’’غیر موجود حقائق کی دریافت اور موجود حقائق کا از سرنو جائزہ‘‘ انسان کی سر شت میں داخل ہے اور اسی کا نام تحقیق ہے۔ لیکن اس کے لئے متعلقہ موضوع میں دلچسپی کا ہونا اولین شرط ہے۔دوسری شرط ہے ضروری مواد تک رسائی بہم پہنچانا۔اس کے بغیر کا میابی کے ساتھ تحقیق کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔
مواد کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے:
(۱)اولین(Primery)اور ثانوی(Secondary)
(۲)داخلی وخارجی
ان دونوں طرح کے مواد کی فراہمی کے اپنے مخصوص مقامات ہیں اور ہر ایک کے اپنے تقاضے ہیں،جو الگ الگ طرح کے مسائل کا سامنا کرنے پر محقق کو مجبور کرتے ہیںاور اگر میدانِ کار ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک ہو اور معاملہ اردو تحقیق کا ہو تو مسائل ومشکلات کا دائرہ اور بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ تحقیق کے لئے ہمارے یہاں کی زمین ابھی ہموار نہیں ہے اور اسے ہموار ہونے میں شاید اور کئی دہائیاں لگ جائیں۔ لائبریری ریسرچ کی اگربات کی جائے تو تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کو احساس ہوگا کہ ہمارے ملک کی بیشتر لائبریریاں سائنٹفک اور جدید اصولوں کے معیار پر کھری نہیں اترتیں۔جس کا خمیازہ بالآخر محقق کو ہی اٹھاناپڑتا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے تحقیق کے دورانیہ کی طوالت کے ساتھ ساتھ محقق کو ذہنی آزمائشوں کے دور سے بھی گذرنا پڑتا ہے۔لائبریری ریسرچ کے تحت کتابیں، رسائل وجرائد اور متعلقہ مضامین ہی اہم ماخذ کے بطور تسلیم کئے جاتے ہیں اس لیے جب ان مآخذتک سبک رسائی کاموقع ایک محقق کو نہیں ملتا تو وہ غیر ضروری آزمائشوں کا شکار ہو تا ہے۔نتیجے میں ان کے ذریعے دیئے گئے آؤٹ پٹ ) (outputکاتنا سب دیگر ترقی یافتہ ممالک کی بہ نسبت انتہائی کم ہوتا ہے۔
اسی طرح لائبریریوں میں دستیاب کتب کے مکمل اشاریے کا فقدان ایک محقق کولائبریری کی گرد چھاننے پر مجبور کردیتا ہے۔بعض دفعہ خود لائبریرین کو علم نہیں ہوتا کہ کون سی کتابیں ان کی لائبریری میں موجودہیں اور کون نہیں ۔ جس کی وجہ سے ایک محقق کو ادھورے وناقص کیٹلاگ اور رجسٹر کی ورق گردانی کے بعد الماریوں میں مطلوبہ کتب کی تلاش میںاپنا وقت صرف کرنا پڑتا ہے،عملوں کی کمی کی شکار لائبریریوں میں تو بنیادی اندراج تک نہیں ہوتا۔کیٹلاگنگ اور آن لائن کیٹلاگنگ کی باتیں تو ایسے میں دور کی کوڑی ہی لگتی ہیں۔ جبکہ ان مآخذ تک آن لائن رسائی ایک محقق کے کام کو کس قدر آسان بنا دے گی، اس کا تصور ایک ترقی پذیر ملک میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا۔
اگر مواد کے مآخذ کی بات کی جائے تو اس کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
(الف)مطبوعہ (ب)غیر مطبوعہ یعنی قلمی یا خطی
مطبوعہ مواد بنیادی طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:
