(اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلیہ راجعونِ)
ابھی کچھ دیر پہلے کینیڈا سے عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی کے مشترکہ واٹس ایپ نمبر پرٹیلی فون کی بیل ہوئی۔ دوسری طرف سے آواز آئی میں ہما (یا شایدصبا) بول رہی ہوں۔آگے کی بات سننے سے پہلے ہی دل دھک ساہوگیا۔ کیونکہ اس نمبر پر ہمیشہ عبداللہ جاوید اور شہناز خانم کی آوازیں ہی سنی ہیں۔کسی اور آواز کا آنا ہی خطرے کی گھنٹی تھی۔ ڈاکٹر ہما یاصبا اپنے والد صاحب کی وفات کی خبر دے رہی تھیں۔انالِلہ و انا الیہ راجعون۔عبداللہ جاویدویسے تو طویل عرصہ سے شدید علیل تھے لیکن سنگین علالت کے باوجود انہوں نے اپنا ادبی کام جاری رکھا ہوا تھا۔ان کے تین شعری مجموعے ’’موجِ صد رنگ‘‘،’’حصارِ امکاں،’’خواب سماں‘‘ چھپ چکے ہیں۔افسانوں کا مجموعہ’’بھاگتے لمحے‘‘بھی شائع ہو چکا ہے۔ان کے متعدد ادبی کالم،مضامین اور خاکے ادبی رسائل اور اخبارات میں چھپے ہوئے ہیں۔ان کا ایک ایک انتخاب بھی چھاپنا چاہتے تھے۔تاہم ان کا ایک اہم کام مولانا جلال الدین رومی کی منظومات پر زیر تکمیل تھا۔امید ہے عبداللہ جاوید کی وفات کے بعد ان کے بچے مل کر ان کے ان سارے ادبی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔تنقید نگاری کی روایت کے مطابق عبداللہ جاوید نے بہت سارے اچھے مضامین لکھے لیکن انہوں نے اس روایت سے ہٹ کر بھی اس میدان میں انوکھا کام کیاہوا ہے۔’’مت سہل ہمیں جانو‘‘کے نام سے مطالعۂ میر کا ایک نیا انداز سامنے لائے۔علمی و ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی کے بعد عبداللہ جاوید نے’’آگ کا دریا‘ایک مطالعہ‘‘ کتاب لکھی۔قرۃ العین حیدرکے ناول’’آگ کا دریا‘‘کو ایک نئے انداز سے پڑھ کر انہوں نے اپنی رفیقِ مطالعہ کتاب لکھ دی،تنقید کے میدان میں عبداللہ جاوید کی یہ دونوں کتابیں اپنی انفرادی شان رکھتی ہیں۔
عبداللہ جاوید خوش نصیب تھے کہ انہیں شہناز خانم عابدی جیسی بیگم ملیںجو خود بھی ادبی ذوق رکھتی تھیں۔افسانے لکھتی ہیں،مضامین لکھتی ہیں اور ادبی دنیا میں اپنی ہمت کے مطابق سرگرم رہتی ہیں۔عبداللہ جاوید کی طویل علالت کے باوجود ان کے ادبی طو ر پر متحرک رہنے میں شہناز خانم عابدی کی بہت خدمات شامل ہیں۔وہ عبداللہ جاویدکی رفیقِ حیات بھی ہیں اور رفیقِ ادب بھی۔اسی لئے عبداللہ جاوید تادمِ آخر ادبی طور پر متحرک رہے۔عبداللہ جاوید 16 دسمبر 1931 میں یوپی کے شہر غازی آباد میں پیدا ہوئے اور16 مارچ 2022 کو کینیڈا میں وفات پا گئے۔ان کے سارے بچے کینیڈا اور امریکہ میں اچھی طرح سے آباد ہیں،سرسبزوشاداب ہیں۔
عبداللہ جاوید علالت سے پہلے بھی زیادہ مجلسی ادیب نہیں تھے لیکن علالت کے بعد تو بالکل گوشہ نشین ہو گئے۔لگ بھگ چودہ سال پہلے جب میں نے ’’جدید ادب‘‘جرمنی میں ان کا گوشہ چھاپنا چاہا تو اس تعلق سے ہمارے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا اندازہ اس ایک خط سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو تب عبداللہ جاوید نے مجھے لکھا تھا۔اور جو ’’جدید ادب ‘‘جرمنی کے شمارہ 13 ۔۔جولائی 2009 میں شائع کر دیا تھا۔اس خط سے عبداللہ جاوید کی ادبی منظر نامے پر گہری نگاہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
عبداللہ جاوید بنام حیدر قریشی
کینیڈا۔۱۸؍ستمبر۔۲۰۰۸
عزیز گرامی حیدر قریشی۔سلام خلوص
