علم نفسیات میں ذہن کے تین حصے بیان کئے جاتے ہیں۔ ان تین حصوں کو شعور، تحت الشعور، اور لاشعور کا نام دیا جاتا ہے۔ شعور کو انگریزی میں Conscious کہتے ہیں۔ شعور سے مراد فوری آگہی ہے۔ شعور کا تعلق ہماری زندگی میں پیش آنے والے تمام اعمال سے ہے یہ وہ اعمال ہیں جن سے ہم پوری طرح اور شعور ی سطح پر واقف ہوتے ہیں۔ کتابستان ڈکشنری میں شعور کے معنی مندرجہ ذیل ہیں:
“Conscious: adj (1) awake ہوش میں (2) aware آگاہ, واقف (3) Cof actions, feelings, etc) Realized by oneself سوچ سمجھ کر act with conscious superiority”
(1) شعور اور شعورکی رو اصل میں نفسیات کے تابع ہو کر فرد کے افعال، اعمال، اقوال اور کردار پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر انداز ہوتے جاتے ہیں اور یوں دیکھا جائے تو فرد شعور ہی کے تابع ہو کر شخصیت اور شخصیت کی تمام پرتوں کو پروان چڑھا رہا ہوتا ہے اور یہ نفسیاتی پہلو زندگی کے ہر مرحلے اور ہر درجے پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ فرے برگ لوئس تحریر کرتے ہیں:
“Conscious refers to your individual awareness of your unique thought, memories feeling, sensations and environment”
(2) علم نفسیات کے جدید تصورات میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل شعور کی رو ہے جسے امریکی ماہر نفسیات ولیم جیمزنے متعارف کرایا۔اس نے جوئے شعور Stream of consciousness کی اصطلاح کو متعارف کرایا۔ شعور کی رو کے مطابق انسانی دماغ میں بے ترتیب سوچیں تسلسل کے ساتھ ابھرتی ہیں۔ان کے درمیان ظاہری طور پر کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا مگرگزرے لمحات کی یادیں ، حال کے احساسات اور مستقبل سے متعلق امیدیں اور خدشات انسانی دماغ کی آڑ میں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی تحریر کرتے ہیں:
‘‘شعور ۔۔۔۔۔کسی تعلق کا سہارا لے کر مستقبل سے حال یا ماضی میں اور ماضی سے حال یا مستقبل میں جانکلتا ہے۔ ۔۔۔۔۔کسی واقعے سے ذہن کسی چیز شخص یا مقام کا رخ کرتا ہے اور واقعہ شعور میں آداخل ہوتا ہے اور اس طرح شعور کی رَو رُکے بغیر اور کسی واضح منطقی ربط کی ضرورت کا لحاظ کئے بغیر مدت العمر چلتی رہتی ہے۔’’
(3) علم نفسیات میں شعور کی رو کو ایک برقی رو یا کرنٹ کی حیثیت حاصل ہے جو کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل جاری رہتا ہے اور یہ نہ رکنے والا عمل بچپن سے حیات کے خاتمے تک جاری رہتا ہے۔
لاشعور:
لاشعور فرائڈ کی وضع کردہ اصطلاح ہے۔ فرائڈ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ لاشعور انسان کے نفس کا وہ خود غرض ، اخلاق دشمن اور غیر معقول حصہ ہے۔ جس کے بارے میں براہ راست آگہی ممکن نہیں۔ انسان وحشیانہ خواہشات اور غیر مہذب امنگیں رکھتا ہے۔ لاشعور کو ان خواہشات کا مسکن کہا گیا ہے۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ معاشرہ ضوابط اور اخلاقی قوانین کا پابند ہے۔ ایسے معاشرے میں ایسی خواہشات کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی تحریر کرتے ہیں۔
‘‘یہ لاشعوری خواہشات اپنی نوعیت کے اعتبار سے حیوانی (بالعموم جنسی) اور اپنے رویے کے اعتبار سے سخت خودغرض ہوتی ہیں چنانچہ وہ ہر وقت اپنی تسکین کے لئے مواقع تلاش کرتی رہتی ہیں ۔ وہ شعور کی سطح پر ابھرنا چاہتی ہیں۔ لیکن اخلاقی ضابطوں کا خیال اور معاشرتی اقدار کا احساس انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ اس لئے وہ اپنی تسکین کے لئے کچھ ثانوی ذرائع ڈھونڈ لیتی ہیں۔’’
