نمازی بڑی محویت اور توجہ سے ان بزرگ کو سن رہے تھے۔ کئی ایک نے چھوٹے چھوٹے ٹیپ ریکارڈ آن کر رکھے تھے۔ تقریر عربی میں تھی۔ میری سمجھ میں ایک آدھ جملہ ہی آرہا تھا۔ وہ بھی جب وہ کوئی آیت تلاوت کرتے یا کوئی مشہور حدیث بیان کرتے تو جملے کا سیاق و سباق سمجھ آجاتا ۔ لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ایک ایک جملہ۔ ایک ایک لفظ میرے دل میں اترتا جارہا ہے۔ زندگی میں بے شمار علماء کو اور مولویوں کو منبر سے خطاب کرتے دیکھا، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر سنا، عام جلسوں میں بہت سے مقررین کو سنا لیکن آج کچھ اور ہی کیفیت تھی اور وہ بھی اس خطاب کو سن کر جو عربی میں تھا۔ کچھ دیر بعد جمعہ کی جماعت تھی۔ نماز کے بعد پھر ان بزرگ کا بقیہ خطبہ شروع ہوا۔ حاضرین پھر مبہوت ہو کر انہیں سن رہے تھے۔ لیکن اب یہ زیادہ دیر نہیں تھا۔ تقریر جلد ہی ختم ہوگئی ۔ نمازی بقیہ سنتیں ادا کرنے کے بجائے منبر کی طرف جارہے تھے۔ مجھے نہیں علم کے وہ کون عالم تھے اور کہاں سے تعلق رکھتے تھے۔
ہائیں ! یہ کیا؟۔
میں بھی لوگوں کی قطار میں تھا جو ان بزرگ عالم سے ہاتھ ملانے کے لیے صف آرا تھے۔ میں بھی کچھ ہی دیر میں ان کے روبرو تھا۔ اف! کیا پرنور اور شفیق چہرہ تھا۔ دودھ اور گلاب کی آمیزش والی رنگت، سفید براق داڑھی لیکن ان سب سے بڑھ کر ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی شفیق مسکراہٹ۔ مجھے نہ جانے کیا ہوا۔ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں آیا تو بے تحاشہ ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا۔
اور یہ حرکت میں نے زندگی میں دوسری بار کی تھی۔ اس سے کئی سال پہلے بحرین کے ہلٹن ہوٹل میں اپنے آپ کو اچانک بوہری برادری کے روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین صاحب کے سامنے پایا تھا اور بے اختیار ان کی دست بوسی کی تھی۔ ورنہ میں ان معاملات میں بہت ہی محتاط رہتا ہوں۔ لیکن یہاں میں ہی نہیں مقامی اور غیر مقامی عرب بھی اس معزز ہستی کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے تھے اور یہ عرب بھی شرک وغیرہ کے معاملے میں بہت سخت ہوتے ہیں۔
مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ یہ کون بزرگ تھے لیکن ان کی خطابت کا انداز آج بھی آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور لہجے کی پھولوں جیسی نرمی اور شگفتگی نہیں بھولتی۔ اور یہ عالم تب تھا جب میں ان کی تقریر کے چند جملے ہی سمجھ پایا تھا۔ اگر پوری بات سمجھ پاتا تو اللہ جانے کیا حال ہوتا۔
اور یہ انداز گفتگو ہی ہے جو کسی انسان کی شخصیت اور نجابت کا پتہ دیتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ انہوں کسی اجنبی سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ کچھ بولو تو اندازہ ہو کہ کون ہو۔ زندگی میں بے شمار لوگ ملتے ہیں ۔ بہت خوبصورت اور وجیہہ، جامہ زیب ، قیمتی لباس میں ، مہنگی سواریوں سے اترتے ہوئے ، آس پاس لوگوں کے ہجوم ، لیکن شاید ہی یہ سب کچھ یاد رہتا ہو۔ یاد رہتا ہے تو بولنے کا انداز، لہجے کارنگ، الفاظ کا انتخاب ، آواز کا زیرو بم۔ اور یقین کیجئے اس پیمانے پر لوگوں کو تولا تو بڑی بڑی شخصیات، بڑے بڑے ناموں کو بہت ہی چھوٹا ، بہت ہی نیچا بھی پایا۔
