کل رات میرے دیور مقصود کا فون آیا تھا اور اس نے تمہارے انتقال کی خبر دی۔ اب جو جیتے جی میرے لیے معنی نہ رکھتا تھا اس کے انتقال پر کیا ملال!
نہیں باخدا مجھے کوئی دکھ نہیں اتنا بھی نہیں جتنا اخبار میں ایک عام آدمی کی موت کی خبر پڑھ کر ہوتا ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس اطلاع نے پھر سے مجھے میرے اذیت ناک ماضی میں دھکیل دیا۔ وہ ماضی جس کی تابکاریاں میرے دل و ضمیر کے لیے ہلاکت خیز ہیں اور جو مجھے اٹھتے بیٹھتے huant کرتا ہے۔ اتنے سال گرز جانے کے باوجود بھی اکثر ڈراونے خواب کی شکل میں میری راتوں کو بےنور اور رنجور کرتا ہے۔
میری بھی کیا زندگی ہے، پیدا ہوتے ہی ماں مر گئ اور باپ بیوی کے غم میں اس قدر دل گرفتہ ہوئے کہ اولا سے ہی بےگانہ ہو گئے اور پھر تنہائی نے ان کو اتنا کلسایا کہ چار سال کے اندر اندر دوسراہٹ بھی جوڑ لی مگر اس تمام جمع جوڑ میں میں مکمل طور پر تفریق تھی سو رلتی رلاتی اور خالہ سے ہوتی ہواتی انڈیا سے پاکستان ماموں کے متھے پڑی۔ ماموں ٹھہرے سیلر سو ان کے پاؤں میں سدا بھنور ہی رہے انہوں نے مجھے اپنی بیگم نازلی کے حوالے کیا اور حوالے کیا کیا بسرا ہی دیا، بھولے سے بھی مجھ پر دوسری نظر نہ ڈالی۔ میں جھوٹن اترن برتی ہوئی قد نکالتی چلی گئی۔ شاید فطرتاً باغی بھی تھی جب حق نہیں ملا تو جھپٹنے بھی لگی پر کمزور کی کیا گرفت اور کیا ہی جھپٹ۔
ممانی پراؤیٹ اسکول کی پرنسپل تھیں اور میں پیلے اسکول میں پڑھتی تھی جس کی معمولی فیس بھی بھیک کی طرح کئ کئ دن کی یاددہانی کے بعد اچھوتوں کی طرح دی جاتی تھی۔ میں اکثرخالی پیٹ اسکول پہنچ کر میدان میں لگے نل سے پیٹ کی آگ بجھانے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ پتہ نہیں یہ قدرت کی ستم ظریفی تھی یا مہربانی کہ میرے پاس ذہن بھی تھا اور حسن بےمثال بھی۔ میں ہنستی بھی بےتحاشا تھی اور روتی بھی دھاروں دھار بلکہ ہنستے ہوئے بھی میرے آنسو بہتے تھے۔ مجھے یاد ہے میٹرک کے امتحانات کی داخلہ فیس دینی تھی اور ماموں صاحب حسب معمول بحری جہاز پر سمندر سمندر بہتے تھے اور میں یہاں تل تل مرتی جیتی تھی۔ ان دنوں نازلی مامی نے اپنا موڈ اس قدر بگاڑ لیا تھا کہ میری فیس مانگنے کی ہمت ہی نہ پڑتی تھی پر اللہ بھی کیسا بے نیاز ہے اور کیسے نہ کیسے انتظام کرا ہی دیتا ہے۔
رعنا نے میری زرد رنگت اور ڈبڈبائی آنکھوں کا بھید پا لیا اور خاموشی سے میری فیس ادا کر دی۔ جب اس نے ایڈمٹ کارڈ اور ڈیٹ شیٹ میرے ہاتھوں پر رکھی تو شاید پہلی بار میں اس کے گلے لگ کر سر عام روئی تھی ورنہ میرے رونے کی ہمراز تو صرف میری تکیہ اور رات کی سیاہی تھی جو بچپن ہی سے میری ہمراہی اور سہیلی بھی۔ گھر میں جب نازلی مامی کو پتہ چلا کہ مجھے ایڈمٹ کارڈ مل گیا ہے تو انہوں نے قیات ڈھا دی کہ بھیک منگی نے ہم لوگوں کی ناک کٹوا دی، چار لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے جوگے نہیں چھوڑا! لوگ کیا کہیں گے کہ ہم لوگ بھانجی کا خیال نہیں رکھتے؟
