کل میں نے "ناقابل یقین پر بالکل سچ" کے عنوان سے اپنی زندگی کا ایک واقعہ "پوسٹ" کیا تھا۔ ہر طرح کے "کمنٹس" آئے۔ اب ایک اور واقعہ سنیے:
بات ہے 9مارچ 1999 کی۔ زیر زمین ریل کے سفر کے آغاز سے ہی لگ رہا تھا کہ یہ روسی نوجوان خطرناک ہے۔ پہلی ریل گاڑی میں وہ میرے سے اگلے والے دروازے پر کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔ گاڑی بدلی وہ مجھے دکھائی نہ دیا۔ تیسری اور گھر کے نزدیک سٹیشن پر پہنچنے والی گاڑی میں سوار ہوا تو وہ میرے سامنے کی سیٹ پر آ بیٹھا اور میری آنکھں میں انکھیں گاڑ دیں۔ میں جز بز ہو گیا۔ میں سٹیشن پر گاڑی سے نکلا مگر میں نے اس کو نکلتے نہیں دیکھا۔
میرے گھر سے پہلے، مین روڈ پر ایک چلڈرن پارک ہے جس میں سے راستہ مختصر پڑتا ہے۔ میں اس راستے پر ہو لیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کہیں وہ میرا پیچھا تو نہیں کر رہا۔ میں اس مختصر راستے کے آخر پر تھا، جہاں سے آگے کا راستہ بلند رہائشی عمارتوں کی اوٹ میں آ جاتا ہے۔ وہ تو نہیں تھا البتہ مختصر راستے کے وسط میں ایک ادھیڑ عمر عادی شرابی شخص لڑکھڑاتا ہوا آ رہا تھا۔ میں نے توجہ نہ دی۔ عمارتوں کی اوٹ میں آ کر مجھے کچھ معلوم نہیں۔
جب میری آنکھ کھلی ( میں ہوش میں آیا اس لیے نہیں کہہ رہا کہ اس دو تین میٹر کی اسفالٹڈ پگڈنڈی کے ایک جانب لوہے کا پست جنگلا ہے۔ میں گرتا تو میرے کپڑے میلے ہوتے۔ میری ران یا پہلو میں جنگلا لگنے کا درد ہوتا) تو میرے کانوں سے، ناک سے اور سر کی پشت سے خون بہہ رہا تھا۔ کان اور ناک سے تو باریک دھاروں کی صورت نکل بلکہ اچھل رہا تھا۔ میں دونوں ہاتھ کان اور ناک پر رکھے چل کر آٹھویں منزل کے فلیٹ پر پہنچا۔( بعد میں قدم گنے 180 قدم کا راستہ تھا) ہاتھ ہٹانا نہیں چاہتا تھا اس لیے کہنی سے گھنٹی بجائی۔ بیوی نے آواز دے کر کہا،"چابی ہے تمہارے پاس خود کھول لو"۔ میں نے درشت لہجے میں کہا،"دروازہ کھولو"۔ وہ دروازہ کھولتے ہی مجھے اس حالت میں دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچی۔ ایمرجنسی کو بلایا گیا، میرا دایاں کان اوپر سے چرا ہوا تھا۔ پہلے اسے سیا گیا۔ ایکسرے لیے گئے۔ کھوپڑی تین جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ ریڑھ کی ہڈی میں سے پانی لیا گیا۔ ڈاکٹر جس نے سی ایس ایف لیا تھا اس نے سرنج میں خون بھرا سی ایس ایف (سیریبرو سپائنل فلوئڈ) دکھاتے ہوئے کہا، تم ڈاکٹر ہو ، سمجھ ہی گئے ہوگے۔ جی، میں نے کہا، موت۔ اس نے کہا،"آئی ایم سوری"۔ لیکن مجھے پتہ تھا میں نہیں مروں گا۔
کیوں پتہ تھا یہ بات میں نے جب تک بہت ریسرچ نہ کر لی کسی عام شخص کو نہیں بتائی تھی۔ وارڈ میں جب میری بیوی آئی تو وہ بے طرح رو رہی تھی۔ میں نے کہا ڈاکٹروں نے تجھے کہا ہے کہ میں مر جاؤں گا لیکن مطمئن رہو، میں نہیں مروں گا۔ وہ روتی رہی کیونکہ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ آٹھ گھنٹے بہت کڑے ہیں۔
میں نے "نہ ہونے" کے عالم میں، جسے آپ چاہیں تو بیہوشی کہہ لیں، کیا دیکھا کہ میری والدہ جن کی وفات پچاسی برس کی عمر میں دس سال مفلوج بستر پر لیٹے رہنے کے بعد 9 جنوری 1999 کو ہوئی تھی، چالیس پینتالیس کے پیٹے میں ہیں۔ انہوں نے اپنا پسندیدہ سفید لباس پہنا ہوا ہے۔ میری بغلوں میں دونوں ہاتھ دے کر مجھے گرنے سے بچاتی ہیں اور کہتی ہیں (آواز سنائی نہیں دی، لپ ریڈنگ سے پتہ چلا)،" بیٹے اٹھو، تمہارا ابھی وقت نہیں آیا"۔ جی ہاں مجھے یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا اور آج یہ واقعہ لکھ رہا ہوں۔
میں نے سوچا کیا، یہ میرا گمان تھا، کیا یہ جینے کی شدید خواہش تھی یا کوئی پیغام۔ میں نے پیرا سائنسز پڑھنا شروع کیں، میں نے پیراسائیکالوجی کا کورس کیا، اگرچہ میں اسے اب بھی "ڈیمی سائنس" مانتا ہوں۔ میں نے علم الکائنات کھنگال ڈالا۔ یہ قصہ پھر سہی کہ علم الکائنات کے توسط سے مجھے "الوہ" پھر سے کیسے سمجھ آیا لیکن ایک بات جس کا میں قائل ہو گیا کہ محض دماغ سے وراء بھی کچھ ہے۔ وہ کیا پے، میں مذہب کو کیسے سمجھتا ہوں، بعد از موت تصور کیا ہے، یہ سب قابل بحث ہیں اور ان سب کا تعلق دماغ، سوچ، علم، مشاہدے وغیرہ وغیرہ سے ہے۔ پر مر چکی میری ماں نے مجھے نوید دی تھی کہ تمہارا وقت نہیں آیا اور میں زندہ رہا یہ بہر حال سچ ہے اور آپ بھی جانتے ہیں کہ میں فی الحال ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...