پروپیگنڈا کا بُنیادی مقصد لوگوں کے عقائد کو کنٹرول یا قابو کرناہے۔ کسی بات کا اتنا چرچا کرنا کہ وہ انسانی ذہن میں بغیر کسی شک و شُبے کے رچ بس جائے پرو پیگنڈا کہالئے گا۔ پروپیگنڈا کسی بھی مقصد کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں لوگوں کو اپنے منشور پر قائل کرنے کے لیے اور کاروباری کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے پروپیگنڈا کا سہارا لیتی ہیں۔ آپ اپنے فلسفیانہ نظریات کو پھیالنے کے لیے بھی پروپیگنڈا کا سہارا لے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الحاد کا سارا کا سارا کاروبار چل ہی پروپیگنڈے پر رہا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے سائنس کو وہ بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں کہ مذہب پر اٹھنے والے ہر اعتراض پر خود تحقیق کر کے سچ یا جھوٹ کا فیصلہ کر سکے۔ بعض دفعہ کسی ایک اعتراض کی سچائی جاننے کے لئے آپ کو بیسیوں کتابیں پڑھنی پڑھ سکتی ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر الحاد ایسے دعوے کرتا رہتا ہے جن کے ذریعے دین کے بارے میں شکوک و شبہات کو ہوا دی جا سکے۔ آج آپ کو فیس بک پر خاص طور کئی ایسے گروہوں سے واسطہ پڑے گاجو نام تو سائنس اور علم دوستی کا لیں گے، دعوی غیر جانبداری کا کریں گے لیکن سائنسی علوم کو تروڑ مڑور کر اس طرح پیش کریں گے کہ پڑھنے واال اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ دین میں بیاں کی گئی یہ بات غلط ہے۔ جیسے پہلے عرض کر چکا کہ ہر اعتراض کی گہرائی میں جانے کی صالحیت سب کے پاس نہیں ہوتی تو کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے سچ اور جھوٹ کا نتارا کیا جاسکے؟
جی ہاں۔ چونکہ اپنے مقصد کو پھیالنے کے لئے یہ لوگ ایک منظم طریقہ کار کے تحت ساری کاروائی کرتے ہیں تو اگر آپ اس طریقہ کار سے واقف ہو جائیں تو بآسانی سمجھ سکیں گے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ اس تحریر کا مقصد آپ کو اس طریقہ کار سے آگاہ کرنا ہی ہے۔ ان سطور کے یہاں لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ پڑھنے واال یہ حربے استعمال کر کے دوسروں کو بے وقوف بنائے بلکہ یہ حربے لکھنے کا مقصد پڑھنے والوں کو الحاد کے مکرو فریب کے جدید جال سے آگاہ اور خبردار کرنا ہے۔
پروپیگنڈا کوئی نئی چیز نہیں اس کا استعمال صدیوں سے جاری ہے مگرجس طرح باقی شُعبوں میں انسان نے خاطرخواہ ترقی کی ہے اس شُعبے میں بھی انسان خاص مہارت حاصل کر ُچکا ہے۔ کوئی بھی نفسیاتی حربہ جو پروپیگنڈا کے معروضی حاالت کے مطابق ہو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر پروپیگنڈا کے لیے استعمال کئے جانے والے تمام حربوں کا احاطہ تو نہیں کیا جا سکتا مگر جدید پروپیگنڈا کے چند بُنیادی اجزا درج ذیل ہیں۔
ذرائع ابالغ پر مکمل کنٹرول
آپ اپنا پیغام دوسروں تک نہیں پُہنچا سکتے جب تک پیغام رسانی کے ذرائع تک آپ کی خاطر خواہ رسائی نہ ہو ۔مگر جب بات پرو پیگنڈا کی ہو تو وہ آپ تبھی کر سکتے ہیں جب ذرائع ابالغ آپ کے مکمل کنٹرول میں ہوں۔یہی وجہ ہے کہ جدید ذرائع ابالغ جیسے ٹی وی، انٹرنیٹ اور اخبارات وغیرہ ایک خاص طبقے کے کنٹرول میں ہیں۔ ذرائع ابالغ کو کنٹرول کرنے کی اہمیت بقیہ اجزا پڑھنے کے بعد خودبخود واضح ہو جائے گی۔
( Omnipresentپرو پیگنڈا کا ہرجگہ موجود ہونا علِم نفسیات کے مطابق اگر ایک چیزکا ذکر بار بار آپ کے سامنے کیا جاتا رہے تو آپ الشعوری طور پر اُس کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جب آپ کے سامنےسینما، ٹی وی ، اخبارات، انٹرنیٹ، رسائل اورجرائد ہر جگہ ایک ہی چیز سامنے آئے گی
