عشق بلاخیزکاقافلہ سخت جاں
پاکستان:قصہ صدی گزشت
”رولٹ ایکٹ“کاخاتمہ21مارچ1922
بھیڑیا ندی سے پانی پی رہاتھا،اس نے میمنے سے کہا اوئے پانی جھوٹا کیوں کررہا ہے۔ میمنے نے جواب دیا حضور والا پانی اوپرسے آرہاہے اوراوپر توآپ پانی پی رہے ہیں اورمیں تو نیچے ہوں۔ بھیڑیاجب لاجواب ہواتواس نے کہا اچھا تو، چھ ماہ پہلے تونے مجھے گالی کیوں دی تھی۔ میمنے نے کہاکہ جناب کا اقبال بلند ہو، میری توعمرہی تین مہینے کل ہے۔ بھیڑیے نے کہا کہ چھوٹاہوکر بڑوں کے سامنے زبان درازی کرتاہے اور یہ کہ کر بھیڑیے نے ہڑپ کرکے میمنے کو اپنے پیٹ میں انڈیل لیا۔یہ بھیڑیا ”رولٹ ایکٹ“کابانی تھا۔انسانیت اور حقوق انسانی اور جمہوری مساوات کے عالمی دعوے آج تک یورپی جغرافیائی حدود سے عملاَ باہر نہیں کل سکے۔پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے سیکولر ٹھیکیدار گوری رنگت کی برتری کو پوری قوت اور شدومد کے ساتھ تعصباَ وجبراَعالم انسانیت پرمسلط کیے ہوئے ہیں اور کسی قیمت پراس جذبہ معکوس سے دستبردارہونے کو تیارنہیں۔ نسل درنسل یہ تفاوت گوروں کو اس خمارمیں مبتلا کیے ہوئے ہے کہ ہم بقیہ کل انسانوں سے افضل و برتر ہیں۔ اوراس غیرانسانی فکر کی بنیاد پر پر وہ اپنے برابربھی کسی کو کوئی حق دینے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ وہ پوری دنیامیں اپنی تہذیب، اپنا تمدن، اپنی زبان، اپنی تعلیمی ترجیحات اور اپنی دفاعی تنصیبات کوہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو قوم گوروں کی اس بدمعاشی کوقبول نہ کرے اسے شدت پسند، دہشت گرد،انتہاپسند،سہولت کار اور امن عالم کادشمن قراردے کرصفحہ ہستی سے مٹانے تک سے گریزنہیں کیاجاتا۔اپنے ہی ملک میں،اپنے وطن میں اور اپنے نظریے اوراپنے عقیدہ کادفاع کرنے والے گندمی رنگت کے لوگ دہشت گرداورامن دشمن ہیں اور ہزاروں میل دورسے آنے والی افواج باراتیوں پر،جنازوں پر،مدارس پر اورآبادیوں پر بدترین و تباہ کن بم برساکر قتل و غارت گری اور خون کی ندیاں بہانے والے گوری رنگت کے حامل امن پسند اور صلح جوہیں۔اس رویے پر قرآن مجید نے صدیوں پہلے تبصرہ کردیاتھا کہ ”وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۲:۱۱) اَلآَ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۲:۲۱)“ترجمہ:”اورجب انہیں کہاجاتاہے کہ زمین میں فسادبرپانہ کروتووہ کہتے ہیں کہ ہم تواصلاح (امن)والے ہیں،خوب سن لو کہ حقیقتاََیہی لوگ فساد(فی الارض) والے ہیں مگروہ سمجھتے نہیں“۔آج سے کم و بیش سوسال پہلے بھی تاج برطانیہ نے ”رولٹ ایکٹ1919“کاکالاقانون صرف ہندوستانی لوگوں،گندمی رنگت کے انسانوں کے لیے بدنام زمانہ ”رولٹ کمیٹی“نے 18مارچ1919کو منطورکرکے تونافذ کیاتھا۔
