[مریڑ راولپنڈی صدرکامضاف ہے۔ ان دنوں مری روڈ سےمریڑتک ایک ویرانہ تھا۔ اس ویرانےمیں کھیت بھی تھے۔ بہرحال ان دنوں وہاں کوئی آبادی نہ تھی۔ ریل کی پٹڑی پارکرنےکےبعد ایک چھوٹاساگاؤں تھاجس کےعقب میں قبرستان تھا۔]
ــــــ
مفتی کی الکھ نگری کاچوبیسواں باب ہمیں راولپنڈی کےمضاف مریڑ کےایک قبرستان میں سرکارقبلہ سےملاتاہے۔ خودبقول ممتازمفتی کسی قبرپردعاکےلیےجانا ان کےلیےایک مضحکہ خیزعمل تھامگر وہ اپنےساتھی عزیزملک جو انہیں پنڈی کےمضافات میں سائیں اللہ بخش کی قبرپرلےکر آیاتھا کے احترام میں خاموش رہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، وہی عزیزملک جب مفتی کو بصد اصرار دوبارہ اس چھوٹی چاردیواری میں مزار سے بیگانہ قبر پر یہ کہہ کر لایا کہ پہلی حاضری والے دن چونکہ جمعہ تھا اس لیے صاحب مزار اپنے مزار پر موجود نہیں تھے تو مفتی کے اندر کا برٹرینڈ رسل ایک مضحکہ خیز ہنسی ہنسا اور ہمارےمصنف نےایک تمسخر کے عالم میں دعائیہ کلمات ادا کرکےاپنا پنڈ چھڑایا۔
یہاں سےکہانی ایک دوسراموڑ لیتی ہے۔ اس دن مزارسےواپسی پر ریل کی پٹڑی کے پار مریڑ کے سنسان کھیتوں میں مفتی کے اندر ’ایک مدہانی سی چلی۔ سوڈے کی ایک بوتل کھلی‘ اور ہمارے مصنف نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔
اب اگرآپ الکھ نگری پڑھیں توبھائی جان محمدبٹ مفتی کوبتائیں گےکہ صاحب مزارسائیں اللہ بخش نےاس پررقت طاری کردی ہے۔ صاحب مزارکےکھیل نرالےہیں جب توجہ چاہتےہیں رقت طاری کردیتےہیں۔
صاحبوکہانی میں مزید کئی پیچ وخم آنےہیں اوربات صدرگھرمیں ایوب خان کےنام مدینہ منورہ سےآئےمراسلوں تک جانی ہے تصوف کےدفترکھلنےہیں فائلیں چلنی ہیں اوربابوں میں سےایک نےجلال میں آکر کہنا ہے’وہ وقت بھی آئےگاکہ یو این اوفیصلہ کرنےسےپہلے پاکستان سےپوچھےگااور اگرایسانہ ہواتوتم ہماری قبرپرآکرتھوکنا‘
بات نکلی تودورتک جائےگی، ہم باقی کاذکراپنےپڑھنےوالوں کی الکھ نگری کی پڑھنت پرچھوڑ آگےبڑھتےہیں۔
آج کا مریڑ راولپنڈی کا مضاف نہیں ہے۔ پنڈی اپنے پھیلاؤ میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ ریل کی پٹڑی پارکرکے ڈھوک چراغ دین کا قبرستان بھی اب ایک گنجان آبادی سے گھرا ہوا ہے جسے درمیان سے ایک روڈ دو حصوں میں کاٹتی ہے۔ ہم اس قبرستان میں کچھ دیر میں واپس آئیں گے مگر فی الوقت منظر بدلتاہے۔
