کہانی کا نام "لازوال" تھا اور گیلیکسئیم (galaxium) نامی اس عمارت کے ایک ہال میں وہ سب یہی کہانی سننے جمع ہوئے تھے، ان کی تعداد صرف ننانوے تھی، ناریان کو بھی شامل کرلیا جائے تو سامعین کی تعداد سو کہی جا سکتی ہے۔ ناریان وہ فرد تھا جس نے شرکت کے لیے سب سے آخر میں اپنے نام کا اندراج یہ کہتے ہوئے کروایا تھا کہ وہ کہانی سن تو لے گا مگر اس کی اصل دلچسپی، کہانی کے راوی کو دیکھنے اور اس سے سوال کرنے میں ہے۔ ناریان میں کئی باتیں ایسی تھیں جو اسے ممتاز بناتی تھیں۔ مثلاً یہی کہ دبلے پتلے عام سے جسم پر وہ بھاری بھرکم سر، اور پھر وہ سرخ سرخ انگارہ آنکھیں جو نجانے کتنی مدت سے جاگ رہی تھیں۔ بظاہر ناریان کو دیکھ کر کوئی مثبت رائے قائم نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن جب وہ بولتا تھا تو اپنی شیریں سخنی اور قادرالکلامی سے اچّھے اچھوں پر اپنا سحر طاری کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ناریان کو وہاں دیکھ کر چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔
※
راوی کا حلیہ بھی کچھ منفرد تھا۔ وہ تو کوئی حسین شہزادہ لگ رہا تھا۔ یا کوئی یوسفِ ثانی جو غیر کی زلیخا سے بچتا بچاتا یا اپنی زلیخا کو تلاشتا وہاں آ پہنچا ہو۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے لئیےستائش تھی۔ صرف چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ کہانی سنا رہا تھا:
"یہ ایک مصوّر کی کہانی ہے۔۔۔ وہ بہت باکمال مصور تھا جس کا فن لازوال تھا، اس کی تصویریں رنگ و نور کا حسین ترین امتزاج ہوتی تھیں۔ لیکن شاید یہ بات عجب محسوس ہو کہ اس کے باوجود وہ مشہور نہ تھا۔ اس کی مصوری کی وہ پزیرائی نہیں ہوتی تھی جس کا وہ بجا طور پر مستحق تھا۔ پزیرائی اور مدح سرائی کی کمی کو وہ بھی شدت کے ساتھ محسوس کرتا تھا۔ پھر اس نے ایک نئی تصویر بنانی شروع کی۔ اس دفعہ مصور نے رنگوں کا استعمال بھی نہ کیا۔ صرف نور سے بنائی گئی یہ تصویر سادہ مگر روشن تھی۔۔۔۔۔۔"
ناریان نے پہلا سوال کیا:
"محترم راوی! صرف نور کی مدد سے بنائی گئی یہ تصویر کیا ایک اِلوژن (illusion) تھی؟"
باقی لوگوں کو کہانی سننے میں دلچسپی تھی؛ انہوں نے کہا:
"پیارے راوی! کہانی سناؤ!! ہمیں صرف کہانی سننے میں دل چسپی ہے اِلوژن، ڈی لوژن، پرسیپشن اور رئیلیٹی کے بکھیڑوں سے کیا حاصل؟"
راوی تھوڑی دیر کے لئیے مخمصے میں پڑ گیا، لیکن یہ دیکھ کر اسے اطمینان ہوا کہ لوگوں کی اکثریت کہانی سننا چاہتی ہے۔ اس نے کہانی کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا:
" ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ صرف نور سے بنائی گئی یہ تصویر سادہ مگر روشن تھی۔ عجیب ہی کثیرالجہات تصویر تھی یہ، جس میں ملکوتی حسن کے مالک، پر والے یہ انوارِ مجسم یوں گروہ در گروہ کھڑے تھے جیسے بےشمار پریاں قطار اندر قطار! اچانک فضا میں ایک جاودانی دُھن چھڑ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تصویر مرتعش ہوئی۔ اور یہ انوارِمجسم تصویر کے پردے سے ابھر ابھر کر، نکھر نکھر کر، نکل نکل کر مصور کے گرد اکھٹے ہوتے چلے گئے۔ مصور نے اس گروہِ رخشندہ و تابندہ کے سامنے ایک ایک کر کے وہ ساری تصاویر رکھ دیں جو قبل ازیں بن چکی تھیں۔ ان تصاویر کا موضوع تھا "کائنات اور کہکشائیں"۔ ہر تصویر ایک شاہکار تھی؛ جسے دیکھتے ہی داد و تحسین کی صداؤں سے فضا گونج اٹھتی تھی۔ مصور کا خوش ہونا قدرتی امر تھا۔ نوری اجسام تصویریں دیکھتے رہے، صدائے تحسین بلند کرتے رہے۔ اور اس مدح سرائی سے مصور خوش ہوتا رہا ۔۔۔"
ناریان نے ایک بار پھر سوال کیا:
"کیا تحسین و مدح سرائی کے علاوہ ان نوری اجسام کو کچھ اور نہیں آتا تھا؟"
راوی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:
"شاید نہیں یا شاید ہاں"
"نہیں بھی اور ہاں بھی؟ کیا مطلب؟؟" ناریان نے اعتراض کیا۔
اس سے پہلے کہ راوی جواب دیتا، کہانی سننے میں دلچسپی رکھنے والوں نے مداخلت کی:
"یہ سوالات ہیں یا دخل در معقولات؟ ہمیں کہانی میں یہ تعطل منظور نہیں۔ راوی کہانی سناؤ"
راوی اس اختلافی ماحول سے تھوڑا پریشان ہوا لیکن اپنے لہجے میں توازن، تحمل اور بُردباری سموتے ہوئے گویا ہوا:
"ٹھہریے! میں اس سوال کا جواب دینا پسند کروں گا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان نوری پیکروں کو مدحت کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا، کیوں کہ انہوں نے مصور کے ہر کام کو اب تک سراہا تھا۔ لیکن مصور نے جب اگلی تصویر پر کام شروع کیا تو مقام حیرت یہ کہ مدح سرائی تو کیا کرتے، انہوں نے خاموشی بھی اختیار نہ کی اور معترض ہو گئے۔۔۔"
"اگلی تصویر؟" اس بار سب یک زبان تھے۔
راوی نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا:
"ہاں اگلی تصویر! میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس تحسین و تعریف اور تحمید و توصیف سے مصور کا دل اُوب گیا۔ لیکن امر واقعی یہ کہ اس نے اپنی خلّاقانہ صلاحیتوں کے اکمل ترین اظہار کے لئیے ایک تصویر بنانے کی ٹھانی اور اعلان کر دیا کہ یہ اس سلسلۂ تصاویر کی آخری تصویر ہوگی۔ حیرت انگیز طور پر وہی گروہِ نور جو ستائش کرتے نہ تھکتا تھا اب معترض تھا۔ اس گروہ کا سب سے بڑا اعتراض تصویر کی کمپوزیشن پر تھا۔ اعتراض یہ بھی تھا کہ تمام دیگر تصاویر ایک ہی تھیم کا حصہ لگتی ہیں جب کہ احتمال یہ ہے کہ نئی تصویر اس تھیم سے الگ ہو گی۔۔۔" راوی تھوڑی دیر کے لئیے رکا۔
"پھر۔۔۔ پھر کیا ہوا؟" اب تو سب کے سب ہی سراپا سوال تھے۔
"مصور نے اعتراضات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ تصویر خالصتاً رنگوں سے بناؤں گا، نور سے نہیں۔ اور تم رنگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ معترضین لاجواب بھی ہو چکے تھے اور پابندِ آداب بھی۔ مصور نے اس دفعہ سارے ہی رنگ استعمال کیے لیکن ایک رنگ کا تناسب زیادہ تھا۔ وہ بظاہر عام سا رنگ تھا، لیکن مصور کے ہنر کا اعجاز تھا کہ وہی عام نہ صرف خاص بلکہ خاص الخاص قرار پایا۔"