بہت سال پہلے کی بات ہے ۔ دوبئی میں کنور مہندر سنگھ سحر کا جشن منایا جارہا تھا۔ پاکستان کے ایک بہت بڑے، شاید اس وقت سب سے زیادہ مشہور و مقبول شاعر، جن کے صاحبزادے آج ایک بہت بڑے عہدے پر فائز ہیں، ایک مقامی بینک مینیجر کے گھر ان کے ساتھ کچھ وقت گذرا۔ میں ان کا شدید پرستار تھا بلکہ یوں کہئیے کہ ان کی شاعری کا عاشق تھا۔ اور میں ہی کیا، ایک عالم ان کا دیوانہ تھا اور آج بھی ہے۔ لیکن جب ان کی مجلسی گفتگو سنی تو قے کرنے کا جی چاہتا تھا۔ اس دوران ایک دو لوگوں کو اور دیکھا اور یقین کیجئے اس کے بعد بڑے لوگوں کو دیکھنے کی ہوس ہی نہ رہی۔
کسی شعبے میں اونچا مقام و مرتبہ حاصل کرنا اور چیز ہے اور گفتگو اور تقریر کا ہنر کوئی الگ شے ہے۔ میرے نزدیک انسان کی ذات کا پر تو اس کی شکل وصورت اور وضع قطع نہیں ، نہ اس کی تحریر بلکہ اس کا انداز کلام ہوتا ہے۔ بہت سے کم صورت لوگ بھی اپنی شائستہ اور خوبصورت گفتگو سے دل میں گھر کر جاتے ہیں اور بہت سے خوش شکل لوگ اپنی زبان کی وجہ سے دل سے اتر جاتے ہیں۔ گفتگو میں ، لہجے میں، توازن اور حسن ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا لیکن جنہیں اس پر قدرت ہے وہ سننے والوں کا دل جیت لیتے ہیں چاہے ان کی بات سے، ان کے خیالات سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہی اچھے انداز گفتگو کا کمال ہے کہ بات ہر کسی تک پہنچ جاتی ہے جب کہ بہت سی اچھی باتیں بھی بدزبانی اور بدتمیزی کی وجہ سے لوگوں تک نہیں پہنچتیں۔ اس کی مثال دیکھنا ہو تو ہماری پارلیمان، ہمارے ٹاک شوز وغیرہ دیکھ لیں۔ شریف گھرانوں میں بچوں کو ایسی چیزوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ ایک طوفان بدتمیزی، چیخم دھاڑ، گالی گلوچ شاید مخالف کو زیر کرلیتا ہو لیکن اس طرح کی بات کا اثر کوئی نہیں ہوتا۔لیکن جو دھیمے لہجے میں اور ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے ہیں ان کی بات مخالف تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان تقریباً سب ہی بہت بے تکا بولتے ہیں اور شاید ہی کوئی بات کرنے کا ڈھنگ جانتا ہو۔ ان کے مقابلے میں دینی رہنما قدرے بہتر گفتگو کرلیتے ہیں۔ کم از کم انہیں الفاظ کو برتنا سیاستدانوں سے بہتر آتا ہے۔ اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں، ادیبوں ، شاعروں میں بھی ایسے بہت کم رہ گئے ہیں کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ فی زمانہ کوئی بھی گفتگو کے فن سے آشنا نہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ ان کے خیالات و نظریات سے شاید آپ کو کوئی مطلب نہ ہو یا آپ ان سے متفق نہ ہوں لیکن ان کی بات سنتے ضرور ہیں بلکہ سننے کا مزہ لیتے ہیں۔ ایسی ایک شخصیت مملکت ہاشمیہ یعنی اردن کی ملکہ رانیہ ہے جو پہلے پرنسز رانیہ کہلاتی تھیں۔ کوئن رانیہ سے بھلا میرا اور آپ کاکیا لینا دینا لیکن ایک بار انہیں سی این این پر گفتگو کرتے دیکھا۔ کیا خوبصورت انداز تھا،الفاظ کا نپا تلاانتخاب اور شگفتہ اور شائستہ لہجہ دل کو چھوتا تھا۔
