’’خود نوشت سوانح عمری کی حقیقت اور ساقی فاروقی کی پاپ بیتی‘‘ تحقیقی وتنقیدی جائزہ
ABSTRACT
This article is about fictionally write autobiography of Saqi Farooqi, the article sidcuss the main the me and logical points
قطرہ پر گہر ہونے تک کیا کچھ گزرتی ہے اس کابیان دلچسپ اور اثر انگیز ہوتاہے۔ خود نوشت سوانح عمریوں کی مختلف صورتیںجاننے سے پہلے اس کی جامع اور مستند تعریف کی تلاش ضروری ہے۔ ادبی تاریخ میں سوانحی ادب کی اصطلاح کافی پرانی ہے۔ سوانحی ادب میں تاریخ، حالات, وقائع، ڈائری، روزنامچے سب کچھ شامل ہوجاتا ہے۔ بعد میں بیسویں صدی کے آغاز تک یاداشتی ادب یعنی (Memoris) اور سوانحی ادب یعنی (Biography) کو جدا جدا اکائی کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا اور اسی حیثیت سے اس پر تنقید بھی لکھی گئی۔
سوانحی ادب کی تین بنیادی صورتوں یاداشتوں، توزک اور خودنوشت سوانح عمری میں باریک سا فرق ہے جب کہ بہت سے لوگوں نے اپنی خودنوشت کو میمائرز (Memoris) یاداشتیں کہا ہے۔ یاداشتیں لکھنے والے کو مقبول ومعروف ہونا چاہئے۔ ایک ایسی شخصیت جس نے تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہو اور تاریخی واقعات کا شاید ہو جبکہ خودنوشت سوانح عمری کی تعریف ڈاکٹر پرویز پروازی نے ان الفاظ میں کی ہے۔
’’خودنوشت سوانح عمری کی سادہ سی تعریف تو بس اتنی سی ہے کہ وہ سوانح عمری جو خود لکھی گئی ہو، بالکل افسانہ کی سہل ممتنع تعریف کی طرح کہ مختصر افسانہ وہ افسانہ ہے جو مختصر ہو۔ مگر خودنوشت سوانح عمری پر غالب کا کہا صادق آتا ہے کہ ’’لکھنا‘‘ ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے، دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں‘‘ ( ۱)
لیکن بات اتنی سادہ اور مختصر بھی نہیں، معروف انگلستانی ادیب، ونقاد John Berger سوانح عمری کے بارے میں لکھتا ہے۔
"Autobiography begins with a sence of being alone it is an orphan form". (2)
اس یتیم صنف کے بارے میں John Giriggلکھتا ہے۔
"Autobiography is now as common as adultery and hardly less reprehensible". (3)
مشہور امریکی ناول نگار Philp Roth کے مطابق خودنوشت سوانح عمری ایک ایسی دلچسپ چیز ہے کہ اس کا حتمی فیصلہ قارئین کے ہاتھ رہتا ہے۔ وہ لکھتا ہے :
"I write fiction and I'm told its autobiography, I write autobiography and I'm told its fiction so since I'm so dim and they're so smart let them decide what it is is'nt (4)
انگلستانی ادیبہ Jeanette Winterson خودنوشت سوانح عمری کے بارے میں لکھتی ہے:
There's no such thing as autobiography. There's only art and lies (5)
Wikipedia انسائیکلوپیڈیا کے مطابق Autobiography کے معنی ہیں کہ :
"An autobiography, from the Greek autos, 'self, bios, 'life' and graphein, 'write', is a biography written by the subject or composed conjointly with a collaborative writer (styled "as told to" or "with"). The term was first used by the poet Robert Southey in 1809 in the English periodical Quarterly Reviw, but the form goes back to antiquity. Biographers generally rely on a wide variety of documents and viewpoints; an autobiography however may be based entirely on the writer's memory. Closely associated with autobiography (and sometimes difficult to precisely distinguish from it) is the form of memoir. (6)
فرہنگ آصفیہ میں خودنوشت سوانح کی وضاحت یوں ملتی ہے ۔
’’سوانح عمری ، اسم مذکر، سرگزشت کسی شخص کی زندگی کا حال، تذکرہ، کسی عالم خواہ فاضل خواہ بڑے بڑے کام کرنے والے یابہادر یا حاکم کے وہ واقعات جواس کی عمر میں گزرے ہوں‘‘۔(۷)
سوانحی ادب میں خودنوشت سوانح عمری کا لفظ ۱۸۰۹ء میں استعمال ہونا شروع ہوا مگر جن ابتدائی خودنوشت سوا نح عمریوں کا ذکر انگریزی ادب میں موجود ہے ان میں سنیٹ آگسٹن (۳۵۰ -۴۰۳) کے ’’اعترافات‘‘ (Confessions) کو پہلی خودنوشت سوانح عمری قرار دیا جاتا ہے۔ اعترافات ۳۹۹ء میں لکھے گئے اور ان میں سنیٹ آگسٹن کے بچپن کے حالات، ماں سے شدید لگائو، کائناتی صداقتوں کی جستجو اور عیسائیت کی قبولیت کو بڑی جزئیات کے ساتھ عمدہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اعترافات صدیوں بعد بھی مقبولیت رکھتے ہیں۔
ارتقائی تاریخ کے پس منظر میں خودنوشت سوانح عمریوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر پرویزپروازی نے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے خیال میں سنیٹ آگسٹن کے ’’اعترافات‘‘ کو پرانی اور کلاسیکی دنیا کے زوال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سنیٹ آگسٹن نے اعترافات کو منظر عام پر لانے کا سوچا۔ اگر موروضی حالات ایسے نہ ہوتے تو اعترافات منظر پر نہ آتے۔ اس وقت سے لے کر نشاۃ ثانیہ اور اصلاحات کے زمانے تک کوئی قابل ذکر خونوشت نہیں لکھی گئی۔ تا آنکہ ان دونوں تحریکوں نے فرد کی انفرادیت پر مہر ثبت کر دی۔
