"کیا تم اپنی بہن یا بیٹی کو بھی اجازت دو گے کہ وہ غیر مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کریں ”
یہ جملہ آپ نے کثرت سے سنا ہو گا۔ جب کوئی عورتوں کی حقوق کی بات کرے گا تو یہ جملہ کہا جائے گا ۔ جب کوئی لبرل ازم کی حمایت کرے گا تو یہی کہا جائے گا ۔ جب بھی انفرادی آزادی کی بات آئے گی تو یہی جملہ گونجے گا۔ دراصل اسی ایک جملے میں انتہائی سطحی سوچ چھپی ہے ۔ یہ جملہ گھٹیا سوچ اور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔
جب بات انفرادی آزادی کی ہو رہی ہے تو لفظ "اجازت” کا استعمال ہی کم عقلی پہ دلالت ہے ۔ اس پہ مستزاد آزادی کو فحاشی پہ مامور کرنا ہی گھٹیا سوچ کی ترجمانی ہے ۔ یعنی ایسے لوگ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ عورت انسان نہیں بلکہ کوئی شے objective ہے جن پہ ہماری مرضی چلتی ہے ۔ ہماری عورتیں اسی لیے بچی ہوئی ہیں کیونکہ ہم نے ان کو زبردستی روکا ہے ۔ اگر ہم انھیں انکی مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دیں گے تو وہ ہر رات کسی مرد کے ساتھ گزارے گی ۔
یعنی چیک کریں کہ ان کا ذہن کس قدر ہوس زدہ ہے لہذا یہ اپنی خباثت کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ کیا تم اپنی بہن کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق دو گے ۔۔ ان کی نظر میں ہر عورت فحاشہ ہوتی ہے۔ بس جس کو اجازت نہیں ہوتی وہ برے کاموں سے رک جاتی ہے اور جس کو اجازت مل جائے وہ پھر روز مرد بدلتی ہے۔
اسی طرح جب کوئی عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مرد عورت پہ ظلم کرتا ہے تو اسے طلاق لینے کا حق ہے ۔ فوراً جواب آتا ہے کہ تم اپنی بہن کو طلاق دلوا کر مثال قائم کرو ۔ اگر اس کی بہن ظلم و ستم سہتی ہے تو یقیناً وہ آپ سے پوچھے بغیر اپنی بہن کو بھی یہی مشورہ دے گا۔
جناب !!! جن کو اپنی بہن ، بیٹی کے کردار پہ کوئی شک نہیں ہے وہ ان کا ” میرا جسم میری مرضی ” کا حق بھی تسلیم کریں گے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا بھی حق دیں گے۔ جن کے ذہنوں میں خباثت ہیں ، جو عورتوں کو سیکس ٹول سمجھتے ہیں ان کی سوچ بھی سیکس سے آگے نہیں بڑھے گی۔ وہ عورت کی آزادی کا مطلب ہی سیکس لیں گے۔ وہی بات کہ انھوں نے صرف طوائف کو آزاد عورت کے روپ میں دیکھا ہوتا ہے لہذا ان کی نزدیک ہر آزاد عورت طوائف ہے ۔ کچھ غیر اخلاقی لگا ہو تو معذرت لیکن ایسے افراد کو اپنا نفسیاتی معالجہ کروانا چاہیے۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...