اکتوبر 1999 کی ایک معتدل شام میرے عزیز ہم وطنو والی تقریر ہم نےسیالکوٹ کےمضافات میں سنی۔ میں ایک نوآموز لفٹین تھا اور اگوکی میں توپخانے کی ایک یونٹ کے قائم مقام ایڈجوٹنٹ کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ شام سے غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر یونٹ گارڈ سٹینڈ ٹو تھی اور میں آفیسر آن ڈیوٹی۔
رات گئے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک کلف دارتقریر میں کمانڈو وردی پہنے اتنے ہی کلف دار لہجے میں چیف کو کہتے سنا کہ
Your armed forces have never and shall never let you down
تو ہم نے بھی ہاتھ میں پکڑی ملٹری اسٹک اپنی کلف لگی خاکی پینٹ پر مارتے ہوئے بے اختیار انشاءاللہ کہا۔
اگلےدن اسی سرکاری ٹی وی پرنوازحکومت سےجان چھوٹنےپرلوگوں کومٹھائیاں بانٹتےدیکھا توخلیل جبران کےقول کی وہ سطریں یادآئیں جن میں اس قوم پرترس کھانےکاذکر ہےجو بینڈ باجےکی ایک جیسی ماتمی دھن میں جانےوالوں کی خوشی اور آنے والوں کاسواگت کرتی ہے۔
ایک ناتجربہ کارلیفٹیننٹ نےتو یک صفحی پرنٹ بھی نکلوالیا کہ فریم کرواکےایڈجوٹنٹ آفس میں لگایا جائے مگر ایک تجربہ کار کمانڈنگ آفیسر سے اجازت نہ ملی۔
منظر ایک اور کروٹ بدلتاہے۔ چند سالوں بعد کا ذکر ہے کہ کپتانی کے تین تاروں کی نئی نئی جھلملاہٹ کندھے پر سجانے کی خوشی میں چھٹی پر کراچی جاتے ہوئے میں خیبر میل کا مسافر تھا۔
روہڑی جنکشن پرایک اے سی سلیپر کےشب باش کمپارٹمنٹ میں اچانک ہلچل مچی۔ ایک بریگیڈیرصاحب پنوں عاقل سےکراچی جارہے تھے۔ کمبخت گارڈ نےپروٹوکول کےفریضےکی ادائیگی میں سینیئر افسرکاسامان رکھواتے ہمیں جگانےکو آواز لگائی
کپتان صاحب آپ کے کمپارٹمنٹ میں بریگیڈیر صاحب تشریف لائے ہیں۔
ہماراباقی کاسفرایک مروتانہ رکھ رکھاؤ اورآؤبھگت میں گزرا۔ ڈبےمیں نیندکاخمارتوویسے بھی ٹوٹ چکاتھا۔ ہمارےبقیہ ہم سفربھی ریل کی مسافت میں فوجی کم سیاسی گفتگوکے ہمہ تن گوش سامع بن گئے۔
نوابشاہ اورحیدرآبادکےدرمیان جب صبح کاستارہ ڈوبنےکوتھاجوش تقریرمیں بریگیڈیرصاحب کےمنہ سےبےاختیارنکلا کہ پرویز مشرف کو براہ راست مدینہ منورہ کی سپورٹ حاصل ہے۔ اب آپ سے کیا چھپائیں اس نورانی منظرنامے میں ہم سمیت شریک گفتگو دیگر کمپارٹمنٹی نفوس پر رقت طاری ہو گئی۔ ہمیں بے اختیار چیف ایگزیکٹو کی تقریر کے تراشے یاد آئے۔
کیایہی جمہوریت ہے جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا!
