بعض اوقات کچھ بڑی پرابلمز کو ایک معمولی سا قدم بھی حل کرسکتا ہے۔ انسان بعض دفعہ ایسی بڑی الجھن میں پڑ جاتا ہے کہ جنکو سلجھانے کے لیے اسکو بہت بہت لمبے لمبے مراحل طے کرنے کا سوچتا ہے۔ حالانکہ اگر عقل مندی اور سمجھداری سے دیکھا جائے تو ان بڑی الجھنوں میں پڑا ہی نہیں جاسکتا۔ انسانیت کو درپیش جو ابھی سب سے چیلنجنگ مسئلہ ہے وہ ہے کہ اسکے ابدی گھر، اس نیلے سیارے یعنی ہماری زمین کے ماحول کا بدلاؤ ہے، جوکہ قریبا چار ارب انسانی آبادی اور اربوں کھربوں حیات کے کی بقاء کے لیے واقعی ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہوا ہے۔ ہماری زمین نہ صرف انسان بلکہ اسکے ساتھ ساتھ دوسرے زندہ جاندروں کو بھی سمائے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قریبا 87 لاکھ مختلف انواع کا یہ گھر ہے جو سارے نظام شمسی میں واحد انکا اور ہم سب کا گھر ہے۔ لیکن ماحول کی یہ تبدیلی سراسر صرف انسان کی اپنی لائی ہوئی ہے اور زرا سے فائدے کے لیے انسان نے ایسے اپنے لیے مسائل مول لیے جو آج اسی کے بقا کے لیے خطرہ کی گھنٹی بن گئے ہیں۔
زمینی ماحول کی اس تیزی سے ہوتی تبدیلی کے اسباب تو ہزاروں گنے جاسکتے ہیں، لیکن ان میں ایک بہت بڑا فیکٹر “پلاسٹک اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی” بھی ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی بے انتہاء ہمارے کرہ ارض پر پھیل گئی ہے۔ اسکا اندازہ اپ ایسے لگائیں کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے ذرات ’سمندر کے تمام حصوں‘ تک پہنچ چکے ہیں۔ وائلڈ لائف گروپ نے پلاسٹک کے حوالے سے ایک عالمی معاہدہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی سے اٹھاسی فیصد سمندری حیات متاثر ہوچکی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کھانے والوں میں وہ مچھلیاں بھی شامل ہیں، جو عام طور پر انسان کی غذا ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل میں ‘پلاسٹک کے جزیرے‘ بن چکے ہیں، جو پلاسٹک کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں سے تشکیل پائے ہیں۔ سطح سمندر سے لے کر اس کی گہرائی تک، قطبین سے لے کر دور دراز کے ساحلوں اور جزائر تک تقریباﹰہر سمندری حصے میں پلاسٹک پایا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں سے لے کر وہیل مچھلیوں کے پیٹ تک میں سے پلاسٹک ملا ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی دنیا کیلئے سنگین خطرہ بن گئی۔ سائنسدانوں نے رپورٹ میں اسے زمین کی نئی ایمرجنسی دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے مداخلت اور قانون سازی کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ ماحولیاتی تحقیقی ایجنسی (ای آئی اے) نے پلاسٹک کے ہولناک خطرات کو آب و ہوا میں تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہم جو سانس لے رہے ہیں اس میں بھی پلاسٹک ہے۔ کیونکہ کیوں بعض بے احتیاط لوگ پلاسٹک کو بجائے مناسب طریقے سے ڈسپوز کرنے کے بجائے اسکو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے ساتھ جلا دیتےہیں، جس سے انتہائی مضر صحت گیسیں اور کچھ پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے جو جلنے سے بچ جاتے ہیں، وہ بھی ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں اور انسان میں سانس کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ لیکن پلاسٹک آلودگی ایک ایسی لڑائی ہے جس کو ہم جیت سکتے ہیں اگر اب ہم عمل کریں گے اور اسکے لیے بعض اوقات بہت بڑے بڑے نہیں بلکہ بہت چھوٹے اور زہین اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے بچوں کو زیادہ سے زیادہ پلاسٹک کو کم کرنے ، دوبارہ استعمال کرنے اور ری سائیکلنگ کی اہمیت کے بارے میں یہ سکھانا ضروری ہے تا کہ آئندہ نسلیں صاف ستھرا اور کم زہریلے ماحول میں رہ سکیں۔
