حیدر قریشی سے دس سوالات
شبنم خان
ش۔خ:آپ نے تخلیقی اور تحقیقی ادب دونوں میں بہت کام کیا ہے ۔آپ ان دونوں میں سے زیادہ کس میں کیف محسوس کرتے ہیں؟
ح۔ق: اہمیت تو تخلیقی کام کو ہی حاصل ہے۔تحقیقی اور تنقیدی کام کی بہر حال ثانوی حیثیت ہے۔ویسے میں تخلیق ہو یا تحقیق؍تنقید کسی صنف میں تب ہی کام شروع کرتا ہوں جب اندر کی طلب یا کسی خاص لگن کے باعث لکھنے کی نوبت آتی ہے۔سو جو کچھ بھی لکھتا ہوں اس میں مگن ہوجانے کی کیفیت یا تحقیق و تنقید میںایک دُھن سی سوار ہوجاتی ہے۔پھر جو کچھ لکھا جاتا ہے اس کے بعد آسودگی کا ایک احساس ضرور ہوتا ہے۔
ش۔خ:آپ پر ایم۔اے ،ایم فِل اور پی ایچ ڈی تک کا کام ہو چکا ہے ۔آپ مطمئن ہیں کہ آپ کو آپ کے شایانِ شان صلہ مل گیا؟
ح۔ق: جتنا کام ہوچکا ہے میری حیثیت سے زیادہ ہو چکا ہے۔مجھ سے جتنا ادبی کام ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی صلاحیت اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے ہوا ہے۔سو میرا ادبی کام کرلینا بجائے خودمیرا صلہ ہے۔ باقی’’ شایانِ شان‘‘کے الفاظ سے اپنی ایک غزل کا شعر یاد آگیا۔وہی عرض کیے دیتا ہوں۔
اپنی اُڑانیں،ساری شانیں،تیرے دَم سے یار!
تیرے ہاتھ ہوائیں ساری،تیرے ہاتھ میں ڈور
ش۔خ:میں نے آپ کی کتب کے مطالعے سے محسوس کیا ہے کہ آپ کی توجہ تمام اصناف ادب پر مرکوز رہتی ہے ۔کیا آپ سب اصناف ادب سے برابر دلچسپی رکھتے ہیں۔یا کسی ایک صنف پر زیادہ توجہ رہتی ہے۔؟
ح۔ق:ساری اصنافِ ادب کو تو میں نے نہیں برتا۔ناول لکھنے کا ارادہ اور اس کا بیشتر مواد ذہن میں ہونے کے باوجود ابھی تک ناول نہیں لکھ سکا۔ڈرامہ،اور بعض نئی ،پرانی شعری اصناف میں بھی کچھ نہیں لکھا۔تاہم جب جب جس صنفِ ادب میں کوئی کام کرنے کی تحریک ہوئی اور توفیق ملی،میں نے لکھا ہے اور ایسی توفیق ملنے پر ہمیشہ خدا کا شکرگزار رہتا ہوں۔پہلی محبت کی طرح غزل پہلی صنف ہے جس میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے لیکن جن اصناف میں بھی لکھتا ہوں دلچسپی کے اعتبارسے کچھ فرق نہیں ان ساروں میں۔
ش۔خ:آپ کی تخلیقات میں ادب،روحانیت اور سائنس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے ۔ان پر اختصار سے روشنی ڈالیں۔
ح۔ق: آپ نے درست محسوس کیا۔ادیب ہونے کے ناطے ادب سے دلچسپی ہونا ہی چاہیے تھی۔ایک روح ہونے کے حوالے سے روحانیت سے تعلق بھی بنتا ہے۔آج کی سائنس جس نے انکشافات و ایجادات کے ایسے زمانے میں پہنچا دیا ہے کہ ایسا لگتا ہے پرانی داستانوں کی طلسماتی دنیا آباد ہو گئی ہے اور ہم اس میں داستانوں کے کرداروں کے معمول کے مطابق چل پھر رہے ہیں۔سو یوںادب،روحانیت اورسائنس سے تعلق کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔پھر میری ابتدائی تربیت میں میرے والدصاحب کی زندگی میں انتہائی تنگدستی کے باوجود بعض کراماتی واقعات کا ہونا،مجھے روحانی تجربات کی طرف مائل کرتا رہاہے۔ڈاکٹر وزیر آغا سے ادبی تعلق قائم ہوا تو ان کے ہاں مجھے ادب،سائنس اور روحانیت کی ایک تکون سی دکھائی دی۔تو یوں ان تینوں دیاروں کا سفر میرے ادبی مزاج کا حصہ بنتا گیا۔