خود شناسی پرانی دنیا میں معدوم تھی مگر نشاۃ ثانیہ اور اصلاحات نے قدیم دور کی حکمت کو بھی دریافت کیا اس طرح فرد کو ماضی کے تناظر میں اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملا اس طرح خودشناسی وجود میں آئی۔ اس دور کے تین خودنوشت سوانح نگار اہم اور نمائندہ قرار دئے جاسکتے ہیں۔
سلینی (۱۵۰۱-۱۵۷۱) جیروم کارڈن (۱۵۰۱-۱۵۷۶) اور مانیٹن (۱۵۳۳-۱۵۹۲)
انہوں نے خودنوشت سوانح عمریوں کو آگے بڑھایا۔ اٹھارویں صدی میں جب انسانی افق وسیع تر ہوگیا تو خونوشت سوانح عمریوں کا بھی ایک نیا باب طلوع ہوا۔ اس دور کا نمایاں ترین خودنوشت سوانح نگار روسو (۱۷۱۲-۱۷۷۸) تھا۔ جو اپنی ذات کے سوا کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھاْ اس کے اعترافات (Confessions) اس کی پوری زندگی کا مظہرہیں۔ آپ بیتی ہر لحاظ سے مشکل فن ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص وہ سب کچھ لکھ دے جو اس اور اس کے دل پر گزری ہے۔ اس اعتبار سے آپ بیتی یاخودنوشت دوسروں کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاصی نار سا اور ناقص چیز ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں دوبڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں، دوسروں کا خوف اور اپنے آپ سے محبت۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو یہ امرتو طے شدہ ہے کہ فنکار میں انفرادیت کا احساس ضرور ہوتا ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے خود رو سو نے اعترافات (confessions) میں اپنے بارے میں لکھا:
’’میں جس کام کابیڑا اُٹھارہاہوں بلحاظِ نوعیت یہ بے مثال ہی نہیں بلکہ ناقابل نقل بھی ہے۔ میں اہل دنیا کے روبرو ایک آدمی کواس کی فطرت کی تمام سچائی کے روپ میں پیش کررہا ہوں اوروہ آدمی میں خود ہوں۔ صرف تنہا میں ہی اپنے قلب سے واقف ہوں۔ ویسے بھی میری ساخت دیگر افراد سے مختلف ہے یہ میراایمان ہے کہ اگر میں دوسروں سے بہتر نہیں توکم از کم ان سے مختلف یقینا ہوں۔ میرے بعد مجھ ایسوں کی تخلیق کا سانچہ تلف کرکے قدرت نے اچھا کیا یا بُرا۔ اس کافیصلہ میرے حالات جاننے کے بعد ہی کیا جاسکتاہے‘‘۔ (۸)
بیسویں صدی کے ساتھ خودنوشت سوانح نگاروں کا ایک نیا باب طلوع ہوا۔ اب علم نفسیات نے انسانی شخصیت کے مختلف پہلوئوں اور پرتوں کو کھو جنا شروع کردیا۔ اس تلاش کے دوران باطنی انسان کی دریافت ممکن ہوسکی۔ اب مختلف نظریات وجود میں آئے، ہر شے عالمی سطح پر آگئی، جنگیں بھی عالمی ہونے لگیں، ذرائع مواصلات وابلاغ نے بے پناہ وسعت پائی۔ ان تمام باتوں نے فرد کے ذہن کو بھی عالمی وسعت وعالمگیری سے آشنا کرایا۔ اس صدی میں خودنوشت لکھنے پر زیادہ توجہ دی گئی اور لکھنے والوں کو احساس بھی ہوا کہ اب کسی فرد کی اپنی ذات کے بارے میں لکھی ہوئی ہر بات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس کی جانچ پرکھ سائنسی اصولوں پر ہوگی۔
بعض ناقدین کے مطابق خودنوشت سوانح دراصل فنکار کی نرگسیت پر دال ہے۔ مثلاً ڈاکٹر سلیم اختر اعترافات اور خودنوشت کا نفسی محرک نرگسیت کو ہی قراردیتے ہیں۔ (۹) اس لیے بیشتر لکھنے والوں میں اپنی کمزوریوں کو آرٹ بنا کر پیش کرنے کا رجحان قوی نظر آتا ہے۔ چنانچہ بابر اور جہانگیر سے لے کر مہاتماگاندھی اور سوئیکارنو تک، سنیٹ آگسٹن سے لے کر کاسانوا اور روسو تک اور مولانا ابوالکلام آزاد اور جوش ملیح آبادی ایسی سب مثالوں سے نرگسیت نمایاں ہے۔
تخلیقی سطح پر آپ بیتی کا عنصر تمام اصناف ادب میں کارفرما رہتا ہے۔ شاعری، افسانہ ڈرامہ، ناول، اور غیرافسانوی ادب تقریباً سب میں فنکار کے ذاتی تجربات، مشاہدات اور جذبات کا عکس ملتا ہے۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنی ہی ذات کی یا ترا فنکارکو تخلیق پر اُبھارتی ہے۔ فنکار نے جو زیست کی ہے اور اس زیست کے جن پہلوئوں میں وہ ہمیں شریک کرنا چاہتا ہے وہ پہلو اس کی تخلیق کا حصہ بنتے ہیں۔ اس طرح خودنوشت میں اس فرد واحد کے تجربات، مشاہدات اور جذبات کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے اور اس کی نفسیاتی کیفیات کا پر تو بھی ملتا ہے۔ اسے انتخابی فن کہا جاسکتا ہے جو زندگی کے وسیع تجربات، مشاہدات اور اہم نمائندہ واقعات کی ایسی ترتیب ہے جس میں تخلیقی عنصر نمایاں رہتا ہے۔
اردو کی تازہ ترین خودنوشت سوانح عمریوں میں ایک دلچسپ اضافہ ساقی فاروقی کی آپ بیتی ’’پاپ بیتی‘‘ ہے۔ اسے جنوری ۲۰۰۸ء کو اکادمی بازیافت، کراچی نے شائع کیا۔ یہ آپ بیتی کا پہلا حصہ ہے دوسرا حصہ بھی جلد متوقع ہے۔ کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے یہ خود نوشت کراچی کے ادبی مجلے’’ مکالمہ‘‘ اور بمبئی کے رسالے ’’نیا ورق‘‘ میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔
ساقی فاروقی کی شخصیت ادبی حلقوں میں نہایت متنازعہ ہے۔ انہوں نے تمام معاصرین کے چٹکی کاٹی ہے اور اس لیے ہر ایک سے ان کی اَن بَن رہتی ہے۔ بے تکلفی، آزادی اور دل آزاری کوپہنچی ہوئی صاف گوئی کی وجہ سے ان کی مقبولیت بے حد ہے۔ مشفق خواجہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ساقی فاروقی نے اقبال کے بعد شاعروں میں سے فیض، راشد اور میراجی کو رعایتی نمبر دے کر پاس کردیا ہے اور باقی سب شاعروں کو ’’چھٹ بھئے‘‘ اور چپڑ قناتی کہہ کر ان کو عزت افزائی کی ہے۔ ترقی پسند شاعروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس انفرادی لہجہ نہیں ہے۔ یہ سب ایک ہی جیسی باتیں ایک ہی جیسے انداز میں کہتے ہیں‘‘۔۱۰
جب کہ خالد احمد نے ساقی کو اردو کا’’خودکش بمبار‘‘ کہا ہے
"He is the suicide-bomber of Urdu literature who has survived. There was nothing for it but to get the bomber's jacket and pack it with TNT and ball-bearings of honest opinion and walk into the place of a strangely arrested post. 1947 Urdu literature and its clacified practitioners" (11)
شاعری میں ساقی فاروقی کے موضوعات انتہائی منفرد اور انوکھے ہیں۔ انہیں بچپن ہی سے جانوروں سے رغبت رہی ہے اس لیے حیوانات ان کی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔ عام زندگی میں ان کا حلیہ بھی کافی دلچسپ اور انوکھا ہے گلے میں موتیوں کی مادئیں لٹکائے پھرتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ان کے اس نرالے انداز کو اپنے مخصوص لہجے میں یوں بیان کیا ہے۔
’’ساقی اپنی آسٹرئین بیگم کو پیار سے گنڈی اور اپنے (rottweiler) کتے کو کامریڈ کے نام سے پکارتے تھے۔ کتا اپنے نام اور ساقی کے پیار کی تاب نہ لاکر جاںبحق ہوگیا۔ مینڈک ،کتے، بلے، خرگوش، مکڑے وغیرہ پر بہت خوب صورت اور خیال انگیز نظمیں لکھی ہیں۔ چار ٹانگوں سے کم کے کسی ذی روح سے ساقی محبت نہیں کرسکتے۔ جب سے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں، ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی ٹانگیں ٹٹول ٹٹول کرگنتے ہیں کہ کہیں اپنے بارے میں کسی مغالطے میں تو مبتلا نہیں رہے ہیں۔ چھ سات برس پہلے تک گلے میں رنگ برنگ موتیوں اور منکوں کی مالا پہن کر ساقی گھن گرج کے ساتھ شعر پڑھتے تو لوگ شاعری سے چکا چوند ہو کر موتی گننے لگتے‘‘۔ (۱۲)
جانوروں سے ان کی بے پناہ محبت اور رغبت کو ان کی خودنوشت کے ابتدائی حصہ میں دیکھاجاسکتا ہے جب وہ اپنے بچپن کا حال بیان کرتے ہیں۔ ساقی فاروقی کی شخصیت کی تعمیر میں بچپن کے ان واقعات کا خاصہ اثر ہے۔ وہ اپنے گھر میں مختلف ’’بلیوں‘‘ کو دیکھتے اور پھر ان کو جس بے رحمی کے ساتھ بوروں میں بند کرکے مارا جاتا یہ سب ان کے ننھے سے دماغ پر نقش ہو کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی سطح پر جانوروں کی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میرے دل میںحیوانات کی محبت جنون سے کم نہیں۔ اس کے تین اسباب ہیں، (الف) بچپن ہی سے جانوروں میں پلا بڑھا (ب) بلّوں کو تالاب میں زندہ دفن کرنے کے خلاف شدید ردعمل (ج) ابا قاضی محمد التفات بنی صدیقی ورٹرنیری سرجن تھے اور انہوں نے یکے بعددیگرے تین کتے پالے۔ ہٹلر (السیثسن) چرچل (بل ڈاگ) اور شاباش (ٹیریر)۔ اماں کی بے لوث محبت کے بعد ان تینوں ’’بھل مانسوں‘‘ کی خالص دوستی، لڑکپن کی یادوں کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اول اول کے دکھ سکھ، آخر آخر تک زندہ رہتے ہیں‘‘۔(۱۳)
انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں کے مجموعے ’’سرخ گلاب‘‘ اور بدرمنیر کو تین مرحوم ہم عصروں کے نام مسٹرکامریڈ (کتا) مسٹر رام راج (بلا) اور مسٹرٹم ٹام (کچھوا) کے نام انتساب کیا ہے۔ کئی نظمیں خرگوش، کتے، بلے اور مینڈک پر لکھی ہیں جو منفرد بھی ہیں اور فکر انگیز بھی۔
ساقی کی خودنوشت ’’پاپ بیتی‘‘ اپنی نوعیت کی انوکھی اور دلچسپ تصنیف ہے۔ ساقی نے اسے یادوں کی بازیافت اور بازگشت کہا ہے۔ مختصر دیباچہ میں ادبی مجلے’’ مکالمہ‘‘کے مدیر مبین مرزا کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس خود نوشت کو منظر پر لانے والے بھی یہی لوگ یعنی معین مرزا، راشد اشرف اور صفات علوی ہیں۔ ’’پاپ بیتی ‘‘ کی ترکیب اردو ادب کے عظیم نثّار مشتاق احمد یوسفی کی وضع کردہ ہے جسے ساقی نے اپنی خودنوشت کے لیے نہایت موزوں پایا۔ اس سے پہلے یوسفی صاحب کی اس ترکیب سے اشفاق نقوی نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ اشفاق نقوی نے اپنی خودنوشت کا نام ’’پاپ بیتی‘‘ رکھا جسے ’’نیولائن، کیولری گراونڈ لاہور سے شائع کرایا گیا۔ سن اشاعت نامعلوم ہے۔ اس بات کی طرف اجمل کمال نے بھی اشارہ کیا ہے۔
’’اس سے پہلے تقریباً اسی عنوان سے اشفاق نقوی کی خودنوشت ’’پاپ بیتی‘‘ (ذیلی عنوان: ’’ایک اور طرح کی آپ بیتی‘‘) لاہور سے شائع ہوچکی ہے۔ چونکہ دونوں کتابوں کے مصنفوں نے یہ عنوان مشتاق احمد یوسفی کے ایک مشہور فقرے سے اٹھایا ہے اس لیے پڑھنے والوں کے لیے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی کہ یوسفی لنگر سے ان دونوں عاجزوں میں سے کس نے پہلے لقمہ گیری کی اور کون چبائے ہوئے نوالے کا سزاوار ٹھہرا‘‘۔ (۱۴)