(۱)حوالہ جاتی کتب(جیسے انسائیکلو پیڈیا،لغات، اشاریہ اور کتابوں کی ڈائرکٹری وغیرہ)
(۲)عام کتب۔
ہمارے یہاں سب سے بڑا مسئلہ حوالہ جاتی کتب کو لے کریہ ہے کہ انسائیکلو پیڈیا کے نام پرقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع’’جامع اردو انسائیکلو پیڈیا‘‘اور پنجاب یونیورسٹی لاہور،پاکستان سے چھپی ’’اردودائرۃ المعارف الاسلامیہ‘‘کے علاوہ کوئی معیاری انسائیکلوپیڈیا دستیاب نہیں ہے اور یہ دو دستیاب تو ہیں لیکن اس کے تازہ ایڈیشن نکلے ایک عرصہ ہوگیا،جبکہ ’’انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا‘‘ جو صرف انگریزی کاہی نہیں بلکہ تمام ہی زبانوں کے ا نسائیکلو پیڈیازمیں سب سے زیادہ معتبر اور مستند سمجھا جاتا ہے، وہ ہر سال اپ ڈیٹ update) ( ہوتا ہے۔دوسری پریشانی جو ہمارے یہاں کے ان انسائیکلوپیڈیاز کے ساتھ جڑی ہوئی ہے،وہ ہے آن لائن عدم دستیابی کا۔آج جبکہ ہر چیز آن لائن ہورہی ہے ۔ہم سائبر ورلڈ میں جینے کے خوشکن اور دلفریب نعروں سے مسحور ہوتے جارہے ہیں، ایسے میں انسائیکلو پیڈیا جیسے اہم اور معتبر مآخذ کا آن لائن دستیاب نہ ہونا،ہمیں کتنا پیچھے چھوڑے جارہاہے،اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح مستند ترین لغات کی کمی سے بھی اردو محققین کو گزرنا پڑتا ہے۔ کسی ایک لفظ کے صحیح تلفظ اور بنیادی مطالب کی رسائی کے لئے کئی کئی لغات کی طرف رجو ع کرنے کے باوجود کامیابی نہیں ملتی۔فرہنگ آصفیہ، نور اللغات اور مہذب اللغات جیسے معتبر لغات کے تازہ ترین ایڈیشن کی سن اشاعت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے لغات کتنے ادھورے ہیں۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے لغات کی ہرتازہ اشاعت بین الاقوامی خبر بنتی ہے۔کیونکہ کس زبان سے کتنے الفاظ انگریزی نے اور دیگر زبانوں نے قبول کئے،ایسی خبریں سبھوں کی دلچسپی کی باعث ہوتی ہیں۔لیکن اردو لغت کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ترقی یافتہ ممالک کی لائبریریاں ذاتی طور سے پابندی کے ساتھ ہر سال اپنے یہاں دستیاب کتابوں کی اشاریہ سازی کرتی ہیں اور آن لائن سہولیات فراہم کرنے کے باوجود اس کی طباعت کے خرچ کو خوشی خوشی قبول کرتی ہیں۔کیونکہ وہ ان سب چیزوں کی اہمیت کو سمجھ چکی ہیں۔ ایسے میں اگر راقم کا احساس ہے کہ وطن عزیز میں اردوتحقیق کی زمین کو ہموار ہونے میں کئی دہائیوں کی ضرورت ہو گی تو اسے غلط نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔انسائیکلو پیڈیا ہو کہ لغات کی تیار ی یا اشاریہ سازی،یہ فردواحد کا تو کام ہے نہیں، ایسی چیزیں اپنی تیاری میں ٹیم ورک کا تقاضہ کرتی ہیں۔جبکہ ہمارے ہم وطن، اجتماعی طور سے کسی کام کو انجام دینے کے لیے اپنے مزاج کو تیار کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی عدم توجہی کے باعث محقق کی پریشانیوں میں کئی گنااضافہ ہو جاتا ہے ۔گیان چند جین نے بجا کہا ہے کہ’’انگریزی اور اردو میں تحقیقی اور حوالہ جاتی کتابوں اور دوسری سہولتوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا امریکہ اور ہندوستان کے اوسط معیار زندگی میں‘‘۔(تحقیق کافن ص ۱۶۸،اتر پردیش اردواکادمی۲۰۰۹)ظاہر ہے اس رویے کو جتنی جلد ممکن ہو ختم ہوجانا چاہئے۔اسی میں ادب وتحقیق کا مفاد مضمر ہے۔
