یہ 2018. کے نومبر کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے بڑا کرم کیا، اپنے گھر کی مہمانی کی سعادت بخشی ۔ لمبا سفر تھا۔کیلگری سے چار گھنٹے ٹورانٹو۔ ٹورانٹو میں سات گھنٹے کا پڑاو تھا۔ بڑی بیٹی اسی شہر میں ہے، سو یہاں لمبا لے اور( lay over) لے لیا۔ اس کے گھر چلے گئے اور اس کو اور بچوں کو دیکھ کر دل شاد کیا ۔ ٹورانٹو سے جہاز نے اڑان بھری اور بحر اور بر کو الانگتا بادلوں کو چیرتا ہوا چودہ گھنٹے کی طویل تھکا دینے والی پرواز کے بعد سبک انداز میں دبئی کی جھلستی زمین پر اترا گیا ۔ اس کے بعد دبئی سے جدہ مزید ڈھائی گھنٹے کا سفر ۔ تقریبا اکیس گھنٹے تو صرف اڑان تھی، جسم کی ہڈیاں دھائی دے رہی تھیں مگر روح میں عجب سی سر شاری تھی۔
دبئی سے جدہ پہنچے تو گویا گزرے زمانوں میں آ گئے ۔ جیسے آپ ٹائم مشین میں بیٹھ کر 2018 کے بجائے 1970 میں چلے گئے ہوں ۔ جدہ اترے اور یہاں اترتے ہی جو پہلا احساس ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہوتا ہے۔" تسی کون لوگ ہو بھائی " سعودی شہزادے آپ کو کیڑے مکوڑے سے بھی بدتر گردانتے ہیں ۔ منہ میں مسواک لیکر اپنے ہی ٹائم زون میں رہتے ہیں ۔ کیا کہا جاسکتا ہے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں ۔ ویسے بھی چونکہ دبئی ایرپورٹ پر احرام پہن لیا تھا تو منہ تو بڑی بات ہے جی میں بھی برا بھلا کہنے سے اجتناب کیا ۔پھر جدہ سے ٹیکسی لی اور مکہ شریف کی طرف عازم سفر ہوئے ۔ہر گھٹتے کلو میٹر کے ساتھ ساتھ دل کے دھڑکنے کی رفتار بڑھتی جاتی تھی ۔بےچینی سے مکہ گیٹ کا انتظار تھا۔پر وہ تو نظر ہی نہیں آیا! پتہ چلا کہ کہ بھائی ڈرایور شہر سے بالا بالا ہی ہمیں ہماری منزل تک لے آئے ہیں ۔ یہ ائیر بی اینڈ بی تھا۔ نواسے کے ساتھ کی وجہ سے بیٹی نے ہوٹل کے مقابلے میں گھر کو فوقیت دی ۔ اور یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ ہم لوگوں کا سامان جدہ نہیں پہنچا اور اس کی کمپلین بھی ایک الگ ہی لیول کی درد سری تھی۔خیر اس قصے کو چھوڑئے ۔
رات کے بارہ بجے ہم سب عمرے کے لئے روانہ ہوئے۔کعبے کی رونق اللہ اللہ ۔پورے ایک جگ بعد اللہ تعالی نے اس سعادت سے سرفرا کیا تھا ۔الحمداللہ ۔ مدتوں پہلے مانگی گئی دعا کی قبولیت تھی ۔گو کہ پچھلے بارہ سالوں میں بہت تبدیلیاں آ گئی تھیں ۔ کعبہ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے جیسے ماں نے اپنے بچے کو گود میں لینے کے لئے بانہیں واں کر دی ہوں۔ مدت کی بچھڑی پردیسن دکھیا بیٹی میکے آ گئی ہو۔ بس دل چاہتا ہے کہ بچوں کی طرح پیر پٹخ پٹخ کر روئیں اور سارا گلہ شکوہ ،دکھ درد سب کچھ اس سمع وبصیر کو سنا دیں اور کعبہ کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیں۔ اللہ تعالی اگر یہ بےادبی تو معاف کر دیجیئے گا۔
تین دن مکہ شریف میں قیام کے بعد مدینہ منورہ کی روانگی تھی ۔ یہ ایک برکتوں کا سفر تھا۔ راستے میں اس قدر شدید بارش کہ وین روکنی پڑی اور تھوڑا ہی آگے گئے تو زمین باکل خشک، سبحان اللہ کیا قدرت ہے میرے مولا کی۔
مدینہ شریف میں ہوٹل بہت قریب تھا۔ بس لابی سے نکلو اور حرم کے صحن میں قدم رکھ دو۔
مدینہ منورہ میں چار دن کا قیام تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد عورتوں کی زیارت کا وقت تھا ۔ایک دنیا بھاگتی جا رہی تھی ۔ہم اور آپا بھی اس سمندر میں قطرے کی طرح ضم ہو گئے۔ایک دروازے پر دو لڑکیاں کھڑی زور زور سے ملکوں کا نام لے رہیں تھیں کہ ترکی والے فلاں گیٹ پر جائیں، انڈونیشیا والے فلاں دروازے سے ہال میں داخل ہوں،تمام دنیا کے ملکوں کو پکارنے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کا نمبر آیا کہ فلاں نمبر کے ہال میں جاو۔ خیر اس ازدھام کے ساتھ سنبھلتے لڑکھڑا تے مذکورہ ہال تک پہنچے ۔ بے پناہ رش اس پہ طرفہ بےصبری ۔ ہال کا پنکھا بھی بند۔ سانس لینا محال انتظامیہ نے سب سے دور پاکستانیوں کو پھینکا تھا۔ وہاں کی بےچینی اور دھکم پیل اور بدانتظامی میں مجھے سورہ یاسین کی آیت نمبر 59 یاد ائی اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
"اے گناہ گاروں! آج تم الگ ہو جاؤ "
وہاں کھڑے کھڑے مجھے احساس ہوا کہ یہاں حرم کی انتظامیہ نے ملکوں کی بنیاد پر لائین بنوائی ہے۔سب سے دور ہم لوگوں کو پھیک دیا ہے۔
ذرا حشر کا تصور کریں ۔بے پناہ گرمی، کوئی سائبان نہیں ۔ انسان اپنے گناہوں کے بمقدار پسینے میں ڈوبا ہوا۔ پیاس اور تھکن سے نڈھال اپنے انجام سے لرزا و ترساں۔ ایک سراسیمگی کا عالم ۔اپنوں سے بھاگتا ہوا وحشت زدہ انسان۔ پھر ایک فرشتہ منادی کرے گا کہ
اے گناہ گاروں الگ ہو جاؤ ۔
فلاں بن فلاں گناہ گاروں کی قطار میں کھڑے ہو جاؤ ۔اف! کیا عالم ہوگا ۔کیسا الم ناک و عبرت انگیز انجام ہو گا۔ اللہ تعالی اس رسوائی سے اپنی پناہ میں رکھے آمین ۔
سورہ یاسین کی یہ آیت لرزا کے رکھ دیتی ہے۔
یا اللہ حشر میں پردہ رکھ لینا۔ یا ستار ستاری کا معاملہ کرنا۔ آمین ثمہ آمین ۔
یا کریم یا کریم، یا ربلعالمین، یا ربلعالمین بخش دینا مالک۔ آمین ۔