ساقی نے اس کتاب کواپنے تمام دوستوں اوراپنے تمام دشمنوں کے نام انتساب کیاہے ۔مغربی ادب میں روسو کی آپ بیتی کواہم مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنی بے لگام زندگی کے بارے میں بڑی بے باکی سے اظہار کیا۔ خود ہمارے ہاں سوانحی ناولوں کے ذریعے زندگی کے کئی ناقابل بیان واقعات کورنگ آمیزی کے ساتھ لکھاگیاہے۔ ممتازمفتی کا سوانحی ناول ’’علی پور کارایلی‘‘ اس کی اہم مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ بیتی میں مصنف بہت کچھ بتاکر بھی بہت کچھ چھپا جاتا ہے۔ اگروہ بے باکی اورروانی سے سب کچھ بھی بتانے کادعویٰ کرے تب بھی قاری کو یہ احساس ہوتاہے کہ اس نے بننے کی کوشش کی ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھاجائے توسوانحی ناول خودنوشت کابہتر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ مشتاق احمدیوسفی نے اپنی زندگی کے اہم حصے ملازمت اور معاشی جدوجہد کو ’’زگزشت‘‘ میں دکھایا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کااہم اور منفرد تجربہ ہے کہ تخلیق کارنے صرف چار پانچ برسوں کے حالات وواقعات کواپنے مخصوص اسلوب اور مزاحیہ رنگ میں پیش کیا ہے۔ یہ مکمل سوانحی سرگزشت تونہیں، لیکن ایک عام آدمی کی زندگی کی ایسی کہانی ہے جومعاشی تگ ودو میں مصرو ف ہے۔ اوراس کے حالات پانچ برسوں میں سرمو نہیں بدلتے۔ اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ اپنی سوانح کوبیان کرنے کی بالواسطہ کوشش بسا اوقات زیادہ کامیاب رہتی ہے۔ ’’پاپ بیتی‘‘ میں ساقی فاروقی کامعاملہ مختلف ہے۔ ان کاطرز زندگی مختلف ہے۔ رب العزت نے ہرفرد کو انیق بنایا ہے۔ اوراس انفرادیت کووہ اس زندگی میں برتتا ہے جواس کے حصے میں آئی ہے۔ آپ بیتی کی اہم بات یہی ہے کہ فرد پر کچھ بیتی ہو اور بیتی کو بیان کرنے کا حوصلہ اگرساقی فاروقی جیسا ہو تو کیاکہنے۔ ساقی کو دوسروں کو چڑانے میں مزہ آتاہے ان کی مثال اس شریر بچے کی ہے جوگلی سے گزرتے ہوئے دوسروں کے چٹکی کاٹنے کواپنے دن کاحاصل سمجھتا ہے۔ ان کی آپ بیتی کا طریقِ کار ذرا مختلف ہے۔وہ اس بارے میں خود یوں رقمطراز ہیں:۔
’’اب تک قاری کومعلوم ہوچکاہوگا کہ میں تاریخ واریخ کو پس پشت ڈال کے خیال کی زنجیرکاتعاقب کرتاہوں اور کڑیاں بناتا چلاجاتاہوں‘‘۔ (۱۵)
اس طرح خیال کی زنجیر کاتعاقب کرتے ہوئے ان کے دل ودماغ میں کردار ،واقعات اوران سے جڑی ہوئی یادیں تازہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ان کرداروں میں ماں باپ، قرابت دار، معاصرین شعراء اور قدماکی روایت سب کی جھلک نظرآتی ہے۔ بالخصوص ماں کاوجود ساقی کے لئے ہمیشہ سایۂ رحمت رہا۔ اُنہوںنے دل کھول کر اس کااعتراف کیا اوراس اعتراف کوتحریر کی ایسی خوبصورت شکل عطا کی ہے کہ اس اسلوب نے تحریر کی تاثیر کو دُگنا کردیا۔ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
’’ایک زمانے میں اماں خدمت گاروں کی نگہ داری کیا کرتی تھیں مگران کے ہاتھ کے بنے شامی کباب ’’ساگ گوشت‘‘ ماش کی دال اور مٹرقیمہ ،چینی کے ڈونگوں میں شورمچا رہے تھے کہ یہ سہاگن توقیامت کی باورچن بن چکی ہیں‘‘۔ (۱۶)
ماں کے نروس بریک ڈائون نے ساقی کے دل ودماغ کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
’’اس بہار کالونی سے جان چھوٹی جہاں دوسالہ قیام کے دوران میری بہن ناہیدپیدا ہوئی اورپہلی سالگرہ سے پہلے پہلے چلی گئی۔ اماں دوسرے اور طویل نروس بریک ڈائون کے عذاب سے گزریں۔ وہ ہنس مکھ اورخوش مزاج خاتون ایک بار پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اداسی کی جاگیربن گئیں۔ اورایک روح آزار خاموشی کے سحرمیں آگئیں۔ (۱۷)
’’لندن کے بن باس میں اس قسم کی محبتیں بھول چکاتھا۔ میں نے اس لمحے پہ بھی سوچاہوگا کہ شاید ہجرت کا فیصلہ غیردانش مندانہ تھا۔ اس رات میں نے اپنے کچھ آنسو بچالیے تھے کہ ابھی گھر پہنچنا تھا جہاں اماں میرے انتظار میں شمع کی طرح جل جل کر گیارہ بارہ برس سے پگھل رہی تھیں۔ (۱۸)
۱۹۵۴ء کے اواخر میں ساقی فاروقی اپنی ادبی زندگی کا آغازکرتے ہیں۔ اصل نام قاضی شمشاد نبی پس منظر میں چلا جاتاہے اورماردھاڑسے بھراساقی منظرپر اُبھرتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ وہ ابتدأ ہی سے کلشے‘ ’’Ciche‘‘ کاقائل نہ تھا۔ اس کی شاعری اور نثر عام پامال راہوں سے الگ تھی۔ کلشے کے خلاف یہ جہاد انتہائی دشوار فیصلہ تھا لیکن ساقی کی بنیادی فطرت ومزاج کا تقاضہ یہی تھا۔ اس تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے اس نے مروجہ استعارات ، علائم، الفاظ ومحاورات اوراردو شاعری کے روایتی ڈکشن کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔ اپنی خود نوشت میں بھی اپنی منفرد وضع کو برقرار رکھا چنانچہ غالب ہو یامیر، فیض ہو یاراشد، حبیب جالب ہو یا جمیل الدین عالی ہرایک کے بارے میں کھری اور دوٹوک رائے۔ دوستی اپنی جگہ پر حق کو حق کہنے میں کوئی تامل و تاویل نہیں۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
(۱) انیس اوراقبال پھر یگانہ اورراشد کے مصرعوں کا صوتیاتی نظام مجھے بہت پسند تھا کہ میرے مزاج سے لگا کھاتا تھا۔ میر کی لہکتی ہوئی اورغالب کی دہکتی ہوئی آواز نے پریشان کررکھاتھا۔
I mean the better Meer and the better Ghalib.