حوالہ جاتی کتب کے بعد عام کتب کی بات کی جائے تویہاں بھی ایک محقق کو معیاری موضوعاتی موادکی کمی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔سہل پسندی کی وجہ سے سالہا سال تک کتابیں ہمارے یہاں چھپتی رہی ہیں اور اب بھی چھپ رہی ہیں جن کا مواد تحقیقی معیار پر کھرے نہیں اترتے۔سنی سنائی باتوں کو نقل کردینے کی عادت ہمارے یہاں کے مصنفین کی بہت پرانی ہے۔’’آب حیات‘‘کے مولانا محمد حسین آزاد، نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر مختارالدین احمد جیسی برگزیدہ اور تحقیقی شخصیات کے یہاں بھی اس طرح کی بے شمار کوتاہیوں کی نشاندہی کی جا چکی ہیں۔ ان کے کتنے ہی نظریات اور رائیں اب بالکل باطل قرار پاچکی ہیں۔ ایسے میں ایک محقق کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ انہیں مواد کے ردو قبول میں حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ظاہر ہے مسائل میں اضافے ہوتے ہیں۔
عا م کتب کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ طباعت کے زیور سے آراستہ ہونے کے با وجود ایک قاری کی رسا ئی ان تک مشکل سے ہو پاتی ہے۔کیوں کہ اردو ناشرین جدید مارکیٹنگ کے اصولوں کو اب تک اپنا نہیں سکے ہیں۔ دیگر زبانوں کے ناشرین کی طرح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کتاب کی ہارڈ کاپی کے ساتھ ساتھ وہ سافٹ کاپی کی تجارت کو بھی اپنا ئیں۔اس سے جہاںقاری کے لیے اپنے مطلوبہ مواد تک جلد رسائی ممکن ہوپاتی وہیںکاغذ کی بچت اور طباعت کے خرچ کے کم ہونے سے ناشر اور قاری دونوں کی جیب پر بوجھ بھی کم پڑتا اور علم کو فروغ حاصل ہو پاتا۔ ساتھ ہی کاغذ کی تیاری میں ہزاروں پیڑ کٹنے سے بچ جاتے جو ظاہر ہے ما حولیات کے تحفظ کی راہ کو آسان بناتا۔ہارڈ کاپی کی فروخت کے روایتی طریقے کو ہی اردو ناشرین اپنا ئے ہوئے ہیں۔ یعنی کتب فروش کی دکا ن پرجسمانی طور سے لازما پہنا جائے ۔ اگر کوئی ناشر بہت فراخدل ہے تو وہ وی پی پارسل بھیجنے پرآمادہ ہو جاتا ہے بس ۔امیزون ، فلپ کارٹ،پے ٹی ایم جیسے آن لائن مارکیٹنگ پلیٹ فارم کے ذریعے اردو ناشرین کب اپنی مطبوعات کو فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کریں گے ، یہ کہنا مشکل ہے۔اگر کسی وجہ سے وہ ان پلیٹ فارم کو اپنانا نہیں چاہتے ہیںتو نہ اپنائیں۔لیکن کم از کم اپنی ویب سائٹ کو ڈیو لپ کرکے اس کے ذریعے آن لائن فروخت کرنے کا سلسلہ تو شروع کر سکتے ہیں۔جس میں ادائیگی بینک اکائونٹ سے ہو جائے لیکن اتنا بھی نہیں ہو سکا۔ مثال کے طور پہ ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس اور مکتبہ جامعہ جیسے مؤقر ناشرین کے تازہ کیٹلاگ بھی آن لائن دستیاب نہیں ہیں ۔