ان کی بڑبڑاہٹ دو دن تک جاری رہی مگر کمال کی بات کہ اس بار ماموں خاموش رہے۔ یہ بات کسی عجوبے سے کم نہ تھی بلکہ سچ پوچھو تو معجزہ تھا۔ میٹرک میں میرا رزلٹ شاندار رہا۔ اب ماموں نے ممانی سے چوری چوری میرا جیب خرچ بھی باندھ دیا تھا۔
حیران کن بات یہ کہ میری ساری دوستیں بہت امیر تھیں پر مجھے کبھی بھی اپنی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوا۔ میری حیثیت ہمیشہ گروپ میں شہزادی جیسی ہی رہی، کچھ میں جامہ زیب بھی تھی کہ ململ بھی مجھ پر کمخواب جیسی جچتی ۔ انہی حالات میں میں نے بی۔ اے کر لیا۔
ممانی نے میرے لیے آنے والے ہر اچھے رشتے کو ٹھکرا دیا تھا۔ میں کالج کے زمانوں سے ریڈیو پر بزم طلبہ کے پروگرام میں شرکت کرتی آئی تھی وہیں ریڈیو اسٹیشن پر مجھے ہفتہ وار فرمایشی پروگرام کی میزبانی کی پیشکش ہوئی اور میں نے فوراً قبول کر لی۔
میری لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے تو کئ جوان تھے پر مخلصی سے ہاتھ تھام کر سر کو تحفظ کی ردا سے ڈھکنے والے بہت کم۔ جو تھے بھی ان کی والدہ کے لیے میں نا قابلِ قبول تھی کہ گھر آتی تھی صرف خالی خولی لڑکی۔ جس ساتھ تھی نہ باڑی نہ گاڑی اور نہ میکے کا ٹھاٹ نہ ہی اونچے عہدوں کا سپورٹ سو ایسے خسارے کا سودا بھلا کون کرتا؟
میرے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہ آخر میرا ہو گا کیا؟
ان ہی دنوں مجھے اور میرے ریڈیو فیلو فرحان کو ائیر لائن میں نوکری مل گئی۔ اس نوکری سے زندگی میں پہلی بار مجھے پیسے کی کچھ آسودگی نصیب ہوئی۔ فرحان کا بڑا بھائی نومان دفتر سے واپسی پر فرحان کو پک کرنے آتا تھا۔ اکثر مجھے بھی ڈراپ کر دیتا تھا۔ معمول کی گپ شپ سے ہوتے ہوتے واپسی کے راستے میں کچھ دیر رکھ کر کھانے پینے کا سلسلہ بھے شروع ہو گیا اور چھ سات مہینوں کے بعد نومان نے مجھے پرپوز کر دیا۔ اندھی کیا چاہے دو آنکھ۔ اچھی معقول فیملی تھی۔ نومان بھی خوش شکل و خوش گفتار تھا۔ میں نے اسے ماموں سے ملنے کہا۔ باوجود نازلی مامی کی اگر مگر کے ماموں نے نومان کا رشتہ قبول کر لیا وہ شاید اپنی بیماری سے ڈر گئے تھے اور بہشت میں بہن کے آگے شرمندگی سے بچنا چاہتے تھے۔ شربت کے گلاس پر نکاح ہوا اور میں خالی ہاتھوں ماموں کی دعا کے سہارے نئے آنگن میں بس گئ۔ میری سسرال اگر بہت اچھی نہیں تھی تو بری بھی نہیں تھی۔ یہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ گھر میں ساس، سسر، دیور اور ہم میاں بیوی تھے۔ دو بیاہی نندیں بھی تھیں مگر ان کا آنا جانا کم کم ہی تھا۔ گھر میں پکانے کے لیے اور گھر کے بقیہ کاموں کے لیے دو ملازم تھے سو گھر میں کوئی چخ چخ نہیں تھی۔ ساس اپنے نماز وظیفے میں مشغول اور سسر اخبار اور اسپورٹس چینل کے رسیا۔
شروع کے دو سال بہت اچھے گزرے پھر پیسوں پر جھگڑا شروع ہوا کہ گھر کے خرچے میں تم بھی اپنا حصہ ڈالو سو میں تقریباً اپنی آدھی تنخواہ گھر کی مد میں خرچ کرنے لگی۔ اب نومان گھر سے اور میری ذات سے لاپروا ہونے لگے تھے۔ انہیں دنوں مجھے ماں بننے کی خوش خبری ملی مگر نومان کا مزاج بگڑ گیا کہ اتنی جلدی کیا ہے ماں بننے فقط دو ہی سال تو ہوئے ہیں شادی کو!!
