خبر چونکائے ضرور غلط نہ ہو
4 جون 2017 کی شام ماسکو سے کوئی ڈیڑھ سو کلو میٹر دور کے صوبے تویر کے ایک دیہاتی گھر میں کچھ لوگ پکنک منا رہے تھے جس کا روس میں مطلب دوستوں کی معیت میں بے تحاشا شراب پینا اور کھانا پینا ہوتا ہے۔ شراب بہرحال اپنا رنگ دکھاتی ہے، کبھی زیادہ پی کر لوگ بکنے لگتے ہیں، کبھی درختوں، کھمبوں اور لوگوں کے ساتھ ٹکراتے پھرتے ہیں، کبھی رونے لگ جاتے ہیں، کبھی گلے پڑ جاتے ہیں تو کبھی تشدد پر اتر آتے ہیں تو کبھی غیض کے عالم میں بھیانک جرم کر بیٹھتے ہیں۔ قانون میں انتہائی نشے کے عالم میں کیے گئے جرم کی سزا کم ہوتی ہے کیوں کہ وہ شخص ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتا ہے۔
خیر ان میں سے ایک شخص کے ساتھ کسی شخص نے مذاق کیا جس کا وہ بہت برا مان گیا۔ اس کے پاس ہتھیار تھا اس نے پانچ عورتوں سمیت جو اس محفل میں شریک تھیں نو افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ خبر اتنی عام تھی کہ کہیں نشر نہیں ہوئی البتہ دو ایک پورٹلز پر ایک مختصر سی خبر ضرور لگی۔ پاکستان کے کچھ اخبار روس کے رات بارہ بجے تک آن لائن آ جاتے ہیں جنہیں میں دیکھ لیتا ہوں۔ ان میں ایک اخبار "جہان پاکستان" ہے جس میں لکھتے ہوئے مجھے ساتواں سال ہے۔ میں اس اخبار کی بڑی سرخی دیکھ کر دہل گیا۔ سرخی تھی "لندن اور ماسکو میں دہشت گردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "۔ اوہ میرے خدا، سارا میڈیا چھان مارا، ماسکو میں تو کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا۔ پورٹلز دیکھے تو "یانڈیکس" پر خبر تھی کہ ایک الیکٹریشن نے مذاق کرنے پر غصے میں آ کر نو افراد کو جن میں پانچ خواتین شامل تھیں نشانے پر دھر لیے۔
قتل اور دہشت گردی میں تھوڑا بہت نہیں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دہشت گردی کسی مقصد کے تحت، سوچ بچار کرنے کے بعد منصوبہ بندی سے کی جاتی ہے جس میں عام لوگ بازاروں میں، سڑکوں پر یا سرکاری اہلکار، پولیس والے، فوجی مارے جاتے ہیں تاکہ حکومت پر حرف آئے کہ وہ لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ تاکہ لوگ خوفزدہ ہوں۔ تاکہ دہشت گردی کرنے والوں کے ہم خیال باہمت ہوں۔ تاکہ دہشت گردی کرنے والوں کا نظریہ یا مقصد جو بھی ہو وہ آگے بڑھے۔ دہشت گردی امریکہ کے نائن الیون کے بعد سے نہیں ایک عرصے سے دہشت گردی ہی رہی ہے۔ جب انقلابی یا آزادی خواہ کرتے تھے تب بھی وہ حکومتوں اور آبادی کے ایک معتد بہ حصے کی نظر میں دہشت گردی تھی اور اب جب ایک مخصوص مذہب کے لوگ اپنے مذہب کی ایک مخصوص فہم کو فروغ دینے کی خاطر کر رہے ہیں تب بھی وہ ایک عالم کی نظر میں دہشت گردی ہی ہے۔
