تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں موجودہ حکومت کا جانا تو اب نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ جس بڑے پیمانے پر تحریک انصاف کےاراکین پارلیمنٹ اپنی پارٹی سے بغاوت کر چکے ہیں اور جس تیزی سے سیاسی پرندے اپنے نئے آشیانوں کی طرف کُوچ کر رہے ہیں اس سے سیاسی موسم میں تبدیلی اور ہواؤں کے رُخ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح تحریک انصاف کے باغی اراکین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والا سیاسی موسم تحریک انصاف کے لیے اتنا خوشگوار نہیں ہو گا۔ کچھ تجزیہ کار تو یہاں تک دعوی کررہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شائد چند درجن اراکین ہی عمران خان کے ساتھ باقی رہ جائیں گے اور تحریک انصاف کا تبدیلی کا سفر جہاں سے شروع ہوا تھا ناکامی اور نااہلی کی بے شمارداستانیں چھوڑ کر وہیں جا پہنچے گا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی، بیڈ گورننس اور فاشسسٹ طرزحکومت پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا لیکن سب سے بڑا سوال جو ایک عام آدمی کے ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والا سیٹ اپ کیا اپنے وعدے کے مطابق سول سپریمیسی اور عوام کے حق حاکمیت کے حصول کی جانب سفر شروع کر سکے گا یا سول سپریمیسی کا خواب تعبیر طلب ہی رہے گا۔
سول سپریمیسی اور جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر سب سے بڑا قدم اُس وقت اٹھایا گیا جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے تلخ ترین ماضی کو فراموش کرتے ہوئے جدہ میں اپنے بدترین سیاسی مخالف نواز شریف سے ملاقات کی جس کے بعد دو ہزار چھ میں نوازشریف کی جدہ سے لندن آمد کے بعد میثاق جمہوریت کی تاریخی دستاویز پر دستخط کیے گیے۔ آج پاکستان میں بُری بھلی جیسی بھی جمہوریت موجود ہے اس میں میثاق جمہوریت کا بہت بڑا کردار ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے پچھلے دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم کےذریعے میثاق جمہوریت کی بہت ساری شقوں پر عملدرآمد کر دیا تھا لیکن اُس وقت نون لیگ کے عدم تعاون کی وجہ سے ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار اور آئینی عدالت کے قیام سمیت بہت سے امور ہنوز حل طلب ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کو مضبوط کیا گیا اور ایک مضبوط ترین صدر ہونے کے باوجود جس طرح صدر آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دئیے پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے یہ قدم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح صوبوں کو خودمختاری دینا اور اختیارات کی مرکزیت ختم کرنا بھی ایک تاریخ ساز قدم تھا جو میثاق جمہوریت کی روشنی میں اٹھارویں ترمیم کےذریعے اٹھایا گیا۔
پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے تجویز پیش کی تھی کہ ایک نیا میثاق جمہوریت بنایا جائے جس میں نہ صرف پہلے والے میثاق جمہوریت میں طے شدہ اصول اور مقاصد شامل ہوں بلکہ پہلے والے میثاق جمہوریت کو مزید مضبوط کرتے ہوئے ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو جمہوری نظام کی طرف بری نظر ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے اور آئیندہ کے لیے سلیکٹڈ حکمرانوں کا راستہ بند کیا جا سکے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آنے والی نئی حکومت کو نہ صرف پی ڈی ایم کے قیام کے وقت چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے تجویز کردہ نئے میثاقِ جمہوریت پر کام کرنا ہو گا بلکہ نئے انتخابات کےبعد جِس جماعت کی بھی حکومت بنے اس حکومت کو میثاقِ جمہوریت پر مکمل طور عملدرآمد کرنا ہو گا۔ نئے مینڈیٹ سے حکومت کے قیام کے بعد سب جماعتوں کو باہمی تعاون سے میثاق جمہوریت کی روشنی میں ایک ایسی آئینی ترمیم کی راہ ہموار کرنا ہو گی جسکے ذریعے اداروں کو سختی سے ان کے آئینی کردار تک محدود کر دیا جائے تاکہ کوئی فرد یا ادارہ اپنے آئینی اختیار سے تجاوز کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے۔ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل چھ سمیت بہت سارے آئینی قواعد و ضوابط پہلے ہی شامل کیے جا چکے ہیں۔ اب زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوانین کو نہ صرف مزید سخت کیا جائے بلکہ ان قوانین کے اطلاق کو بھی آسان اور سہل بنایا جائے تاکہ کسی فرد یا ادارے کی جانب سے کسی بھی آئینی خلاف ورزی کے بعد آئین اور قانون خود بخود اپنا راستہ بنا سکے یا دوسرے لفظوں میں ایسی کسی بھی غیر آئینی صورتحال میں ذمہ دار آئینی ادارے بجائے کسی جانب سے شکایت داخل کرنے کا انتظار کرنے یا کاروائی کے لیے کسی جانب سے حکم کا انتظار کرنے کی بجائے خود بخود آٹو پر چلے جائیں اور آئین کےمطابق آزادی سے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ سِول سپریمیسی کا خواب اسی طرح شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
