ھومر کی اوڈیسی ہو یا شیکسپیئر کا رومیو اینڈ جیولٹ، کالی داس کی شکنتلا ہو عربوں کی الف لیلٰی یا رباعیات عمر خیام، ہر ادبی شہ پارہ اپنے ملک کی زبان اور مخصوص ماحول کے پس منظر میں لکھا گیا لیکن جب اس کا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا تو ترجمے کے اعجاز سے عالمی ادب عالیہ کا زندہ جاوید شاہکار بن گیا۔ پنجابی کی مایۂ ناز تصنیف ’’ ہیر وارث شاہ‘‘ بھ اسی زمرے میں آتی ہے اور بلاشبہ اسی اعجاز کی مستحق ہے۔ 1977ء میں جب نیو یارک ٹائمز کے ایک ذیلی ادارے نے بین الاقوامی، لوک ورثے کی چند منتخب کہانیوں کو از سر نو شایع کیا تو پنجاب میں سر رچرڈ کارنیک ٹیمپل نے ’’ دی لچنڈ آف دی پنجاب‘‘ اسی سلسلے میں لکھی اور اس میں ہیر رانجھا کے قصے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے یہ پورا قصہ تو بیان نہیں کیا لیکن اس پر کچھ ایسے تبصرے کئے کہ عالمی سطح پر ایک عجیب و غریب رومانی داستان میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی۔ ان کی حیثیت جدید یورپ میں لارڈ اور ھیولس، عرب میں لیلٰی مجنوں اور ایران میں شیریں فرہاد کی سی ہو گئی۔
جہاں تک ہیر وارث شاہ کے انگریزی ترجمے کا تعلق ہے اسے سب سے پہلے انڈین سول سروس کے مسٹر چارلس فریڈرک اسبورن (-18741919) نے تقریباً ایک سو سال پہلے کیا۔وہ پنجاب کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ جج رہے۔ انہوں نے ’’ دی ایڈونچر آف ہیر اینڈ رانجھا‘‘ کے نا سے براہ راست پنجابی سے انگریزی نثر میں ترجمہ کیا، تاہم اس ترجم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر اسبورن نے جس نسخے سے ترجمہ کیا وہ کوئی بازاری اور ملاوٹی نسخہ تھا۔ ترجمے میں ایسے اشعار بھی شامل ہیں جو ہیر وارث شاہ کے کسی مستند نسخے میں نہیں پائے جاتے۔
جہاں تک ہیر وارث شاہ کے اردو ترجموں کا تعلق ہے کراچی کے ایک بزرگ شاعر علامہ عبدالوحید مرحوم نے 1969ء میں وارث شاہ اکیڈمی کراچی کے لیے ایک ہیر وارث شاہ کا منظوم اردو ترجمہ نطرز مثنوی کیا تھا۔ اس ترجمے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کے سامنے بھی ہیر وارث شاہ کا کوئی بازاری نسخہ شامل تھا۔ انہوں نے رانجھے کے ہاتھوں شیر کو ہلاک کرنے کا بھی ذکر کیا ہے حالانکہ ماہرین ہیر وارث شاہ جانتے ہیں کہ شیر کو ہلاک کرنے والا بندہ حافظ شاہ جہاں مقبل کی ہیر کا ہے جو کہ لالچی ناشروں نے ہیر وارث شاہ میں شامل کر دیا تھا۔ بہر حال علامہ مرحوم کی یہ محنت قابل داد ہے کہ انہوں نے 8 ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہیر وارث شاہ پر مبنی یا اس سے ماخوذ مثنوی تصنیف کر کے غیر پنجابی قارئین کو مستفید کیا۔ بہر ھال ہیر وارث شاہ کے دستیاب منظوم تراجم میں اسے پہلا ترجمہ ہونے کا شرف ضرور حاصل ہے۔
جہاں تک ہیر وارث شاہ کے حقیقی نسخوں کا تعلق ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ مسٔلہ آج بھی بحث و مباحثہ کا موضوع ہے۔ تاہم اپنی کتاب ’’ہیر وارث شاہ‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ کرتے وقت مجھے بعض دلچسپ حقائق کا پتہ چلا جو قارئین کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کراچی کی نیشنل میوزیم لائبریری میں جو کتابت شدہ نسخہ رکھا ہوا ہے اس پر 1237 ہجری یعنی ہیر وارث شاہ کی تکمیل کے 57 سال بعد کا سن کتابت تحریر ہے۔ اس کے علاوہ ہیر وارث شاہ کے دور کے کتابت شدہ نسخے پنجاب پبلک لائبریری لاہور کے علاوہ دہلی، امرتسر، کراچی، ملتان، بہاولپور، برٹش میوزیم لائبریری اور انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہیں۔ اسی طرح لائبریری آف کانگرس واشنگٹن ڈی سی، پرنسٹن یونیورسٹی لائبریری نیو جرسی اور کئی دوسری لائبریریوں میں قدیم قلمی نسخوں کے حوالے سے ہیر وارث شاہ کے قلمی اور کتابت شدہ نسخے موجود ہیں۔ ان تمام نسخوں کی چھا پھٹک کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخز کیا ہے کہ 1916ء بکرمی، میں کرپارام کا کتابت کردہ قلمی نسکہ جو کہ اس وقت پنجاب پبلک لائبریری میں موجود ہے مکمل اور صحیح ترین نسخہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ نسخہ ڈیڑھ سو برس سے پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں ہر قسم کی دستبرد سے محفوظ ہے۔ نسخے کا مالک دیوان ہردیو سنگھ، سکھ عہد کا ایک مقتدر وزیر تھا اور اس کی پہنچ نسخے کے کاتب تک ہو سکتی تھی جو اگر وارث شاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں تو اس کے قریب ضرور تھا۔ اس نسخے کو نقل کرنے والا کرپا رام، حافظ آباد کا رہنے والا تھا جو وارث شاہ کے وطن جنڈیالہ شیر خان کے قریب واقع تھا۔ کاتب وارث شاہ کی زبان سے مکمل واقف تھا اور اس لیے اس میں کتابت کی غلطیاں بھی بہت کم ہیں۔ اس نسخے کے آخر میں لکھا ہے، ’’ یہ کتاب کرپا رام نے دیوان ہردیو سنگھ کے لیے لکھی۔‘‘ جنتری کی رو سے یہ تاریخ اپریل 1859ء میں پڑتی ہے۔ میر رائے میں ہیر وارث شاہ کا یہ صحیح ترین قلمی نسخہ ہے اور الحاقی کلام سے پاک ہے۔
اس موقع پر یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ وارث شاہ کے کلام کے ترجمے کو مغربی ممالک مین عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ میں نے امریکہ اور برطانیہ اور ساری دنیا میں گھوم کر یہ محسوس کیا ہے کہ ادب عالیہ کے شائقین چاہے کسی ملک کے باسی ہوں انہں اس قسم کی روائتی ادبی رومانوی داستانوں سے بہت دلچسپی ہے اور ہیر وارث شاہ کا قصہ تو ایسا ہے جو عالمی ادب میں ایک نمایاں مقام کا مستحق ہے۔