تو،اگرچہ آپ شعوری طور پر اس چیز کو نا پسند کرتے ہوں ، الشعوری طور پر اُسے اپنانا شروع کر دیں گے۔ مثال جدید ذرائع ابالغ، چاہے اسالمی ممالک کے ہوں یا غیر اسالمی ممالک کے، اسالمی دہشتگردی کے تصورسے اتنے لبریز نظر آتے ہیں کہ عام مسلمان بھی اُن دہشت گردوں کو مسلمان سمجھنا شروع ہو چکے ہیں۔ ایک اور مثال فلم اور ٹی وی کلچر میں عریانی کا رجحان ہے۔ آپ جتنا بھی شعوری طور پر عریانی کے مخالف ہوں جب آپ ہر جگہ وہی چیز دیکھیں گے تو آپ ال شعوری طور پر اس کو قبول کرنا شروع کر دیں گے۔
Hypothesis Amplificationنظریہ توسیع )
اگر کسی بات کوپُر اعتماد طریقے سے بیان کیا جائے تو سُننے واال جلدی قائل ہو جائے گا۔اسی طرح اگر کسی بات کو شکوک و شُبہات کے ساتھ بیان کیا جائے تو سُننے والے کو آمادہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ قطعہ نظر اس کے کہ بات سچ ہے یا نہیں، اگر کسی بات کو غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ کیا جائے تو دوسروں کے قائل ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ بس میں دانت درد کی دوا کے نام پر نمک بیچنے واال، گھر گھر جا کر ڈیٹرجنٹ کے نام پر سوڈا بیچنے واال اور سائنس کے نام پر ڈارون کا نظریہ ارتقا بیچنے واال ملحد اسی پر اعتمادی کے سہارے اپنا کاروبار چال رہا ہے۔ نظریہ ارتقا ایک فرضی کہانی سے زیادہ سائنسی حثییت نہیں رکھتا )اس بارے کئی پوسٹس پہلے سے ہی گروپ میں موجود ہیں (مگر اس نظریہ کو اتنے پُر اعتماد طریقے سے ذرائع ابالغ اور الحادی انتظامیہ کے زیر انتظام سائنس گروپس میں بیان کیا جاتا ہے کہ عام آدمی تو ایک طرف (کا علم رکھنے والے،اس نظریہ کی تمام تر خامیوں کے باوجود اس نظریہ کو biologyسائنس کو جاننے والے بلکہ حیاتیات ) سچ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر اعتمادی کا اثر دیکھیں کہ دور حاضر کے کچھ علما کرام اب اس کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ قرآن میں ارتقا کے نظریے کی گنجائش نکال سکیں۔ اس کے عالوہ بھی قرآن اور سائنس کے ظاہری تضادات اسی پر اعتماد طریقے سے بیان کئے جاتے ہیں کہ سننےواال اس اعتماد کی وجہ سے ہی قائل ہو جاتا ہے۔ آسمان کے وجود کی ہی مثال لے لیجیے۔ کوئی ایک سائنسی پیپر ایسا نہیں جو یہ دعوی کرے کہ آسمان کا وجود نہیں ہے لیکن یہ الحادی گروہ پر اعتماد طریقے سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں اور عام آدمی قرآن میں آسمان کا ذکر سن کر قرآن کو غلط سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
غیر محسوس طریقے سے پیغام رسانی جدید پرو پیگنڈا کاایک اور بُنیادی نُکتہ پیغام کو غیر محسوس طریقے سے لوگوں تک پُہنچانا ہے۔اگر کسی کو برا ِہ راست کوئی بات کہی جائے تو وہ اُس بات کے سچ یا جھوٹ کا پتہ چالنے کا سوچ سکتا ہے لیکن اگر ُوہی بات غیر محسوس طریقے سے کسی دوسری بات میں مال کر کر دی جائے تو سُننے والے کا ذہن دوسری بات میں اتنا مگن ہوگا کہ وہ پہلی بات کو جوں کا توں قبول کر لے گا۔ اُس کو شک بھی نہیں گُزرے گا کہ بات کرنے واال ُمجھے اصل میں یہ پیغام دینا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن سب سے بہتریں مثال بی بی سی اردو کی خبریں ہیں۔
یکم جنوری 2016 کی بی بی سی اُردو کی خبر "وہ سولہ برس کی ہو گئی ہے"میں اکیسویں صدی کے سولہیویں سال کے آغاز پرتبصرا کیا گیا ہے۔ اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اکیسویں صدی کے پندرا برسوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے مگر اشاعت میں یہ پیرا گراف بھی شامل کر دیا گیا ہے