سنا ہے آپ میرا گو شہ چھاپ رہے ہیں۔یہ نہیں کہ میں ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوں۔میں بھی سب کی طرح آدمی ہوں۔قلم کار بھی ہوں ۔ نہ ہی سادھو سنت ہوں نہ تارک ِدنیاپیر‘ فقیراور یہ جو1970 سے‘ مشاعروں ‘ مذاکروں سے توبہ کی اور ایک کونہ پکڑا سو اس کے پیچھے ساتھی قلم کاروں کی آپا دھا پی‘ ٹانگ گھسیٹی‘ خود تشہیری ‘ اور خود سا ختہ اور نام نہاد اکا برینِ ادب ‘ نقّا دا ن اکرام اور گدّی نشینا نِ ادارہ ہائے ادب کی غلط بخشیاں‘ اور گروہ نوا زیاں اور بقول ڈاکٹر احسن فارو قی ’’ اپنے گھوڑے یا گھوڑی کو آگے لگا نے ‘‘کی نفسیات رہی ۔مجھے اس سے ا نکار نہیں کہ یہ سب بھی بندے بشرکے ضمیر میںازل سے شا مل ہے لیکن آٹے میں نمک کی حد تک ہوں تو کوئی مجھ سا لکھنے وا لا در گذر کر جا ئے لیکن نمک میں آٹا ہو جا ئیں تو کیا کرے۔۔؟ خود گذر جا ئے ۔۔ میں بھی قریب قریب گذر ہی گیا لیکن شعروادب کی شراب’’ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فر لگی ہوئی ‘‘ کے مطابق جان سے لگی رہی ‘ ۔ گاہے گاہے کلام اور مضا مین و غیرہ شائع ہو تے رہے۔’فنو ن‘ ’ سیپ‘ کبھی کبھار جنگ کراچی‘ ایک آدھ مرتبہ ’ڈان‘ کراچی اور جسا رت میں ہفتہ وار ادبی کالم ’گاہے گاہے ‘کے عنوان سے کچھ عرصہ۔فی ا لحال ہفتہ وار ’اردو پوسٹ ‘ کینیڈا میں ادبی کالم۔ وغیرہ وغیرہ۔
قریشی صا حب !آپ کی حِس مزا ح نہا یت بر جستہ ہے۔ ابھی کی بات ہے ٹیلیفونی بات چیت میں آپ نے کتنا بر جستہ کہا تھا ’’ آپ گوشہ نشین کیسے ہوئے۔۔؟ گوشہ نشین تووہ ہوتا ہے جس کا گوشہ شا ئع ہو جا تاہے۔‘‘ ابھی میں آپ کے اس فقرے کا پوری طرح مزہ بھی نہ لے پایا تھا کہ خبر ملی کہ آپ مجھ کو ’’ گوشہ نشین‘‘ کر نے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔میں نے لڑکپن میں اپنی والد ہ کو یہ کہتے سنا تھا ’بن مانگے موتی ملے ، مانگے ملے نہ بھیک ‘ یہ کہا وت میری کمزو ری بن گئی کیونکہ بعد میں۔۔۔ شعرو ادب کا جو ماحول بنا اس میں موتی تو موتی معمو لی کنکر ‘ پتھر بھی بن مانگے ملنا قطعی بند ہو گئے بلکہ مانگنا۔۔۔ بھیک مانگناہو کر رہا ،یا پھر۔۔۔آگے بڑھ کر۔۔۔سفا رش سے حا صل کر نا‘ ہتھیا لینا ‘ جھپٹ لینا ‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بھائی یہ میں چاہتا تھا جو آپ بن مانگے دینے جا رہے ہیں ۔ میں تو حیران ہوں اورآپکا تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔
مخلص
عبداللہ جا وید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ جاوید کی گوشہ نشینی ان کے کام آئی۔’’جدیدادب‘‘میں ان کا گوشہ چھپنے کے بعد ’’پرواز‘‘لندن اور ’’چہار سوُ راولپنڈی نے ان کے گوشے شائع کیے۔ پھر ’’عکاس انٹرنیشنل‘‘اسلام آباد نے
شمارہ 19 ….مئی 2014 میںعبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی کا مشترکہ گوشہ شائع کیا۔’’عکاس انٹرنیشنل‘‘اسلام آباد ہی نے شمارہ 21 ۔۔ستمبر2015میں عبداللہ جاوید کی کتاب ‘‘مت سہل ہمیں جانو۔آئیے میرؔ پڑھیے‘‘کا خصوصی مطالعہ شائع کیا۔اس میں گیارہ ادیبوں کے مضامین،تبصرے اور تاثرات شامل تھے۔’’عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد ‘‘ کے مدیر ارشد خالد نے ستمبر2017 کے شمارہ 27 کو عبداللہ جاوید نمبر کے طور پر شائع کیا۔یہ نمبر 480 صفحات پر محیط ہے۔گوشہ نشینی کا معاملہ خاص نمبر پر آکر رک نہیں گیا۔اس دوران ڈاکٹرالطاف یوسفزئی ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے یونیورسٹی کے تحقیقی مقالات کے لئے نئے موضوعات کی تلاش میں تھے۔مجھ سے انہوں نے اس سلسلے میں مشورہ کیا تو میں نے اس وقت انہیں دو نام عبداللہ جاوید اور ایوب خاور بطور خاص بتائے اور ادب میں ان کے گراں قدر لیکن خاموشی سے ہو چکے کام کے بارے میں بتایا۔نتیجہ یہ نکلا کہ الطاف یوسفزئی نے ایوب خاور پر ایم فل کا مقالہ اور عبداللہ جاوید پر پی ایچ ڈی کا مقالہ فائنل کر لیا اور یہ دونوں مقالات مکمل ہونے کے بعد منظوربھی ہو چکے ہیں۔