اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کھانا کھلانا ہے۔نبی آخرالزماں ﷺ کے توسط سے جو نظام زندگی بنی نوع انسان کو میسر آیا اس کی تعلیمات میں مرکزیت اسی نقطہ کو حاصل ہے۔خالق کائنات کی اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلقات کی بے شمار شکلیں ہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں سب سے اولین جواپناتعارف کرایا ہے وہ”رب،پالنے والا“(رب العالمین)ہے جس کا براہ راست تعلق کھانا کھلانے سے ہے۔قرآن مجید میں سب سے بزرگ عبادت نماز کے ساتھ زکوۃ کی تکرار اس کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید زکوۃ کے لیے ہی نماز کی فرضیت عمل میں لائی گئی ہے تاکہ اجتماعی ماحول میں نماز کے ذریعے منعم اور گدا کے فاصلوں کو کم سے کم تر کیا جا سکے۔روزہ دوسری اہم عبادت ہے جو براہ راست بھوکے کے احساسات سے آگاہی دیتا ہے اور امیر کے اندر وہ احساس جگاتا ہے کہ بھوک کی حالت میں غریب آدمی پر کیا بیتتی ہے۔حج،زیارت بیت اللہ تعالی کے بے شمار اثرات ہیں جو فرد اور معاشرے سے لے کر عالمی اداروں اور بین الاقوامی معاملات تک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سیاست،مذہب،سماج،تعلیم اور تعلقات سمیت ان گنت پہلو ہیں جو اس عبادت سے عبارت ہیں لیکن یہ سب بوجوہ معطل بھی ہو جائیں تو معاشی پہلو،پیٹ بھرے جانے کا پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔ایک حاجی کے حج پر جانے سے گلی محلے میں پھولوں کا ہار بنانے والیوں اور دیگوں کے پکانے والے سے لے کر بڑی بڑی حکومتوں اور ہوائی سفر کی کمپنیوں کا روزگار وابسطہ رہتا ہے،اورمکہ مکرمہ جیسی سرزمین جہاں درخت میں پھل تک نہیں اگتاوہاں دنیا بھر کی صنعتوں کا مال خریدنے کے لیے دنیا بھر کے اہل ثروت پہنچا دیے جاتے ہیں گویا ہزاروں یا لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کے پیٹ بھرے جانے کا انتظام اسی ایک سفر سعادت سے متعلق ہے۔اللہ تعالی نے اسی بات کو اہل مکہ پراپنا احسان کہ کر بتلایا کہ اس نے بھوک میں تمہیں کھانا کھلایا”الَّذِیْ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ(۶۰۱:۴)“۔
قتال ایک اور فرض عبادت ہے جس تعلق بظاہر لڑنے اور توسیع دعوت اسلامی سے ہے لیکن اس میں بھی پیٹ بھرنے کا معاشی عنصر اس طرح موجود ہے کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ”میری امت کا رزق نیزے کی انی کے نیچے رکھ دیا گیا ہے“۔سیرت نبوی ﷺ سے یہ واضع ہے کہ مدنی زندگی کا آغازغربت، بھوک اور افلاس سے ہوا لیکن مسلسل جہاد اور قتال کی مہمات سے آہستہ آہستہ دفاع کے ساتھ ساتھ معاش کا پہلو بھی طاقتور ہوتا گیا تاآنکہ فتح خیبر کے بعد مدینہ طیبہ میں خوشحالی در آئی۔اور پھر طاقت اور معاش کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کہ طاقت معاش کا مقدمہ بنتی ہے اور معاش طاقت کا مقدمہ بنتا ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے اپنی آمدسعید کے بعد جن اچھے حالات کی نوید سنائی ان کا تعلق بھی معاشی خوشحالی ہی سے ہے مثلاٌ مکی زندگی میں ایک صحابی نے کافروں کے ظلم کی شکایت کی اور ان کے لیے بد دعا کرنے کو کہا،آپ ﷺ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا خدا کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضر موت تک سونے سے لدی پھندی ایک جوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہو گا۔