"انسان جب ُدنیا میں نیا نیا آیا تھا تو اس نے گرجتے بادل،کڑکتی بجلی ، آندھی ، طوفان اور بُرے سپنوں کا خوف بھگانے کے لیے مذہب کو ایجاد کیا۔پہلے درختوں اور پتھروں کی عبادت شروع کی ،پھر انسانوں کی پوجا کے بعد کتابوں کو پوجنا شروع کیا۔" )خبر کا لنک اور سکرین شاٹ نیچے موجود ہے(۔
اس طرح پڑھنے والے تو صرف یہی سمجھ رہے ہونگے کہ انہوں نے 2015 تک کے واقعات پر نظر ڈالی ہے مگر حقیقت میں
ان کے ذہنوں میں خدا کے وجوو کا ایک نیا تصور ڈال دیا گیا ہے۔ ) ُخدا کے وجود کے بارے میں پھیالئی گئی غلط فہمیوں کی تفصیل آئندہ ابواب میں آئے گی( ۔ اس ساری اشاعت یا 2015 میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا دور دور تک بھی اوپر بیان کیے گئے پیراگراف سے تعلق نظر نہیں آتا مگر پھر بھی قاری پرو پیگنڈا کے اس طریقہ کار کو سمجھ نہیں پائے گا۔ غیر
محسوس طریقے سے پیغام پُہنچانا ، ایک تیر سے دو شکار کرنے کے ُمترادف ہے۔ ایک تو یہ کہ پڑھنے واال آپ کا پیغام غیر ارادی طور پر قبول کر ُچکا ہے دوسرا یہ کہ اس طرح دیے گئے پیغامات پرمخالف ردِعمل آنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
اوپر کی مثال میں اگر یہ باتیں الگ سے کی گئی ہوتیں تو مذہبی طبقے کا ردِ عمل آنا الزمی تھا۔ مگر اس طرح پیغام رسانی سے، سانپ بھی مر گیا اور الٹھی بھی نہیں ٹوٹی کے مصداق، بی بی سی کی بے لوث صحافت اور نیک نامی پر کوئی داغ نہیں آیا اورایجنڈہ بھی پورا ہو گیا.
Terms Ultimateمناسب اصطالحات کا چناؤ)
اگر آپ کسی شُعبے کی خاص اصطالحات سے واقف ہیں تو آپ اُن اصطالحات کو پروپیگنڈا میں استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو اُس شُعبے کی بات کا رنگ دے سکتے ہیں۔ اصطالحات کے استعمال کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ اس تحریر میں اگر پروپیگنڈا کے اجزا بتاتے ہوئے پروپیگنڈا کی مروجہ انگریزی اصطالحات استعمال نہ کی جاتی تو ان اجزا کی اہمیت واضح نہ ہوتی۔ اگر آپ اپنی کسی غیر سائنسی تحریر کو سائنسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو بس اُس شُعبے کی سائنسی اصطالحات کا استعمال کرنا ہے ۔پڑھنے والے فرق نہیں کر سکیں گے کہ یہ اصل تحریر ہے یا سائنس کے پردے میں چھپی ہوئی کسی پروپیگنڈا کی تحریر۔ مناسب اصطالحات اور الفاظ کا چناؤ صرف پروپیگنڈا کو کسی خاص شُعبے کے رنگ میں ڈھالنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ اپنے پیغام کو موثر اور ُخفیہ انداز میں پُہنچانے کے لیے بھی ضروری ہے مثال کے طور پہ بی بی سی اُردو کی اوپر بیان کی گئی تحریر میں الہامی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا کہ انسان ُخدا کی بجائے الہامی کتابوں کی عبادت کر رہا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اتنی خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ انسان غیر ارادی طور پر الہامی مذاہب ِل اعتماد سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور آسمانی کتابوں کو ناقاب ہمارے معاشرے میں انگلش بولنا پڑھے لکھے ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے بچے جب کوئی نیا لفظ سیکھتے ہیں تو بال ضرورت اس لفظ کو ہر جملے میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ یہی حال سائنس گروپس میں موجود الحادی پروپیگنڈا کرنے والوں کا ہے۔ ان لوگوں نے سائنس اور فلسفے کی کچھ اصطالحات کا رٹا لگا رکھا ہے ۔ کچھ دیر ان لوگوں سے بات کرنے کے بعد اندازا ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ سائنس کی انتہائی بنیادی چیزوں سے بھی نابلد ہیں لیکن نظریہ اضافیت کی اصطالحات کچھ اس طرح استعمال کرتے نظر آتے ہیں جیسے آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت ان لوگوں سے سیکھا ہو۔