اس لیے کہ ان کے ہاں بھی سخنِ فضول کی کمی نہیں‘‘ (۱۹)
سلیم احمد ان کے قریبی دوست تھے، ان کی شاعری اور تنقید پربے لاگ رائے اہمیت رکھتی ہے۔
’’سلیم احمد نزاعی بھی تھے اورنزاعی وہ ہوتاہے جوحال کے بہتے ہوئے دھارے کی مخالف سمت میں چلتاہے۔ حال سے بے اطمینانی اسے ماضی کی طرف لے جاتی ہے اور مستقبل کی طرف بھی۔ مجھے دکھ ہے کہ سلیم احمد، اکبرآلہٰ آبادی اور محمدحسن عسکری کی طرح آخر آخر میں حرف ماضی کی طرف لوٹ کر رہ گئے اورانہوںنے ماضی سے مستقبل کشید کرنے کاہنر نہیں سیکھا افسوس کہ بعد میں یہی حال شمس الرحمن فاروقی کا بھی ہوا۔(۲۰)
جمیل الدین عالی جو انہیں بے حد عزیز رکھتے ہیں اور خود ساقی بھی ان کے حسن سلوک، شاہ خرچی اور دوستی کے معترف ہیں لیکن جب بات فن پر ہو تو ساقی کاروپ الگ ہوجاتاہے۔
’’خراچ اورخوش پوشاک بھی۔ کاش یہ خراچی اور خوش پوشاکی ان کی پچھلی تیس سالہ شاعری اور نثر میں بھی نظرآتی۔ ان کی پہلی کتاب مجھے بہت پسند آئی تھی اس کے بعد ان کے ادب کاگراف نیچے ہی نیچے کی طرف سرکتا چلاگیا‘‘۔ (۲۱)
لیکن ایسا ہی نہیں کہ انہیں اردو شعر اء اور معاصرین میں صرف خامیاں ہی نظر آتی ہیں۔ معاصرین میں اکثر شعراء کودل کھول کر داددی ہے۔ شمیم احمد، جمال پانی پتی ، نگار صہبائی ،قمر جمیل، اطہر نفیس اورسلیم احمد کی صلاحیتوں کااعتراف بھی کیاہے۔ معاصرین شعراء میں سے پروین شاکر، عبیداللہ علیم ،ثروت حسین، رئیس فروغ اور جمال احسانی کی بے وقت موت نے انہیں بہت اداس کیا۔ سلیم احمد کومنظوم خراج پیش کیاگیا ہے۔ یہ منظوم خراج اس لئے اہمیت کاحامل ہے کہ یہ ساقی کی کسی کتاب میں شامل نہیں ۔ انہوںنے اسے اپنی خود نوشت کا حصہ بنایا ہے۔ کراچی میں ساقی نے تقریباً تمام اہم معاصر شعرأ کی صحبت پائی۔ ناموں کی اس فہرست سے ان کے کثیرالاحباب ہونے کااندازہ کیا جاسکتاہے۔
بہزاد لکھنوی، ارم لکھنوی، نظر حیدر آبادی، تابش دہلوی، شاعر لکھنوی، ادیب سہارن پوری ، شمس زبیری، صبااکبر آبادی، آلِ رضا، ذوالفقار علی بخاری، فضل احمدکریم فضلی، محشر بدایونی ،شاہد عشقی، قمر ہاشمی، حبیب جالب، رساچغتائی غرض ایک وقت میںیہی لوگ ان کی دنیا تھے۔ شاعری کے اسرار ورموز ہوں یازبان کے دائو پیچ ساقی نے یہاں بہت کچھ پایا۔
’’میں صحیح معنوں میں کثیرالاحباب تھا۔ وہاں کے تمام نہیں توبیش ترادیبوں سے (جو بعد میں معتبر یااہم بنے یابنتے بنتے رہ گئے یا بھلادیئے گئے) صاحب سلامت تھی /ملاقات تھی/یارانے تھے‘‘۔ (۲۲)
اس طرح اس خودنوشت میں ایک خاص وقت کی ادبی تاریخ دیکھی جاسکتی ہے لیکن اس بھیڑ میں مصنف کواپنی انفرادیت کا پورا احساس ہے۔ ساقی کے مطابق جوباتیں اس نے لکھی ہیں وہ اردو کاکوئی دوسرا ادیب نہیں لکھ پایا۔
’’مجھے یقین ہے کہ اردو کے مرحومین اور ’’موجودین‘‘ ادیبوں میں شاید میں واحد آدمی ہوں جس نے مذہب اور جنس کے مسائل پر بلاخوف وخطر نہایت تفصیل سے خاطر جمعی سے اپنے سوچ بچار کی روشنی میں اپنی آرا کا تحریراً اظہار کیاہے۔ ورنہ تقریراً وفیشناً (واہ کیااچھا لفظ ایجاد کیا ہے) تومیرے کئی ہم عصر کراچی، لاہور، دلی اور ممبئی کے قحبہ خانوں میں (توبہ توبہ زبان سے غلط لفظ نکل گیا۔ کہنا قہوہ خانوں چاہتاتھا) مذہب کے بارے میں نازیبا باتیں کرتے رہتے ہیں‘‘۔(۲۳)
خود اپنے مسلک کے بارے میں ساقی فاروقی نے کافی تفصیل سے لکھا ہے ۔ ان کے نزدیک چونکہ مذہب جنس اورادب تینوں محاذوں پران پر شدید جاہلانہ حملے ہوئے ہیں۔ اس لئے خودنوشت سوانح لکھتے ہوئے یہ موقع ملا ہے کہ اپنے مذہب ومسلک کے بارے میں تمام غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ سب سے پہلے ساقی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوںنے مذاہب کامطالعہ فلسفی کے طور پر نہیں بلکہ ایک سوچنے والے ادیب کی طرح کیا ہے۔ یعنی اقرار ،انکار اور تشکیک کے بارے میں میرا رویہ صرف اور صرف فکری نہیں ہے بلکہ جبلّی بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب ہو کہ مشرق، شمال ہو کہ جنوب، جب جہاں اورجس صدی میں آزاد خیالی کااکھوا پھوٹا ہے بنیاد پرست رجعتی جھکڑ کی طرح چلے ہیں۔ شکرہے کتے بھونکتے رہے اور قافلے چلتے رہے۔ ورنہ ہم آج بھی پتھر کے زمانے میں ہوتے۔ نہ آریائی برہمن گوتم کے ریلے کو روک سکے نہ فطرت پرست حضرت موسیٰؑ کے سیلاب کو ، نہ موسائی یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آندھی کوروک سکے نہ عیسائی اور یہودی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طوفان کو۔ اس لیے کہ ایک کے بعد ایک آنے والا پہلے سے زیادہ روشن خیال تھا۔ اس لیے زمانے ترقی کرتے گئے اوران کے ماننے والے بہتر سے بہتر کی توقعات کے خواہش مند رہے۔ اسی لیے مذہبی جنوینوں کے لئے ان کے دل میں تنفر ہی تنفر ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ساقی فاروقی کوملعون سلمان رشدی سے جوڑا۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ساقی فاروقی نے بتایا ہے کہ وہ سلمان رشدی سے کبھی نہیں ملے اوران کی اتنی ہی مذمت کرتے ہیں جتنا کہ کوئی انسان اورمسلمان کرسکتاہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’جہاں تک پیغمبروں کاچاہے (وہ اصلی ہوں یا دیومالائی) تعلق ہے، نہ اُن کے خلاف بات کہہ سکتاہوں نہ سن سکتاہوں۔ اس لیے کہ میں (Socialist Humanist ) ہوں۔ پھر شاعر ہونے کے ناتے مجھے یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ کھرے مذہبوں کوزک دوں، ہاں کھوٹے منافقین کی بیخ کنی ضروری سمجھتاہوں۔ یہی نہیں مختلف مذاہب کی مقدس خواتین (مثلاً سیتامثلاً ہاجرہ، مثلاً مریم، مثلاً آمنہ) کے خلاف بھی کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا۔(۲۴)
پاپ بیتی میں شامل ایک دلچسپ واقعہ سے پتہ چلتاہے کہ ساقی فاروقی دراصل افسانہ نگار بننا چاہتے تھے مگر شومئی قسمت ایک مہربان نے ان کے سارے افسانے چوری کرلیے۔ کافی عرصے کے بعد اس شخص نے چوری کااقرار کرتے ہوئے وہ مخربِ اخلاق افسانے لوٹانے کاعندیہ دیا تواب پلوں کے نیچے بہت پانی گزر چکاتھا۔ ساقی کوان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بیس سال پہلے کی لکھی ہوئی کہانیوں سے ساقی کاسمبندھ جڑنا مشکل ہوگیاتھا۔ مگراس سے ایک فائدہ ہوا ،نثرلکھنے کی مشق اور فقروں کی ساخت سے آشنائی پیداہوگئی۔ ساقی فاروقی ۱۹۵۲ء سے دسمبر ۱۹۶۳ء تک کراچی میں رہے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ سال۔ ان کی ادبی تربیت اسی شہر میں ہوئی ۔ ۱۹۵۵ء سے ان کی شاعری امروز، لیل ونہار، ادب لطیف، سویرا، فنون، افکار، ساقی، مشرب، جنگ، نیادور میں شائع ہونا شروع ہوئی۔ اس زمانے میں انہوںنے ریڈیو کے لئے گیت اور نغمے بھی لکھے اور بچوں کے لئے بھی عمدہ شاعری کی۔
نثر میں ان کااسلوب بانکا اورسجیلا ہے۔ آپ بیتی کافن دلچسپ اسلوب کامتقاضی ہے۔ خودنوشت کے فن میں تین اہم عناصر ہیں۔ لکھنے والے کی یادداشت ، لکھنے والے کا اسلوب اور لکھنے والے کے اردگرد کاحلقۂ رجال واحباب۔ اخفائے ذات سے انکشاف ذات کے مراحل طے کرنے کے لئے عمدہ اسلوب کی اہمیت دوگونہ ہے۔ ساقی فاروقی نے ایک ایسا اسلوب اول تاآخر اپنائے رکھاہے کہ قاری پوری کتاب پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہیں خود اپنے فن کا احساس ہے شاعری کے ضمن میں لکھتے ہیں:۔
’’حرفتیں آسمان سے ودیعت نہیں ہوتیں۔ انہیں سیکھنا پڑتاہے۔ میں نے مصرع لکھنے کی کاری گری انیس، اقبال اوریگانہ (اردو) ایلیٹ، آڈن اور تھامس (انگریزی) سے سیکھی افسوس کہ یہی دوربانیں آتی ہیں اور Hopefullyاس فن کو آگے بڑھایا۔(۲۵)
انہیں الفاظ کے انتخاب اورترتیب الفاظ پر قدرت حاصل ہے۔ ضرب الامثال، کہاوتوں اوراشعار کے پیوند سے وہ نئی تراکیب وضع کرتے ہیں۔ اس خوبی نے ان کی خود نوشت کو مزید نکھار بخشا ہے۔ بعض الفاظ اوراشعار طبعِ سلیم پر گراں ضرور ہیں لیکن وہ واقعات سے مطابقت رکھتے ہیں اور موقع محل کے لحاظ سے پرزور نثر کی بہار دکھلاتے ہیں۔چونکانے والے جملوں اور بے باکانہ پیرائے اظہار نے اس خود نوشت کو قاری کے لئے دلچسپ بنادیا ہے۔ ان کی نثر کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت بے خوفی اوربے باکی ہے۔ وہ ہر شخص اور ہرواقعے کے بیان میں صاف گوئی سے کام لیتے ہیں۔ صاف گوئی بھی وہ جودل آزاری کی حدوں کو چھوتی ہے۔ مثلاً سلیم احمد اور ان کے بھائی شمیم احمد سے اپنے گہرے تعلقات کاذکر کرتے ہوئے مسزآفریدی کامعاشقہ سامنے لائے ہیں۔ اگروہ اس واقعے کو اتنے کھلے بیان کے ساتھ پیش نہ کرتے تب بھی خودنوشت پر کوئی اثر نہ پڑتا۔ لیکن ان کی شخصیت کی نرگسیت نے انہیں ایسا کرنے پراُبھارا۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’مسز آفریدی ایک طرف تواپنے شوہر اورشمیم سے اپنی معصومیت کا پرچار کرتی ہیں دوسری طرف مجھ سے ہر دوسرے تیسرے روز ’’وصالیہ‘‘ (نیا لفظ ایجاد کیاہے) بھی جاری رہا۔(۲۶)
خود نوشت میں کئی دلچسپ واقعات شامل ہیں مگرسب سے زیادہ دلچسپ بیان معروف نقاد مجتبیٰ حسین سے ادبی بحث کاہے۔ سلیم احمد کی فرمائش پر عزیز حامدمدنی اپنی غزل سنارہے تھے۔ غزل کے اشعار عمدہ اورشاندار تھے۔ ساقی نے تعریف کی اورکہا کہ غزل عمدہ ہے مگرایک مصرعہ وزن میںنہیں ۔ اسلئے کہ ’’گِرہ‘‘ کو گِرِہ‘ یعنی ’’فعا‘ کی بجائے ’’فعل‘‘ باندھا گیا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے مداخلت کرتے ہوئے نہایت تندلہجے میں بتایا کہ مصرعہ ٹھیک ہے۔ انیس نے بھی یوں باندھا ہے۔ ساقی نے اصرار کیا کہ انیس کا شعر سنائیے۔ مجتبیٰ کوشعر یاد نہ تھا۔ ساقی نے کہا، آپ کا گھر یہاں سے ایک میل کے فاصلے پرہے رکشا لیجئے اورانیس کامرثیہ لے آئیے۔ مجتبیٰ حسین غصے اورطیش میں تھے رکشالیا اور یہ جاوہ جا۔ غرض چالیس پینتالیس منٹوں میں واپس آئے توانیس کے مرثیے سے چند اشعار سنائے۔ انیس نے قافیے میں ’’نگہ‘‘ ’’گرہ‘‘ زرہ وغیرہ باندھا تھا۔ اورتمام لفظوں کو ’’فعا‘‘ یا ’’فعو‘‘ یا ’’فعل‘‘ کیاتھا یعنی ساقی کی تصدیق کی تھی۔ مگرمجتبیٰ لڑگئے اورغصے میں کہا ’’سالے تمام جدیدیے جاہل ہوتے ہیں۔ اس پر ساقی نے آئو دیکھا نہ تائو اور ان کے منہ پر زور دار طمانچہ لگایا۔ لوگوںنے بیچ بچائو کرایا۔ اس پر بھی دل ہلکا نہ ہواتوساقی نے سوچا اہل زبان کومارپیٹ سے نہیں صرف زبان سے ہی تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس واقعے کوگزرے ہوئے کافی وقت ہو چلا اس کی یاد اورکسک باقی رہی چنانچہ ساقی نے اس خود نوشت کا بہترین حصہ یوں لکھاہے۔
’’پیارے قاری ،بیس سال تک شیکسپیئر کے میک بتھ کی طرح تاسف کے تسلے میں ہتھیلی کا خنجر دھوتا رہا۔ اس لیے کہ ہاتھاپائی ، دلیل وحجت کی موت ہے۔ شاعروں ادیبوں کو عوام سے گفتگو ضرور کرنی چاہیے مگر انہیں عوامی جذباتی سطح سے بلند ہونا چاہیے ورنہ وہ غلط نظیر (Bad Precedent )کے مرتکب ہوں گے۔ قسمت کاکھیل دیکھئے۔ بیس بائیس برس بعد ہم دونوں کا (مجتبیٰ اور میں) ہارٹ بائی پاس آپریشن لندن کے دو مختلف ہسپتالوں میں ایک ہی دن ہوا۔ دوتین ہفتوں بعد جب ہم دونوں اپنی اپنی قیام گاہوں میں واپس آگئے تومیںنے اردو مرکز سے ان کافون اوران سے پتا حاصل کیا۔ اور ہم دونوں سینہ چاک، بوئے گل اوربادِ صبا کی طرح ملے۔ ایک سال کے بعدان کی ناگہانی موت کی خبرآئی تودل ایک بار پھر کٹ کے رہ گیا۔ اچھے دوست مجبتیٰ، آج آپ کوایک مضطرب روح نہایت محبت سے یاد کررہی ہے۔ جہاں بھی رہے خوش رہیے اورہاں۔۔۔گرہ میں’’ر‘‘ متحرک ہے‘‘۔(۲۷)
ساقی نے جس طور اس واقعے کو دہرایا ہے وہ البیلا اور پُر تاثیر انداز ہے۔ ادبی مباحث میں وہ اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہیں اوریہ عادت روز بہ روز پختہ ہوتی چلی گئی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ یہ بات ان کے اعتماد پر دال ہے۔ انہیں اپنے مطالعہ پر بھروسہ ہے اور اسی بھروسے کی بدولت وہ بڑے بڑوں کو للکارتے ہیں۔ وہ بُت شکن ہیں ان کا کلاسیکی مطالعہ بھرپور ہے۔ میر، غالب، انیس سے لے کر اقبال فیض، ن م راشد، فراق تک سب از برہیں، یہی وجہ ہے کہ جدید شاعر ہونے کے باوجود وہ روایت کے منکر نہیں ان کو احساس ہے کہ درخت جڑکے بغیر ممکن نہیں۔ جڑجتنی گہری ہوگی درخت اتناہی تناور ہوگا۔ ادبی روایت کی مثال بھی توانا درخت کی ہے۔ ساقی فاروقی کو ادبی روایت کا بے حد احساس ہے لیکن وہ اس روایت میں نئے فنکارکے اپنے حصہ کا تقاضہ رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے یں۔