سفر ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں قیصروکسری کے کنگنوں کی بشارت دی اورغزوہ احزاب کے موقع پر جب غربت و افلاس اور بے سرومانی کے بادل پوری شدت سے گرج رہے تھے تو محسن انسانیت ﷺ نے روم و ایران کی فتح کی نوید سنائی۔محسن انسانیت ﷺ نے کبائر کے مرتکب افرادکے بارے میں بھی کھانا کھلانے پر مغفرت کی امثال پیش کیں مثلا ایک بدکار عورت کے بارے میں اطلاع دی کہ ایک کوئیں پرپانی پی چکنے کے بعداس نے ایک کتے کو دیکھا جوپیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا تھا،اس بدکار عورت نے کوئیں سے پانی نکال کر اس جانور کو پلایا،اس (معاشی)عمل کے عوض اللہ تعالی نے اس اسکے سارے گناہ معاف کر دیے۔ایک عابد نے چار سوسال عبادت میں سرف کر دیے،ابلیس عورت کی شکل میں اس کے سامنے ظاہر ہوا تو وہ عابد اس سے لذت اندوز ہو چکا۔بعد از گناہ حصول طہارت کے لیے جھیل پر گیااور چار روٹیاں ساتھ لیتا گیا۔دوران غسل ایک مسافر کی درخواست پر اشارے سے اسے دو روٹیاں کھا لینے کی اجازت دے دی۔قیامت کے دن جب نامہ اعمال پیش ہوا تو چار سو سال کی عبادت چند لمحوں کی لذت کے برابر ٹہر گئی اور دو روٹیوں کا اشارہ ہی باعث مغفرت ثابت ہوا۔
شریعت محمدی ﷺ میں گناہوں کے کفارے کے اعمال عموماٌ تین طرح کے ہیں،پہلی قسم غلام آزاد کرناجبکہ محسن انسانیت ﷺ کی بعثت مبارکہ کرہ ارض سے غلامی کے خاتمے کا مقدمہ بنی،دوسری قسم روزے رکھناجن کی تعداد اور بعض شرائط ایسی ہیں کہ دشوار ترین تب محض تیسری قسم رہ جاتی ہے کہ کھانے کھلائے جائیں اور گناہوں کے کفارے ادا کیے جائیں مثلاٌ قسم توڑ دی تو دس مساکین کو کھانا کھلایا جائے۔جب کہ جو روزہ توڑ بیٹھے وہ ساٹھ مساکین کے کھانے کا اہتمام کرے۔حج کی ادائگی میں کوئی غلطی کوتاہی ہو جائے تو قربانی کرے اور احرام کی حالت میں شکار کر بیٹھے تو قربانی دے وغیرہ۔کھانا کھلانا اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کا اس قدر پسندیدہ عمل ہے کہ بعض مراسم عبودیت کے ساتھ اسے لازم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ دیگر عبادات کی تکمیل اور شکرانے کے ساتھ اسے مشروط کر دیا گیا ہے مثلاٌرمضان میں سارا ماہ بھوکے پیاسے رہ کر گزارا لیکن جب تک فطرانہ ادا نہ ہو جائے روزے آسمان تک نہ پہنچ پائیں گے،حج کی تکمیل میں قربانی،سال کی تکمیل پر قربانی،فصل اترنے پر عشر کا وجوب،نصاب کے بقدر مال پر سال گزرنے سے زکوۃ کی فرضیت،حتی کہ جو محسن انسانیت ﷺ سے علیحدگی میں ملناچاہے وہ بھی پہلے صدقہ کر کے آئے،نکاح کیا ہے تو ولیمہ کرے،بچہ کی پیدائش پر عقیقہ کرے اور نومولود کے سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرے یہاں تک کہ جس کے گھر کوئی فوت ہو جائے تو اسکی تالیف قلب بھی اس طرح کی جائے تین دن تک اس کے ہاں کھانا بھیجا جائے۔اللہ تعالی نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر مسکین،یتیم اور گرفتار کو کھانا کھلانے کا تقاضا کیا ہے،اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کوسات سو گنا بڑھا کر لوٹانے کا وعدہ کیاہے،اوراسے اپنے ذمہ قرض قرار دیاہے۔محسن انسانیت ﷺ نے موقع بہ موقع کھانا کھلانے کا شوق بیدار کیا کہ جو خود پیٹ بھر کر سویااور اس کا پڑوسی بھوکا سو گیا وہ ہم میں سے نہیں،جس بستی میں کوئی بھوکا سو جائے اس بستی پر سے اللہ تعالی کی ذمہ داری ختم,اور محسن انسانیت ﷺ نے گھر آئے مہمان کو بغیر کھلائے پلائے رخصت کر دینے والے میزبان کو مردہ کہا۔