ادھر میری طبیعت گرتی گئ ادھر نومان کے پیر کھلتے گئے اور مجھے مختلف زرائع سے ان کی شہر میں مختلف لڑکیوں کے ساتھ اڑے اڑے پھرنے کی خبریں ملنے لگیں۔ جھگڑے آئے دن کا معمول بننے لگے تھے اور نومان نے اب گھر کے خرچوں سے کلی طور پر ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اسامہ کی پیدائش نے حالات کو قدرے سنبھالا دیا کہ میں میٹرنٹی لیو پر تھی اور ان کے ساتھ ہر جگہ جانے آنے لگی تھی سو مجبوراً نومان کو اپنی بیرونی سرگرمیاں کم کرنی پڑیں۔ اسی کھینچا تانی اور جھگڑے میں اسامہ پانچ سال کا ہو گیا اور اسکول جانے لگا۔ نومان کی طرف سے دوسرا بچہ بالکل نو نو تھا سو دل مار کر اسامہ پر ہی اکتفا کیا ۔
بلڈنگ کا چوکیدار اپنی کسی مجبوری کے سبب کام چھوڑ کر واپس گاؤں جا رہا تھا سو جانے سے پہلے وہ اپنے کسی جانے والے کو اپنی جگہ پر لگا کر گیا۔ نیا چوکیدار عمر رسیدہ تھا اور اکثر اس کے ساتھ ایک پیارا سا چار ساڑھے چار سال کا بچہ ہوتا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ اس کا پوتا ہے۔ میں اسے آفس آتے جاتے دیکھا کرتی تھی اور وہ گلو سا بچہ مجھے بہت پیارا لگتا تھا۔ میں نے اسے اسامہ کے خاصے کپڑے اور کچھ کھلونے دئیے معصوم اسی میں خوش ہو گیا۔ پھر میں نے چوکیدار سے کہا کہ جب اسامہ اسکول سے واپس آ جائے تو تم گل خان کو میرے فلیٹ پر بھیج دیا کرو کہ دونوں بچے ساتھ کھیل لیا کرے گے۔ گھر میں بھی باورچی کو ہدایت دی کہ گل خان جب بھی آئے اسے کھانا ضرور کھلا دینا۔ اسامہ تنہائی کا مارا بچہ گل خان کے ساتھ کھیل کر بہت خوش ہوتا۔
میں جی ہی جی میں سوچ رہی تھی کہ گل خان پانچ سال کا ہو جائے تو اس کا اسکول میں داخلہ کروا دوں۔ مجھے بھی وہ پھول سا خوب صورت بچہ بہت پیارا لگنے لگا تھا اور اس سے انسیت سی ہو گئی تھی۔
اس دن جانے کیوں میری طبیعت بہت بےچین تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ہلکہ بخار بھی تھا اور دل تو گویا حلق میں دھڑک رہا تھا۔ میں گیارہ بجے ہی دفتر سے اٹھ گئی۔ اپارٹمنٹ کے پارکنگ لوٹ میں نومان کی گاڑی دیکھ کر جی اور پریشان ہو گیا کہ اللہ سب خیر رکھے۔ اوپر فلیٹ میں زندگی حسبِ معمول تھی ساس نماز کی چوکی پر اور سسر برآمدے میں اخبار منہ کے آگے کئے ہوئے پڑھنے میں مصروف۔ بیڈ روم خالی تھا، باتھ روم میں جھانکا وہاں بھی نومان نہیں تھے۔ میں پچھلی بالکونی چیک کرنے کے لیے اسامہ کے کمرے کے قریب سے گزری تو مجھے کچھ گھٹی گھٹی سی آوازیں سنائی دی ۔ میں نے بےاختیار کمرے کا دروازہ کھول دیا اور حیرت اور دہشت سے میری آنکھیں پھٹ گئی۔
کاش کاش!! میں نے وہ مکروہ منظر نہ دیکھا ہوتا۔ مجھے دیکھتے ہی گل خان پر نومان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ مڑا تڑا کپڑوں سے بےنیاز بچہ بلکتا ہوا مجھ سے لپٹ گیا۔ میں تو سکتے میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی ایسا لگا جیسے میں ختم ہو گئی ہوں اور ہر احساس اور حس سے عاری اور نومان میرے برابر سے تیزی سے نکلتا چلا گیاا۔
کچھ دیر بعد وہ معصوم رو دھو کر خود ہی چپ ہو گیا۔ میں نے اسے نہلا کر کھانا کھلایا اور ساتھ ہی ٹائیلینول بھی پلا کر اسامہ کے بستر پر لیٹا دیا۔ اسامہ بھی اسکول سے آ چکا تھا وہ گل خان کو سوتا دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ میں نے کہا تم کھانا کھا کر میرے کمرے میں لیٹ جاؤ۔
میرے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کروں کیا؟
غصہ اتنا شدید تھا کہ دل چاہ رہا تھا کہ نومان کو شوٹ کر دوں۔ شام میں چوکیدار گل خان کو لینے آیا تو میں نے ڈرتے ڈرتے اسے چوکیدار کے حوالے کیا۔ وہ غریب پھول سا بچہ کملا گیا تھا۔ میں نے چلتے ہوئے اسے کھلونے اور چاکلیٹس بھی دیں مگر وہ سب بھی اس کی مسکراہٹ لوٹانے میں ناکام تھیں اور مجھے اپنے آپ سے بھی گھن آ رہی تھی کہ میں کیوں نومان کے جرم کو ڈھک رہی ہوں؟
کیوں اس گھناؤنے جرم کی پردہ پوش ہوں؟
دوسری شام نومان بالکل نارمل انداز میں گھر میں داخل ہوا میرے چیخنے چلانے پر ساس سسر بھی کمرے میں آ گئے۔ ساس تو کسی صورت اپنے بیٹے کو مجرم ماننے پر تیار نہ تھیں البتہ سسر خاموش رہے شاید ان کی خاموشی سے شہ پا کر نومان نے چیخ کر کہا کہ اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟
کچھ دے دلا کر چلتا کرو۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا!
