(Last Updated On: )
(1944-2021)
صحافت کا آغاز انبیاء علیھم السلام نے کیا۔ یہ نفوس قدسیہ وہ اولین صحافی تھے جن پر آسمانی صحیفے نازل کیے گئے۔ان سچے لوگوں نے آسمان کی خبریں،دنیاوی زندگی سے پہلے کے احوال اور اس فانی زندگی کے بعد کی اخبار اوردنیا، دولت، اقتدار، سونے چاندی کے ڈھیراورمال و اولاد کی حقیقتوں سے کل عالم انسانیت کو بلاامتیاز رنگ و نسل و زبان آگاہی فراہم کی۔انبیاء علیھم السلام کی صحافت انہیں کی طرح پاک صاف اور طاہرومطہرتھی۔اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی صحافت بغیرکسی معاوضے کے تھی۔انہوں نے انسانوں کی راہنمائی وہاں سے شروع کی جہاں عقل کی دسترس ختم ہو جاتی ہے،انہوں نے ابدی حقائق بیان کیے،کامیابی اور ناکامی کے خدائی معیار انسانوں تک پہنچائے اور اعلی ترین اوصاف و شفاف کردار اداکرکے پنی ذات کو بطور نمونہ پیش کیا اور اس کے کسی عوضانے کا تقاضاکرناتودور کی بات ہے قبول تک نہ کیا۔قرآن مجیدنے ان مقدس صحافیوں علیھم السلام کا یہ قول متعدد مقامات پرنقل کیاہے کہ ”َ وَ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۲:۵۴۱)“ ترجمہ:”اورمیں تم سے اس کام پر کسی طرح کی اجرت نہیں مانگتا،میرااجرتواللہ تعالی رب العالمین کے ذمے ہے“۔کس شان کے صحافی تھے جنہیں انسانوں کی طرف سے کسی معاوضے،شکرانے،فدیے،ہدیے،تنخواہ یاکسی بھی شکل کے کسی بدلے کی کوئی توقع،امید،لالچ یاانتظارنہیں تھا۔صحافیوں کا ہتھیار ”قلم“ہوتاہے جس سے ان کی تحریریں عوام الناس تک پہنچتی ہیں۔”قلم“حضرت ادریس علیہ السلام کی ایجاد ہے۔اللہ تعالی نے اپنے ان برگزیدہ نبی علیہ اسلام کو قلم کے ذریعے لکھناسکھایاتھا،یہ قبیلہ بنی آدم میں فن تحریرکاآغاز تھا۔اللہ تعالی نے اپنی آخری مقدس کتاب میں تقدیس قلم و تحریرکی بھی قسم کھائی ہے اورصحافت کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کانام بھی اللہ تعالی نے ”سورۃ قلم“رکھاہے۔”نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ(۸۶:۱)“ترجمہ:”ن(اے نبیﷺ)قسم ہے قلم کی اوراس چیزکی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں“۔پس صحافت شیوہ انبیاء علیھم السلام ہے۔
محمداشرف خان صحرائی کشمیرکے صحافی تھے اور کشمیریوں کے درمیان شیوہ انبیاء علیھم السلام کو تازہ کیے ہوئے تھے۔مرحوم شہیدصحرائی وہاں کی جماعت اسلامی سے وابسطہ تھے،یہ جماعت اقامت دین اور اعلائے کلمۃ الحق کا وہی منشور رکھتی ہے جس کاجھنڈا اٹھاکر نبیوں نے اپنی جدوجہدکاآغاز کیاتھا۔انہیں مختصراََ ”اشرف صحرائی“ یا صرف ”جناب صحرائی“بھی کہاجاتاتھا۔آپ 1944ء کو وادی کشمیرکے ایک خوبصورت گاؤں ”تیکی پورہ“میں پیدا ہوئے۔یہ ”لولاب“نامی بستی کے ساتھ ضلع ”کپواڑہ‘میں واقع ہے۔آپ کے والد بزرگوار کا نام نامی”شمس الدین خان“تھا۔شہیداشرف صحرائی کے اجداد نے پاکستانی کشمیرسے ہجرت کرکے اور مذکورہ بالا مقام پر سکونت اختیارکی تھی۔آپ کے دوبڑے بھائی بھی تھے،محمدیوسف خان(م۔2016)جو جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے اور دوسرے قمرالدین خان(م۔