(4) لاشعور کا نظریہ بیان کرتے ہوئے اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ فرائڈ سے پہلے اور بعد میں بھی ماہرین نفسیات لاشعور کو اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور ان تمام ماہرین نفسیات نے نظریہ لاشعور کو اپنے اپنے مفہوم کے مطابق بیان کیا۔ ان کے مطابق انسان میں پائی جانے والی وحشیانہ خواہشات کو جب مروجہ معاشرے میں تسکین حاصل نہیں ہوتی تو وہ خواہشات اس طرح بھیس بدل کر ظاہر ہوتی ہیں کہ بعض اوقات انہیں پہچاننا ایک عام آدمی کیلئے مشکل ہو جاتا ہے۔ لاشعور محض ادھوری اور نامکمل خواہشوں کامسکن ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ صلاحیتیں بھی جو نشوونما نہیں پا سکیں یہیں موجود رہتی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر ‘‘نفسیاتی تنقید ’’میں لاشعور کے نظریے کو واضح کرتے ہیں:
‘‘فرائڈ نے پہلی مرتبہ لاشعور کے تصور کی نفسیاتی اصولوں کے مطابق تفہیم ہی نہیں کی بلکہ لاشعور میں دبائے جانے والی خواہشات کا جنسی پس منظر بھی تلاش کیا۔’’
(5) فرائڈ نے دیگر ماہرین نفسیات کی نسبت لاشعور کو تحلیل نفسی سے وابستہ کر کے پیش کیا۔ نفسیات میں شعور، لاشعور ، تحت الشعور اور تحلیل نفسی کا بغور مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان کی روشنی میں شخصیت کا جائزہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔
تحلیل نفسی سے مراد یہ ہے کہ انسان کے ذہنی محرکات کا مشاہدہ اس کے روز مرہ کے اعمال کے مطابق کیا جائے۔ فرائڈ کا نظریہ لاشعور اس کے طریقہ علاج تحلیل نفسی سے وابستہ ہے۔ Hedrick Ives””نے اپنی معروف تصنیف Facts and theories of Psycho Analysisکی ابتدا یوں کی ہے:
‘‘تحلیل نفسی شخصیت اور ذہن کی لاشعوری کارکردگی کی اس سائنس کا نام ہے جسے سگمنڈ فرائڈ اور اس کے شاگردوں کی تین نسلوں نے پروان چڑھایا۔’’
(6) پریاتابیتا کے مطابق:
‘‘شہرہ آفاق ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کو کلاسیکل تحلیل نفسی کہا جاتا ہے۔ فرائڈ نے تحلیل نفسی کے طریق کار کے ذریعے لاشعور کو سائنسی بنیادوں پر نہ صرف خود بطریق احسن سمجھا بلکہ سمجھا بھی دیا۔۔۔۔۔۔۔فرائڈ نے ۔۔۔۔۔۔۔ایک سائنس دان کی مانند اسے کلینک کی چیز بنا کر عملی زندگی سے اس کارشتہ استوار کر دیا ۔’’
(7) تحلیل نفسی ایک بھرپور اور طویل دورانئیے کا طریقہ علاج ہے۔ تحلیل نفسی کے ذریعے ایسے افراد جو تشویش زدہ حالت میں ہوتے ہیں۔ ان کے لاشعوری محرکات کا نہ صرف کھوج لگایا جاتا ہے بلکہ ان لاشعوری محرکات کا بچپن کی ناقابل قبول ناآسودہ خواہشات سے جوڑ کر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ٹی ایم یوسف کے مطابق:
‘‘تحلیل نفسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ لاشعوری خواہشات جو الجھن کا سبب ہوتی ہیں ان کو ابھار کر شعور میں لایا جائے اور جو خواہشات شعور کی سطح پر آجائیں ان کی نوعیت کو سمجھا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ مریض کے اندر کس قسم اور کس شدت کے الجھاؤ اور مزاحمتیں موجود ہیں۔ ’’
