نا بلخ نہ بخارے
جو سُکھ چھجو دے چوبارے
بقول پران نوائل یہ کہاوت لاہور میں موجود چھجو بھگت کے چوبارے کے متعلق ہے. چھجو بھگت کی پیدائش سے متعلق کوئ معلومات موجود نہیں البتہ چھجو بھگت کا تعلق جہانگیر بادشاہ کے دور سے ہے. سید لطیف نے آپ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے ” لاہور کا رہنے والا تھا. ذات کا بھاٹیہ تھا. وہ ایک صراف تھا لیکن اسے فقیروں کی صحبت سے بڑی رغبت تھی. آخرکار دنیا سے قطع تعلق کرنے کے بعد اس نے بقیہ زندگی کو عبادت و ریاضت کے لیے وقف کردیا “. بزم اردو کی مرتب کردہ لاہور گائڈ میں درج ہے کہ آپ کی زندگی حضرت میاں میر,حضرت شاہ بلاول اور حضرت میاں وڈا کے فیض صحبت سے بدلی. آپ کی ان بزرگوں سے گہری دوستی تھی. چھجو بھگت سے بہت سی کرامات منسوب ہیں جن کی تفصیل تحقیقات چشتی میں درج ہے. مثلاً ایک مرتبہ مغل درباری آپ کے پاس اشرفیاں پرکھوانے آیا. اس کی گنتی شدہ اشرفیوں میں سے ایک اشرفی اسکی بیوی نے چُرا لی تھی اس نے اس کمی کا الزام آپ پر لگایا اور آپ کو چابک رسید کیے. گھر پہنچنے پر اسکو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی کو غیب سے چابک پڑ رہے ہیں تب اس نے جانا کہ چھجو جی, صَاحِب کَمال ہیں. ایک مرتبہ آپ نے ایک مجبور و بے کس عورت کو کھوٹے سکے کے کھرے دام دیے تو بازار کے لوگوں نے آپ کا مذاق اڑایا مگر جب انہوں نے سکہ دیکھا تو وہ کھرے سکہ میں بدل چکا تھا. اسی طرح معروف ہے کہ آپ نے ایک عورت کو گنگا کی سیر کروائ یا گنگا جاری کی.
کہا جاتا ہے کہ چھجو بھگت کی موت واقع نہیں ہوئ بلکہ وہ غائب ہوگے. نور احمد چشتی کا بیان ہے ” ایک روز بتاریخ نوی ودی وہ اپنے چوبارہ میں چلے گے اور دروازہ بند کرلیا اور وہاں ہی سما گے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کہاں گئے اور سال وفات چھجو صاحب کا سمت بکرما جیتی سولہ سو چھیانوے مطابق سن ایک ہزار باون ہجری ہے”. مگر چشتی صاحب کا ہی بیان ہے “چھجو صاحب کے گدی نشین کے بقول آپ بعد شاہجہان بادشاہ زندہ تھے”
سید لطیف نے سن وفات 1696 سمبت 1610ء درج کی ہے. ذیادہ تر کتب میں سن وفات 1052ھ درج ہے لیکن اختلاف موجود ہے. اسی طرح چھجو بھگت کی سمادھی کا محل وقوع واضح نہیں. چشتی صاحب کا کہنا ہے کہ جہاں سے چھجو غائب ہوا وہاں سمادھ ہے, کہنیالال کا بیان ہے جہاں اسکی سمادھ ہے وہاں اسکی دکان تھی, سید لطیف کہتے ہیں سمادھ سنگ مرمر کی تعمیر ہوئ, نقوش لاہور نمبر میں درج ہے میو ہسپتال کے بڑے دروازے کے قریب سمادھ ہے جبکہ اسی مضمون کہ آخر میں لکھا ہوا ہے یہ سمادھ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے احاطے میں ہے.کچھ لوگوں کا خیال ہے جو کمرہ اب موجود ہے (جس کی تصاویر ذیل میں ہیں) یہاں سے یہ غائب ہوا اور یہی اسکی سمادھ ہے. سید لطیف بھی کہتے ہیں چھجو بھگت یک منزلہ کمرے میں ریاضت کرتا تھا مگر بزم اردو کی مرتب کردہ لاہور گائڈ میں درج ہے کہ ” آپ نے چوبارہ کے ساتھ ایک چوبی زینہ لگا رکھا تھا تاکہ عوام عبادت میں محل نہ ہوں یہیں سے آپ غائب ہوے اور لوگ نے اسکو سمادھ قرار دیا” چشتی صاحب نے چوبارے کی حدود میں ایک دو منزلہ عمارت کا ذکر کیا ہے مگر وہ کسی اور کی سمادھ ہے.