سو عبداللہ جاوید کی زندگی میں ان پر پی ایچ ڈی بھی ہو گئی۔یہ سب ان کی درویشی اور گوشہ نشینی کا ثمر تھا جو انہیں ملتا چلا گیا۔یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ڈاکٹر عامر سہیل اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کی نگرانی میں قرۃ العین حیدرپر پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔تب میں نے قرۃالعین حیدر کے ناول پر عبداللہ جاوید کی کتاب کا انہیں بتایا اور کتاب کی فراہمی کو بھی ممکن بنایا۔یہ کتاب بھی یونیورسٹی میں عبداللہ جاوید کے علمی تعارف کا ایک سبب بنی۔اللہ ڈاکٹر عامر سہیل اور ڈاکٹر الطاف یوسفزئی دونوں کو جزائے خیر دے۔آمین۔
اس سارے کام سے تھوڑا پہلے 2013 ء میں گلبرگہ یونیورسٹی،کرناٹک سے ڈاکٹرعبدالرب استاد نے میرے ادبی کام پر پی ایچ ڈی کر لی تھی۔2014 میں ڈگری ایوارڈ ہونے کے بعد عبدالرب استاد نے مجھے بتایا کہ عام طور پر زندہ ادیبوں پر پی ایچ ڈی نہیں ہوتی۔کسی بھی ادیب کے مرنے کے بعد اس پر پی ایچ ڈی کی جاتی ہے۔یہ بڑی بات ہے کہ آپ پر آپ کی زندگی میں ہی یہ کام ہو گیا ہے۔تب میں نے بے ساختہ کہا تھا کہ گویا آپ نے مجھے جیتے جی مار ڈالاہے۔ڈاکٹر عبدالرب استاد میرے اس جملے پر ہنسنے لگے۔یہ بات عبداللہ جاوید کو بتائی تووہ بھی بہت ہنسے،دیر تک ہنستے رہے۔عبداللہ جاوید کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوتی تھیں،اردو کی ادبی دنیا کی آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ خبریں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرتے اور پھر ان پر تبصرے بھی کرتے۔تاہم ہمارے سب سے بہترین لمحات وہ ہوتے تھے جب ہم اپنی مشترکہ دلچسپی کے الہٰیاتی موضوع اور اسی سے منسلک ادبی اور سائینسی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔یہ گفتگو فکری سطح سے بڑھ کر اپنے اپنے تجربات بیان کرنے تک بھی چلی جاتی۔بعض اوقات یہ گفتگو اتنا طول پکڑ جاتی کہ دونوں طرف کے گھر والے تنگ پڑ جاتے تھے کہ انہوں نے بھی ٹیلی فون استعمال کرنا ہوتا تھا۔شکر ہے کہ واٹس ایپ آنے کے بعدیہ پریشانی ختم ہو گئی۔
میرے قریبی ادبی احباب کے ساتھ بھی عبداللہ جاوید کا پیار کا تعلق تھا۔فرحت نواز،صادق باجوہ اور ارشد خالد وغیرہ سے ان کا کسی نہ کسی رنگ میں رابطہ تھا۔ان سب کی کتابوں کی اشاعت کے وقت عبداللہ جاوید نے اور شہناز خانم عابدی نے بھی حوصلہ افزائی والے مضامین لکھے۔میرے محبوب رائٹرز سے بھی ان کامحبت کا تعلق رہا۔میرا جی،ڈاکٹر وزیر آغا اور جوگندر پال پر ان کے مضامین سے اس ادبی محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
عبداللہ جاوید کی علمی و ادبی زندگی کے چند نمایاں پہلوؤں کے ساتھ میں نے ان کے ساتھ اپنے اور اپنے ساتھ ان کے تعلق کو تھوڑ ا سا بیان کیا ہے۔ان کی وفات میرا ذاتی نقصان ہے۔میں ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔آمین۔۔۔گہرے صدمے کی اس حالت میں بھابی شہناز خانم عابدی کواللہ صبرِ جمیل عطا کرے،اور طویل رفاقت کے بعد اس جدائی کے دکھ کو سہنے کی ہمت دے۔آمین۔ میں دیگر لواحقین سہیل جاوید،ڈاکٹر سرور عالم،نسیم اختر،اسد جاوید،سبین جاوید،ڈاکٹر ہما عالم،صبا اختر،زویا عالم،انعم اختر،نویرہ جاوید،مسکان جاوید،ربا اختر،سارم جاوید،فاران جاوید،پریسہ جاویداورعیان جاویدکے ساتھ بھی تعزیت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ان سب کے لئے صبرِ جمیل کی دعا کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...