اوروں کی طرح مجھ سے بھی کئی ایسے اعمال سرزد ہوئے ہونگے جو روایتی طور پر گناہ کے زمرے میں چاہے شمار نہ کیے جاتے ہوں لیکن کبھی کبھار ضمیر میں پھانس کی سی تکلیف کا احساس ضرور دلا دیتے ہیں چنانچہ میں باوجود اس کے کہ اس شخص کو جس کی انگلیوں میں دھوپ تھی، اس کے جانے کے بعد یاد نہ کرکے ویسی ہی ایک خلش کو نہیں پال سکتا جسے کوئی چاہے نہ سمجھے لیکن میں خود گناہ خیال کروں۔ وہ شخص شفقت تنویر مرزا تھے جن کو میں 1967 سے دیکھتا چلا آیا تھا لیکن ان سے بالمشافہ گفتگو کی سعادت صرف تین سال قبل اپنے ایک پیارے دوست ریاض شاہد کے توسط سے میسّر آئی تھی۔
دسویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد نتائج آنے اور کسی کالج میں داخلہ لینے تک فارغ تھا۔ میں نے ریڈرزڈائجسٹ کے “بک سیکشن” کا ایک طویل مضمون اردو میں ترجمہ کر دیا تھا۔ ایسا میں نے اپنے بہنوئی محمد ظفیر ندوی اور بڑے بھائی مرزا محمد شعیب کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے کیا تھا کیونکہ وہ دونوں تب “اردو ڈائجسٹ” کی مجلس معاونت میں شامل تھے اور ان کے تراجم شائع ہوا کرتے تھے۔ پھر مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا تھا۔ بہنوئی محترم ان دنوں امروز میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی تھے۔ میں ڈرتے ڈرتے وہ ترجمہ دفتر میں ان کے پاس لے گیا تھا۔ انہوں نے کاپی کو درمیاں سے پھاڑ کر آدھا کیا تھا۔ سفید فاموں سے متعلق حصہ مجھے دے دیا تھا اور سیاہ فاموں والا حصہ اپنے پاس رکھ کر مجھے چائے پلا کر رخصت کر دیا تھا۔ اتوار کے ایڈیش میں یہ ترجمہ “خطایہ ہے کہ کالے ہیں” کے عنوان سے اخبار کی زینت بنا تھا۔ یوں میرے تراجم روزنامہ امروز کے سنڈے ایڈیشن میں چھپنے لگے اور میرا امروز کے دفتر میں آنا جانا رہنے لگا تھا۔
وہاں بہت سے لوگ کام کرتے تھے لیکن مجھے دو شخصیات پر کشش لگتی تھیں۔ جن کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ لمبے تڑنگے اور بے نیاز سے حمید اختر صاحب تھے ، بھرے بھرے سیاہ وسفید بالوں اور عینک کے دبیز شیشوں کے پیچھے سے جھانکتی ذہین آنکھوں والے شفقت تنویر مرزا تھے۔ وہ کبھی بھائی صاحب کی کرسی کے پاس آتے تو میں سلام کر دیتا تھا اور جواب پالیتا تھا۔
اس زمانے میں پنجابی اتنی ہی “نمانی” زبان تھی جتنی آج سرائیکی زبان ہے۔ شفقت تنویر مرزا صاحب پنجابی صفحے کے انچارج تھے۔ بالواسطہ شناسائی کے زعم میں میں نے وہ صفحات پڑھنے شروع کر دیے تھے، یوں پنجابی زبان اور اس سے وابستہ ادب میں میرا شغف بڑھنے لگا تھا۔ اس حوالے سے مرزا صاحب میرے پنجابی کے استاد تھے۔
ایف ایس سی کرنے کے بعد مجھے نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخلہ ملا تھا، جو اگرچہ میری پسند نہیں تھا لیکن مجبوری تھی ،اس زمانے میں جائے سکونت کو دیکھ کر داخلہ طے کیا جاتا تھا۔ کالج میں میرے ایک ہم جماعت تھے چوہدری اظہارالحسن، جو آجکل بریگیڈیر ریٹائرڈ کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کی واحد تفریح کتابیں اور کتابوں کی دوکانیں تھیں اور ہیں۔ جس طرح ان کے گھر کی الماریوں میں کتابیں بند ہیں، اسی طرح ان کے ذہن میں بھی بند ہیں، جن کو کھول کے وہ کبھی بھی حوالہ دے سکتے ہیں۔ بہر حال موصوف کو دو زبانوں کا زیادہ درک ہے انگریزی اور پنجابی۔