ماضی میں یہ چوبارہ بہت وسیع تھا جس کی خاطر خواہ تفصیل تحقیقات چشتی میں درج ہے. یہاں بہت سی اور سمادھیاں بھی تھیں. اس کے علاوہ یہاں بہت بڑا مندر بھی تھا. رنجیت سنگھ کے دور میں اس کی عمارت میں خصوصی ترقی ہوئ. رنجیت سنگھ یہاں ہر سوموار کو حاضری دیتے تھے اور صدھا روپے نذر چڑھاتے تھے. اسکے علاوہ چودہ کنال سات مرلہ قابل کاشت زمین عطیہ کی. رنجیت کے جانشین بھی مندر کو عطیات دیتے تھے. یہاں میلہ بھی لگتا تھا. مندر کا مہنت دادو پنتھی بھی بہت مشہور تھا اسکے پیروکار مجرد زندگی گزارتے ہیں, انکا شاستری زبان میں لکھا ہوا اپنا گرنتھ بھی ہے جسے دادو رام کی بانی کہا جاتا ہے. نقوش لاہور نمبر میں درج ہے کے لاہور میڈیکل کالج جب بنایا گیا تو باغ کی سب عمارات برباد کردی گیں. 1909ء میں شائع شدہ لاہور گائڈ کے مصنف نے چوبارہ سے ملحق کچھ عالیشان عمارات کا ذکر کیا ہے مگر 1928ء میں شائع شدہ کتاب لاہور کی سیر کے مصنف ماسٹر امر ناتھ کا کہنا ہے ” پہلے یہ عمارت بہت وسیع تھی اور بہت سی سمادھیاں تھیں. لیکن اب صرف ایک سمادھ رہ گئی ہے. باقی تمام جگہ ہسپتال کے استعمال میں آگئی ہے”. ایف سی چوہدری کی کتاب میں بھی چھجو کے چوبارے کی تصاویر شامل ہیں مگر تصویر میں موجود عمارتیں اب موجود نہیں.
اب چھجو چوبارے کا فقط ایک کمرہ باقی ہے جو شمس شہاب الدین صحت گاہ ہسپتال میں موجود ہے. اس کمرے کو ہم نے خاصی مشکل سے تلاش کیا. یہاں اگر کسی نے جانا ہو تو آپ میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کا رستہ کسی سے پوچھ لیں. شمس شہاب الدین صحت گاہ وہیں ہے. اندر داخل ہوے تو ایک صاحب نے پکڑ لیا انکو گزارش کی تو وہ ایک اور صاحب کے پاس لے گے جو انتہائ خوش اخلاق تھے. ان کا نام حسین تھا ان کو اپنی داستاں سنائ کہ سر یہ کمرہ دیکھنا ہماری پہلی اور آخری خواہش ہے اگر ہم آج یہ نا دیکھ پاے تو ہماری زندگی ختم…. وہ ہمیں خوشی سے کمرہ دکھانے لے گے اسکے علاوہ انہوں نے بتایا کہ اس کمرے کی حال ہی میں مرمت ہوئ ہے جس پر تقریباً ۲۰ لاکھ سے زائد خرچ آیا ہے. انہوں اس حوالے سے بہت سے کاغذات بھی دکھاے. ایکسپریس ٹریبیون اور انڈیا ٹوڈے میں ایک رپوٹ شائع ہوئ تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہسپتال میں وسعت کے لیے چھجو کے چوبارے کے بچ جانے والی آخری کمرے کو بھی گراے جانے کا امکان ہے شاید اسی رپوٹ کے بعد اسکی مرمت کا خیال آیا خیر حسین صاحب سے معلوم ہوا کے محکمہ آثار قدیمہ نے آج تک اس تاریخی ورثے کے لیے رَتی بھر بھی کام بھی نہیں کروایا جو کے حقیقتاً افسوسناک بلکہ شرم ناک ہے. سید لطیف کی کتاب میں چھجو کے چوبارے کا ایک خاکہ موجود ہے کہا جاتا ہے جب ہسپتال بنایا گیا تب خاکے میں موجود تمام عمارتیں موجود تھیں مگر فقط ایک کمرہ بچا جو اب بھی موجود ہے. جو بے حد حسین ہے. چھت پر سونے کا پانی استعمال ہوا ہے اور شیشوں کا کام ہے. اب اس جگہ ہسپتال میں آنے والی خواتین نماز ادا کرتی ہیں. اس بچ جانے والے کمرے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں چھجو کا چوباہ کیسا عالیشان تھا. حکومت کو اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے فوراً اقدامات کرنے چاہیں.