چہار جانب خوف کی ہوائیں سائیں سائیں کرتی تھیں۔گلستان کے پھول دھویں کی لپیٹ میں آچکے تھے اورچہچہاتے پرندے بھی کالے دیوؤں کی ہاہا کار سے سہمے ہوئے تھے۔ کالے دیو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کیونکہ انہیں بوڑھے ناگ سے آدیش ملا تھا کہ اب گلستان کے باسیوں کی سفیدٹوپی کا فیصلہ سنانے کاوقت آیا ہے۔وہ اس جابرانہ فیصلے سے آگ بگولہ ہوجائیں گے‘اس لئے پہلے ہی سارے گلستان کو خوف کے دھویں سے بھر دو تاکہ وہ کھانسنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔خوف کی ہوائیں تیز ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے گلستان کے مخصوص چمن زار دھویں کی لپیٹ میں آگئے۔مظلوم باسی بے بسی کے بت بن گئے کیونکہ ان کے پاس ایسا کوئی طاقت ور منتر نہیں تھا کہ کالے دیوؤں پر پھونک مارتے تاکہ ان کا نشہ چور ہوجاتا۔ دھواں اتنا زہریلا تھا کہ کھانس کھانس کرجب بے بس و مظلوم باسیوں کا دم گھٹنے لگا اور جسم نڈھال ہوگئے تو ہمدرد آنکھیں دردانگیز آنسوں بہانے پر مجبور ہوگئیں۔
وہ سوچ رہا تھا…..
سفید ٹوپی کی چمک نہ صرف بوڑھے ناگ بلکہ کالے ناگوں کے لئے بھی سوہان روح بنی ہوئی تھی۔ان کی آنکھیں جب سفید ٹوپی کی چمک سے چندھیا جاتیں تو انہیں اپنا سرخ ٹیکا غلامی کا داغ محسوس ہوتا۔انہیں ایسا لگتا کہ جیسے گلستان کے مالک ہونے کے باوجود وہ آج بھی سر اٹھا کر چل نہیں سکتے اور جب تک سفید ٹوپی چمکتی رہے گی‘ اس وقت تک سرخ ٹیکے کا رنگ ماند ہی نظر آئے گا۔اصل میں یہ ان کا نفسیاتی و ہم تھا‘نہیں تو وہ خود بھی جانتے تھے کہ سفید ٹوپی کی اب صرف چمک موجودہے‘ باقی سب رنگ سرخ ٹیکے میں رنگ گئے ہیں‘یہاں تک کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوان بھی سرخ ٹیکے کی مالا ہی جپتے ہیں اور حیوان کیوں نہ مالاجپتے‘ وہ تویہ دیکھ کر فخر محسوس کر تے تھے کہ وہ بھی اب حیوان ہونے کے باوجود انسانوں کے صف میں کھڑے نظرآتے ہیں‘کیونکہ ان کے نام پر اب تو ایک انسان دوسرے انسان کا قتل کرکے خود حیوان بنتا جارہا ہے۔ انسانوں کا یہ گھٹیا پن دیکھ کر حیوان خوش ہوکر اپنے حیوان ہونے پر ناز کرتے رہتے کہ کہیں وہ بھی انسان ہوتے تو پتہ نہیں انہیں بھی اپنی انانیت برقرار رکھنے کے لئے کتنا گرنا پڑتا۔ایسے بیہودہ کام کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے حیوان ان لوگوں کو گدھوں سے بھی بدتر سمجھتے تھے کہ سوچ نہ سمجھ صرف ڈینگیں مارنے کو اپنی بہادری سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ گدھا کتنی ہی ڈینگیں مار کر خود کو عقل مند سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کرے‘لیکن پھر بھی وہ گھوڑا نہیں بن سکتا۔
