ژاک پغے ویغ
Jacques Prevert (1900-1977)
تعارف و ترجمہ: ڈاکٹر نجمہ خان
بیسویں صدی کا یہ مشہور فرانسیسی شاعر اپنے قول و فعل میں اس صدی کا آئینہ دار تھا یعنی کہ اس نے رسم و رواج، عقیدہ اور احکام و ضوابط سب کی مخالفت کی، سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے کی دھجیاں اڑائیں مگر اس انداز سے کہ لوگ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کے طنز کی کڑواہٹ، ان کے مزاح کی لطافت میں کھو جاتی تھی۔ بہت سادہ زبان میں روز مرہ کی زندگی کے جو چھوٹے چھوٹے خاکے پیش کیے، وہ اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتے ہیں۔ یوں تو ان کی کئی مطبوعات منظرِ عام پر آئیں لیکن ان کا پہلا مجموعہء کلام “Paroles” (الفاظ) ہی ان کی پہچان بنا اور زیرِ نظر اسی سے لی گئی ہیں۔
میرے محبوب صرف تیرے لیے
چڑیوں کے بازار میں جاکر
تیرے لیے ہم چڑیاں لائے
پھول گلی سے تیرے لیے
پھولوں کے گہنے بنوائے
آہن گر سے تیرے لیے
طوق و سلاسل بھی ڈھلوائے
جا کر پھر بازارِ غلاماں
تجھ کو ڈھونڈا چاروں اور
لیکن اے محبوب ہمارے
پا نہ سکے تجھ کو اس طور
پیرس کی رات
Paris at night
اک اک رات کی تاریکی میں تھے لپکے
میری ماچس کی تیلی کے ننھے ننھے شعلے
پہلی مدھم روشنی میں، دیکھا تیرا چہرہ
دوسری نازک لونے تیری آنکھوں کو چمکایا
تیسری لونے تیرے نازک ہونٹوں کو لرزایا
پھر باہوں میں بھر کے تیرا پھولوں جیسا جسم
ذہن میں پھر دہراتا رہا تا دیر میں تیرا حسن
باغ
Jardin
اس نظم کا عنوان "باغ" اس لیے کہ اس میں بیان کردہ واقعہ پیرس کے مشہور پارک Parc montsouris میں پیش آیا تھا:
ہزاروں سال بھی کافی نہیں ہیں
بیاں کرنے کو وہ بس ایک لمحہ
وہ لمحہ جو ابد ہی ہوگیا ہے
وہ جاڑے کی سحر کا ایک لمحہ
مری اک عمر پر ہے وہ محیط اب
نگر پیرس میں گزرا ایک لمحہ
تجھے بانہوں میں بھر کے جب تھا میں نے
ترے ہونٹوں کو چوما ایک لمحہ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