جاپان دوسری جنگ عظیم میں راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا، اسکا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا اور ملک کی کارآمد آبادی جنگ کے ایندھن میں جھونکی جا چکی تھی۔امریکی افواج جب فاتح کی حیثیت سے جاپان میں داخل ہوئیں تو شاہ جاپان نے ان سے کہا کہ میں تم سے صرف ایک چیز مانگتا ہوں کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا، اپنی قومی زبان کا تحفظ کرنے والی قوم آج دنیا کے آسمان پر سورج کی طرح جگمگا رہی ہے اور کوئی اس سے آنکھیں نہیں ملا سکتا جو بھی اس جانب دیکھتا ہے چندھیا اٹھتا ہے۔ معیشیت اور تکنالوجی کے میدان مین آج جاپان کا کوئی ثانی نہیں اور تعلیم اور شرح خواندگی میں قومی زبان نے جاپان کی ترقی کو اوج ثریا تک جا پہنچایا ہے۔ جاپان کی ریاست براعظم ایشیا کے انتہائی مشرق میں واقع ہے، اس کے مغرب میں جاپان کے سمندر ہیں جس کے دوسرے ساحلوں پرشمالی اور جنوبی کوریاکی ریاستیں اور سائبیریا کے سرد ترین علاقے واقع ہیں اور جنوب مغرب میں چین کے سمندر ہیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چھیالیس ہزار مربع میل کے رقبے پر واقع یہ ملک بہت سے جزائر پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے چار بڑے بڑے جزایر ہیں جو اس ملک کے بیشتر رقبے پر واقع ہیں، ”ہوکیدو“،”ہانشو“،”شکوکو“ اور ”کیوشو“۔ ان میں ”ہانشو“رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے اور ان چار کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے جزائر اس ریاست کا حصہ ہیں، دارالحکومت”ٹوکیو“اسی سب سے بڑے جزیرے کا شہر ہے اور دنیا کے اہم شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ جاپان کا لگ بھگ اسی فیصدرقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے جاپان کی سرزمین میں بہت زیادہ عدم استحکام ہے، یہاں کے دریا بہت چھوٹے اور بہت تیز بہاؤ کے حامل ہیں،کچھ دریاؤں کے پانی میں بہت زیادہ تیزابیت بھی پائی جاتی ہے جس کے باعث انکا پانی زراعت کے لیے انتہائی غیرموزوں ہے۔ ”بیوا“نامی جھیل یہاں کی سب سے بڑی جھیل ہے جو کم و بیش دوسوساٹھ مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث چھوٹی بڑی بہت سی جھیلیں یہاں پر قدرتی طور پر موجود ہیں اور حکومت نے ان جھیلوں پر بند باندھ کر ان کے پانی کو انسانی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ملک کا موسم مجموعی طورپر گرم ہے لیکن پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث خوشگوار ہوائیں بھی چلتی ہیں چنانچہ اوسطاَ وہاں کادرجہ حرارت 4سے27ڈگری سینٹی گریڈتک ریکارڈ کیاجاتاہے جس میں ساحل سمندر سے پہاڑی چوٹیوں تک کادرجہ حرارت شامل ہے۔جاپان کے شمالی جنگلات بندروں کی مختلف نسلوں سے بھرے ہیں،یہاں پانچ فٹ لمباسانپ نماچوہایاچوہا نماسانپ بھی پایاجاتاہے جوضرررساں نہیں ہوتا۔انکے علاوہ تازہ اور میٹھے پانی کے بہت سے جانوروں کی متعدد نایاب نسلیں بھی اس ملک میں موجود ہیں۔
