مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی لوٹ مار کا حساب کتاب کرنا تھا۔
مشرف اور زرداری نے اپنے اپنے دور میں کمائے ھوئے سرمایہ کا ایک حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانے کا پروگرام بنایا۔ مشرف کی 1999 سے 2008 تک اور زرداری کی 2008 سے 2013 تک کی حکومت کے دور میں لوٹ مار کرنے والوں کو منظم کرنے کے بعد میڈیا ھاؤس خریدے ‘ اینکر ‘ کالم نویس ‘ تجزیہ نگار بھرتی کیے گئے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا گیا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا گیا۔
مشرف اور زرداری نے اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے اپنے پنجابی ساتھیوں کو خود عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔
جلسے ھوئے ‘ جلوس ھوئے ‘ دھرنے ھوئے۔ عمران خان کے جلسے ‘ جلوسوں میں پشتونوں کے علاوہ پنجاب میں رھنے والے اور پنجابی بولنے والے پٹھان ‘ بلوچ ‘ ھندوستانی مھاجر عورتوں اور مردوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود الٹا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ؛ نواز شریف نہ صرف اقتدار سے محروم ھوا بلکہ جیل بھی پہنچ گیا۔
2018 میں انتخاب ھوئے اور خیبر پختونخوا کے پٹھانوں ‘ پنجاب میں رھنے والے اور پنجابی بولنے والے پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کو پاکستان ‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا اقتدار مل گیا۔ سندھ کا اقتدار سندھ کے بلوچوں اور عربی نژاد سندھیوں کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کو مل گیا۔
مشرف ملک سے باھر بیٹھا موجیں کر رھا ھے۔ مشرف کی 1999 سے 2008 تک اور زرداری کی 2008 سے 2013 تک کی حکومت کے دور میں لوٹ مار کرنے والے لوٹ مار کا حساب کتاب دینے کے بجائے اب عمران خان کی حکومت کا حصہ بن کر پھر سے حکومت کر رھے ھیں۔
نواز شریف کو پنجاب سے پنجابیوں کی جبکہ خیبر پختونخوا سے ھندکو اور پنجابی کی ‘ بلوچستان سے براھوئی اور پنجابی کی ‘ سندھ سے سماٹ اور پنجابی کی ‘ کراچی سے گجراتی ‘ راجستھانی ‘ ھندکو ‘ براھوئی ‘ سماٹ ‘ اور پنجابی کی بھرپور حمایت سے حکومت ملنے کے باوجود نواز شریف نے “سیاسی طور پر بانجھ فوج” بھرتی کرکے 2013 سے 2018 تک حکومت میں رہ کر مشرف اور زرداری کا کیا کرلیا؟ کیا مھاجر مشرف ‘ بلوچ زرداری ‘ پٹھان عمران نے نواز شریف کو “تگنی کا ناچ” نہیں نچا دیا؟
نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشنٹ کا سربراہ پہلے جنرل راحیل شریف تھا۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ بنا۔ اسٹیبلشنٹ اگر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف اور PMLN کی “کھٹیا کھڑی” کردی ھوتی۔ صرف نواز شریف ھی جیل نہ جاتا بلکہ PMLN بھی بکھر چکی ھوتی۔
اسٹیبلشنٹ پر الزام تراشیاں کرکے پنجابی ‘ سماٹ ‘ ھندکو ‘ براھوئی ‘ گجراتی ‘ راجستھانی عوام کو گمراہ کرنے ‘ ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے بجائے نواز شریف کی “سیاسی طور پر بانجھ فوج” کو چاھیے کہ؛ اپنی کمزوریوں ‘ خامیوں ‘ کوتاھیوں ‘ نالائقیوں کا اعتراف اور اقرار کرے۔ سیاست سیاسی طور پر بانجھ کا نہیں بلکہ سیاسی شعور والے سیاسی کھلاڑیوں کا کھیل ھے۔
نوٹ : PMLN پنجابیوں کی سیاسی جماعت ھونے کی دعویدار ھے۔ لیکن “سیاسی طور پر بانجھ” PMLN سے پنجابی قوم کو پنجابیوں کی سماجی عزت اور معاشی خوشحالی ‘ انتظامی بالادستی اور اقتصادی ترقی کے لیے کیا توقع رکھنی چاھیے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...