برطانوی حکومت ہندوستان کی یہ ”رولٹ کمیٹی“دراصل جسٹس سڈنی رولٹ(1862-1945) کی سربراہی میں 1917سے کام کررہی تھی۔جسٹس سڈنی رولٹ پہلے سے ہی ایک متنازعہ شخصیت چلے آرہے تھے۔یہ کمیٹی ایک خودساختہ مفروضے پرتحقیقات کررہی تھی کہ ہندوستانیوں کے جرمنی اور روس سے خفیہ تعلقات ہیں۔خاص طورپر تحریک خلافت میں جب ہندوستانیوں کے ردعمل میں شدت آئی تو برطانوی استعمارکو اس معاملے میں اپنی وعدہ خلافیاں یادآنے کی بجائے پنجاب اور بنگال میں حالات کی خرابی کے پیچھے بیرونی دنیاکے فرضی ہاتھ نظرآنے لگے۔یہ رویہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے پیداہوچلاتھاکہ برطانوی حکومت کو شک تھاکہ ہندوستان میں حالات کی خرابی میں مقامی لوگوں کی پشت پر بیرونی قوتیں موجودہیں جن کامقصد برطانوی حکومت کوختم کرناہے یاکم ازکم غیرمستحکم کرنا۔چنانچہ یہ مذکورہ کمیٹی بنائی گئی تاکہ ان مفروضوں کی چھان بین کے بہانے اس زندہ قوم کی گردنوں کوشکنجہ غلامی میں مضبوطی سے کس لیاجائے۔دراصل امیرافغانستان نے اپنی حکومت کے محکمہ خارجہ کو بیرونی دنیاسے روابط کے احکامات جاری کیے تھے جس سے تاج برطانیہ کو یہ خوف لاحق ہوگیاتھاکہ ہندوستانی بھی اس ”جمہوری جرم“میں برابرکے شریک ہیں۔طویل غوروحوض اور خفیہ اداروں کی معلومات پر مبنی اورافواہوں کی چھان بین کے بعد بھی یہ کمیٹی کسی طرح کے ٹھوس ثبوت کے حصول میں بری طرح ناکام رہی اورہندوستانی مکمل طورپر امن پسند اور صلح جو ثابت ہوئے۔اب ہوناتویہ چاہیے تھا یہ کمیٹی ختم کردی جاتی اور ہندوستانیوں کوسرخروہونے پر انعامات و رعایات دیے جاتے لیکن یہ برطانوی گوراسامراج ہندوستان میں چونکہ لوٹ مارکرنے اور مال وزرسمیٹنے آیاتھااس لیے اس نے یہ ذیلی قانون منظورکیااور اپنے زوراستبدادسے 21مارچ1919کو نافذ بھی کردیا۔
اس ایکٹ کی بناپر حکومت وقت کسی بھی شہری کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتارکرسکتی تھی اور عدالتی احکامات کے بغیر اسے دوسال تک قیدوبندمیں رکھاجاسکتاتھا۔اس ایکٹ کے تحت ان معاملات کاکل اختیار ہندوستانی استعماری حکومت کو بلااشتراک حاصل ہوگیاتھا۔سادہ لفظوں میں اس ذیلی قانون کی آڑ لے کر بغیرکسی مقدمے کے،وجہ بتائے بغیراور کسی طرح کے عدالتی حقوق سے بھی محرومی کے باعث ایک فردکو دوسال تک انتظامی حراست میں رکھاجاسکتاتھا۔ملزم کو یہ حق بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ گرفتاری کی وجہ جان سکے یا گرفتاری کی بابت کسی نوعیت کے کاغذات بھی طلب کرسکے۔اس ذیلی قانون کے تحت جب گرفتارلوگوں کو رہاکیاجائے گاتوانہیں سیکورٹی کے نام پرایک خطیررقم حکومتی خزانے میں مجع کرانی پڑے گی اور پھروہ تاحیات اس بات کے پابندہوں گے کہ کسی طرح کی سیاسی،تعلیمی اور مذہبی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔اس طرح برطانوی پولیس کے ہندوستانی محکمے کوبے پناہ اختیارات میسر آگئے۔پولیس کہیں بھی کسی بھی گھرمیں،دفترمیں،ادارے میں یا مذہبی عبادت خانے میں اپنے بوٹوں سمیت گھس جاتی اور بغیرکسی پیشگی اطلاع یا متعلقہ کاغذات دکھائے بغیروہاں کی تلاشی لیتی پھرجس کوچاہتی ہتھکڑیاں لگاکر ساتھ لے جاتی۔اس قیدی کو برطانوی قانون کی اس ذیلی شق میں یہ حقوق حاصل نہ تھے کہ کسی عدالت کادروازہ بجاسکتا،اورنہ ہی اسے کہیں کوئی وکیل،اپیل یادلیل سے کام لینے کی اجازت تھی۔