1972-73 کی بات ہے انہوں نے غالبا” An elegy written in the country churchyard کا پنجابی منظوم ترجمہ کیا تھا، جو مجھے قافیہ و ردیف چست کرنے کی خاطر دیا تھا۔ اس نظم میں ” بک پھیڈاں دا، بکدا موڑ کھاندا، شاملاٹ اتے دسّے گانہہ جاندا” اور” جٹ ہنبیا ہاریا پیر پاوے ۔ ۔ ۔” قسم کے مصرعے تھے لیکن یہ شفقت تنویر مرزا کی نگرانی میں مرتب ہونے والے پنجابی صفحات کا کمال تھا کہ میں نے جنگھاسے سے لے کر ٹخنے تک لمبی اس پنجابی نظم کی تصحیح کر دی تھی۔ نظم مجھ سے واپس پانے کے بعد چوہدری صاحب نے مجھ سے پوچھا تھا،”ہن ایہدا کی کریے یار؟” میرے ذہن میں ایک ہی شخص آئے تھے اور میں نے کہا تھا اسے شفقت تنویر مرزا کے پاس لے جاؤ۔ چوہدری صاحب اس نظم کو باقاعدہ بذات خود ان کے پاس لے گئے تھے اور پھر ملتان لوٹ کر مجھے ملے تھے۔ میں نے پوچھا تھا کہ کیا کہا انہوں نے؟ چوہدری صاحب بولے “کہنا کی سی، ویکھیا تے آکھیا چھاپ دیو” جس پر میں نے چوہدری کا مذاق اڑایا تھا کہ تمہاری ادق پنجابی دیکھ کر تو شفقت تنویر مرزا کے بھی پسینے چھوٹ گئے ہونگے۔ خیر ان کی کمال مہربانی سے چند روز بعد پورا پنجابی صفحہ اس واحد نظم سے بھرا ہوا تھا۔
وقت گذر گیا۔ کہیں87-1986 میں میں کوٹ ادو سے مریدکے منتقل ہو گیا تھا۔ ظفر یاب احمد سے دوستی تھی۔ اس سے ملنے کی خاطر اکثر وبیشتر ویو پوائینٹ کے دفتر جانا ہوتا تھا۔ مرزا صاحب وہاں بھی ہوتے تھے لیکن وہاں بھی جب وہ رخصت ہونے لگتے تو ان کا میرے سلام کا دیا گیا جواب طفریاب کی پاٹدار آواز میں ان کو کہے گئے کسی فقرے میں دب جایا کرتا تھا تاہم مرزا صاحب کی عینک کے دبیز شیشوں کے پیچھے سے جھانکتی ان کی ذہین آنکھیں اور ان کی پرخلوص، شفاف اور چمکدار مسکراہٹ بہت دیر تک ذہن کی سکرین پر موجود رہتی تھی۔
پھر تین سال پہلے جب میں ریاض شاہد کے ساتھ ایک سڑک پر تھا تو اس نے کہا تھا ” آئیں آپ کو ایک انسان سے ملاتے ہیں۔” میں نے پوچھا تھا “کون سا انسان؟” لیکن وہ جواب دیے بغیر ایک دفتر میں داخل ہو کر مجھے ان کے پاس لے گیا تھا، جی ہاں یہ انسان شفقت تنویر مرزا ہی تھے۔ ریاض نے میرا تعارف کرایا تو کہنے لگے “آپ آجکل “ہم شہری” میں لکھتے ہیں ناں، اچھا لکھتے ہیں” پھر دنیا کے بارے میں خاص طور پر روس کے بارے میں باتیں ہونے لگی تھیں۔ مل کے باہر نکلا تو لگتا تھا کہ تشنگی بڑھ گئی ہے، ریاض شاہد کو کہا تو اس نے کہا تھا،ملتے رہیں گے انہیں۔
ایک رو فیس بک پہ عامر ریاض نے ان کے ارتحال کی خبر درج کی۔ بہت زیادہ دکھ ہوا۔ کل ریاض شاہد کو فون کیا تو اس نے کہا مرزا صاحب پہ کچھ لکھیں۔ میں نے کہا کہ میری کوئی زیادہ شناسائی نہیں تھی ان سے لیکن رات کو مجھے لگا کہ میری تو ان سے شناسائی 45 برسوں پر محیظ ہے، اس لیے میں ویسی ہی ایک خلش کو نہیں پال سکتا جیسے کوئی چاہے نہ سمجھے لیکن میں خود گناہ خیال کروں۔ انگلیوں میں دھوپ میری نظموں کی کتاب کا عنوان ہے لیکن اصل میں شفقت تنویر مرزا وہ شخصیت تھے جن کی انگلیوں میں دھوپ تھی جس کی تمازت سے ہم سب نے فیض پایا ہے