کیا کوئی اتنا گرا ہوا اور اس قدر بھی سفاک بھی ہو سکتا ہے؟
تیسرے دن گل خان کی دادی چوکیدار کے ساتھ آئی اور اس نے بہت لعن طعن کی اور رو رو کر بددعائیں بھی دیں۔ میں خاموشی سے سر جھکائے سنتی رہی کہ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ میرے سسر چوکیدار کو بلا کر اپنے کمرے میں لے گئے اور پھر ادھ گھنٹے بعد گل خان کے دادا اور دادی خاموشی سے چلے گئے۔
سچ ہے پیسے میں بڑی طاقت ہے، یہ ظالم بےکسوں کی مجبوریاں بڑی آسانی سے خرید لیتا ہے۔
مجھے نہیں پتہ کتنے میں ڈیل ہوئی اور کیا ڈیل ہوئی؟ مگر مجھے ان سبھوں سے شدید نفرت اور اپنے آپ سے کراہت آ رہی تھی۔ میں نومان کی شکل دیکھنے کی روادر نہ تھی لہذا اسامہ کے کمرے میں منتقل ہو گئ۔ اسامہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر اتنا جان چکا تھا کہ کچھ بہت برا ہوا ہے اور اس کا تعلق گل خان سے ہے۔ دفتر میں بھی مجھ سے خاک کام نہیں ہو رہا تھا اور گھر کاٹنے کو دوڑ رہا تھا سو بہتری اسی میں تھی کہ میں کچھ عرصے کے لیے منظر سے ہٹ جاؤں۔ اسکول میں گرمیوں کی تعطیلات میں بیس دن باقی تھے میں نے اسکول میں اسامہ کی چھٹی کی درخواست دی خود آفس سے ایک ماہ کی چھٹی مع تنخواہ اور ایک ماہ کی چھٹی بغیر تنخواہ کے کل ملا کے دو ماہ کی چھٹیاں لے کر نیویارک شہناز اپنی اسکول کی دوست کے گھر پہنچ گئ۔ میں اگر پاکستان میں رہتی تو میرا یقینی برین ہمیرج ہو جاتا۔
پندرہ دن کے اندر اندر میں نے واپس پاکستان نہ جانے کا اور مستقل طور پر امریکہ میں رہنے کا فیصلہ کر لیا میں کسی بھی قیمت پر اب نومان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی، اس کے نام اور
اس کے تصور سے مجھے ابکائی آتی تھی۔ میں نے اسامہ کا اسکول میں داخلہ کروا دیا تھا اور اپنی اور اسامہ کی امیگریشن فائل کی اور نوکری کی تلاش شروع کر دی۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا گل خان زندگی میں کبھی بھی اس اذیت اور دہشت سے باہر
آ سکے گا؟
یا وہ بھی ایٹم بم کا حادثہ جھیلنے والوں کی طرح" ہیباکوشا" ہے جو جب تک جیتے رہے گے اسی جان کنی کی اذیت میں رہے گے۔
اس بلکتے کراہتے بچے کی بےبس و لاچار تصویر نے پچھلے تینتیس سالوں سے اپنے پنجے میرے ذہن میں گڑا رکھے ہیں اور میں ہر بار اس یاد کے ساتھ مرتی ہوں۔
میں ہمیشہ اپنے آپ کو مجرم سمجھتی ہوں کہ میں نے بروقت پولیس میں رپورٹ درج کیوں نہیں کروائی؟ یہ خلش مجھے چین نہیں لینے دیتی اور یہ ندامت میرے ساتھ ہی میرے قبر میں جائے گی۔
جاپان میں ایٹم بم کے متاثرین کو ہیباکوشا کہا جاتا ہے۔