مجھ سے رہا نہیں گیا کیونکہ چاہے میں کسی اخبار میں کام نہ کرتا رہا ہوں لیکن اخبارات سے میرا تعلق 1967 سے استوار ہے جب میں نے 25 روپے فی صفحہ معاوضہ پاتے ہوئےر ہر ہفتے روزنامہ امروز کے "اتوار ایڈیشن" کے لیے تراجم کرنے سے ابتدا کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان کے موقر ترین اخبار کے ادارتی صفحے پر بھی 1983 سے 1991 تک لکھا۔ میں نہیں چاہتا کہ اخبار "جہان پاکستان" جو ایک ایسے گروپ کا اخبار ہے جن کی اپنی نجی یونیورسٹی خاصی مشہور اور مقبول ہے اور جس میں صحافت کا شعبہ بھی ہے اور جس اخبار سے وابستہ چند صحافیوں بشمول اشرف سہیل مدیر ادارتی صفحہ کو میں مل چکا ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ باقاعدہ پیشہ ور مستند صحافی ہیں، میں ایسی خبر شائع ہو اور وہ بھی "لیڈ سٹوری" جو نہ صرف یہ کہ درست نہ ہو بلکہ اس سے "زرد صحافت" آشکار ہوتی ہو۔ آخر اس یونیورسٹی میں صحافت کے طالبعلم بھی تو تحقیق کر سکتے ہونگے، ان پر کیا اثر پڑے گا؟ چنانچہ میں نے فوری طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے عزیزی اشرف سہیل کو پیغام دیا کہ وہ اخبار کے مدیر محترم کو اس ضمن میں میری ناراحتی اور آزردگی سے مطلع کر دیں کیونکہ سرخی کے نیچے خبر میں یہ لکھا تھا کہ ماسکو کی پولیس نے بتایا کہ ماسکو میں پانچ عورتوں سمیت نو افراد ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرا گلہ تھا جس کا میں اظہار کر رہا ہوں کہ اگر بی بی سی اردو لندن والے ماسکو میں اپنا پورا "سیٹ اپ" ہونے کے باوجود مجھ سے رابطہ کرکے تصدیق کر لیتے ہیں اور معاوضہ بھی دیتے ہیں تو آپ مجھے فون کرکے حقیقت کیوں نہیں جان لیتے، مجھے کم از کم اشرف سہیل یا کسی اور صحافی دوست سے کہی بات کا معاوضہ تو نہیں لینا۔ میں نے تو چھ سال اس اخبار میں لکھنے کا معاوضہ مارے شرم کے طلب نہیں کیا اگرچہ مجھے شروع سے معاوضے کی بات کرکے اس اخبار میں لکھنے کو کہا گیا تھا۔ سہل انگاری خبر کی ہئیت بگاڑ سکتی اور خبر نگاری کی روح کو زخمی کر دیتی ہے۔ میں تو محض مضمون نگار ہوں لیکن جب تک کسی خبر کو پوری طرح کھنگال نہ لوں اس پر کچھ نہیں لکھتا۔
ہمارے اخبارات کا فرض بنتا ہے کہ وہ صحافت کو معیاری اور بہت حد تک غیر جانبدار بنائیں اور خاص طور پر ان اخبارات کو جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلیمی اداروں سے تعلق ہو اور زیادہ خاص طور پر ان تعلیمی اداروں سے جن میں علم صحافت کے شعبے ہوں تاکہ مستقبل میں ہمارے ملک کی صحافت عالمی صحافت کے ہم پلہ ہو سکے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں سبھی بشمول صحافی حضرات "گارجین" "نیویارک ٹائمز" " واشنگٹن پوسٹ" " ڈیر سپیگل" "لی ماند" "ہاریتز" تاحتٰی "ٹائمز آف انڈیا" کے حوالے دیتے ہیں لیکن ہمارے کسی اخبار کا نہیں البتہ پاکستان کا انگریزی زبان کا اخبار "ڈان" کبھی کبھار حوالہ ضرور بنتا ہے۔
سہو سب سے ہوتی ہے چاہے کتنا جغادری صحافی کیوں نہ ہو لیکن بڑائی اس میں ہے کہ غلطی تسلیم کر لی جائے بلکہ زیادہ بڑائی تب ہوتی ہے جب "اعتداز" لکھ کر لوگوں کی غلط فہمی دور کر دی جائے۔ میں اخبار مذکور کے مدیر اعلٰی اور مدیر سے نہ صرف ایسا کرنے کی امید رکھتا ہوں بلکہ توقع ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