2009)جواپنے علاقے میں جماعت اسلامی کے سرکردہ ذمہ داران میں سے تھے۔اس طرح گویا یہ سب خاندان اللہ تعالی کے دین کی سربلندی میں مصروف عمل تھا۔ایسی اولاد اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنتی ہے کہ والدین کو قبروں میں اولاد کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں میسر آتی رہتی ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں سے حاصل کی،اس کے بعد سوگام لولاب ہائی سکول سدھارگئے جہاں سے 1959ء میں آپ نے ثانوی تعلیم مکمل کی۔اعلی تعلیم کے لیے آپ کاانتخاب مسلمانوں کی قائم کی ہوئی تاریخ ساز جامعہ”علی گڑھ یونیورسٹی“تھی۔یہاں سے آپ نے اردو زبان و ادب میں اعلی تعلیم کی سند حاصل کی۔زمانہ طالب علمی میں آپ کو مذہبی و سیاسی مطالعے بہت پسندتھے۔آپ میدان اد ب کے بھی شہسوار تھے اور آپ کی نثری و منظوم تحریریں ”آذان“ اور ”طلوع“ نامی جریدوں میں باقائدگی سے شائع ہوتی رہتی تھیں۔بعدمیں 1969ء کے دوران آپ نے بذات خود”سوپور“ سے ”جریدہ طلوع“کی اشاعت کا آغاز بھی کردیا۔اس جریدے میں آپ کااپناایک کالم ”صفحہ پاکستان“کے عنوان سے باقائدگی کے ساتھ شائع ہوتاتھا جس میں آپ پاکستان میں ہونے والی سرگرمیوں کوسمیٹتے تھے۔خاص طور پر یوم اقبال پر اس جریدے کی خصوصی اشاعت جاری کی جاتی جس میں شہیداشرف صحرائی اور سیدعلی شاہ گیلانی علامہ پر طویل مضامین تحریر کرتے جس میں اس زمانے کے اشتراکی و مارکسی فکررکھنے والوں کی بھرپور مذمت و تردید بھری ہوئی ہوتی تھی۔شایداسی وجہ سے یہ جریدہ عوام میں بہت مقبول تھااور اشاعت کے ساتھ ہی بازارسے خریداروں کے ہاتھوں ختم بھی ہوجاتاتھا،اور محروم رہنے والے اگلے پرچے کے انتظارمیں محوہوجاتے۔یہ نبیوں کی سنت ہے کہ صحافت کے ذریعے وقت کے فراعین اور فتنوں کو ببانگ دہل پکارنا اور ان کاابطال ثابت کرنااورعوام الناس کے سامنے حق کااظہارکرنا۔آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔بیٹے خالداشرف خان،راشداشرف خان،مجاہداشرف خان اور جنیداشرف خان تھے۔سب سے چھوٹا بیٹا جنیداشرف خان حزب اللہ کاڈویژنل کمانڈر بنا اور 19مئی 2020ء کو جام شہادت پاکر ابدی حیات کی منزل پا گیا۔خوش قسمت ہیں وہ مائیں جن کی گودمیں شہدا پرورش پاتے ہیں۔
شہیداشرف صحرائی خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بھائی کے کہنے پر1960میں جماعت اسلامی کی رکنیت کاحلف اٹھایا۔یہ انبیاء کاراستہ ہے اور دارورسن،آہنی زیور،نارنمرود اور مکہ و طائف کی سنگلاخ گھاٹیوں سے ہوتاہوا بلاشک و شبہ جنت کی وادیوں تک جاتاہے۔چنانچہ سنت یوسف علیہ السلام کی ادائگی کے لیے 1965میں آپ کو دھرلیاگیااورآپ پابندسلاسل ہوئے۔اس کے باوجود بھی جب آپ نے کلمہ حق کی ادائگی پر استقامت دکھائی تو1971میں آپ کا جریدہ”طلوع“کوجبراََبندکردیاگیا۔یہ بھارتی سیکولرازم کااصل اور مکروہ چہرہ ہے،جب تک مفادات پورے ہوتے رہیں تو آزادی اظہارکی مالا جبتی رہی جاتی ہے اور جب تنقیدکاشکنجہ تنگ ہونے لگے تو یہاں سیکولرازم کے پیمانے قوم شعیب سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔سیدعلی شاہ گیلانی نے 2004میں جب تحریک حریت کشمیرکی داغ بیل ڈالی تو شہیداشرف صحرائی اس کے بانی معتمد مقررہوگئے۔