ایک دن بوڑھے ناگ کی طرف سے گلستان کے لئے نیا منشور سامنے آیا۔اب قانونی طورپر حیوانوں کو انسانوں کا درجہ دیا جاتا ہے۔یہ سننا تھا کہ گائے کی گردن پھولوں کی مالا سے سجنے لگی اور گئو شالے جدید دور کی میڈیکل لیباٹریزبن گئے۔اب مسئلہ یہی تک نہیں رہا بلکہ جب گائے کی محبت میں نفرت کے جراثیم سرایت کرگئے تودھیرے دھیرے سفید ٹوپی کو دیکھتے ہی اُس کے نوکیلے سینگو ں سے خون کے پھوارے چھوٹنے لگتے۔ خون آلودہ سینگوں کی دہشت اس قدر پھیل گئی کہ انسان تو انسان حیوان بھی گائے کے گن گانے پر مجبور ہوگئے۔ انہیں اب گائے کوئی مقدس مخلوق محسوس ہونے لگی اور گؤ شالہ جدید دور کا لال قلعہ۔اب گائے عام حیوان نہیں بلکہ’ گاوِسامری‘کا درجہ پاگئی تھی اورکالے ناگ گئو شالہ کے سنگھاسن پر برجمان گائے کے اردگرد پھن مارے بیٹھے رہتے۔ گلستان کا یہ دیومالائی منظر نامہ دیکھ کرجدید دورکے پرندے قدیم دور کی جہالت کو یاد کرتے ہوئے ٹھونگیں مار مار کر ہنسی مذاق کے نقارے بجاتے رہتے۔
گلستان کے سرسبز و شاداب چمنستانوں میں کالا دھواں پھیلتا ہی جارہا تھا۔لیکن عجیب بات یہ تھی کہ کالے ناگ ڈینگیں مارمار کر دھویں کو روشنی بناکر پیش کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے اورفخر سے اتنا جھوٹ بولتے کہ سچ بھی شرم سے اپنا سر چھپانے پر مجبورہوجاتا۔ اب جو روشنی پسندلوگ ان ڈینگیں مارنے والے جھوٹے کرتب بازوں کا بھانڈا پھوڑنے کی کوشش کرتے تو ان کی آواز یاتو صدابہ صحرا ثابت ہوجاتی یا ان کی سانسیں کالے دھویں کی زد پر رہتیں۔
اس ہیبت ناک صورتحال میں اُس کی انکھوں کے سامنے ماضی کا نقشہ گھومنے لگا…..
گلستان میں سفید ٹوپی اور سرخ ٹیکے کی یہ تاریخی رسہ کشی کئی موسموں سے جاری تھی۔دراصل سرخ ٹیکے کے حواری یہ سمجھتے تھے کہ یہ سفید ٹوپی والے گلستان میں زبردستی گُھس آئے ہیں‘نہیں تو گلستان کے اصلی مالی ہم ہیں اور انہوں نے صدیوں تک گلستا ن کے موسموں کو اپنی سانسوں کے ماتحت رکھا اور سرخ ٹیکے کا رنگ ماند کرتے رہے۔لیکن اصل میں وہ حقیقت سے منہ موڈ لیتے تھے۔کیونکہ انہیں سفید ٹوپی والوں کے روشن دور میں یہ گلستان وجود میں آیا تھا نہیں تو یہ مختلف چمنستانوں میں بٹہ ہوا تھا۔ ان کی سانسوں کی بدولت یہ گلستان سونے کی چڑیاں بن گیا تھااور جب سفید ہاتھی گلستان کے چمنستانوں پر ٹوٹ پڑے تھے تو گلستان کی آن بچانے کے لئے سفیدٹوپی والے ہی شہید ہوکر ’شیر‘ کا خطاب پانے میں کامیاب ہوئے تھے۔باقی لوگ لومڑیوں کی طرح مکاری کی کھال پہن کر سفید ہاتھیوں کا جھوٹا چاٹنے پر پھولے نہیں سماتے تھے۔
ماضی کی یادوں سے نکل کر وہ دوبارہ حال پر غور کرنے لگا…….