جاپانی لوگ بنیادی طور ایشیائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں،سترہویں صدی کے آغاز میں ”ٹوکوجاوا“دور میں وہاں کی آبادی کو چار حصوں میں تقسیم کیاگیاتھا،جنگ جو،کسان،ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ اور تاجر۔ان چاروں سے برترایک طبقہ ”پڑھے لکھے لوگ“ہواکرتے تھے ان طبقات میں سے پڑھے لکھے لوگوں کے طبقے کو آج تک کسی نہ کسی صورت کا معاشرتی تفوق حاصل ہے۔اسی دور میں جاپان کو دنیاسے کاٹ کر داخلی استحکام پر توجہ دی گئی۔دوسوسال تک جاپان عالمی تنہائی کاشکاررہا،یہاں تک کہ 1854ء میں جاپان نے امریکہ کے لیے اپنے بحری راستے کھولے اور یوں جاپان میں صنعتی و عالمی تجارتی دور کاآغاز ہوا۔انیسویں اور بیسویں صدی میں جاپان ایک طاقت کی حیثیت سے ابھرااور اس نے چین اور روس کے ساتھ فیصلہ کن جنگیں لڑیں اور تائیوان اور کوریاسمیت متعدددیگر جزائرپر قبضہ بھی کرلیا،یہاں تک کہ 1941میں جاپان نے امریکہ جیسے سانڈ سے بھی ٹکر لے لی لیکن دوسری جنگ عظیم کی عالمی کشمکش میں جاپان کو منہ کی کھانی پڑی۔اس کے بعدجاپان کو فوج رکھنے کی اجازت نہ مل سکی لیکن یہ صعوبت اس قوم نے سہولت سمجھ کر قبول کی اور پوری توجہ اپنی معیشیت پرمرکوز کر دی جس کے خاطر خواہ ثمرات آج اس قوم کاحسن مقدر ہیں۔آج جاپان اپنی معاشی حیثیت کے باعث دنیامیں بالعموم اور ایشیامیں بالخصوص اپناکلیدی کردار اداکررہاہے اور2012کے مطابق یہ ملک دنیاکی تیسری بڑی معیشیت کا حامل ہے۔
جاپان میں جاپانی زبان بولی جاتی ہے تاہم کورین اور چینی زبان بولنے والے بھی متعدد قبائل ایک طویل عرصے سے یہاں موجود ہیں۔جاپانی زبان دراصل چینی زبان کی نومولود بیٹی ہے،چوتھی صدی عیسوی سے ان دونوں زبانوں کے درمیان علیحدگی شروع ہوئی اور بیٹی نے میکہ چھوڑ کر اپناگھر آباد کرلیا۔چینی زبان دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے اسکے یہی اثرات جاپانی زبان پر بھی تھے چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانی زبان میں سے بہت سے الفا ظ کوکم کردیاگیااور انگریزی کے بھی کچھ الفاظ کو جاپانی لغت میں شامل کرلیاگیا۔جاپانی زبان کے بہت سے لہجے ہیں لیکن ٹوکیوکے لہجے کوقومی لہجے کے طور پر ابلاغیات اور تعلیم میں رائج کیاگیاہے۔جاپان معدنیات کے معاملے میں ایک تشنہ ملک ہے یہی وجہ ہے کہ دنیابھر میں کوئلہ اور تیل درآمد کرنے والے صف اول کے ملکوں میں اسکاشمارہے۔صرف مچھلی اور لکڑی ہی یہاں کی قدرتی پیداوار ہے یہاں کاپانی بھی تیزاب کی آمیزش کے باعث بہت نچلے درجے کااور بیکارپانی ہے۔جاپان کی آبادی اس وقت تیرہ کروڑ کو چھورہی ہے،آبادی میں اضافے کی شرح -0.077%ہے یعنی اصل میں سالانہ آبادی کم ہورہی ہے۔شرح پیدائش 8.39/1,000ہے اور شرح اموات 9.15 /1,000سالانہ ہے۔جاپان میں 98.5%جاپانی آباد ہیں 0.5%کورین،0.4%چینی اور باقی شرح کے دیگراقوام سے وابسطہ لوگ آباد ہیں۔یہاں بدھ مت اور شینٹو ازم کے ماننے والوں کی اکثریت ہے جبکہ 2%عیسائی بھی یہاں رہتے ہیں۔یہاں 99%لوگ خواندہ ہیں اور یہ دنیاکی سب سے زیادہ شرح خواندگی والے ملکوں کے برابر ہے۔