"کون سا رنگ تھا وہ؟" اس دفعہ ناریان خاموش تھا؛ یہ وہ لوگ تھے جو کہانی سننے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن اب سوال کرنے میں بھی ان کی دلچسپی بڑھتی جارہی تھی۔
"بھئی، مٹیالا رنگ ہوگا" یہ جواب راوی کا نہیں تھا بلکہ ناریان کی جانب سے آیا تھا۔
"تم مت بولو؛ ہمیں راوی سے جواب چاہئیے۔"
اس سے پہلے کہ صورتِ حال مزید خراب ہوتی راوی نے مداخلت کرکے اسے سنبھالنے کی کوشش کی:
"تم ٹھیک سمجھے؛ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مٹیالے رنگ سے اس نے کینوس کے درمیان ایک عجیب وغریب شکل بنائی۔ ایسی شکل جو اس وقت تک نہیں موجود تھی۔ پھر اسی شکل سے ملتی جلتی مگر قدرے مختلف ایک اور شکل بنائی۔ بعدِازاں مصور نے کمالِ ہنرمندی سےان ہی دو شکلوں کو بطور ٹیمپلیٹ (template) استعمال کرتے ہوئے مزید چند شکلیں بنائیں۔ پھر اب تک بنائی ہوئی شکلوں کی مدد سے ایک زیادہ وسیع ٹیمپلیٹ بنا لیا۔ یوں جلد ہی پورا کینویس ان مٹیالی شکلوں سے بھر گیا۔ مصور نے ضروری رنگ آمیزی کی جس کے نتیجے میں ایک نہایت پُرکار تصویر سامنے تھی۔ پچھلی تصویر کی مانند یہ بھی ایک کثیرالجہات تصویر تھی جس میں موجود مٹیالی شکلیں پہلی نظر میں کچھ غیر منظم محسوس ہوتی تھیں۔ فضا میں نغمۂ حیات گونج اٹھا؛ اس گونج سے تصویر تھرتھرانے لگی اور پھر یہ مٹیالی اشکال کینوس سے نکل کر میدان میں اترنے لگیں۔ اس منظر کے ساتھ ساتھ ہی داد و تحسین کی صدائیں سماعتوں سے ٹکرائیں اور تسلیم و تکریم کی ادائیں بصارتوں پر چھا گئیں۔ نوری گروہ کی ان صداؤں اور اداؤں پر فطرت بھی مسکرا اٹھی۔۔۔"
ناریان جُز بُز ہورہا تھا۔ آخر وہ پوچھ ہی بیٹھا۔
"بھائی راوی، تم نے پہلے کہا تھا کہ اس نئی تصویر کے لئیے روشنی یا نور نہیں صرف رنگ کا استعمال کیا گیا تھا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ دیکھنے کے لئیے تو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روشنی کے بغیر ایسی تصویر کیوں کر دکھائی دے رہی تھی؟"
سوال کنندہ کی اس بات پر راوی کو بےاختیار ہنسی آگئی، اس نے کہا:
"میرے دانشور بھائی! میں نے یہ ضرور کہا کہ مصور نے نئی تصویر خالصتاً رنگوں سے بنائی، نور سے نہیں۔ لیکن اس سے یہ بات کیسے ثابت ہوگئی کہ غیر نوری چیز نظر ہی نہیں آنی چاہئیے۔ نور داخلی ہو یا خارجی، اگر نور ہوگا تو اشیاء نظر آئیں گی، چاہے وہ نوری ہوں یا غیر نوری۔ اور میرے بھائی، یہاں تو پوری مصوری ہی وادئ نور میں ہو رہی تھی۔ روشنی کے انعکاس و انعطاف اور انجذاب و اکتساب کے عوامل جاری تھے۔ خاص طور پر مصور نے ان مٹیالے اجسام کے بالائی مقام پر چھوٹے بڑے روزن رکھے تھے جن سے وہ روشنی کا اکتساب کر رہے تھے۔۔۔"
"پیارے راوی! کہانی۔۔۔" مجمع سے صدا بلند ہوئی۔
اس بار راوی نے کہانی کا سلسلہ دوبارہ جوڑنے سے پہلے متنبہ کیا:
"کہانی ابھی کافی باقی ہے۔ بار بار سوالات سے بےجا تاخیر ہو سکتی ہے، لہٰذا نہ صرف سوال کرنے سے گریز کریں بلکہ آپس میں بات چیت سے بھی۔ خاموشی سے کہانی سنتے رہیں گے تو ممکن ہے کہ آپ کے بہت سے سوالات کے جوابات اسی کہانی سے مل جائیں۔" اتنا کہہ کر راوی نے مجمع پر نظر دوڑائی۔ سب خاموش ہو چکے تھے۔ دائیں طرف بیٹھے کہانی سننے میں دلچسپی رکھنے والے جو اب "سوال" بھی کرنے لگے تھے لیکن عین اس لمحے خاموش تھے۔ بائیں طرف صرف فردِ واحد بیٹھا تھا۔۔۔ وہی سوال کرنے والا ناریان جو جواب' بھی دینے لگا تھا؛ وہ بھی خاموش تھا، لیکن اس کی شکن آلود پیشانی اور متفکر آنکھیں بتا رہی تھیں کہ عالمِ احتجاج میں ہیں۔ راوی نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے اپنی کہانی آگے بڑھائی:
"وہ پیکرانِ رنگ میدان میں اترتے ہی مصور کے گرد جمع نہ ہوئے، بلکہ اس راستے پر چلے جہاں حدِ نظر پر ایک شجر ایستادہ تھا۔ یہ رہ نوردانِ شوق وہاں پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ ایک بہت لمبی سیڑھی ہے، جس کا اوپری حصہ اس شجر کی بالائی شاخوں سے بندھا ہے اور زیریں حصہ کسی "مقامِ نامعلوم" پر ٹِکا ہے۔
وہ 'آگ کا گولہ' جو تھوڑی دیر قبل ہی 'آگ بگولہ' ہورہا تھا، اسی نے لبوں پر مسکراہٹ سجائی اور مٹیالوں کی آتشِ شوق کو بھڑکایا۔ آتشِ شوق بھڑکی تو تجسس کو تحریک ملی اور مٹیالے جیالے بن گئے۔ شجر کی ارتفاع سر کی اور پھر سیڑھی سے اترتے چلے گئے، نیچے، بہت نیچے، بہت ہی نیچے!!!
مصور کے نگار خانے سے دور یہ جگہ ہزارہا شجرِ سایہ دار سے آباد تھی۔ انہوں نے سوچا کہ ہر شجر کے پاس ایک سیڑھی بھی ضرور ہوگی اور نئے امکانات کے در بھی وا ہوں گے۔ یہ سوچ کر مختلف اشجار تک پہنچے اور ہر دفعہ ناکام رہے۔ بالآخر لوٹ کر واپس وہاں پہنچے جہاں اترے تھے۔ لیکن یہ کیا؟ جس سیڑھی سے اتر کر آئے تھے وہ بھی غائب تھی۔ اب آئندہ کے لائحۂ عمل کی بابت مٹیالوں میں اختلاف پیدا ہو گیا اور وہ گروہوں میں بٹ گئے۔
کچھ چاہتے تھے کہ پرانی سیڑھی مل جائے تو وہ مصور کے نگار خانے لوٹ جائیں جہاں ہر وقت انوار کی بارش ہوتی ہے؛ یہ 'گزشتہ پرست' تھے۔
کچھ چاہتے تھے کہ اسی جگہ کے ہو رہیں جہاں کے رنگ میں انہیں اپنا ہی رنگ نظر آتا تھا؛ یہ 'حال مست' تھے۔
کچھ اور سمجھتے تھے کہ نئی سیڑھیاں نہ ملنے کے باوجود کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں؛ وہ چاہتے تھے کہ ان نئی سیڑھیوں کو سنجیدگی سے تلاش کیا جائے اور ان کی مدد سے امکانات کے در ضرور وا کئیے جائیں؛ یہ 'آئندہ پسند' تھے۔
حال مست تو دامِ ہم رنگ میں گرفتار تھے، اور سرشار تھے۔ ان حال مستوں کا بسرام آج کی آسائش، آرائش سے عبارت تھا۔ نہ گزشتہ کی یاد نہ آئندہ کی فکر۔ لیکن گزشتہ پرستوں اور آئندہ پسندوں کے معاملات مختلف تھے۔ وہ دونوں 'کل' کی محبت میں گرفتار تھے۔ وہ دونوں 'آج' سے اور آج کی اس جگہ سے نکلنا چاہتے تھے مگر فرق اسٹریٹیجی کا تھا۔ ایک کا مقصود گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹا کر گزشتہ کل تک پہنچنا تھا، اور دوسرے کا مطلوب رخشِ وقت پر سوار ہو کر آئندہ کل کو پکڑنا!