اب تو حال یہ ہے کہ سفید ٹوپی والوں کو گُھس پیٹھی کی گالی دیکر انہیں کبھی گھروآپسی کے خوف سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور کبھی حیوانوں کا غم خوار جتلا کر انسانیت کی دھجایاں اڑائی جارہی ہیں۔دراصل یہ عقل کے اندھے روشنی سے آنکھیں چرا کر گلستان کو صدیوں پرانے اندھیرے کی طرف وآپس دھکیلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
گلستان کی فضا میں تناؤ کے بادل رقصاں تھے۔بادلوں کا یہ پُرتناؤ رقص کئی موسموں سے جاری تھا۔کالے دھویں میں کیسری رنگ تحلیل ہوتا جارہا تھا‘ جس سے بہت سارے لوگ دھوکہ کھا جاتے کہ شاید بعد میں دھواں ختم ہوجائے گا اور زعفران کی خوشبو پوری فضا میں پھیل جائے گی۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے کہ اس دھویں کے پیچھے جو آگ سلگ رہی ہے وہ پورے گلستان کو برباد کرسکتی ہے۔کیونکہ یہ دھواں کسی کامیابی کی علامت نہیں بلکہ یہ چند خود غرض لوگوں کی انانیت کا شاخسانہ ہے جو اپنی انا کی آگ بجھانے کے لئے پورے گلستان کو آگ کے شعلوں میں جھونک رہے ہیں۔
ایک دن جنگل کے قانون میں بوڑھے ناگ نے طاقت کے بل پر یہ اندھا فیصلہ سنایا کہ گلستان کے ایک چمن سے سفید ٹوپی کی چمک ختم کی جاتی ہے تاکہ وادی زعفران کے فطری رنگ کو اپنے مصنوعی کیسری رنگ میں رنگا جاسکے۔یہ اندھا فیصلہ سن کرکالے ناگ خوشی سے اچھل پڑے۔ لیکن گلستان کی روشنی پسند آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ یہ اس روشن زمانے کاکالافیصلہ ہے اور یہ کالافیصلہ پورے گلستان کو اندھیرے میں ڈبوئے گا۔
جنگل کے قانون میں جابرانہ فیصلہ سنانے سے پہلے وادی زعفران کے ہرپھول کے اوپر کالے دیوؤں کے سائے مندلانے لگے اور وادی کے بے بس مکینوں کی مظلوم سانسوں کو کالے سایوں نے پھندوں سے کس کررکھ دیا گیا۔جہالت اور چنگیزیت کا یہ خوف ناک ناچ دیکھ کر انصاف گھروں کی گھنٹیاں بھی گونگی ہوگئیں اور جمہوریت کو بھی اپنا جسم سلگتاہوا محسوس ہونے لگا۔کالے دیو وادی زعفران کی سانسوں میں کالا دھواں تحلیل کرتے جاتے اور بے بس لوگ کھانس کھانس کر بے حال ہوتے رہے۔ظلم و جبر کی یہ تلوار فضا میں عرصہ درازتک گشت کرتی رہی اور سرخ ٹیکے کارنگ خوشی سے چمکتا رہا۔وہ سوچ رہا تھا کہ جنگل کے قانون میں سفید ٹوپی کی چمک کا اغوا کرکے اب صرف سرخ ٹیکے کی چمک پھیلے گی اور وادی زعفران میں بھی اس کا کیسری رنگ پھیل جائے گا….لیکن….
