کلینک میں دس مریضوں کی درد بھری کہانی سنتا ہوں۔ ان میں سے بعض نے پہلی دفعہ وہ کہانی سنائی ہوتی ہے۔
چند ماہ پیشتر میری ایک مریضہ نے کہا I WAS RAPED
اور ایک مریض نے بتایا I AM GAY
ان تین الفاظ کو کہنے میں اس مریضہ کوبیس سال اور اس مریض کو چالیس سال کا انتظار کرنا پڑا تا کہ وہ اپنے اندر اتنی ہمت اور جرات جمع کر سکیں کہ کسی اور انسان کو اپنا کڑوا سچ بتا سکیں اور اپنی دکھ بھری کہانی سنا سکیں اور وہ بھی ایک ہمدرد تھیریپسٹ کے کلینک میں۔
جب میں نے دونوں مریضوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہمارے کلینک کی گروپ تھیریپی میں اپنا سچ باقی مریضوں سے شیر کریں تو دونوں مریضوں نے کہا کہ وہ دیگر مریضوں کے ردِ عمل سے ڈرتے ہیں۔ جب میں نے حوصلہ افزائی کی تو مرد مریض مان گیا لیکن عورت مریضہ نے انکار کر دیا۔ میں نے اس مریضہ کے انکار کا احترام کیا اور خاموش رہا۔ مرد مریض نے جب اپنا سچ گروپ کے سامنے رکھا تو اسے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب ایک مریضہ نے کہا کہ اس کی دو بیٹیاں نہ صرف لیسبین ہیں بلکہ ان کی دو اور عورتوں سے شادی بھی ہوئی ہے۔
ایک اور بزرگ مریض نے کہا کہ جوانی میں وہ نہ صرف گے مردوں سے نفرت کرتا تھا بلکہ کلبوں میں جا کر انہیں مارتا پیٹتا بھی تھا۔ اس کا رویہ اس وقت بدلا جب اس کے جوان بیٹے نے اسے کہا کہ وہ گے ہے۔ اس دن کے بعد اس مریض کو اندازہ ہوا کہ باقی گے مرد بھی کسی کے بیٹے ہیں اور لیسبین عورتیں کسی کی بیٹیاں ہیں۔
وہ مرد اور عورتیں جو بچپن میں جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں ہم کلینک میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی کہانی لکھیں اور اس شخص کو بھیجیں جس نے ان کا استحصال کیا تھا۔ بعض مریض وہ خط تو لکھتے ہیں لیکن اسے بھیجتے نہیں۔
بعض مریض ایسے بھی ہیں جو اپنی کہانی کو اپنی فیملی یا کمیونٹی میں لے جاتے ہیں۔ ہم انہیں نفسیاتی طور پر تیار کرتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ان کے رشتہ دار ان کے سچ کو جھوٹ سمجھیں کیونکہ
؎ کسی کے سچ کسی کو جھوٹ لگتے ہیں
خاص طور پر اگر وہ سچ خاندان یا کمیونٹی کے ’معززین‘ کے بارے میں ہیں۔
بعض لوگ اپنا دکھ بھرا سچ قانون کی عدالت میں لے جاتے ہیں۔ لیکن عدالت کی نگاہ میں ہر شخص معصوم ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ نفسیاتی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کی اپنے سچ کو قانون کی یا سوشل میڈیا کی عدالت میں لے جانے کی MOTIVATION کیا ہے۔
کیا وہ اپنے سچ کی کہانی ساری دنیا کو سنانا چاہتے ہیں؟
کیا وہ شہرت چاہتے ہیں؟
کیا وہ بدلہ لینا چاہتے ہیں؟
کیا وہ دولت حاصل چاہتے ہیں؟
کیا وہ سماجی شعور میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں؟
جب ہم معاشرے میں سماجی تبدیلی کا مطالعہ کرتے ہیں چاہے وہ مزدوروں کی ‘کالوں کی‘ عورتوں کی یا گے اور لیسبین لوگوں کے حقوق کی تحریک ہو تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پہلے مرحلے میں انقلابی جوش اور ولولہ ہوتا ہے شدت ہوتی ہے وحشت ہوتی ہے دہشت ہوتی ہے۔ ماہرِ نفسیات FRANTZ FANON اپنی مشہور کتاب THE WRTECHED OF THE EARTH میں کہتے ہیں
DECOLONALIZATION IS ALWAYS A VIOLENT PHENOMENON مظلوم افراد نے جتنا ظلم سہا ہوتا ہے جب انہیں موقع ملتا ہے تو وہ اسے الٹ دیتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے مریض کو جو زہر دیا گیا ہوتا ہے ایمر جنسی کا ڈاکٹر اسے چارکول پلاتا ہے تا کہ وہ الٹی کر دے۔
