریلیا کا شین وارن پاکستان کے یاسر شاہ کو اسپن باؤلنگ کے گر سکھا رہا ہے۔ وسیم اکرم اس معاملے میں شاید دنیا کے مقبول ترین کھلاڑی ہیں۔ ٹسٹ میچ کے دوران مچل جانسن اور بریٹ لی کو بولنگ کے قیمتی مشورے دے رہے ہیں تو کہیں بھارتی کھلاڑیوں آشیش نہرا اور ظہیر خان کو گر کی باتیں بتا رہے ہیں۔
یہ وہی وسیم اکرم ہیں جو ہندوستان کے دورے میں ٹسٹ سے ایک دن قبل میدان کے دوسرے حصے میں پریکٹس کرتے ہوئے بھارتی سپر اسٹار سچن ٹیندولکر کو اس کی شادی پر پاکستانی ٹیم کی جانب سے تحفہ کے طور پر لفافہ دے رہے ہیں تو کہیں مخالف بھارتی کپتان اظہرالدین کے گلے میں ہاتھ ڈال کر خوش گپیاں کررہے ہیں۔
یہی دوستیاں اور محبتیں ہیں جو کھیل کو اور کھلاڑیوں کو خوبصورت بناتی ہیں، پاکستان کا دورہ کرنے والی پوری بھارتی ٹیم کے لیے محمد یوسف کھانا لے کر جاتا ہے تو کلکتہ میں فلم کی شوٹ کے لیے آئے ہوئے انضمام الحق کے لیے ہرروز سارو گنگولی کے گھر سے کھانا جارہا ہے۔
بڑے کھلاڑی واقعی بڑے ہوتے ہیں ۔ آج کے نفسانفسی کے دور میں بھی کچھ لوگ ہیں جو واقعی ،کرکٹ کھیل رہے ہیں، یعنی کھیل کی اعلا روایتوں اور قدروں کے ساتھ، ان میں ایک ویرات کوہلی بھی ہے جو آج سب سے بڑا بلے باز مانا جاتا ہے۔ جس کی طبیعت میں بے حد جارحانہ پن ہے لیکن وہ اپنے مخالف محمد عامر کی بولنگ کا معترف ہے اور اپنا بلا اسے تحفہ دے دیتا ہے۔
ہمارے نوجوان اور ہمارے سیاستدان کم از کم ان کھلاڑیوں سے ہی سیکھیں کہ کشادہ دلی، برداشت اور تحمل کسے کہتے ہیں۔ مخالف کی عزت کیسے کی جاتی ہے اور اپنی عزت کیسے کروائی جاتی ہے۔ دنیا کی ساری الہامی کتابیں یہی سکھاتی ہیں۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے۔ قولو للناس حُسنا۔ انسانیت اور شرافت بھی یہی سکھاتی ہے۔ جو کچھ ہم کررہے ہیں، جیسے ہم آج کل رہ رہے ہیں یہ کرکٹ نہیں ہے۔ This is not cricket.
آئیے شرافت اور رواداری کی زندگی گزاریں ۔۔آئیے کرکٹ کھیلیں۔