میں قرنطینہ کا پہلا ہفتہ گزار رہی تھی ۔میڈیا اور سوشل میڈیا سے بالکل کٹ آف ہو گئ تھی کیونکہ ہر روز کووڈ سے یا کسی دوسری وجہ سے مرنے والوں کی خبریں سن سن کر خود کو بھی عالم بالا میں محسوس کرنے لگی تھی ۔12۔جون 2020 کو مگر جب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی رحلت کی خبر ملی تو دل ٹوٹ سا گیا، کیا عالم انسان تھا، کیسا وضع دار اور کیسا ہنس مکھ ۔۔۔۔۔ مگر میری خود غرضی دیکھئے کہ پہلا سوال جو نیم بے ہوشی کے عالم میں میرے دماغ نے کیا وہ یہ تھا کہ: اب لغت نامہ دھخدا کی تلخیص کا کیا ہو گا ۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی اردو اور فارسی کے کمال عالم تھے، ان کے کاموں پر کئ پہلوؤں سے روشنی ڈالی گئی ہے، اور ان پر مسلسل ابھی لکھا جائے گا لیکن مجھے ان کے جس کام میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی وہ لغت نامہ دھخدا کی تلخیص تھی جو وہ کر رہے تھے اور میری اطلاع کے مطابق ہر پیر اور جمعرات کو شیخوپورہ سے لاہور اسی کام کے لئے جاتے تھے ۔
دھخدا، جن کا پورا نام علی اکبر غزنوی تھا، فارسی ماہر لسانیات اور لغوی تھے۔1879ء میں تہران میں پیدا ہوئے اور 77 سال کی عمر میں تہران میں ہی 9۔مارچ 1956 کو انتقال کر گئے ۔ انہوں نے چالیس جلدوں میں فارسی کی سب سے بڑی لغت "لغت نامہ دھخدا "تالیف کی تھی ۔میں سوچتی ہوں تو میرا دماغ سن ہو کر رہ جاتا ہے کہ آخر تن تنہا کوئی شخص ایسا کام کیسے کر سکتا ہے؟
میں نے لغت نامہ دھخدا کی کئ جلدوں کا مطالعہ کیا اور حیرت اور رعب سے ہر بار بس مرتے مرتے بچی، لوگ اتنے بڑے بڑے کام کیسے کر لیتے تھے؟۔۔۔۔۔ہم کیوں نہیں کر سکتے☹
یہ فارسی کی سب سے بڑی لغت پہلی بار، 1931میں تہران یونیورسٹی پریس سے چھپی تھی۔ اس کے بعد باقاعدہ "دھخدا ڈکشنری انسٹیٹیوٹ " قائم کیا گیا اور اس ڈکشنری کے ریوائزڈ ایڈیشن شائع ہوئے ۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پہلا ایڈیشن 40 جلدوں میں تھا ۔اب آخری بار جب یہ چھپا ہے تو 200 جلدوں کو محیط ہے ۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی صاحب اسی لغت کی تلخیص اور ترجمہ کر رہے تھے ۔ اللہ کرے یہ کام وہ مکمل کر چکے ہوں ۔اس کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں باقی دو جلدوں پر اگر شیرانی صاحب کام مکمل کر چکے ہیں تو پانچوں جلدوں کو جلد از جلد پورے اہتمام سے شائع ہونا چاہیے ۔یہ جی۔سی۔یونیورسٹی کے تحت ہوا ہے یا پنجاب یونیورسٹی کے تحت اس کی اشاعت میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ۔اہل علم ڈاکٹر شیرانی کے اس آخری شاہکار کے بے تابی سے منتظر ہیں ۔