بھوکے اور غریب کا استحصال کرنے والے سود خور کو اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کا عندیہ ہے،سونا چاندی سینت سینت کر رکھنے والے کو عذاب دوزخ کی وعید ہے،اور فضول خرچ کو شیطان کا بھائی گردانا گیا۔نبوی معاشرے کے تسلسل،دورخلافت راشدہ میں مانعین زکوۃ سے جنگ لڑی گئی۔دور فاروقی میں جب اسلامی انقلاب،نبوی پیشین گوئیوں کی منازل کو چھو رہا تھاتو سب انسان مسلمان نہیں ہو گئے تھے اور نہ ہی سب مسلمان متقی و پرہیزگارہو چکے تھے لیکن انسان کی بھوک شکم سیری میں ضرور بدل چکی تھی اور ہر پیدا ہونے والا بچہ شہری کی حیثیت سے حکومت وقت سے اپنا مشاہیر وصول کرتا تھااورمعاشی خوش حالی درآئی تھی۔
زکوۃ و عشر:زکوۃ کا مطلب طہارت و پاکیزگی ہے،اور عشر کا مطلب دسواں حصہ ہے،اسلامی تعلیمات میں زکوۃ و عشر مالی عبادات کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات ہیں۔زکوۃ پانچ ارکان اسلام میں سے تیسرا اہم رکن ہے، ”زکوۃکسی مالدار آدمی کا بالارادہ اپنے مال میں سے ایک متعین حصہ چند مخصوص مصارف میں خرچ کیے جانے کے لیے الگ کر دینا ہے“ یا”زکوۃ مال کا وہ مقرر حصہ ہے جس کا نیت زکوۃ کے ساتھ ادا کرنا صاحب نصاب پر واجب ہوتا ہے تاکہ اسے اسکے متعین مصارف میں خرچ کیا جا سکے“۔زکوۃ کی ادائگی کے لیے مال کی کم سے کم مقدارسونا 85گرام(ساڑھے سات تولہ) یا چاندی 234(ساڑھے باون تولہ)گرام کے برابر ہے،اصطلاح میں اسے نصاب زکوۃ کہتے ہیں، جو ایک قمری سال کی مدت تک کسی کے پاس رہے تو 2.5%کی شرح سے زکوۃ فرض ہو جاتی ہے کیونکہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ اگر تمہارے پاس دو سو درہم ایک سال تک رہیں تو ان میں سے پانچ درہم زکوۃ کے طور پر ادا کرو۔سونے چاندی کے علاوہ زمین،جائداد،مال تجارت اور مال مویشیوں پر بھی زکوۃ عائد ہوتی ہے۔ہر اس زرعی پیداوار پر بھی زکوۃ ہے جسے سکھا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پیمانوں سے ناپ کر فروخت کیا جاتا ہے،نیز ایسی زرعی پیداوار پر بھی زکوۃ ہے جس کو نچوڑ کر محفوظ کر لیا جاتا ہے،خشک کی جانے والی پیداوار کی مثال گندم،چاول،مکئی اور دالیں وغیرہ ہیں۔حضرت عمر فاروق ؓ کے نزدیک سبزیوں اور پھلوں پر زکوۃ نہیں مگر یہ کہ وہ مکیلات میں سے ہوں۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ غلہ اور کھجور جب تک پانچ وسق(32من)سے زائد نہ ہوں ان پر زکوۃ واجب نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم پر اور نہ پانچ اوقیہ (52.5تولے(سے کم چاندی پر زکوۃ واجب ہے۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو فصل بارش،دریا اور چشموں سے سیراب ہو یا زمین کی تری سے پیدا ہو اس پر دسواں حصہ (10%)لیا جائے گا اورجو مصنوعی آبپاشی سے سیراب کیا جائے اس سے بیسواں (5%)حصہ لیا جائے۔زکوۃ وعشر مالی عبادت ہے یعنی اللہ تعالی نے مسلمانوں کے مال کو پاک کرنے کے لیے ان پر زکوۃ فرض کی ہے۔زکوۃ امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے اس طرح دولت گردش کرتی ہے،معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں،بھوک افلاس اور غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور اللہ تعالی خوش ہوتا ہے۔
زکوۃ کی فرضیت کی تین شرائط ہیں:
1۔زکوۃ کی فرضیت کی پہلی شرط:۔نصاب:
نصاب سے مراد وہ کم سے کم مال ہے جس پر زکوۃ فرض ہو جاتی ہے۔زکوۃ کا نصاب 87.5گرام(7.5تولے) سونا یا234.4گرام(52تولے(چاندی ہے۔اتنے وزن کا سونا یا چاندی یا ان کی بازاری قیمت کے برابر یا اس سے زائد کازرو مال،جائداد یا سامان تجارت،دفینہ،خزانہ یامتاع نقدوغیرہ اگر ہو تو یہ فرضیت زکوۃ کی پہلی شرط مکمل ہو جائے گی۔
2۔زکوۃ کی فرضیت کی دوسری شرط:۔مد ت:
نصاب کے بقدر یا اس سے زائدزرومال و جائداد یا سامان تجارت پر ایک ہجری سال کی مدت گزر جانے سے زکوۃ کی فرضیت کی دوسری شرط بھی پوری ہو جاتی ہے۔یعنی مال نہیں تھا یا نصاب سے کم تھا اور یکم محرم کو مال آیا یا نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو گیا اور ایک سال تک وہ مال نصاب سے کم نہیں ہوا تاآنکہ اگلے سال کی یکم محرم کا چاند اس پر طلوع ہو گیا۔
3۔زکوۃ کی فرضیت کی تیسری شرط:۔عدم ذاتی استعمال:
شریعت اسلامیہ نے اس مال و جائداد اور سامان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ذاتی استعمال میں نہ ہو۔صرف اس سامان،مال یا جائداد پر زکوۃ فرض ہے جو تجارتی یاکاروباری استعمال میں ہو یا مشکل وقت میں کام لانے کے لیے جمع کر کے سنبھال رکھا ہو،یہ زکوۃ کی فرضیت کی تیسری شرط ہے۔ایسا مکان جو برائے فروخت ہو اس پر زکوۃ فرض ہے لیکن وہ مکان جس میں ذاتی رہائش اختیار کی ہو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔جو گاڑی ذاتی استعمال میں ہے اس پر زکوۃ عائد نہیں ہوتی۔جس چیزمیں گھسنے کا عمل جاری ہو اس پر بھی زکوۃ عائد نہیں ہوتی،جیسے فیکٹری کی مشینری پر زکوۃ عائد نہیں ہو گی یا کرایہ پر چلنے والی کار پر بھی زکوۃ عائد نہیں ہو گی۔
شرح زکوۃ:
مال و اسباب اور جائداد پر مذکورہ بالا تینوں شرائط پوری ہونے پر1/40یعنی 2.5%کی شرح سے سالانہ زکوۃ ادا کرنی ہے۔
عشر:
فصلوں کی زکوۃ عشر کہلاتی ہے۔اسکی فرضیت کی کوئی شرط نہیں،جتنی بھی فصل اترے اور جتنی مدت کے بعد اترے اس پر عشر فرض ہے۔وہ فصل گھر کے پودے سے حاصل کی جائے یاکھیتوں سے اور چند ماہ بعد حاصل ہو یا سالوں بعد،جب بھی اور جتنی بھی فصل تیار ہو گی اس میں سے عشر نکالنا فرض ہے۔
عشر کی مقدار:
عشر کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں کی جاتی ہیں،ایک وہ زمین جس کی سیرابی کے لیے کاشتکار کو پانی کا معاوضہ دینا پڑے،وہ معاوضہ آبیانے کی شکل میں ہو،بجلی کے بل کی شکل میں ہو،ٹیوب ویل کے ایندھن کی شکل میں ہو یا پانی کھینچنے والے جانوروں کے چارے کی شکل میں ہو وغیرہ ان سب صورتوں میں عشر کی مقدار پانچ فیصد(5%) ہو گی یعنی کسی پودے پر پانچ ٹماٹر اگے ہیں تو ان میں سے ایک ٹماٹر کے برابر عشر نکالا جائے۔
عشر کے اعتبار سے زمین کی دوسری قسم وہ ہے جس کی آبیاری کے لیے کاشتکار کو کسی طرح کی ادائگی نہیں کرنی پڑتی ایسی زمینیں بارش سے سیراب ہوتی ہیں اور بارانی زمینیں کہلاتی ہیں۔ان زمینوں سے حاصل ہونے والی فصلوں پر عشر کی مقدار دس فیصد(10%) ہے۔یعنی اگردس لیموں اگے ہیں تو ان میں سے ایک لیموں کے برابر عشر ادا کرنا ہو گا۔
خمس:
اتفاقی واقعے کے نتیجے میں دولت کی کثیر مقدار ہاتھ آ جانے پر جو زکوۃ فرض ہوتی ہے اسکو خمس کہتے ہیں۔ خمس کی ادائگی کے بعد ایسی دولت کا استعمال جائز ہو جاتا ہے۔خمس کی مقدار بیس فیصد(20%) ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ ایسی دولت کو جائز طریقے سے میسر آئی ہو جیسے کسی کو اپنے گھر کی کھدائی کے دوران کوئی خزانہ مل گیا وغیرہ۔اگر سونے کی سو اشرفیاں ملی ہیں تو ان میں سے بیس کے برابر خمس ادا کرنا ہو گا۔