اب اس بیچاری کا نام تو نہیں بتاؤں گا کیونکہ کسی کی نانی دادی ہوگی مگر عنفوان شباب میں وہ تھی بہت دلکش۔ چلیں اس کا نام دھڑکن رکھ لیتے ہیں۔ دھڑکن نرس تھی اور میں ایم بی بی ایس کے دوسرے سال کے اواخر کا طالب علم۔ اتفاقا" دھڑکن سے شناسائی ہو گئی تھی، ویسے دھڑکن بہت سے دلوں کی دھڑکن تھی۔
میں تیسرے سال میں ہو گیا تھا۔ کورس کا یہ سال بھی تب نان کلینیکل ہی ہوتا تھا یعنی اس سال کے طلباء وارڈز میں نہیں جاتے تھے۔ دھڑکن کے ساتھ فون پر تو بہت رومانوی گفتگو ہوا کرتی تھی مگر اس سے ملنے جانے کی مجھے ہمت نہیں ہوتی تھی چنانچہ جرات پیدا کرنے کو کڑوے پانی کا سہارا لیتا تھا۔
ایک بار ایسے ہی موڈ میں تھا تو اسے فون کر دیا۔ اس نے وارڈ نمبر بتا کے کہا کہ آ جاؤ۔ میں چلا گیا تو اس نے کہا کہ ڈاکٹرز روم میں بیٹھ جاؤ فی الحال۔ میں فارغ ہو جاؤں تو آ جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ لفٹ کی جانب گئی تھی۔ تب لفٹ کا بٹن دبانے کی آواز دور تک آتی تھی۔ میں نے جب یہ آواز سنی تو پتہ نہیں مجھے کیوں لگا تھا کہ وہ میرے خلاف کوئی سازش کر رہی ہے۔
میں جب لفٹ تک پہنچا تو وہ لفٹ کا لوہے کی سلاخوں سے بنا جالی دار دروازہ بند کر رہی تھی۔ میں نے ٹانگ اٹکا کر دروازے کو بند ہونے سے روکا تھا اور اسے اٹھا کر مریضوں اور ان کے لواحقین کے سامنے ڈاکٹرز روم میں لے جا کر میز پر پٹخ دیا تھا۔ پھر اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بھرمار کر دی تھی، ظاہر ہے ساتھ گالیاں بھی دے رہا تھا۔
اس کی سبز چوڑیاں ٹوٹ گئی تھیں، گوری کلائیوں پر کانچ چبھنے سے خون کے سرخ ذرے ابھرے ہوئے تھے۔ اس کی گھڑی ٹوٹ کر فرش پر گر گئی تھی۔ پھر بھی اس نے مجھے چوم چام کے شانت کیا تھا۔ ادھ کھلا دروازہ جس میں سے دو ایک لواحقین جھانک کے یہ پر تشدد منظر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے، بھیڑا تھا اور مجھے کرسی پر بٹھا کر میری گود میں بیٹھ کر میرا سر منہ سہلانے لگی تھی۔ میں نے زمین پر سے اس کی گھڑی اٹھا کر اسے دی تھی۔ اس نے گھڑی باندھی تھی اور یہ کہہ کر کہ میں ابھی آئی نرسز بے پر جا کر فون کیا تھا اور کسی سے کہا تھا کہ مریضوں کے وزیٹر بہت تنگ کر رہے ہیں۔
تھوڑی دیر میں جس کمرے میں میں بیٹھا تھا اس کا دروازہ کھلا تھا، کسی نے دیوار کے ساتھ لگا بجلی کا بٹن دبا کر کمرہ روشن کر دیا تھا۔ جونیر رجسٹرار بہاری ڈاکٹر شاہد کے ساتھ دو تین اور ڈاکٹر کھڑے ہوئے، مجھے بیٹھا دیکھ رہے تھے۔ میں نے جھٹ سے کہا تھا، " پانی پلائیں ڈاکٹر صاحب"۔ مجھ سے کئی سال سینیر ڈاکٹر شاہد نے فریج سے پانی نکال کر گلاس بھر کے مجھے دیا تھا۔ میں آرام سے پانی پی کر کمرے س اور پھر وارڈ سے نکل گیا تھا۔ دھڑکن دور کھڑی کسی مریض کی ڈرپ مانیٹر کر رہی تھی۔
آپ سوچیں گے کہ رجسٹرار نے مجھے سرزنش کرنے کی بجائے پانی کیوں پلایا؟ پہلی بات تو یہ کہ وہ بوکھلائے ہوئے تھے کہ ایک جونئیر طالبعلم کی یہ ہمت کہ ڈاکٹرز روم میں بجلی بجھا کے آرام کرسی پر شانت بیٹھا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں شروع سے ہی معروف یا بدنام تھا۔ مجھ سے جھگڑنے کے لیے لوگوں کو سوچنا پڑتا تھا۔
مگر سوال یہی ہے کہ میں نے بیچاری دھڑکن کو پیٹ کیوں ڈالا تھا؟ تشدد کا راستہ درحقیقت بہت ڈرا ہوا شخص اختیار کرتا ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ غایت بتائے بن اس کے لفٹ میں سوار ہونے سے میں خائف ہو گیا تھا اور اپنا ڈر دور کرنے کی خاطر اسے خوفزدہ کر دیا تھا۔
دھڑکن اور خاص طور پر اس کی ہرنی ایسی ڈری ڈری بڑی بڑی آنکھیں مجھے آج بھی یاد آتی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...