خاص طورپر یہ ذیلی قانون اخبارات کے معاملے میں بہت ظالمانہ ثابت ہوا اور آج سے ایک صدی قبل جب صرف اخبارات ہی اطلاعات کاواحد معتبرذریعہ تھے،ان پر بے پناہ دباؤ پڑ گیااور آزادی صحافت اور آزادی اظہارصرف سیکولرازم کے بلندبانگ اورزبانی کلامی دعوے ہی بن کررہ گئے۔حد یہ کہ اس کالے قانون کے بارے میں کسی اعلی عدلیہ یامقننہ یا کسی انتظامی و حکومتی جمہوری ادارے میں بھی دروازہ بجانے یاشکایت کرنے یاآہ و بکاکرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔یہ ہے یورپ کی وہ سیکولرجمہوریت جس کوعلامہ اقبال نے شدیدنقد سے طشت ازبام کیاہے۔
اس ذیلی قانون کے نفاذ پر سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے ردعمل آیا۔ہندوستانی حکومت برطانیہ کی ”مرکزی قانونی مشاورتی کونسل“کے آٹھ منتخب ارکان میں سے مسلم لیگ کے نمائندہ جناب محمدعلی جناح نے اس قانون سے سخت اختلاف کیااوراسے ایک کالاقانون قراردیا۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ اس طرح کے قوانین جوحکومت نافذ کرے گی وہ کسی درجے میں بھی مہذب کہلانے کی حق دارنہیں ہوگی۔ہندؤں کے راہنما موہن داس گاندھی بھی اس قانون کے نفاذپر سخت برہم تھے اورانہوں نے بھی اپنے بیانات اورتقاریر میں کھل کر اس قانون کی مخالفت کی۔راہنماؤں کے تتبع میں عوام الناس میں بھی اس قانون کے نفاذپر سراسیمیگی پھیل گئی۔تاج برطانیہ کاخیال تھاکہ ہندوستانی خوف سے دب جائیں گے لیکن ان کایہ خیال خام ثابت ہوا اورپوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور اس قانون کے خلاف صف آراہوگئی۔چنانچہ6اپریل 1919کو کل ہنداحتجاج کیاگیا،سب ہندوستانی اپنے کاج چھوڑ کر ان مظاہروں میں شریک ہوئے،پورے ہندوستان میں جگہ جگہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے،جوق درجوق لوگوں کے جم غفیران کیمپوں میں شریک احتجاج ہوئے،جلسے جلوسوں کی توکوئی حدہی نہ تھی۔پنجاب اور بنگال کے کچھ علاقوں میں پرتشددواقعات بھی رونماہوگئے اور عوام الناس میں یہ ردعمل ”تحریک عدم تعاون“کے نام سے مشہور ہوگیا۔10اپریل کو ہندوستانیوں کے دواہم راہنما ڈاکٹرسیف الدین کچلواور ڈاکٹرستیہ پال کو اس قانون کے تحت خفیہ طریقے سے خاموشی کے ساتھ گرفتارکرکے دھرم شالہ بھیج دیاگیااورکسی کوکانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی۔حکومت نے حالات سے نبردآزماہونے کے لیے دانشمندی کاراستہ اپنانے کی بجائے دہشت کردی کاراستہ اپنایا اور فوج کوطلب کرکے شورش زدہ علاقے اس طاقتورادارے کے حوالے کردیے جہاں برطانوی فوج کے سپاہیوں نے بندوقوں کے دہانے ہندوستانی شہریوں پرکھول دیے اور شہریوں پر ظلم و ستم اور ان کے قتل عام کی ماضی شکن مثالیں قائم کیں۔جب یہ خبریں ہندوتان کی سرحدوں سے نکل کر دنیائے عالم تک پہنچیں اور ہر جگہ نہ صرف یہ شرمندگی بلکہ لعن طعن کی ڈھیروں کالک گورے سامراج ماتھے پر تھونپی گئی توکھسیانی بلی کھنبے نوچے کے مصداق برطانوی ہندوستانی حکومت نے مارچ1922میں یہ ایکٹ واپس لے لیا،ہائے اس زودپشیماں کاپشیماں ہونا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...