ایک رات جب کشمیری خان گھر سے باہر نکل آیا تو اسے دیکھتے ہی کالے دیوؤں کی انکھوں میں سرخی پھیل گئیں۔
”اتنے دنوں کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کیسے ہوئی۔“ایک خوفناک آواز کانوں سے ٹکرائی۔
”میرا بچہ بیمار ہے۔“ کشمیری خان کا دل اگرچہ خوفناک آواز سے ڈوبنے لگا تاہم روہانسی آ وازمیں بول پڑا۔
”وہ دھویں سے بیمار ہوا ہے‘اسے اسپتال لے جانے کی اجازت دے دو۔“
”اچھا“ایک کالا دیو ہنس کر بولا اور پھر دُھتکارنے لگا۔”دفع ہوجا…گھر کے اند ر چُھپ کر بیٹھ۔“
”لیکن‘ وہ کئی دنوں سے بیمار ہے۔“کشمیری خان ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرنے لگا۔”اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔
اوپر سے گھر میں کچھ کھانے کے لئے بھی نہیں بچا ہے۔“
”کہا نا‘گھر میں بیٹھ جا۔“کالا دیو دھمکاتے ہوئے بولا۔ ”اور ابھی تک یہ سفید ٹوپی سر پر رکھی ہے۔“
”کیوں نہ رکھوں“کشمیری خان تیور بدل کر بولا۔”تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے دھویں کا خوف ہماری شناخت بھی چھین لے گا۔“
”تمہاری شناخت….ہاہاہا“کالا دیو طنز کرنے لگا.”یہاں تو سب لوگ خوش ہیں اور تم اپنی شناخت کا راگ الاپتے ہو۔
کس دنیامیں رہتے ہو۔“
”اچھا‘ یہاں سب خوش ہیں۔“کشمیری خان غصے سے لال پیلا ہوکر کہہ اٹھا۔”ذراکالے دھویں کا خوف کم ہونے دو۔
پھر دیکھوگے کہ لوگ تمہارے جنگل راج سے کتنے خوش ہیں۔“
یہ سننا تھا کہ کالے دیو آپے سے باہر ہوگئے اور سترسالہ کشمیری خان کی کھانسی رفتہ رفتہ کالے دھویں میں تحلیل ہوگئی۔
وقت نے کروٹ بدلی…
ایک دن جب گائے کے سامنے ایک معصوم سفید ٹوپی والے کو کالے ناگوں نے ڈس ڈس کر مارڈالا تو گائے کی آنکھیں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔اُسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس کے سامنے اُس کے بچھڑے کو جنگلی کتوں نے کاٹ کھایاہو۔گائے سوچنے لگی کہ جن انسانوں کو وہ ماں کی طرح دودھ پلاتی تھی اور جو اسے پیار سے کھلاتے پلاتے تھے۔اب انہیں کے خون سے اس کے سینگ رنگے جارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی نسل میں بھی شرم سے پانی پانی ہورہی ہے تو اس کے اندر مادرانہ شفقت جاگ اٹھی۔وہ سنگھاسن سے کود پڑی اور سینگ مار مار کر اسے توڑنے لگی۔
وادی زعفران میں پھیلے ہوئے دھوئیں کے درمیان آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں نے کالے دیوؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ کے شعلوں کی تباہی سے نہ تو کالے دیووّں کے سرخ ٹیکے کی چمک بچ سکی اور نہ ہی کالے ناگوں کو اپنے کیسری تاج کا کچھ پتہ چلا کہ وہ کب آگ کے شعلوں سے کوئلہ بن گیا۔
وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا…..
نہ صرف وادی زعفران میں سفیدٹوپی کی چمک پھیل چکی تھی بلکہ سارا گلستان کالے دھویں کی گھٹن سے بھی آزاد ہوچکا تھا۔سرخ ٹیکے کی چمک ماند پڑی تھی۔ کالے ناگ پھنکار نے کے بجائے سنگھاسن کی ویرانی دیکھ کر کف افسوس مل رہے تھے اور چال باز بوڑھا ناگ اپنے ہی پھیلائے ہوئے دھوئیں میں کھانس کھانس کر تاریخ کے اٹل فیصلے سے لرز رہا تھا کہ:
”تاج محل جیسا شاہکار صرف شاہ جہان ہی بنا سکتا ہے اور تاج محل کے مقابلے میں گؤ شالہ بنانے کی سوچ کوےکے سر کو مور کے تاج سے سجانے کے مترادف ہے۔“
ختم شد ـ ـ ـ ـ ـ ـ