بھانڈوں کے گھر جب نئی نویلی دلہن بیاہ کر آئی تو کچھ دن بعد ساس نے کہا بس بہت ہو گئی مہمانداری چل اب میرے ساتھ کام پر چل
یہ تو سب جانتے ہیں کہ ناچ گانا اور ٹھمکے لگانا ان کا کام ہوتا ہے۔
بھانڈوں کی دلہن کی ساس اپنی بہو کو لے کر قریبی گاوں پہنچی جہاں کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا تھا۔ ساس نے دروازے پر کھڑے ہو کر ہانک لگائی اور اپنی ڈھولکی پر کو بجانا شروع کر دیا کھلے دروازے سے بچے والوں کے آنگن میں داخل ہو کر اپنی نئی نویلی دلہن کو اشارہ کیا چل اب ناچنا شروع ہو جا اس کی دلہن نے دو پاوں ادھر مارے چار ادھر بجائے اس کے کہ وہ اس کا ناچ دیکھنے کے لئے جمع ہونے والوں کو محظوظ کرتی اس نے کسی کے پاوں پر اپنی ایڑھی ماری کسی کو ٹانگ گھر والوں نے تھوڑے بہت پیسے دے کر ساس بہو کو نکال باہر کیا۔
راستے میں ساس نے اپنی بہو سے کہا یہ تم نے کیا کیا تمھارے گھر والے تو کہتے تھے تم بہت اچھا ناچنا جانتی ہو۔
تمھارا یہ حال دیکھ کر تو مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ تم ہمیں بھوکا مارو گی۔
بہو بولی " گھبرانا نہیں ساسو جی مجھے بہت اچھا ناچنا آتا ہے بس تم جن کے گھر مجھے ناچنے کے لئے لے گئی ان کا آنگن ٹیڑھا تھا جس وجہ سے میرے ٹھمکے آگے پیچھے ہو گئے۔
ساس جل کڑھ کر بولی
"ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا"
خدا جانے بعدازاں ناچنے والوں کی اس بہو کا کا انجام ہوا۔
دو سال سے دشمن کو شکست دے کر صادق اور امین نیازی کی نوٹنکی جاری ہے جو ابتدا ہی میں فلاپ ہو گئی تھی۔
مگر اس نے کہا "گھبرانا نہیں میں سب ٹھیک کر لوں گا"
ابتدا میں گھر والوں نے کہا چھ مہینے مثبت رپورٹنگ کریں چھ مہینے بعد حالات درست ہوتے دیکھائی دیں گے۔
چھ مہینے کی مثبت رپورٹنگ سے کچھ فرق نہ پڑا تو چھیڑ خانی کرنے والے صحافیوں کو نکال باہر کیا اور ان کی زبان بندی کر دی گئی مگر بات پھر بھی نہ بنی باتیں کرنے والے سب شرارتیوں کو جھوٹی تعریفیں کرنے کا پابند کر دیا۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ جو نکاح سے پہلے تعریفوں کے ڈونگرے برساتے تھے وہ بھی سر پیٹنے پر مجبور ہو گئے اور خود کہنے لگے ہم تو الو کے پٹھے تو جو اس کو اچھا کہتے تھے۔
وہ جو کہتا تھا کہ وہ 9 ارب میں راولپنڈی اور اسلام آباد جیسی میٹرو بنا لے گا اس نے 120 ارب ضائع کروا دیئے مگر بی آرٹی کو کھڈوں سے نہ نکال سکا۔
پھر چلے مانگنے اور مانگتے مانگتے جرمنی اور جاپان کے بارڈر تک ملا دیئے۔
پھر شوشہ چھوڑا کہ ہم تو پچھلی حکومتوں کا قرض اتارنے کے لئے قرض مانگ رہے ہیں۔
بڑے گھر والوں نے ان کے چھوٹے خزانچی کو گھر بلا کر پوچھا کہ پچھلی گورنمنٹ نے پچھلے پانچ سال میں کتنا قرض ادا کیا ہے۔
چھوٹے منشی بابو حماداظہر نے بتایا کہ 33 ارب ڈالر پچھلی گورنمنٹ نے ادا کئے تھے۔
بڑوں نے حماد بابو سے پوچھا کہ اب پانچ سال میں آپ کو کتنا قرض ادا کرنا ہے۔
بابو نے بڑوں کو بڑے گھر "سینیٹ" میں کھڑے ہو کر بتایا کہ ہمیں پانچ سال میں 37 ارب ڈالر قرض ادا کرنا ہے۔
یعنی پچھلی گورنمنٹ کی نسبت صرف 4 ارب ڈالر زیادہ پانچ سال میں ادا کرنا ہیں۔