حالیہ میں ایک بھارتی خاتون سیاستدان اور سوشل ورکر ، تیجاشانی اننت کمار Tejashani Ananthkumar نے ایک ایسی قابل عمل تجویز دی ہے جو پلاسٹک کی آلودگی کے بڑھتے ہوئے مسائل کے خلاف کافی موثر ثابت ہوئی ہے۔ تیجا شوانی ایک نان پرافٹ ایبل انڈین سوشل کمپنی آدمیا چیٹانا Adamya Chetana Foundation کی چئیر پرسن ہیں جو مختلف سماجی خدمات انجام دیتی ہے۔ اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر بنگلور میں ہے اور باقی زیلی شاخیں تمام بھارت میں پھیلی ہوئی ہے، حکمران جماعت BJP کی بھی اس تنظیم کو سرپرستی حاصل ہے۔
تیجاشانی کہتی ہیں کہ دودھ کے ڈبے سبھی لوگ استعمال کرتے ہیں اور آج کل ماڈرن عہد میں دودھ ایک ٹیٹرا پیک ڈبے کی صورت میں لوگوں کو میسر ہوتا ہے۔ کھلا دودھ چونکہ صحت کے لیے خطرات رکھتا ہے، اس لیے اب کھلا دودھ استعمال کرنے کا رواج آہستہ آہستہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی صحت کے مسائل کی جانکاری کی وجہ سے کم سے ک ہورہا ہے۔ اکیلے بنگلور شہر میں دودھ کے ڈبوں کی پروڈکشن قریبا 14 لاکھ لیٹرز فی دن ہوتی ہے (یہ شماریات آج سے آٹھ سال پرانے ہیں جو 2014 میں ہوئے تھے، آج یعنی 2022 میں یہ تعداد کافی گنا بڑھ چکی ہے) یعنی 14 لاکھ ڈبے یومیہ پیداور۔ ٹیٹرا پیک ڈبے بنانے کے لیے کارٹن، گتے کے ساتھ ساتھ پلاسٹک بھی استعمال ہوتا ہے۔لیکن یہ بڑے ڈبے تو ریسائکل ہوجاتے ہیں، اصل مسئلہ ان چھوٹے چھوٹے ڈبوں کے ٹکڑوں کا ہے جو ان ڈبوں سے دودھ نکالنے کے لیے ہم ایک طرف سے قینچی سے کاٹ دیتے ہیں اور کچرے میں پھینک دیتے ہیں، جوکہ ایک بہت بڑی مقدار میں (بنگلور کی موجودہ آبادی قریبا سوا بارہ کڑوڑ افراد پر مشتمل ہے) جمع ہوجاتی ہے ۔اس کا حل تیجاشوانی نے کچھ ایسے بتایا کہ
اگر ہم سب دودھ کے ٹیٹرا پیک کے ڈبے کو کاٹے بغیر اور اس کو الگ کیے بغیر دودھ کے پیکٹ کو کھول دیں تو ہم اکیلے بینگلور جیسے شہر میں پلاسٹک کے 50,00,000 چھوٹے ٹکڑوں کو کچرے میں جانے سے روک سکتے ہیں۔ کیونکہ مصیبت یہ ہے کہ ان چھوٹے پلاسٹک کے ٹکڑوں کو ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا
اب اگر ان ڈبوں کے ایک کونے کو کاٹ کر بالکل الگ کرکے پھینکا نہ جائے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے ٹکڑے کی آلودگی سے ہم بچ سکتے ہیں اور یقینا اس سے مائکرہ آلودگی میں کمی آئے گی۔ پلاسٹک کے خلاف جنگ میں اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھا کر جیت سکتے ہیں اور اپنے خوبصورت سیارے کو بچا سکتے ہیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک صاف ستھرے، ہر قسم کی آلودگی سے پاک ماحول اور صحت مندانہ فضا مٰں سانس لیں سکیں۔ نہ صرف انسان اس المیہ سے بچ سکتے ہیں جو خود اسکے اقدام کا نتیجہ ہے، بلکہ ہمارے سیارے پر بسنے والے ہزاروں جانداروں کا بھی مستقبل بچ سکتا ہے، جنکا واحد گھر بھی یہ نیلگوں سیارہ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...