گزشتہ پرستوں کو بچھڑنے کے بعد مصور اور اس کے نگارخانے کی یاد آئی تو ان میں سے کچھ نے اِدھر اُدھر سے رنگ اکھٹے کئیے اور مصور کے تصوّر کو تصویر کر کے اسی تصویر سے فریاد کرنے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ تصویر کے پردے میں مصور ہے۔ نقل بہ مطابق اصل کب تھی اور بھلا کیوں کر ہو سکتی تھی کہ ایسا ہوتا؟ باقی گزشتہ پرستوں نے یہ صورت دیکھی تو رنگوں کے ذریعے مُصوّر کو مصوَّر کرنے سے توبہ کی اور آئینہ خانۂ دماغ میں تخیّلاتی تصویر سجا کر یاد کرنے لگے۔
آئندہ پسندوں نے کچھ نیا کرنے کا سوچا۔ انہوں نے سوچا، 'مصور تو ہم نہیں بنا سکتے۔ نہ تصویر میں نہ تخیّل میں۔ البتہ مصور کی بنائی ہوئی تصاویر کی طرح ہم بھی تصاویر بنائیں گے۔'
انہوں نے ایک تصویر میں اپنے جیسے مٹیالے بنانے کی کوشش کی۔ مگر وہ صرف دھاتی برقی اور ابرقی مدد سے چند 'ریتیلے' اجسام بنا پائے۔ حالاں کہ جس جگہ وہ رہتے تھے وہاں مٹیالا رنگ ہر طرف بکھرا پڑا تھا، لیکن وہ مصورانہ شان، وہ خلاقی، وہ اعجاز کہاں؟ 'آئندہ پسند' آسانی سے ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انہوں نے مصور کی کائنات اور کہکشاؤں والی سیریز کی نقلیں تیار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں بھی چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہٹ کر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔ 'آئندہ پسندوں' کا خمیر نجانے کس مٹی سے اٹھا تھا کہ بڑی سے بڑی ناکامی سے دل برداشتہ نہ ہوتے تھے اور چھوٹی سے چھوٹی کامیابی پر یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی تفسیر بن جاتے تھے۔۔۔"
ناریان اچانک اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
"راوی جی! زیبِ داستاں نے داستاں کو طولانی بنا دیا ہے۔
؏ ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں؟"
" کیا مطلب؟" راوی کے لہجے میں جھلاہٹ بہت واضح تھی۔
"مطلب یہ کہ اگر تم چاہو تو بقیہ کہانی دو،تین منٹوں میں نمٹ سکتی ہے۔"
"نہیں یہ ممکن نہیں۔ قرنوں پر محیط یہ داستان اَلْف لیلوی ہے۔ اسے منٹوں میں ختم کرنا بعید از قیاس ہے۔" راوی نے ترش لہجے میں کہا۔
ناریان کے جواب میں چیلنج کا عنصر نمایاں تھا: "اگر دوسری جانب بیٹھے ہوئے میرے دوست چاہیں تو میں بھی اس کہانی کا بقیہ حصہ دو تین منٹ، یا شاید اس سے بھی کم عرصے میں سنا سکتا ہوں۔"
"ٹھیک ہے تم ہی سناؤ!" حیرت انگیز طور پر یہ بات راوی نے نہیں بلکہ کہانی سننے میں دلچسپی رکھنے والوں نے خود کہی۔ یہ اور بات کہ راوی نے بھی اپنی برہمی پر قابو پاتے ہوئے ان کی تائید کی۔ حیرت اور غیر یقینی کے تأثرات اس کے چہرے سے ہویدا تھے۔
※
ناریان نے پُر اعتماد لہجے میں کہنا شروع کیا: "آئندہ پسند مصوری کے کمال کو پہنچنا چاہتے تھے۔ مصور کی برتری تسلیم کئیے بغیر وہ بس یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر ماضی میں تصویر بنی ہے تو آئندہ بھی ویسی یا اس سے بہتر تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن پے در پے ناکامیوں کے بعد وہ ایک خاص نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے کہ مصور کی مصوری میں کمال صرف رنگ و نور کا نہیں بلکہ اس کینوس کا بھی ہے جس کے تانے بانے کچھ خاص ہیں۔ زمانی تانوں اور مکانی بانوں سے تشکیل کردہ یہ سارے کینوس آپس میں بھی منسلک ہیں۔ لہٰٰذا ایک کینوس کے کسی مقام سے دوسرے کینوس کے کسی اور مقام تک جو قرنوں کا فاصلہ ہے اسے انتہائی قلیل وقت میں 'بائی پاس' کیا جا سکتا ہے۔ اس انتہائی اہم انکشاف کے باوجود وہ 'کائنات اور کہکشائیں' جیسی دل فریب تصویر نہ بنا سکے۔ ہر دفعہ ایک خاص رنگ کی کمی پڑ جاتی تھی۔
"کون سا رنگ؟" کہانی سننے والوں نے اشتیاق سے پوچھا۔
وہ رنگ جو تصویر کو وہ گہرائی و گیرائی دیتا جو مصور کی بنائی ہوئی اصل تصویر میں موجود تھی۔ بظاہر نیلے رنگ سے ملتا جلتا وہ رنگ نیلا بھی نہیں تھا۔ کیونکہ آئندہ پسندوں نے نیلے رنگ کو استعمال کر کے بھی دیکھ لیا تھا۔ وہ کوئی اور رنگ تھا جو مجھے بھی نہیں پتا۔ ممکن ہے راوی اس کے بارے میں جانتا ہو۔۔۔" اتنا کہہ کر ناریان رک گیا اور راوی کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ ناریان کے ساتھ ساتھ سب لوگوں کی نظریں اب راوی کی طرف مرکوز تھیں۔
"ہاں میں جانتا ہوں!" راوی نے گھمبیر لہجے میں جواب دیا: "۔۔۔ لیکن میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ یہ سحر انگیز بات، یہ سربستہ راز بتاؤں یا نہیں۔۔۔"
"راوی! یہ تمہیں بتانا ہوگا" ناریان کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ دیگر لوگوں نے بھی اس کی حمایت میں کہنا شروع کر دیا۔ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ راوی نے لوگوں کو بمشکل خاموش کیا، اور گویا ہوا: "میں پوری بات تو نہیں بتا سکتا، صرف اتنا کہہ سکتا ہوں وہ نیلا رنگ، وہ رنگِ عمیق درحقیقت رنگ نہیں بلکہ رنگ و نور کا ایک مرکب تھا، جسے مصور نے کہکشاؤں کے راستے میں بچھایا تھا۔ مٹیالوں نے بھی اسی مرکب کے اکتساب و انجذاب سے وہ فیض پایا تھا کہ ان کا مقام نوری اجسام سے بھی بلند ہو گیا تھا۔" اتنا کہہ کر راوی خاموش ہو گیا۔
راوی خاموش ہوا تو سننے والے بےچین۔ ناریان سب سے زیادہ مضطرب تھا، اس نے اسی اضطراب میں کہا:
"راوی! یہ رنگ و نور والی بات تو پہلے ہی تم بتا چکے ہو۔ ہمیں تو مرکب کی اصل ترکیب اور تناسب میں دلچسپی ہے؟" راوی نے نفی میں سر کو جنبش دی اور انتہائی تحمل سے کہا: " دوستو! یہ تناسب و ترکیب ہی تو خاص ہے۔ یہ میں نہیں بتا سکتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر جلتے ہیں"
ناریان کی اضطرابی کیفیت کچھ اور سوا ہو گئی تھی, وہ متواتر اپنا سر جھٹک رہا تھا۔ راوی لوگوں کا خاموشی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک اس کی نظریں ناریان کے تمتماتے ہوئے چہرے پر پڑیں جو بڑی تیز رفتاری سے سرخ سے سرخ تر ہو رہا تھا۔ راوی کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی : "آگ بگولہ، تم؟" یہ سنتے ہی ناریان کے تن سے اس کا سر جو اب بلا مبالغہ آگ کا گولہ بن گیا تھا، جدا ہوا اور برق رفتاری سے یہ جا وہ جا ہوگیا۔ سرعت کے باعث شاید ہی کوئی دیکھ پایا ہوگا کہ راوی کی پیٹھ سے کئی نوری پر نمودار ہوئے اور وہ بھی اسی سمت اڑ گیا جدھر آگ کے گولے نے اُڑان بھری تھی!