دنیا کے بہت سارے ممالک میں چار سالہ پارلیمانی مدت رائج ہے اور وہاں بڑی کامیابی سے جمہوری نظام اپنی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ ہمارے جیسی بے صبری قوم کے لیے پانچ سالہ پارلیمانی مدت شائد تھوڑی زیادہ ہے۔ اس لیے اگر پارلیمانی مدت پانچ سال سےکم کر کے چار سال کرنے پر سوچا جائے تو اس سے بھی جمہوری نظام کو مستحکم کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ چار سالہ پارلیمانی مدت مقرر ہونے سے حکومتیں بھی بغیر کوئی وقت ضائع کیے پہلے دن سے کام شروع کر دیں گی تاکہ چار سال کے دوران اپنے پراجیکٹس مکمل کرکے نئے انتخابات کی طرف جا سکیں۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی اپنی توجہ حکومت پر مثبت تنقید تک محدود رکھیں گی اور اس طرح حکومتوں کو ہٹانے کے لیے دھرنوں جیسی غیر جمہوری روایات کو ختم کیا جا سکے گا۔
وزیراعظم کے خلاف حالیہ تحریک عدم اعتماد کے جواب میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور خصوصا وزیراعظم اور سپیکر کی جانب سے جس طرح کے غیر آئینی ہتھکنڈوں کے استعمال کا عندیہ دیا جا رہا ہے اور واضح آئینی گائیڈ لائن ہونے کےباوجود عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری میں تاخیر کے لئے جن غیر آئینی اقدامات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کا بھی سدباب کیا جانا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا ہونے کی صورت میں ذمہ دار ادارے حکومت کی جانب دیکھنے کی بجائے خود بخود اپنا آئینی کردار ادا کرنا شروع کر دیں۔ موجودہ غیر یقینی کی صورتحال میں جب وزیراعظم واضح طور پر ایوان کا اعتماد کھوچکے ہیں اور سپیکر بجائے ہاوس کے کسٹوڈین کا آئینی کردار کرنے کے مکمل طور پر ایک حکومتی رکن کا کردار ادا کررہے ہیں اس کے تدارک کے لیے بھی آئین کی متعلقہ شقوں میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ اگر کوئی آئینی عہدیدار اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے تو اس صورت میں یہ آئینی کردار خود بخود کسی اور ذمہ دار کو منتقل ہو جائے۔ میثاق جمہوریت میں تجویز کردہ آئینی عدالت بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے سارے مرحلے میں جس طرح کی غیر آئینی مزاحمت عمران حکومت کی جانب سے دیکھنے میں آئی ہے مستقبل میں ایسی آئینی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کی پیش بندی نہایت ضروری ہے۔ ریڈ زون کے بارے بھی سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی پارلیمنٹ اور دوسری ریاستی عمارات پر حملہ نہ کرسکے اور جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کو کام سے نہ روک سکے۔ عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سندھ ہاؤس پر حملوں سے بہت غلط روایت ڈال دی ہے۔ اس روایت کی سختی سےحوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی اور نون لیگ پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہو گی کہ اپنے وعدوں کے مطابق سول سپریمیسی اور عوام کے حق حاکمیت کے حصول کے لئے میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق مکمل طور پر عملدرآمد کریں اور کسی قسم کے سیاسی مفاد کو میثاق جمہوریت میں طے کیے گیے قومی مقاصد کے حصول کے آڑے نہ آنےدیں۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ ایک واضح اور اکثریتی ووٹ بینک کی نمائیندگی کرتی ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ دونوں جماعتیں ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں گی، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گی اور میثاق جمہوریت کی روشنی میں ایک مضبوط جمہوری نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں گی کیونکہ ایک مضبوط اور آزادانہ جمہوری نظام میں ہی گھمبیر ملکی مسائل کا حل بھی موجود ہے اور ملکی ترقی بھی ایک مضبوط جمہوری نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...