اور کوئن رانیہ کو دیکھ کر اپنے ہاں کی ایک لڑکی یاد آگئی جو کوئن بن بھی سکتی تھی۔ وہ نہ تو کوئن ہے، نہ بہت مشہور و مقبول ہے لیکن اس کی گفتگو کسی ملکہ سے کم نہیں ۔ بہت سے لوگ شاید اس کا نام سن کر مجھے جلی کٹی بھی سنائیں گے لیکن یقین کیجئے ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں ، دانشوروں اور ادیبوں کو یہ انداز گفتگو نصیب نہیں۔ جی ہاں میں بات کررہا ہوں فاطمہ بھٹو کی۔جس اعتماد سے اور جچے تلے انداز اور مدلل طریقے سے فاطمہ بھٹو بات کرتی ہیں وہ اپنے آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کا صحیح جانشین ثابت کرتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو یوٹیوب پر ان کی کوئی سی بھی گفتگو سن لیں۔ میں نے ان کی اردو یا سندھی بات چیت نہیں سنی لیکن انگریزی پر جیسا عبور انہیں حاصل ہے وہ ہمارے بہت سے آکسفورڈ، کیمبرج ، برکلے اور ہاورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل خواتین و حضرات کو حاصل نہیں۔
سیاسی اور سماجی شخصیات ہی کی بات ہے تو کبھی “ بکرپرائز” یافتہ ارون دھتی رائے کو سن لیں۔ اروندھتی کو میں آج کی “بلبل ہند “یا آج کی “سروجنی نائیڈو “کہہ سکتا ہوں۔ بھارت کی ہی ایک اور سیاسی شخصیت ، اقوام متحدہ میں بھارت کے سابق سفیر “ سشی تھرور” ہیں۔ بڑے خوبصورت انداز میں ، تلخ سے تلخ بات بھی مسکراتے ہوئے کرنے والے سشی تھرور جہاں کہیں بولنے جاتے ہیں ان کا استقبال فلمی سپر اسٹار کی طرح ہوتا ہے ۔ ملیالی نسل کے سشی تھرور انگریزی کے تو بہترین مقرر ہیں ہی، ان کی ہندی بھی سننے لائق ہوتی ہے۔
اور بھارت میں فلمی شخصیات میں بھی ایک ہستی ایسی ہے کہ جسے بس سنتے ہی رہ جائیں اور وہ ہیں پاک بھارت کی فلمی دنیا کا بلاشبہ سب سے بڑا نام یعنی دلیپ کمار صاحب۔ دلیپ صاحب کا ٹھہرا ٹھہرا انداز گفتگو، الفاظ کا انتہائی خوبصورت انتخاب اور موضوع پر قدرت انہیں سب سے منفرد بناتی ہے۔ دوبئی میں کنور مہندر سنگھ سحر والے مشاعرے میں دلیپ صاحب کا صدارتی خطبہ آج تک کانوں میں رس گھولتا ہے۔
دلیپ صاحب ہی کی طرح آج کا بہت بڑا نام امیتابھ بچن بھی گفتگو کا نہایت دل پذیر انداز رکھتے ہیں۔ دراصل ہندوستانی فنکار عام طور پر اعلی تعلیمیافتہ ہوتے ہیں اور نہ صرف انگریزی بلکہ ہندی اور اردو میں بھی بہت خوبصورت گفتگو کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جو بہت بڑا فرق میں بھارتی اور پاکستانی فنکاروں اور دانشوروں میں محسوس کرتا ہوں اور جس بات سے شاید میرے بہت سے دوست متفق نہ ہوں بلکہ بہت سے برا بھی مان جائیں گے ، وہ ہے عاجزی، انکساری اور سادگی۔ جب کے ہمارے اکثر فنکار اور دانشور اور شاعر و ادیب اپنی انا کے خول سے باہر نہیں آتے۔ اکثریت خود ستائی ، خود نمائی اور خود پرستی کا شکار نظر آتی ہے.ہمارے ہاں بمشکل دوسرے کی بڑائی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارے بڑے لوگوں کی گفتگو میں دوسروں کے لیے طنز، تحقیر اور تضحیک نمایاں ہوتی ہے۔ بہت کم ہیں جو دوسروں کی عظمت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ باقی ہیں جو سلیقے سے ہواؤں میں خوشبو گھول سکتے ہیں۔