پھر بھی شکایت ہے کہ اردو کتابیں بکتی نہیں ہیں۔مارکیٹنگ کے جدیدطریقے آج نہیں توکل ہما رے ناشرین کو اپنانے ہی پڑیں گے۔ورنہ ان کے ادارے کو بند ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پی ڈی ایف یا سافٹ کاپی کا نہ ملنااردو تحقیق کی رفتا ر کو بیحد سست کیے ہوا ہے۔بلا شبہ قومی اردو کونسل نے اپنی چند مطبوعات کی مفت ڈاؤن لوڈنگ کی سہولت دے رکھی ہے۔لیکن اندازہ لگا ئیے کہ کونسل کے ڈیڑ ھ ہزار ٹائٹل میں اس کا تناسب کیا ہے؟ کیا چیز مانع ہے کونسل کو ساری مطبو عات کی سافٹ کاپی مہیاکرانے میں؟ قوت فیصلہ میں کمی یا ذہنی پستی ،اس کے سوا کیا سبب ہو سکتا ہے ؟ ریختہ فاؤنڈیشن نے تقریبا چالیس ہزار کتب کو اپنی ویب سائٹ پر ضرور اپلوڈ کیا ہے لیکن ڈاؤن لوڈنگ کی سہولت نہ ہونے سے وہ بھی بہت زیادہ معاون ثابت نہیں ہو رہی ہیں ۔ اردو چینل نے اس سلسلے کو شروع کیا ہے اس کا خیر مقدم کیا جانا چائیے ۔لیکن وسائل کے فقدان کے سبب ان کی اپلوڈ کردہ کتب کو انگلیوں میں گنا جا سکتا ہے۔وہ تو بھلا ہو پاکستان کی نو جوان نسل کے چند باہمت افراد کا کہ وہ ہندوستانی مطبوعات کو ممکنہ حد تک منگوا رہے ہیں اور اسے فری ڈاؤن لوڈ کے لیے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر رہے ہیں ۔ جس سے ہندوستانی محققین کا کام آسان سے آسان تر ہو رہا ہے۔معلوم نہیں یہی کام قومی اردو کونسل ،انجمن ترقی اردو، مکتبہ جامعہ ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس اور ریختہ فاؤنڈیشن جیسے ادارے کب انجام دیں گے۔
اب بات کی جائے غیر مطبوعہ یعنی قلمی یا خطی کتابوں کی،جسے ایک لفظ میں مخطوطہ بھی کہا جاتا ہے۔جب کسی موضوع پر مطلوبہ مواد کی فراہمی کا انحصار انہی مخطوطات پر ہوجاتا ہے تو ان کی اہمیت دو بالا ہوجاتی ہے۔ یا پھر کتاب اشاعت پذیر تو ہوئی لیکن اس کے مختلف ایڈیشنوں کے مابین باہم تضاد پایا جاتا ہو تو بھی مخطوطوں کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔کیونکہ ان کی طرف رجوع کئے بغیر مسئلے کی عقدہ کشائی نا ممکن ہوجاتی ہے۔کیونکہ ہمارے دورِ غلامی میں ہماری علمی وراثتوں کی منتقلی مختلف حیلے بہانوں سے یورپ کی لائبریریوں میں ہوتی گئی تھیں۔ اقبال نے ہماری ان ہی وراثتوں کو یوروپ کی لائبریریوں میں دیکھ کر کہا تھا: ؎
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھے ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