بی بی سی کی خبر کا لنک
https://www.bbc.com/urdu/world/2016/01/151231_washington_dairy_new_year_sz
رضا کار
اگر آپ اپنے پرو پیگنڈا کو پُر کشش بنا لیں اور لوگوں کو اپنی خواہشات پوری ہوتی نظر آئیں تو آپ کو لوگوں کی خدمات مفُت میں مل سکتی ہیں جواپنے ذاتی مفادات کے لیے آ پ کے نظریات کا پرچار کرتے پھریں گے۔ اس طرح چراغ سے چراغ جلتا جائے گا اور رضا کاروں کا ایک گروہ تشکیل پا جائے گا۔مثال کے طور پر چرچ کی باال دستی ختم کرنے کے لیے سیکولر نظام کی بُنیاد ڈالی گئی۔ لیکن ُخدا کی موجودگی میں نظاِم حکومت کو ُخدا کے احکامات سے الگ کرنا ممکن نہیں تھا۔ (secular(
ضروری تھا کہ ُخدا کے تصور کو سرےسے ہی ختم کر دیا جائے۔اگر ُخدا کا تصور نہ رہے تو روِز جزا اور اچھائی بُرائی جیسے تصورات خودبخود ختم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ہر کوئی اپنی مرضی سے جی سکتا ہے جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس نظریے میں اتنی کشش تھی کہ سیکولر ازم کو رضا کاروں کی ایسی جماعت میسر آئی کہ سیکولر ازم نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اپنے اردگرد موجود ملحدین پر نظر دوڑائیں تو ایک چیز آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے وہ یہ کہ ان لوگوں نے الحاد کا رستہ اس لئے اختیار نہیں کیا کہ انہیں خدا کے عدم وجود کے بہت مضبوط دالئل مل چکے ہیں بلکہ ان کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو خدا کے بنائے قوانین پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتے۔ ہوس کے پجاری کو جنسی ازادی چاہئے تو شراب کے رسیا کے لئے شراب پر پابندی قابل قبول نہیں۔ سودی کاروبار والے کو سودی لین دین کی اجازت چاہئے تو رات و رات امیر ہونے کے خواب دیکھنے واال جوئے کے کاروبار کی اجازت چاہتا ہے۔ خدا کے بنائے قوانین جب ان کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں تو یہ خدا کے وجود کی نفی میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں۔ انہیں اس بات سے سروکار نہیں کہ خدا کے وجود کی نفی میں دی گئی دلیل بوگس ہے یا مضبوط یہ ہر اس بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلیتے ہیں جو انہیں خدا کے قوانین سے نجات دال سکے۔ ہمارے اردگرد موجود سائنس اور حقیقت پسندی کا راگ االپنے والے ملحدین ایسے رضا کاروں کا ہی ٹولہ ہے جونام تو حقیقت پسندی کا لیتے ہیں لیکن اپنے مکروہ عزائم کے لئے شعوری یا الشعوری طور پر کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کے انکاری ہیں۔
مخالف نظریات کا رد
پرو پیگنڈا کے موثر ہونے کے لیے پرو پیگنڈا کے مخالف نظریات اور حقائق کو ُچھپائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح جدید پرو پیگنڈا اپنی بات کو دوسروں تک پُہنچانےپر ہی مشتمل نہیں رہا بلکہ ایک پیچیدہ جال کی شکل اختیار کر ُچکا ہے۔