صاحبو آج کا مریڑ راولپنڈی کا مضاف نہیں ہے۔ مری روڈ کی قربت میں مریڑ کے ریلوے پل کے پار مشرق کے رخ اگر آپ ریل کی پٹڑی کو نہ چھوڑیں تو تھوڑا آگے جاکے داہنے ہاتھ قاضی آباد کی طرف ٹینتھ روڈ نکلتی ہے جو ڈھوک چراغ دین کے قبرستان کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
قبرستان کے مغربی حصےمیں ایک چوگان کے ساتھ ایک کنواں ہے اورنزدیک ہی ایک چاردیواری میں ایک نیم دروازے نما کھڑکی کھلتی ہے۔ چاردیواری کے اندر چھت سے بے نیاز کھلے آسمان تلے سائیں اللہ بخش کی قبرہے۔ یہیں دو حاضریوں کے بعد ہمارے ہردلعزیز مصنف ممتاز مفتی پر صاحب مزار نے رقت طاری کی تھی۔
اس روشن دوپہر جب میں نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو خیبر میل کے کمپارٹمنٹ پر طاری ہوئی رقت کو کافی وقت ہوچلا تھا۔پلوں کے نیچے سےبہت سا پانی بہہ چکاتھا۔ سکردو سے راولپنڈی لوٹتےہوئے ایک لمبی ڈرائیو کے تیسرے روز میں ہری پور سے اس روڈ پر نکلا تھا جو ریحانہ کو جاتی ہے اور ایک آبائی قبرستان میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی تربت سے ہوتا آیا تھا۔ راولپنڈی کےجڑواں شہر اسلام آباد کے ایچ 8 کے قبرستان میں ممتازمفتی کےمدفن پرفاتحہ پڑھےاورکچھ باتیں کیے زیادہ دن نہیں بیتے تھے۔
پاکستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی پہلی قسط کے علمبردار تو قبروں میں جاسوئے۔
دوسری قسط کوہم نےاپنےسامنےڈھلتےدیکھا۔ کمانڈو وردی پہنے ہاتھ میں سگاردبائےایک ملٹری ڈکٹیٹرنےمیدان جنگ میں منہ کی کھائی تواپنی گردن کوپھندے سےنکالنےکی خاطرکم وبیش ایک دہائی تک اس قوم کا ٹینٹوا دبائےرکھا۔
کہنے والے کہتے تھے کہ اسے بھی مدینےکی آشیرواد ہے۔ مگر دیکھنےوالوں نےدیکھا کہ وہ قصہ بھی تمام ہوا۔
ــــــ
ہمارے محبوب مصنف مشتاق احمد یوسفیؔ نے آبِ گُم کے ’پس وپیش لفظ‘ میں لکھا ہے ’تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالیے، ڈکٹیٹرخود نہیں آتا لایا اور بلایا جاتا ہے۔ اور جب آجاتاہےتوقیامت اس کےہم رکاب آتی ہے۔ پھروہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کوخیمےسےنکال باہرکرتاہے۔ باہرنکالےجانےکےبعد کھسیانےبدّوایک دوسرےکامنہ نوچنےلگتےہیں‘
گزرتےوقت کےساتھ ہمارےڈکٹیٹروسیاستدان سیانےہوچلےہیں۔
اسلام کےقلعےکی نشاۃ ثلاثہ بلکہ چہارم کےلیےلانےاوربلانےکی ترتیب الٹ گئی ہے جو پہلی نشست میں انگلی پکڑے پکڑے تبدیلی کے دعوے دار بن کر آئے تھے ان کی آمد پر ووٹ کی عزت والے بدّو راضی برضا خیمےسے باہر نکل گئےتھے کہ اپنی باری آنےپرخیمے کے بلاوے پر لبیک کہہ سکیں۔ کھسیانی ہنسی ہنسنے والےجو ایک دوسرے کامنہ نوچ رہے ہیں تو اپنی باری تک کاحیلہ کرنے کی تگ ودو ہے۔
اور ادارےکی رابطہ سازی مہم میں پھر سے اقربا پروری، حصول انصاف اور جمہوریت کی بے توقیری کا آموختہ ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے ایک عمر مطلق العنانیت کا پھل چکھ لینے کے بعد کہا تھا کہ جمہوریت بہت حساس دلہن ہے، یہ اپنے اوپر سوکن برداشت نہیں کرتی۔
صاحبو جب لوگ حق رائے دہی کو بےتوقیرکرکے تبدیلی کی راہ دیکھیں تو ان پر جو مسلط ہوتاہےاس کےبارےمیں بقول یوسفیؔ مرزا عبدالودود بیگ کہا کرتےتھے
’اللہ معاف کرےمیں توجب اعوذباللہ من الشیطٰن الرّجیم کہتاہوں تو ایسامحسوس ہوتا ہےجیسےرجیم سے یہی regime مراد ہے۔ نعوذباللہ، ثم نعوذباللہ۔‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...