2016-17میں بھارتی خفیہ اداروں نے آپ کے خلاف رپوٹیں تیارکیں اوران پر ریاست کے خلاف سرگرمیوں کی فرد جرم عائدکردی۔لیکن اس کے باوجود بھی آپ کے پایہ استقامت میں جنبش نہیں آئی،بلکہ ”یہ توچلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لیے“کے مصداق آپ19مارچ 2018ء کو حریت کے قائم مقام صدربنے اور پھر اکتوبر میں یاران باوفانے آپ کو باقائدہ سے صدر چن کر میرکاروان بنادیا۔اس تحریک آزادی کی جدوجہدمیں آپ ملاجلاکر کچھ سولہ سال ہندوستان کے مختلف قیدخانوں میں محبوس رہے۔اس دوران کاغذات کی جنگ جاری رہی،آپ کے اہل خانہ درخواستیں اٹھااٹھاکر ہندوستانی عدالتوں،وزارت داخلہ،انتظامیہ اور حکمرانوں کی دہلیزوں پر دھکے کھاتے رہے لیکن بھارتی سیکولرازم سے عدل و انصاف کی توقع عبس ہے۔آخری بار جولائی2020ء میں Jammu and Kashmir Public Safety Actکے تحت آپ کو ادھم پورمیں پس دیوارزنداں دھکیل دیاگیا۔دوران حراست ان کو سانس کی شدیدتکلیف لاحق ہو گئی۔باوجود متعدد رخواستوں کے کوئی شنوائی نہ ہوئی۔اس بات کاقوی امکان بلکہ بعض حلقوں کی طرف سے تیقن سے کہاگیاہے کہ قید کے دوران 5مئی 2021کوان کا قتل کیاگیاہے۔ان کے اہل خانہ انہیں سری نگرمیں شہداکے قبرستان میں دفن کرناچاہتاتھے لیکن پولیس فورس کے ذریعے زبردستی انہیں آبائی قبرستان میں دفن کیاگیااللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے،آمین۔صرف اہل خانہ کوجنازے میں شرکت کی اجازت دی،اہل محلہ و دیگراحباب واقربا اتنی بڑی شخصیت کی آخری رسوم میں شرکت کی سعادت سے محروم رہے۔ابھی خاندان کے آنسو بہ رہے تھے کہ 16مئی کوان کے بیٹے کو پھرگرفتارکرلیاگیا،اتنا ظلم، الامان والحفیظ۔
سیکولرازم دراصل ظلم و جبراور قہرواستبدادکادوسرانام ہے۔اس سیکولرازم نے طب وتعلیم جیسے خدمت خلق کے شعبوں کو جہاں جنس بازاربناکر غریبوں کولوٹنے کے لیے صنعت کا درجہ دیاہے وہاں صحافت جیسے شعبے کو بھی رشوت کی مختلف شکلوں سے آلودہ کیاہے۔جب صحافی برائے فروخت نہ ہوں تویہ سیکولرازم انہیں موت کی گھاٹ اتارنے میں دیرنہیں لگاتا،کذب و نفاق کی کیاخوبصورت مثالیں ہیں۔بھارت میں ہندؤں کی حکومت کہی جاتی ہے لیکن دراصل تو برہمن کی حکومت ہے اور ہندؤں کی دیگر طبقات بھی بے پناہ زیرتشددہیں۔ہندوستان میں اس برہمنیت نے ہندؤں سمیت کل مذاہب کے پیروکاروں کے نیچے آگ بھڑکارکھی ہے اوراس مملکت میں کل انسانیت برہمن کی دوزخ میں بری طرح جل جل کرراکھ ہورہی ہے۔اسی سیکولربرادری کے دوسرے ملکوں میں کتے یا بلی کے مرنے پریاپرندے کے زخمی ہونے پر ساری این جی اوز،میڈیا اورحکومتی اداروں سمیت عالمی ٹھیکیداروں کے پیٹ میں انسانیت کے مروڑاٹھنے لگ جاتے ہیں لیکن جب کالے یاگندمی رنگ کے انسان جل جل اور کٹ کٹ کر بھی مرتے رہیں تو بھی سیکولرممالک اور ان کے صحافتی اداروں کے کانوں پرجوں بھی نہیں رینگتی۔سچ ہے کہ صرف انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ہی انسانیت کی نجات دہندہ ہیں۔