جب زہر نکل جاتا ہے تو شدت ‘ وحشت اور دہشت کم ہونے لگتی ہے اور انقلاب ارتقا کی راہ اپناتا ہے۔ ماہرینِ سماجیات اور سیاسیات جانتے ہیں کہ انقلاب اور ارتقا کا رشتہ پراسرار بھی ہے پیچیدہ بھی۔خوش قسمت ہیں وہ انقلاب جنہیں ہوچی منہ جیسے دانا اور صوفی منش رہنما ملتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد جب کامریڈوں نے سرمایہ داروں اور زمینداروں کو قتل کرنا شروع کیا تو ہوچی منہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے رو پڑے اور کامریڈوں سے کہا ’ اگر تم نے بھی ظلم کیا تو تم میں اور دشمنوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟‘
جس طرح افراد اپنی کہانی سناتے ہیں اسی طرح قومیں بھی اپنی کہانی رقم کرتی ہیں۔ ماضی میں بدقسمتی سے تاریخ حاکم رقم کرتے آئے ہیں۔ جوں جوں سماجی شعور بڑھ رہا ہے محکوم قومیں بھی اپنی کہانی رقم کرنے لگی ہیں۔
صدیوں سے سماجی تبدیلی کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے تا کہ دنیا میں امن اور انصاف کا بول بالا ہو۔ لیکن ابھی تک ساری دنیا میں طاقت کے سرچشمے اور اصحاب بست و کشاد مصر ہیں کہ ظلم کی روایت قائم رہے۔ مظلوم کہانی سنانے لگے یا رقم کرنے لگے تو اسے بدنام کر دیا جاتا ہے اور اتنا جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ سچ کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے ۔ظالم نہیں جانتے کہ سچ آخر سچ ہے اور عوام بے وقوف نہیں ہیں وہ جلد یا بدیر کھوٹے اور کھرے میں تمیز کر لیتے ہیں۔ وقت بڑا ظالم ہے وہ دھیرے دھیرے ظلم کو بے نقاب کر دیتا ہے اور مظلوم کو سہارا دیتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ظالم کی اپنی کہانی ہے اور مظلوم کی اپنی کہانی۔ وقت اپنی عدالت میں ثابت کرتا ہے کہ کونسی کہانی سچی ہے کونسی جھوٹی۔یہ علیحدہ بات کہ وقت کو سچ ثابت کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ نیلسن منڈیلا جو ایک زمانے میں TERRORIST سمجھے جاتے تھے ربع صدی کی قید اور قربانی کے بعدFREEDOM FIGHTER بن گئے اور انہوں نے نوبل کا امن انعام حاصل کیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کی جدوجہد اور انسانی شعور کا ارتقا صدیوں سے جاری ہے۔ ہم سب نے انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس ارتقا میں کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
میرے چند دوست انقلابی ہیں وہ انصاف لانے کے لیے خونی انقلاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ میں ایک پر امن انسان ہوں اس لیے ارتقا پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا نظریہ‘ مذہب یا آدرش ہے جس کے لیے سینکڑوں‘ ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کا خون بہایا جا سکتا ہے۔
میں نے پچھلے تیس برس میں ماہرِ نفسیات بن کر اپنے مریضوں کی ایک پر امن زندگی گزارنے میں مدد کی ہے اور ایک انسان دوست ادیب کی حیثیت سے سماجی شعور بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔میری نگاہ میں انسانیت کی خدمت ہی میری عبادت ہے۔
کئی دہائیوں کے تجربے‘ مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب کوئی انسان اندر سے آزاد ہو جاتا ہے تو نہ تو اس کا کوئی استحصال کر سکتا ہے اور نہ اسے کوئی غلام بنا سکتا ہے۔
جوش ملیح آبادی فرماتے تھے
سنو اے ساکنانِ خاکِ پستی
صدا یہ آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...