’’یہی ابتداء کا Genuine طریقہ بھی ہے کہ :
نیا لکھنے والا تھوڑی دور تک اپنے دور کی بڑی آوازوں اور پچھلوں کے نقش قدم پر چلتا ہے اور اگر اس میں جان ہے تو رفتہ رفتہ اپنی راہ الگ کرلیتا ہے ورنہ دوسری صورت میں دھیرے دھیرے ادب خود اسے اپنی راہ سے الگ کردیتا ہے۔ یہ ادب کا کچھ ایسا فطری عمل ہے کہ آدمی دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور اس کی ساری عمر کی محنت ادبی تاریخ کے جوہڑ میں پڑی سڑتی رہتی ہے‘‘ (۲۸)
خودنوشت کاآخری حصہ فیض احمدفیض اورن م راشد کے لئے مختص ہے۔ اس حصے میں فیض کی موت پر پڑھے جانے والے تاثرات بھی شامل ہیں۔ فیض سے اپنی گہری عقیدت کااظہار کیاہے۔ اوران سے گہرے مراسم بے تکلف گفتگو کوموضوع بنایا ہے۔ ن م راشد سے اپنی قربت اور محبت کو بیان کیاہے۔ ان کی موت پران کے گھروالوں کے عجیب اورسردمہر روئیے کو ساقی کے حساس دل سے بُری طرح محسوس کیا ہے۔ جس کاکھلا بیان اس خود نوشت کو حصہ ہے۔
’’ہائڈپارک کارنر پر عبداللہ نے سگنل دیا تومیں نے کارروک لی اور اتر کر ان کی وین تک پہنچا اور ہم دونوں دیر تک اس عظیم شاعر کی موت کی آخری رسومات کی کس مپرسی اور بے حالی، شیلا (بیوی) کی بدسلیقگی اور شہریار (بیٹا) کی اجنبیت پر کڑھتے رہے۔ جی چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ لندن کے ایک کروڑ لوگ گریہ کریں کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘۔ (۲۹)
یہ ساقی فاروقی کی آپ بیتی / پاپ بیتی کاپہلا حصہ ہے دوسراحصہ جلد متوقع ہے۔ اس حصے میں ساقی نے اپنی زندگی کے واقعات کو بہترین یاداشت کے ذریعے پیش کیا ہے۔ ان واقعات وحالات میں ایک عہد سانس لیتاہوا محسوس ہوتاہے۔ انہوںنے ایک بھرپور ادبی ماحول پایا اور اس ماحول کی عکاسی بھی کی۔ خود نوشت کے اس حصے میں انہوںنے اپنی پسند وناپسند کابرملا اظہار کیاہے وہ بہت کم شاعروں کومانتے ہیں اورجن کو نہیں مانتے ان کی خوب خبرلیتے ہیں۔ یہ حوصلہ یہ جرأت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ فراز سے اپنی عداوت اورفیض سے محبت کاحال یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’دوسرے دن انہیں (احمدفراز) کومیرے غیاب میں زہر اُگلنا تھا۔ کھانا وانا کھاکے میں چلنے لگا تووسکی بہت چڑھ چکی تھی۔ اس لیے جب زہرانگاہ نے کہا کہ میں فراز کوچھوڑتا جائوں تومیں نے نشے کاحوالہ دیئے بغیر بہانہ کہا، بہن میں انہیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا کہ جوں ہی کوئی خراب شاعر بیٹھتا ہے گاڑی کاایک پہیہ ہلنے لگتاہے۔ یہ کہہ کر چلاگیا۔ دوسرے دن ملنے پہنچا تو فیض صاحب نے کہا’’ تمہارے بیٹھنے سے تمہاری گاڑی کے دو پہیے تومستقل ہلتے ہوںگے، میںان سے لپٹ گیا‘‘۔ (۳۰)
ان کے اسلوب میں ہلکا پھلکا مزاح اورطنز اپنی بہار دکھاتاہے۔ اس آپ بیتی کو لکھنے والے نے ایک عمر گزاری ہے اوراس عمر کی قیمت ادا کی ہے۔ اس قیمت کاحاصل یہ خود نوشت ہے۔ زندگی کے سرد وگرم سہنے کے بعد جب کوئی شخص اس قابل ہوتا ہے کہ مڑکر بیتے ہوئے لمحوں سے کچھ کشید کرسکے تویہ کوئی معمولی بات نہیں نہ ہی کس وناکس کواس کا حوصلہ ہے۔ بقول اصغر گونڈوی
بارِ الم اُٹھایا رنگِ نشاط دیکھا
آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے
حوالہ جات
۱) پس نوشت، خودنوشت کا جائزہ۔ ص ۱۰۔ کاغذی پیرہن۔ کراچی ۲۰۰۳
(2) (Mother Publish 3 penny review. summer 1986)
(3) Sunday Times 28th Feb. 1962)
(4) Book (Deception-1990)
(5) Book (Art & Lies) 1994
(6) "Wikipedia" Encyclopedia. Edition"
۷) فرہنگ آصفیہ(سید احمد دہلوی) جلد سوم ۔ ص ۱۱۷ طبع سوم پاکستان۔ مکتبہ حسن سہیل لمٹیڈ، لاہور۔
۸) ترجمہ از ڈاکٹر سلیم اختر ، مشمولہ تخلیق کے لاشعوری محرکات۔ ص ۸۲ سنگ میل پبلی کیشنز۔ لاہور۔ ۱۹۸۳ء
۹) تحلیق کے لاشعوری محرکات ص ۸۲۔ ڈاکٹر سیلم اختر ۔ ص ۸۲ سنگ میل پبلی کیشنز۔ لاہور ۱۹۸۳ء
۱۰) خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ مشفق خواجہ ۔ ص ۶۲