ایسا ہی ایک نام ڈاکٹر سیدہ عارفہ زہرا کا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی بات چیت چاہے کسی بھی موضوع پر ہو، حاضرین کان لگا کر سنتے ہیں۔ اگر بات کرنے والے کے منہ سے پھول جھڑنے کا منظر دیکھنا ہو تو ڈاکٹر صاحبہ کی کوئی سی بھی گفتگو سن لیں۔ ان سے آپ کبھی کوئی بری بات سن ہی نہیں سکتے، وہ جو کچھ بولتی ہیں اچھا بولتی ہیں اور اچھے کے سوا کچھ نہیں بولتیں۔
ایک اور اچھی گفتگو کرنے والے جو اب نہیں رہے وہ تھے ہمارے آپ کے داستان گو، اشفاق احمد، صاحب۔ اشفاق صاحب کے صوفیانہ خیالات سے بے شک آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن جس عاجزی ، سادگی اور آسان طریقے سے وہ باتیں کرتے تھے کہ سننے والے ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ اشفاق صاحب ہی کی طرح کی مزیدار گفتگو مستنصر حسین تارڑ بھی کرتے ہیں اور ان کی بات بھی آپ کسی وقت بھی کان لگا کر سن سکتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھار تارڑ صاحب تنقید میں تھوڑی بہت تضحیک بھی شامل کردیتے ہیں۔
کچھ مذہبی شخصیات بھی تھیں جن سے نجی گفتگو میں نہ صرف مجلسی گفتگو کا لطف دو بالا ہوجاتا تھا بلکہ سننے والا بہت کچھ لے کر اٹھتا تھا۔ ان میں سے دو شخصیات نے اسی سال داغ مفارقت دیا جن میں سے ایک تھے علامہ طالب جوہری اور دوسرے علامہ ضمیر اختر نقوی۔ ان کے خیالات سے یقیناً اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا طرز کلام ایک تہذیب، ایک زمانے، ایک دور کا آئینہ دارتھا۔
اب آئیے میں آپ کو بتاؤں کو میں آج کل کس کو سنتا ہوں۔ جی ہاں میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ ہیں جاوید اختر صاحب۔ جاوید صاحب کے چاہے ٹی وی پروگرام ہوں یا ادبی اور فلمی تقاریب میں ان کی تقاریر یا بات چیت۔ جاوید صاحب ، سادہ، عام فہم انداز میں بڑے پتے کی باتیں بتاتے ہیں۔ وہ اردو میں گفتگو کرتے ہوئے ہندی اور انگریزی کے مناسب الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں کہ اصل مقصد ابلاغ ہے۔ اور یہ جاوید صاحب ہی ہیں جن کے پروگرام دیکھ کر مجھے ایسی اچھی اچھی باتیں کرنے والوں کا خیال آیا اور میں یہ مضمون لکھنے بیٹھ گیا۔
باہمی گفتگو میں یہ سلجھاؤ، شائستگی، شگفتگی، ظرافت اور شرافت تب آتی ہے جب معاشرے میں باہم رواداری ہو۔ بولنے سے زیادہ لوگ سننے کے طلبگار ہوں۔ تعلیم عام ہو، معاشی فراغت ہو۔ سکون ہو۔
بھوک آداب کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتی۔
اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو اچھی اچھی باتیں کرنا جانتے ہیں۔ جو اچھی بات کرنا چاہتے ہیں۔ سارے کا سارا معاشرہ پارلیمان اور ٹی وی ٹاک شو کی طرح نہیں ہے۔ آئیے کچھ دنوں کے لیے ٹی وی کی زہر آلود، نفرت آمیز بات چیت کو ایک طرف رکھیں اور سیدہ عارفہ زہرا کی باتیں سنیں۔ اشفاق صاحب کے “ زاویے” کی ویڈیوز دیکھیں۔ مستنصر تارڑ، انور مقصود اور جاوید اختر کو “ جشن ِریختہ” اور “ کراچی لٹریچر فیسٹول” اور “ فیض میلہ “ وغیرہ میں سنیں۔
بہت کچھ اچھا اچھا ہے۔ زندگی اب بھی خوبصورت ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...