سب سے پہلے یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ آپ کے پرو پیگنڈا کے ُمخالف کوئی رائے ذرائع ابالغ تک نہ آ سکے اور اگر وہ کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی ُچکی ہو تو اُس کو رد کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار پہلے سے موجود ہو یعنی لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرنے سے پہلے مخالف رائے کے بارے میں بد اعتمادی پھیالنا ضروری ہے۔ یہ کام آپ کئی طریقوں سے سر انجام دے سکتے ہیں۔جو ذرائع ابالغ آپ کے کنٹرول میں ہیں ان پر تو ظاہر ہے مخالف نظریات پُہنچ ہی نہیں سکیں گے مگر جو ذرائع ابالغ آپ کے کنٹرول میں نہیں ہیں انہیں آپ ذہنی طور پر اتنا مرعوب کر دیں کہ وہ خوف زدہ ہو کر ہی آپ کے مخالف نظریات کی اشاعت نہ کر سکیں مثال اگر آپ لوگوں کے ذہن میں یہ خوف ڈال دیں کہ آپ کے مخالفین کی کہی گئی یا لکھی گئی ہر بات ہماری نظر میں ہے ہمارا جاسوسی کا جال بہت وسیع ہے اور مخالف نظریات کی اشاعت کرنے والے کو اس کا خمیازہ بُھگتنا پڑ سکتا ہے تواکثریت ویسے ہی آپ کی مخالفت سے باز آ جائے گی اور جو باز نہ آئیں اُن کی ساکھ کو اتنا مجروع کر دیں کہ لوگ ذہنی طور پر مخالف نظریات کو سننے سے پہلے ہی رد کر دیں ۔ دوسرا کام آپ یہ کر سکتے ہیں کہ مخالف نظریات کی تشریح آپ خود کر کے ان کو بُرائی کے کھاتے میں ڈال دیں۔ اس طرح مخالف نظریات اپنی افادیت کھو دیں گے اور آپ بغیرکسی رکاوٹ کے اپنا پروپیگنڈا پھیال سکیں گے۔
اس ضمن میں سب سے بڑا ہتھیار مخالفین کے ہر اعتراض کو سازشی نظریہ کہہ کر رد کرنا ہے۔ پروپیگنڈا کرنے والے جس دلیل کا جواب نہیں دے پاتے اسے سازشی نظریے کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح ارتقا پر اٹھنے والے ہر علمی اور سائنسی اعتراض کا علمی اور سائنسی جواب دینے کی بجائے صرف یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ یہ اعتراضات مذہبی لوگ اٹھا رہے ہیں اس لئے ان کی کوئی وقعت نہیں۔
اسالم اور قرآن پر اٹھنے والے تقریبا سارے اعتراضات قرآن کی کسی آیت کو بغیر سیاق و سباق کے اٹھا کر اپنی مرضی کے معنی دینے پر مشتمل ہیں۔ کوئی سورہ توبہ کی آیت اٹھا کر یہ پرچار کرتا نظر آتا ہے کہ اسالم بے گناہ انسانوں کے قتل کا حکم دیتا ہےتو کوئی سورہ کہف کی آیت اٹھا کر کہتا ہے کہ قرآن کا دعوی ہے کہ سورج کیچڑ میں غروب ہوتا ہے ۔ عام انسان کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ قرآن اٹھا کر تحقیق کر سکے کہ ان آیات میں کیا واقعی قرآن یہی معنی بیان کر رہا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور مثال جس کا میں ذکر کرنا چاہوں گا وہ سورہ نبا کی آیت چھ اور سات ہے جس میں پہاڑوں کو کیل سے تشبیح دی گئی ہے اسی طرح سورہ انبیا کی آیت اکتیس ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ پہاڑ زمین کو استحکام بخشتے ہیں۔
پروپیگنڈا کرنے والے ان آیات کو یہ معنی دیتے نظر آتے ہیں کہ قرآن کا دعوی ہے کہ پہاڑ زلزلے کی روک تھام کرتے ہیں اور ساتھ میں ایک لمبا چوڑا جیوالجیکل ڈیٹا ٹیبل کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں کہ یہ دیکھیئے فالں عرصہ کے دوران کتنے زلزلے آچکے ہیں چنانچہ قرآن کا دعوی غلط ہے۔ سطح زمین کے استحکام میں پہاڑوں کا کردار آج ایک سائنسی حقیقت ہے۔ زمین کا رداس تقریبا چونسیٹھ سو کلومیٹر ہے جس میں زیادہ تر حصہ گرم الوے پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابلے میں ٹیکٹونک پلیٹس محض اسی پچاسی کلومیٹر پر مشتمل ہیں جو اس الوے کے اوپر سرکتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف پہاڑ جتنا سطح زمیں سے اوپر ہیں اس سے کہیں زیادہ وہ زمیں کے اندر کیلوں کی طرح دھنسے ہوئے ہیں۔ اس طرح پہاڑ ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت میں مزاحمت پیدا کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر پہاڑ نہ ہوتے تو یہ پلیٹس آزادانہ حرکت کرتی رہتی مگر پہاڑوں کی موجودگی اس حرکت کو قابو کر کے زلزلوں میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جوقرآن آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر رہا ہے اور پہاڑوں کا یہ کردار آج جیالوجی ماننے پر مجبور ہے۔ مگر بجائے اس کے کہ پروپیگنڈا کرنے والے قرآن کے اس دعوے کی سچائی پر قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کرتے انہوں نے ان آیات کو اپنی مرضی کے مطالب پہنا کر لوگوں گمراہ کرنا شروع کر دیا۔
معاشرتی دباؤ
(Social Influence)
جدید پرو پیگنڈا کا ایک اور ہتھیار رہنماؤں کے ذریعے اپنی بات تسلیم کروانا ہے۔ رہنماؤں یا حکمرانوں کے ذریعے تسلیم کروانے سے ُمراد یہ نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو مجبور کریں کہ اُن کی بات تسلیم کی جائے بلکہ اگر آپ اپنے پرو پیگنڈا پر رہنماؤں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عام لوگ خودبخودآپ کے پرو پیگنڈا کے قائل ہو جائیں گے۔
ہم کسی شعبے کے ماہر کی کہی گئی بات کو کسی عام آدمی کی کہی ہوئی بات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مثال آپ کسی خاص معاملے میں مذہب کا نکتہ نظر چاہتے ہیں تواس معاملے میں کسی عالم دین کی رائے کو آپ زیادہ صحیح تصور کریں گے بہ نسبت ایک عام آدمی کی رائے کے، اگرچہ عام آدمی کی رائے اُس معاملے میں عالم دین سے بہتر ہی کیوں نہ ہو۔یہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے آپ کسی غیر سائنسی بات کو کسی سائنس دان کے منہ سے کہلوا دیں تو عام لوگ اس کو سائنسی حقیقت
ہی سمجھ بیٹھیں گے۔
ارتقا کے حامیوں سے اگر کہا جائے کہ آپ میکرو ارتقا کو سچ کیوں مانتے ہیں کیا تجربہ گاہ میں میکرو ارتقا کے ثبوت مل چکے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ارتقا اس لئے سچ ہے کیوں کہ ہزاروں ماہرین حیاتیات اس نظریے کو سچ مانتے ہیں۔ خدا کے وجود کا انکار کرنے والے سے پوچھیں آپ کے اس انکار کی کیا دلیل ہے تو جواب ملتا ہے کہ زیادہ تر سائنسدان خدا کے وجود کے انکاری ہیں اس لئے خدا موجود نہیں۔
آج آپ کو سٹیفن ہاکنگ، کارل ساگان، نیل ڈی گراس ٹائسن اور برائن گرین جیسے کئی بت نظر آئیں گے جنہیں سائنس کا علمبردار بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ سٹیفن ہاکنگ یا کارل ساگان جیسے سائنسدانوں کی نظر میں اگر خدا موجود نہیں تو انہیں یہ عقیدہ رکھنے کا پورا اختیار ہے لیکن جب وہ اپنے عقیدے کا اظہار عوام میں کرتے ہیں تو عوام یہ سمجھتی ہے کہ اتنے بڑے سائنسدان کسی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے۔ الحاد اس بات کا بھرپور پرچار کرتا نظر آتا ہے کہ اکثر سائنسدان خداکے وجود کے انکاری ہیں اور شاید اسکا یہ دعوی ٹھیک بھی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سائنسدان خدا کا انکار کسی سائنسی حقیقت یا عقلی دلیل کی بنیاد پر کر رہے ہیں یا صرف اس لئے کہ انہوں نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جہاں خدا کا صحیح تصور موجود ہی نہیں تھا؟ غرض یہ کہ سٹیفن ہاکنگ جیسے بت تراش کر ان کے منہ سے یہ کہلوانا کہ خدا موجود نہیں الحادی پروپیگنڈا میں بہت کارآمد ثابت ہوا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ لوگ سائنس دان نہیں ہیں یا ان کی سائنس کے شعبے میں خدمات موجود نہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ عام عوام زیادہ تر انہی کے ناموں سے واقف ہے جبکہ ان کے مقابلے میں کہیں بہتر سائنسدان جیسے کہ ایڈورڈ وٹن، ارکانی حامد، سٹیون وائنبرگ، جان ایلس، جولیئس ویس، برونو زمینو، چین ننگ ینگ اور رابرٹ ملز جیسے سائنسدانوں میں سے اکثر کا آپ نے شاید نام بھی نہیں سنا ہو گا۔ سٹیفن ہاکنگ جیسےلوگوں کو سلیبرٹی بنا کر اسی لئے پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے
ذریعے لوگوں کو متاثر کیا جا سکے۔
اچھائی اور بُرائی کے معیار وضح کرنا
کسی کو قائل کرنے کے لئے آپ کے بارے میں اُس کی رائے کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔ لوگ تبھی آپ کی بات کو اہمیت دیں گے اگر آپ اُن کی نظر میں اچھے ہیں۔ اس بات کا ایک سیدھا حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اچھے بن جائیں لیکن اگر آپ کسی ایسی بات کا پروپیگنڈا کرنا چاہتے ہیں جو معاشرے کی نظر میں اچھائی کے ُزمرے میں نہیں آتی تو اُس بات کا پروپیگنڈا کرنے سے پہلے اچھائی اور بُرائی کا تصور بدلنا پڑے گا۔اس کی بہترین مثال ہم جنس پرستی کے بارے میں پروپیگنڈا ہے۔
ِل قبول اور بُری چیز تھی ۔ہم جنس پرستی کو معاشرے کا کُچھ عرصہ پہلے تک ہم جنس پرستی زیادہ تر لوگوں کے لیے ناقاب حصہ بنانے کے لیے پہلے اچھائی اور بُرائی کا معیار تبدیل کیا گیا۔ ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا ایسا مظلوم طبقہ بتایا گیا جو یہ امر شوق کی بجائے بحالت م جبوری کرتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف لوگوں میں ایک مکروہ فعل کو اچھا بنا دیا گیا بلکہ اُس فعل کی ُمخالفت کرنے والوں کے لیے معاشرے میں نفرت بھی پیدا کر دی گئی۔وہ لوگ جو کبھی ہم جنس پرستی کے مخالف تھے آج اُس کی حمایت میں مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔
پروپیگنڈا کو عام فہم بنانا اگر کسی واقعہ کو آپ اپنی مرضی کے رنگ میں بیان کرنا چاہتے ہیں تو الزمی ہے کہ آپ کی بیاں کی گئی تفصیالت سادہ اور عام فہم ہوں۔ تفصیالت اگر پیچیدہ ہوں گی تو عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی اس طرح وہ آپ کے پروپیگنڈا کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پائیں گے۔ لیکن اگر آپ پروپیگنڈا کا بُنیادی مقصد تو وہی رکھیں مگر تفصیالت کو سادہ انداز میں بیان کر دیں تو عام لوگوں کے لیے آپ کا پروپیگنڈا قبول کرنا آسان ہو جائے گا۔ مثال عام طور پر سائنسی نظریات کی تفصیلات سائنسدانوں کی سمجھ میں ہی آتی ہیں اور عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے خاصی محنت درکار ہوتی ہے لیکن اگر آپ ڈارون کے نظریہ ارتقا کی بات کریں تو جاہل سے جاہل آدمی بھی آپ کو نظریہ ارتقا کے بارے میں بتا سکے گا۔ کیونکہ اس نظریے کو پھیالنے والوں نے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ہر آدمی اس نظریے کی تفصیالت سمجھ سکے۔
اُلجھاؤ پیدا کرنا ایک مشہور انگریزی محاورہ ہے کہ
“If you can not convince them confuse them”
مطلب اگر آپ کسی کو اپنی بات پر آمادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اُسے شکوک و شُبہات میں ُمبتال ضرور کر دیں۔ آخری حربے کے طور پر آپ لوگوں کے ذہن کو الجھا کر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔عام طور مذہبی عقائد دل میں رچ بس ُچکے ہوتے ہیں
تو اگر آپ پروپیگنڈا کے ذریعے کسی کو قائل نہ بھی کر سکیں تو آپ اس کے عقائد کے بارے میں شکوک و شُبہات ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔
ختم شد