3مئی 1947ء کے آئین کے مطابق جاپان میں آئینی بادشاہت کے تحت پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے،قومی نوعیت کے تمام فیصلوں کی توثیق شاہ جاپان کے دستخطوں سے کی جاتی ہے۔242ارکان کا ہاؤس آف کونسلرزقائم ہے جسے ایوان بالا بھی کہ سکتے ہیں اس میں 146ارکان براہ راست منتخب ہوکر آتے ہیں اور 96ارکان متناسب نمائندگی کے تحت اس ایوان کے رکن بنتے ہیں۔ایوان کو چھ سالوں کے لیے منتخب کیاجاتاہے لیکن آدھے ارکان تین سال کے بعد رکنیت سے مستعفی ہوجاتے ہیں اور پھراس تعداد کے لیے دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں اور طرح یہ نظام چلتارہتاہے۔جاپان میں ووٹ کاحق استعمال کرنے لیے عمر کی حد بیس سال مقرر کی گئی ہے۔زیریں ایوان کانام ایوان نمائندگان ہے،اس میں 480اراکین ہوتے ہیں اور وزیراعظم ایوان نمائندگان کو کابینہ کے مشورے سے تحلیل کرسکتاہے۔وزیراعظم حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرتا ہے اور اسکی معاونت کے لیے کابینہ موجود ہوتی ہے۔”بورڈ آف آڈٹ“وہ مرکزی آئینی ادارہ ہے جو ریاست کے جملہ مالیاتی امور کا ذمہ دارہے۔مملکت کوسنتالیس ذیلی انتظامی حصوں یاصوبوں میں تقسیم کیاگیاہے،جرمن قانون میں برطانوی طرز کی ترامیم کرکے اسے یہاں پر رائج کیا ہوا ہے اور سپریم ملک کی اعلی عدالت ہے اور ججوں کی تقرری کابینہ کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ صوبوں کے اپنے گورنرز اور صوبائی ایوان نمائندگان ہیں، جبکہ لوکل سطح کی حکومتوں کے مئر ہوتے ہیں۔
1868ء میں یہاں پر مسلمانوں کا اولین ذکر ملتا ہے،1877میں جاپانی زبان میں سیرت النبی ﷺ کاترجمہ کیا گیا، عام جاپانی افراد کا اسلام سے تعارف کا یہ پہلا ذریعہ تھا۔1890 میں عثمانی ترک خلیفہ نے جاپان میں اپنا وفد بھیجا تاکہ اس ملک کے ساتھ رواسم کی ابتدا ہو سکے، اسکے جواب میں جاپانیوں کا جو وفد ترکی گیا اس میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوئے لیکن وہ واپس جاپان نہیں آئے بلکہ ترکی کے ہی ہو رہے۔1909 میں ایک جاپانی ”مٹسوٹاروٹوکاؤکا“ کا نام ملتا ہے جو ہندوستان میں تجارت کے لیے آیا اور مسلمان ہو گیا اور اسکا نام”احمد اریگا“ رکھا گیا، اسکے بعد اس نے حج بھی کیا، معلوم تاریخ کی حد تک یہ جاپان کا پہلا مقامی مسلمان تھا۔ روسی انقلاب اور پہلی جنگ عظیم کے بعد جاپان میں مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی اور بڑے بڑے شہروں میں مسلمانوں نے اپنی دینی تاریخ رقم کرنے کاآغاز کیا۔ 1935میں جاپان میں ”کوبو“ شہر پہلی مسجد تعمیر کی گئی اور 1938میں ٹوکیوجیسے شہر میں بھی ایک مسجد تعمیر کر لی گئی۔دوسری جنگ عظیم کے دوران”اسلامک بوم“ کے نام سے ایک سرکاری ادارہ وجود میں آیا جس نے کچھ ہی عرصہ میں اسلام کے موضوع پر لگ بھگ ایک سو کتابیں شائع کر دیں۔ اس وقت جاپان کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان میں سے جاپانی الاصل مسلمان تو نہ ہونے کے برابر ہیں، بہرحال اس بہت کم تعداد کے باوجود مسلمان باہم ملتے رہتے ہیں اور انہوں نے ”جاپان دعوۃ“ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے جس کے مختلف پروگراموں میں مسلمانوں کی دینی تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اب تک جاپانی زبان میں اسلامی کتب کی شدید کمی ہے، جو جاپانی بھی اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہتا ہے اسے انگریزی میں لکھی کتب ہی دستیاب ہو سکتی ہیں اور وہ بھی بہت مہنگی۔ مغربی میڈیا کا پروپیگنڈہ بھی جاپانیوں کی فکر کو اسلام کے بارے میں آلودہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے، تاہم اب بھی مسلمانوں کی تعداد وہاں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے دین پر پوری مضبوطی سے قائم ہیں۔