(8) ذہنی مریض کےسلسلےمیں تحلیل نفسی کواس لئے بھی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ اس سے نہ صرف امراض کی تشخیص ہوتی ہے بلکہ ان امراض کی وجوہات کا تعین بھی ہوتا ہے۔ اس لئے جدید تحقیق نے بین الاقوامی دنیا میں اس کو ایک سائنسی عمل بنا دیا ہے۔ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی نے علم نفسیات پر اس قدر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں کہ تحلیل نفسی کو پہلی قوت (1st Force) کا نام دیا جاتا ہے۔ فرائڈ نے تحلیل نفسی کے علاوہ دیگر کئی منفرد نظریات پیش کئے ۔ جن میں خوابوں کا نظریہ ، نظریہ حسن ، لبیڈوLibido جیسے نظریات قابل ذکر ہیں ۔ فرائڈ نے اپنے نظریات کی وضاحت کے لئے نئے تصورات پیش کئے۔
تحت الشعور:
نفسیات میں شعور، لا شعوراور تحلیل نفسی کے ساتھ ساتھ تحت الشعور کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ تحت الشعور کو جدید نفسیات میں بہت زیادہ زیر بحث لایا جا رہا ہے اور اس کے مطالعے کو وقعت دی جا رہی ہے ۔ تحت الشعور ، شعور اور لاشعور کی درمیانی منزل کو کہا جاتا ہے۔ تحت الشعور اصل میں روزمرہ کے معاملات کے تجربات کا نام ہے کہ جن کے ذریعے ہمیں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ فیروز اللغات میں تحت الشعور کے معنی کچھ یوں درج ہیں:
‘‘تحت الشعور(ع۔مزکر) نفس کا وہ طبقہ جس میں نفسی عمل واقع ہوتا ہے اور توجہ اور مشاہدے سے باہر ہوتا ہے۔’’
(9) تحت الشعور کو اصل میں نفس کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے۔ نفسانی اعمال نفس کے اس حصے میں صورت پذیری کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہی نفسیاتی اعمال توجہ اور مشاہدہ سے باہر ہوتے ہیں یہ وہ اعمال ہیں جن سے فرد خود بھی آگاہ نہیں ہوتا یہ اعمال تحت الشعور کے زیر اثر نمو پا رہے ہوتے ہیں۔
انسانی ذہن ایک وسیع طبقہ ہے اور اس طبقے میں تحت الشعور وہ حصہ ہے جہاں معلومات موا دکی صورت میں جمع ہوتی رہتی ہیں جن کو فرد نے بھی شعوری طور پر پرکھا اور سوچا نہیں ہوتا بلکہ اکثر تحت الشعور کے ذریعے لاحق ہونے والے افعال میں ‘‘اچانک’’ کا تصور ضرور کار فرما ہوتا ہے کتابستان انگلش ڈکشنری میں تحت الشعور کے معنی تحریر ہیں۔
“Adjective (before Noun) the parts of your mind that notices and remembers information when you are not activity trying to do so, and influences your behavior even through you do not realize it.”(۳۱)
فرائڈ کا خیال ہے کہ انسانی ذہن تین حصوں پر مشتمل ہے۔ شعور، لاشعور اور تحت الشعور۔ اس وقت ہم جن باتوں سے آگاہ ہیں ان کو شعور کہا جاتا ہے۔ جب کہ تحت الشعور ایسے خیالات پر مشتمل ہے جن سے آپ اس وقت تک آگاہ نہیں لیکن تھوڑی سی کوشش کر کے انہیں شعور میں لایا جا سکتا ہے۔ لاشعور ان باتوں اور واقعات پر مشتمل ہے۔ جو فرد کو بالکل یاد نہیں ہوتے اور جن کو ایک خاص نفسیاتی عمل کے ذریعے اخلاقی لحاظ سے ناقابل قبول خواہشات ہونے کی وجہ سے شعور سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ تب یہ خواہشات لاشعور میں چلی جاتی ہیں اور مختلف طریقوں سے فرد کے کردار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اجتماعی لاشعور:
یونگ فرائڈ کے اس نظریے سے اتفاق کرتا ہے کہ لاشعور فرد کے کردار کی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن یونگ کے نظریے کے مطابق لاشعور میں صرف ابطانی خواہشات (زبردستی دبائی گئی خواہشات) ہی موجود نہیں ہوتیں بلکہ اس کے نزدیک لاشعور میں ہمارے آباؤ اجداد اور نسل انسانی کے اساسی نقوش بھی موجود ہوتے ہیں وہ ایسے لاشعور کو اجتماعی لاشعور کا نام دیتا ہے۔ یونگ شعوری انا سے مراد شعور لیتا ہے جو کہ شعوری یادوں، خیالات، احساسات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی شعوری انا ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور ذاتی لاشعور اور اجتماعی لاشعور کے درمیان توازن پیدا کرتی ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک نظام غالب آجائے تو شخصیت غیر متوازن ہو جاتی ہے۔
جس طرح ورثے میں جسمانی خصوصیات منتقل ہوتی ہیں۔ اسی طرح تجربات ، احساسات، رحجانات اور اس کے علاوہ دوسری بہت سی نفسیاتی خصوصیات بھی نسل در نسل ورثے میں آگے منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہ نسلی یا اساسی یاداشتیں کہلاتی ہیں۔ یونگ ان کو اجتماعی لاشعور کا نام دیتا ہے۔ اجتماعی لاشعور میں یاداشت اور کردار کے وہ نمونے موجود ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے آباؤ اجداد اور نسلوں سے ورثے میں ملتے ہیں ۔ یونگ کے اجتماعی لاشعور کی تعریف Hendricks Ives اس طرح کرتا ہے۔
‘‘وہ نظریہ جس کے مطابق شخصیت کی بعض خصوصیات اپنے آباؤ اجداد اور نسل سے ورثے میں حاصل ہوتی ہیں اور یہ ورثہ ہر فرد میں موجود ہوتا ہے جیسے ماں سے محبت اور کسی سپریم قوت (اللہ ) کو تسلیم کرنا۔’’
(10) یونگ اجتماعی لاشعور کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے اس کے مطابق اجتماعی لاشعور کے پہلے حصے کا تعلق ذاتی لاشعور سے ہوتا ہے یعنی پہلا حصہ ذاتی لاشعور کے بہت قریب ہوتا ہےاس کا تعلق ان لاشعوری محرکات سے ہوتا ہے جن پر ایک حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اجتماعی لاشعور کے دوسرے حصے کا تعلق پہلے حصے سے متضاد ہے یعنی اس حصے کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ عقل اور ثبوت و دلیل سے بالا تر ہوتا ہے ۔ یونگ کے نظریے سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتماعی لاشعور شخصیت کی تعمیر کو بنیاد دیتا ہے اور یہ ایک نسل، قوم اور ملت کا اجتماعی لاشعور ہوتا ہے جو ایک جیسا ہوتا ہے یا اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مشترک ہوتا ہے۔
حوالہ جات:
1.Bashir A Qureshi Kitabistan 21st Century Practical Dictionary Kitabistan Publishing Co, Urdu Bazar Lahore, 1998 P # 143
2. Freiberg Louis “psycho Analysis and American Literary Criticism Detroit Wayne State University Press, 1960 P # 322
3۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۸۵ ء ص ۱۱۰
۔4 ایضاً ص ۱۵۵
5۔ ڈاکٹر سلیم اختر، نفسیاتی تنقید، مجلس ترقی ادب کلب روڈ لاہور ، طبع اول مارچ۱۹۶۸، ص۱۰۴
6. Hendrick Ives, “Facts and Theories of psycho Analysis Newyork Dell Publishing Co, 1966. P # 19.
7۔ پریاتا بیتا ، اردو ناول کے منفی کردار (آغاز تا قیام پاکستان ) تحقیق و تنقید ، خرم بکس ، اردو بازار لاہور، 2006، ص 43
8۔ ٹی ایم یوسف، جدید نفسیات ، علمی کتاب خانہ اردو بازار لاہور، ۲۰۰۳ ء ، ص ۱۹۷
9۔ الحاج مولوی فیروزن الدین ، فیروز اللغات اردو جامع، فیروز سنز لاہور، ۲۰۰۵ء ص ۳۴۷
10. Bashir A Qureshi, Kitabistan 21st Century English Dictionary Kitabistan Publishing Co. 1998 P # 649.