ایسے میں ہر محقق کے لئے یوروپ اور امریکہ جا کر ان کتابوں کے اصل نسخوں سے استفادہ ممکن نہیں ہوتا، اس طرح کے معاملات میں ہماری وزارت خارجہ اور کلچرل ریلیشن سے متعلق افسران انتہا ئی غیر معاون واقع ہو ئے ہیں۔ حالانکہ ہر معاملے میں ایسا کہنا درست نہ ہوگا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہر محقق کے لئے ریسرچ ورک کے لئے پروانے کا حصول بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ظاہر ہے ہماری حکومت کے ذمہ دارافسران کو اس طرح کے معاملات میں اپنا دل کشادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر منظوری حاصل بھی ہوجائے تو مطلوبہ مخطوطہ کس ملک کی کس لائبریری میں ہے ؟اس کا پتہ لگانا جوئے شیر لا نے کے مترادف ہے۔کیونکہ گیان چند کی تحقیق کے مطابق ہمارے یہاں سے منتقل آدھے سے زیادہ مخطوطے اب بھی کیٹلاگنگ کے منتظر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہماری حکومتوں کو گمشدہ نوادرات کے ساتھ ساتھ مخطوطات کی گھر واپسی کی مہم کو بھی تیز کرنا چاہئے اور حقداروں کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن شاید اس طرح کے اچھے دن کے لئے ہمیں مزید چند دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے گا۔
پھر جو مخطوطے ہندوستان میں ابھی بھی موجود ہیں، ملک بھر میں بکھرے ہونے کی وجہ سے ان تک رسائی بھی آسان نہیں ،بلا شبہ رضالائبریری رام پور، خدا بخش لائبریری پٹنہ، انجمن ترقی اردو ہندی لائبریری دہلی، مسلم یونیورسٹی لا ئبریری علی گڑھ، گورنمنٹ اور ینٹل مینوا سکریٹ لائبریری حید رآباد، سالار جنگ میوزیم لائبریری حیدرآباد،ادارہ دبیات اردو لائبریری حید رآباد ،عثمانیہ یونیورسٹی لائبریری ،انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹیٹوٹ بمبئی، جامع مسجد بمبئی اورنیشنل لائبریری کلکتہ وغیرہ میں مخطوطات کا ایک قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے،لیکن یہ اس قدر بکھرے ہو ئے اور بے ترتیب ہیں کہ اس سے استفادہ عام حالات میں مشکل ہے۔یہاں موجود مخطوطات میں سے بیشتر کا اب تک مائکروفلمز بھی تیار نہیںہوپا ئی ہے، جس سے اس کے رکھ رکھائو اورقابل استعمال ہونے کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ابھی بھی اس وسیع وعریض ملک کے دو ردراز اور مجہول مقامات پر مجہول مالکوں یعنی راجے رجواڑوں ، پنڈتوں، امراء اور اہل ثروت کے وارثین کی نجی لائبریریوں میں مخطوطات کے ذخیرے بکھرے ہو ئے ہیں، جنہیں ان کے مالکان فروخت کرنے پر آمادہ بھی ہیں لیکن خریدار کی پہنچ ان تک اور ان کی خریدار تک پہنچ نہیں ہو پارہی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ بیش بہا سرمایہ لاپروائی اور بے توجہی کے باعث ضائع ہوتا جا رہا ہے، ان مخطوطات کا علم کسی کو نہیں۔ گیان چند جین نے لکھا ہے کہ بنارس کی ’’کاشی ناگری پر چارنی سبھا ‘‘نام کا ایک ادارہ ۱۹۲۳سے ایک اسکیم چلا رہا ہے کہ اس کے علم دوست اور ایثار پسندریسرچ اسکالر ملک بھر میں نکل جاتے ہیں اور جگہ جگہ نجی کتب خانوں کے مخطوطات کو کھوج کر ان کی وضاحتی فہرست بناتے ہیں، ان اسکالروں کو اسّی کی دہا ئی میں ۷۵روپئے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی، یہ کہیں مندروں یا دھرم شالائوں میں ٹھہر جا تے ہیں،روکھا سوکھا کھاتے ہیںاور مخطوطات کا سراغ لگا تے ہیں۔ ان کے جمع کئے ہو ئے مواد سے ناگری پر چارنی سبھا ہر تین سال میں کتابی شکل میں کھوج رپورٹ شائع کرتی ہے جو ان مخطوطات کی وضاحتی فہرست ہو تی ہے۔ گیان چند جین پوچھتے ہیں کہ کیا اردو میں بھی ایسا ممکن ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں نئے اسکالر اتنی اہلیت نہیں رکھتے اور پختہ کار محقق اتنی جفا کشی کے ساتھ ملک نوردی کے لئے آمادہ نہیں ہوسکتے۔ حقیر کے نزدیک ۲۰۱۸کی جفا کش اور بلند بانگ اردو دنیا کی طرف سے گیان چند جین کے خیالات کو غلط ٹھہرایا جانا باقی ہے۔
مخطوطات کے بعد اگر رسائل وجرائد کی بات کریں تو یہاں بھی مطلوبہ مواد تک رسائی کے لئے تقریباً یکساں پریشانیوںکا سامنا ایک محقق کو کرنا پڑتا ہے۔ اشاریہ سازی، مائکروفلمز اور آن لائن ایڈیشن کی مغربی روایت کو اہل اردو خال خال ہی اپناتے ہیں۔اس لئے یہاں پر بھی وہ اپنا قیمتی وقت مطلوبہ مواد تک پہنچنے میںصرف کرتا ہے اور ذہنی پراگندگی کے دردناک مرحلے سے بھی گذرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ان سب کے علاوہ مسودے، ڈائریاں، میونسپل رجسٹر، اسکول رجسٹر، مصنف کے منتشر کاغذات، خطوط،تاریخی دستاویزات ،قانونی دستاویزات بشمول مقدمے کی مِسَل ،وصیت نامے، بیع نامے، زائچے( جنم پتری) ،درس گاہوں میں داخلے اور امتحانات کے فارم، ملازمت سے متعلق رکارڈ، ان کم ٹیکس رکارڈ، طبی کارڈ، پاسپورٹ ،راشن کارڈاور ڈرائیونگ لائسنس بھی حقائق تک پہنچنے کے معتبر ذرائع ہو تے ہیں ۔لیکن شاید کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب کسی مصنف کے وارثین نے ان کے قیمتی مخطوطات کی حفاظت میں بخالت سے کام لیاہو تو ان چیزوں کی حفاظت میں ان کی دلچسپی کس قدر رہی ہوگی، یہ اظہر من الشمس ہے۔لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ اکیسویں صدی کے مصنفین ڈیجیٹل دنیا سے برابر جڑرہے ہیں، جس سے ان کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیز یں بھی آن لائن محفوظ ہورہی ہیں۔ مستقبل کے محقق کو ان سے متعلق تحقیقات میں کم سے کم پریشانیوں کا سامنا کرناپڑے گا۔
ملاقات ( انٹرویو) اور مراسلت کے ذریعہ استفسارکو بھی ہر دور میں معلومات کی فراہمی کے ایک معتبر ذریعہ کے طور پر تسلیم کیاگیا ہے۔لیکن ان ذرائع کے بھی اپنے حدود ہیں۔ ملاقات کے معاملے میں سب سے بڑی پریشانی وقت کے تعین میں ہو تی ہے۔مصنف اور محقق دونوں بیک وقت کب فارغ ہیں کہ باضابطہ ملاقات ممکن ہو سکے، یہ بڑا صبر آزماہوتا ہے۔ پہلے تو لوگ ملنے اور اپنی باتیں ریکارڈرکے سامنے کہنے سے ہی کتراتے ہیںاور اگر تیار بھی ہو ئے تو پھر گفتگو میں فطری انداز کے بجائے تصنع کا رنگ زیا دہ ہوتا ہے ۔ مراسلت میںبھی لوگ ٹالنے کی روش کو ہی زیادہ اپنا تے ہیں۔ جیسے ایک بار قاضی عبدالودود صاحب سے جب جموں کے ڈاکٹر عابد پیشاوی نے گذارش کی کہ ابن انشاء سے متعلق آپ کے علم میں جو کچھ ہے ، آپ ہم سے شیئر کریں تو قاضی صاحب نے صاف جواب دیا کہ ’’اس پر خود میرا لکھنے کا ارادہ ہے، جو کچھ میں جانتا ہوں، آپ کو کیوں بتائوں‘‘؟اس سے ظاہر ہے کہ ایک محقق کے لیے مراسلت پر تکیہ کئے بیٹھے رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