ش۔خ:کسی نے لکھا ہے کہ ہر ادیب صوفی اور درویش ہوتا ہے ۔آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
ح۔ق:میرا خیال ہے کہ ہر ادیب کے اندر ہی نہیں ہر انسان کے اندر ایک صوفی اور درویش ہوتا ہے۔یہ اس انسان پر منحصر ہے کہ وہ کب اس سے ملنے کے لیے وقت نکالتا ہے اور کب اس سے اپنا تعلق مضبوط بناتا ہے یا پھر نہیں بناتا ہے۔چونکہ شاعراور ادیب کو اپنے اندر جھانکنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے اس لیے جس کسی کی اپنے اندر کے صوفی یا درویش سے ملاقات ہوجائے یہ اس کی خوش قسمتی ہے۔پھر اس پر منحصر ہے کہ اس تعلق کو مستحکم کرے یا نہ کرے۔صوفی اور درویش والی بات کی طرح ایک اور بات بھی عام طور پر کہی جاتی ہے کہ شاعر لوگ عاشق مزاج ہوتے ہیں۔یہ تخصیص بھی یکسر غلط ہے۔اگر عاشق مزاجی کے باعث اچھے شاعر بنتے تو مجنوں،رانجھا،مہینوال،پنوں وغیرہ بڑے شاعرہوتے۔یہاں بھی معاملہ دراصل یہ ہے کہ ہر انسان میں چاہنے اور چاہے جانے کی تمنا ہوتی ہے ،ہر انسان میں عشق و محبت کے جذبات ہوتے ہیں۔شاعر اور ادیب بھی اسی طرح عشق ومحبت میں مبتلا ہوتے ہیں جیسے دوسرے انسان۔
ش۔خ:اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کو اپنی کون سی تصنیف سب سے زیادہ پسند ہے تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟
ح۔ق:مجھے اپنی ساری تصانیف پسند ہیں اور میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ کسے کس پر ترجیح دوں۔اپنی ساری تصانیف کو میں دراصل اپنی ایک ہی کتاب سمجھتا ہوں۔ایک کتاب جس میں اضافے ہوتے رہتے ہیں۔
ش۔خ: خان پور،ایبٹ آباد اور اب جرمنی کی زندگی میں کیا فرق ہے؟
ح۔ق:پہلے خان پور میں صحرائی ماحول میں زندگی گزری،پھر ایبٹ آباد کے ٹھنڈے ماحول میں پہنچا۔اور اب جرمنی کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں ہوں۔ہر مقام کی اپنی اہمیت ہے۔
پاکستان میں زیادہ عرصہ تنگ دستی میں زندگی گزری تھی۔یہاں اب بہت زیادہ خوش حالی نہ سہی لیکن پر سکون زندگی گزر رہی ہے۔پاکستان اور جرمنی میں تین بڑے فرق ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں پولیوشن بہت بڑھ گئی ہے جبکہ جرمنی کی آب و ہوا نعمتِ خداوندی ہے۔صفائی جسے ہم نصف ایمان مانتے ہیں،یہاں جرمنی کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یورپ کا سب سے صاف ستھرا ملک ہے۔پاکستان میں صفائی کا حال آپ خود بہتر جانتی ہیں۔