ان سے پچھلوں نے اگر 4 ارب ڈالر زیادہ قابل ادا قرض چھوڑا تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ دہشتگردی کے خلاف دو بڑی جنگیں "ضرب عضب" اور "ردالفساد" بھی لڑیں۔ بےگھر ہونے والے وزیرستانیوں کی بحالی کا کام بھی کیا۔ لوڈشیڈنگ کی عفریت کو ختم کر کے پورے ملک کو روش بھی کیا اور ایل این جی کے دو ٹرمینل بنا کر گھر گھر گیس پہنچانے کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ مہنگائی کے جن کو %2.5 سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ ڈالر بھی 104 تک روکے رکھا جسے کہا گیا وہ تو مصنوعی طور پر روک کر قوم کا نقصان کیا جا رہا تھا۔ پٹرول کو 118 سے 62 روپے لٹر تک ہر غریب امیر کے لئے رکھا گیا۔ کسانوں کی ڈی اے پی 5400 سے 2900 تک اور یوریا 1300 روپے تک محدود کر دی۔ 5000 روپے فی ایکڑ سبسڈی بھی کسان کو دی اور شوگر ملوں کو بھی اگر سبسڈی دی تو چینی 2013 سے لے کر 2018 تک 52 روپے کلو میسر رہی۔
لانے والوں نے یہ تک کہنے پر مجبور ہوئے کہ پچھلی گورنمنٹ ہماری ہر ضرورت بھی پوری کرتی تھی اور تنخواہیں بھی بڑھاتی تھی۔
اب تنخواہ داروں کو کب تک تنخواہیں ملتی ہیں کوئی گارنٹی نہیں۔
این ایف سی ایوارڈ 2013 سے 2018 تک کسی کو بوجھ محسوس نہ ہوا اور صوبوں کو انسانوں پر خرچ کرنے کے لئے ان کے حصے کے مطابق پورے پیسے ملتے رہے۔
ملک بھر میں موٹروے کے جال بچھے اور گاوں گاوں کارپٹڈ سڑکیں بچھائیں سینکڑوں یونیورسٹیاں کالجز اور ہسپتال بنائے مگر 18 ویں ترمیم ختم کرکے این ایف سی ایوارڈ پر ڈاکا ڈالنے کا کسی کو خیال نہ آیا۔
اب جب ساری گلیاں سنجیاں کر کے نیازی یار کو وچ پھرنے کے لئے اکیلا چھوڑا ہوا ہے تو 18 ویں ترمیم کو ختم کر کے این ایف سی ایوارڈ ہضم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
پڑھنے والے پڑھ لیں یا لکھ کر رکھ لیں۔
ہو سکتا ہے کہ 18ویں ترمیم ختم کر کے این ایف سی ایوارڈ بھی غصب کر لیا جائے بھئی "سیاں ہوئے کوتوال اب ڈر کاہے کا" کچھ بھی کیا جا سکتا ہے مگر یقین رکھیں یہ جو چینی 105 روپے کلو ہو چکی ہے یہ جو آٹا 75 روپے کلو ہو رہا ہے یہ جو ادویات %600 مہنگی ہو چکی ہیں۔ یہ جو بجلی %230 مہنگی ہو چکی ہے یہ جو گیس %270 مہنگی ہو چکی ہے یہ جو ڈالر168 کا ہو چکا ہے کچھ بھی واپس نہیں آنا۔
صرف 4 ارب ڈالر اضافی ادا کرنے کے لئے جنہوں نے قرض کے ڈالروں کا کوہ ہمالیہ بنا لیا ہے یہ آپ کو ایسی ہی خوشخبریاں دیں گے جیسی کل سیالکوٹی لڑکا عثمان ڈار دے رہا تھا کہ ہم نے سعود عرب سے لئے 3 ارب ڈالر سے 1 ارب ڈالر واپس کر دیئے ہیں اور اب عوام کا معیار زندگی عالمی اقوام جیسا ہونا شروع ہو جائے گا۔ جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کا بیان تھا کہ سعودی عرب کا 1 ارب ڈالر ادا کرنے کے لئے دیرینہ دوست چین نے مزید1 ارب ڈالر ادا کیا۔
اب بتاو سعودیہ کا نکال کر چین کا ڈال لینے سے کون سا سکون ہو گیا؟؟
سچ تو یہ ہے سوشل میڈیا کی طاقت کے ذریعے بہکا کر اقتدار میں آنے والا یہ ٹولہ سائبرکریمنلز کا گروہ ہے۔ جو جھوٹ لکھنے اور پھیلانے اور عوام کو بیوقوف بنانے میں ماہر ہیں۔
جو بیوقوف ہیں بیوقوف بنتے رہیں تاہم شہر شہر نگرنگر یہ بات زبان زد عام ہے۔
"ان تلوں میں تیل نہیں"