سادہ قبروں، مقبروں، گنبدوں ،دروازوں اور دیواروں پر نصب لوح بھی بعض دفعہ قابل ذکر اور معتبر مواد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن دوردراز کا سفر اور قبردر قبر جنگل جھاڑی کے پیچھے قبرستان تک کا سفر ظاہر ہے ایک محقق کے لئے صبر آزماثابت ہوسکتا ہے، لیکن یہ ایک کار آمد طریقہ ہے۔ منٹو کی قبر پر جو کتبہ تحریر ہے، اس سے منٹوکی تاریخ پیدا ئش ، تاریخ وفات اور اس کے ذہنی پرواز کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم ہو تی ہیں، جو اس نے خود تحریر کیا تھا۔ اگر منٹوکی ساری تخلیقات اور اس پر لکھی گئی کتابیں دستبرد ہوجا ئیں پھر بھی یہی کتبہ منٹوکو زندہ رکھے گا۔ملاحظہ فرمائیں:
تاریخ پیدا ئش: ۱۱/مئی ۱۹۱۱ء
یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے، اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے سارے اسرارورموز دفن ہیں، وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا؟
سعادت حسن منٹو۔۱۸/اگست ۱۹۵۴ء
تاریخ وفات: ۱۸/جنوری ۱۹۵۵ء
الغرض موضوع کے انتخاب سے لے کر مواد کی فراہمی کے بعد اس کے منظر عام پر آنے تک کئی صبر آزما مواقع آتے ہیں جن کاایک محقق کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے اگر قاضی عبدالودود صاحب نے کہا کہ ’’تحقیق خون تھوکنے کے مترادف ہے، جوخون تھوک سکے، وہی تحقیق کی رہ گذر میں آئے‘‘تو غلط نہیں کہا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو تحقیق کی راہ انتہائی کانٹوں بھری ہے لیکن اپنی زبان کو عالمی ادب میں ایک بلند مقام پر دیکھنے کی خواہش محقق کو ہر مرحلے پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب دیتی ہے اور وہ ہر مشکل کو آسان بناکر اپنے سفر کو منزل تک پہنچاکر ہی دم لیتا ہے ۔ ایسے جانبازمحققین کو سلام۔
حوالہ جات:
۱۔تحقیق کا فن : گیان چند جین اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ۲۰۰۹
۲۔مبادیات تحقیق : عبدالرزاق قریشی ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی ۲۰۱۳
۳۔ادبی تحقیق ،مسائل اور تجزیہ:رشید حسن خاں اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ۲۰۰۵
۴۔متنی تنقید : خلیق انجم انجمن ترقی اردو ہند،دہلی ۲۰۰۶
۵۔اصول تحقیق وترتیب متن: ڈاکٹر تنویر احمد علوی ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی ۲۰۱۳
۶۔اردو میں لسانی تحقیق : پروفیسر عبدالستار دلوی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ۲۰۱۵
۷۔قاضی عبدالودود ( خاکہ): علی احمد فاطمی پیش کردہ دوروزہ جشن اردو سیمینار، پٹنہ ۲۰۱۵
۸۔آزادی سے قبل اردو تحقیق :ڈاکٹر محمد اکمل ایم آر پبلیکیشنز،دہلی ۲۰۱۳