دوسرا فرق یہ کہ جرمنی میں فلاحی ریاست کے قوانین لاگو ہیں،اگر کوئی بے روزگار ہے یا کسی جائز مجبوری کے باعث جاب نہیں کرسکتا تو ایسے لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی ،بنیادی تعلیم اور طبی سہولت سب حکومت کے ذمہ ہے۔اور ہر کام از خود ہوتا جاتا ہے۔سماجی سطح پر قوانین کا نفاذ بلا تخصیص ہر اعلیٰ و ادنیٰ کے لیے یکساں ہے۔اس نوعیت کے اور بھی بے شمار فرق ہیں۔اگرچہ اب کچھ عرصہ سے مسلمانوں کے حوالے سے منفی تاثر بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ سے بعض معاشرتی و سیاسی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔اس کے باوجود ابھی تک یہاں کے حالات و معاملات کنٹرول میں ہیں۔
ش۔خ:ادبی اور معاشرتی زندگی میں آپ کو کن کن شخصیات نے متاثر کیا ہے ؟
ح۔ق:سب سے پہلے میرے اباجی اور امی جی کی شخصیات کا اثرہے۔بلکہ میں خود کو انہیں کا پرتو سمجھتا ہوں۔خاندان کے افراد میں دادا جی کو دیکھا تو نہیں لیکن انہیں اَن دیکھی محبت کی طرح جانتا ہوں اور ان سے متاثر ہوں،پھر نانا جی،بے جی،باباجی(تایا)،ماموں ناصر،ان سب کی شخصیات کا مجھ پر اثرہے۔بھائی بہنوں،بیوی اور بچوں کا بھی کسی نہ کسی طور اثر مرتب ہوا ہے۔ادبی زندگی میں سب سے زیادہ ڈاکٹر وزیر آغا سے متاثر ہوں۔ان کے بعد ڈاکٹر انور سدید،جوگندر پال،ڈاکٹر رشید امجد،اکبر حمیدی کے نام لے سکتا ہوں۔
ش۔خ:آپ کے رسالے ’’ جدید ادب ‘‘ نے اردو ادب میں اضافہ کیا ہے اور ’’ ناقابلِ فراموش نمبر ‘‘ بھی شائع کیے ہیں۔مگر آپ نے جدید ادب کو بند کر دیا ،کیوں؟
ح۔ق:جدیدادب کو بند کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ڈاک خرچ بہت زیادہ مہنگا ہو گیا تھا۔رسالے کی اشاعت پر جتنا خرچہ ہوتا تھا،اس کی ترسیل پر اس سے زیادہ لاگت ہو گئی تھی۔سو رسالہ تو میں جیسے تیسے چھاپ کر جاری رکھ سکتا تھا لیکن اس کے ناقابلِ برداشت ڈاک خرچ کی وجہ سے رسالہ بند کرنے میں عافیت محسوس کی۔
ش۔خ:آپ اپنی زندگی کے سفر کا سب سے اہم واقعہ بتائیں اگر بتا سکیں تو۔۔۔؟
ح۔ق:میرے خیال میں میرا اس دنیا میں آنا میری زندگی کے اس سفر کا سب سے اہم واقعہ تھا۔باقی سارے واقعات اس کے بعد ہی آتے ہیں۔ان میں سے کسی ایک کو بیان کرنامجھے مشکل لگ رہا ہے۔جی چاہتا ہے کہ کہ سوئے حجاز،میری محبتیں،کھٹی میٹھی یادیں کم از کم یہ تین کتابیں یہاں درج کردوں۔سو پڑھنے والوں کی سہولت کے لیے اپنی ساری کتابوں کی پی ڈی ایف فائلزکی دستیابی کا ایک لنک یہاں دے دیتا ہوں۔یہاں سے مذکورہ تینوں کتابیں بھی اور دوسری ساری کتابیں بھی آسانی سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔
http://my27books.blogspot.de/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