برصغیرکا خطہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے چاروں موسموں کی بھر پورخوبصورتی سے نوازا ہے۔ ہر موسم اپنا اپنا حسن رکھتا ہے ۔یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر لحظہ تبدیلی کی خواہش مند رہتی ہے ۔زیادہ دیر تک موجود رہنے والی چیزوں سے انسان جلد بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔وہ ایک ہی جیسی حالت میں رہنے سے اُکتا جاتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ موسم پیدا کیے ہیں تا کہ انسان کے ذوق اور فطرت کے تغیر کی تسکین ہو سکے۔انھی رنگا رنگ اور خوبصورت موسموں میں ایک برسات کا موسم بھی ہے جب شدید گرمی کے باعث انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ،اس کی طبیعت بوجھل پن کی طرف مائل ہوتی ہے تو ایسے میں برسات کا موسم اور ساون کی گھٹائیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔
اس موسم کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف سبز ہ ہی سبزہ لہرانے لگتا ہے ۔ہر سو چھائی ہریالی سے انسان کا دل و دماغ معطر ہو جاتا ہے اور بارش کی بوچھاڑ ذہن پر چھائی مایوسی کو دھو دیتی ہے، باغوں میں جھولے ڈالے جاتے ہیں۔آموں سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے اور مختلف اقسام کے موسمی پکوان پکتے ہیں۔ برسات کا موسم جہاں ماحول اور عام انسان کے مزاج کو متاثر کرتا ہے وہیں شاعروں پر اپنے اپنے انداز میں اثر انداز ہوتا ہے۔
اردو ادب کی قدیم روایت سے ہی ہر شاعرساون یا برسات کا استعارہ اظہار ذات کے لیے نہایت خوبصورت پیرائے میں استعمال کرتا آیا ہے۔ برسات نمو کا موسم ہے اسی لیے اس موسم میں شعراکو لکھنے کی مزید تحریک ملتی ہے ،ہر شاعر نے برسات کو اپنے تجربات اور جذبات کے حوالے سے بطور استعارہ برتا ہے ،کسی کے لیے غم، کسی کے لیے جدائی،کسی کے لیے وصال،کسی کے لیے مایوسی،کسی کے لیے آنسو،کسی کے لیے ہنسی کی پھوار اور کسی کے ہاں محبوب کی زلفوں کی گھٹاؤں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
برسات کا موسم ہمارے ہاں اور پورے برصغیر میں جوش و خروش ،مان اور پیار سے منایا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں گرمی کا موسم زیادہ ہوتا ہے ،اس وقت جھولے ،آم اور پکوانوں کا ذکر ہوتا ہے۔جب عام زندگی میں برسات کو اتنی اہمیت دی گئی ہے تو شاعری میں کیوں نہیں استعارہ بنے گا۔ ایران میں بھی برسات کو ’’برشگال‘‘کے نام سے شاعری میں استعمال کیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں بطور استعارہ سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے اور کیا جاتا رہا ہے۔ہمارے رومانوی شعرا کے ہاں اس کا بہت ذکر ہے ،پروین شاکر کو بارش اور برسات پسند تھی۔
یہ احتجاج بجا ہے کہ تیز تھی بارش
یہ ماننا ہے کہ کچا تھا اپنے شہر کا رنگ
(پروین شاکر)
ناصر کاظمی،احمد فراز ،پرانے شعرا نظیر اکبر آبادی اور دیگر نے برسات پر بہت کچھ لکھا ہے۔نظیر اکبر آبادی نے تو بعض جگہ اس موسم کا مضحکہ بھی اڑایا ہے ۔ہماوے ہاں جو موسم پسند کیا جاتا ہے مغرب والے اس سے نفرت کرتے ہیں اور ہمارے ہاں برسات ،بادل اور بارش کا سن کر حیران ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں کے لوگ سورج کی روشنی کو ترستے ہیں اس لیے اس موسم میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جب کہ ہمارے ہاں اس موسم میں رومانس کا احساس جاگتا ہے ۔ہجرو فراق اور مسرت و شادمانی کے شعر کہے جاتے ہیں۔
دراصل شعر ادب کی دنیا تعلق اور رشتہ کی استواری کی دنیا ہے یہ تعلق جو فرد سے بھی ہو سکتا ہے اور کائنات میں موجود دوسری اشیاء سے بھی اور اسی تعلق کی سچائی اور تہذیب ہی سے شعر وا دب عبارت ہے ۔موسم انسانی جذبات میں جومحسوس یا غیر محسوس تبدیلی کی وجہ بنتا ہے شاعری اسی تبدیلی سے تحریک حاصل کرتی ہے اور یوں اس تعلق کا رشتہ زمین سے کائنات تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ تعلق موسم بہار کے خوشبوؤں بھرے لمحات میں بھی مضبوط ہوتا ہے اور پت جھڑ کی اداس رُتوں میں بھی،یہ گرما کی اونگھتی ہوئی دوپہروں سے بھی تصویریں بنانے کا ہنر سیکھتا ہے اور سرما کی طویل سرد راتوں میں بھی ہجر و وصل کے گیت بنتا ہے ۔یہ حبس کے موسم میں لو کی دعا بن جاتا ہے اور یہی تعلق برسات کے موسم میں جھولوں پر جھولنا بھی سکھاتا ہے اور سکھیوں کے ساتھ گل بینی کے لیے انگلی پکڑ کر باغوں کی سیر کراتا ہے۔
انسان کی فطرت سے یہ دوستی تخلیق کرنے کے سارے حوالوں میں اپنی اثر پذیری سے رنگ بھرتی ہے۔برسات میں جب مون سون کی ہوئیں بادلوں کی چھاگلوں کو پانی سے بھر کر جب یہاں وہاں چھڑکتی پھرتی ہیں توآسمان پر جیسے میلے لگ جاتے ہیں ۔یہی میلہ ،یہی جشن جب کالی گھٹائیں دن کی روشنی کو شام کے چھٹنے میں بدل دیتی ہیں تو دلوں کی دنیا میں عجیب ہل چل سی مچ جاتی ہے پھر کہیں سے کوئی دل مہجور پکار اٹھتا ہے ۔
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تو نہیں بھولے
برسات کا موسم اپنے آپ سے ملاقات کا موسم ہے اور اس ملاقات کو پذیرائی شاعر خصوصاً برصغیر کا شاعر ایسے انداز میں کرتا ہے کہ اپنی معاشرتی تاریخ کے تسلسل میں شعر کی ایک سچی شگفتہ مگر اداسی کی ایک زیریں لہر کے ساتھ ہونٹوں نکل کوحوں چڑھی کے مصداق یہ تصویر ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔
مزا برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آ بیٹھو
وہ برسوں میں برستی ہے یہ برسوں سے برستی ہیں
موسموں کے حوالے عالمی زبانوں میں بھی بہت نمایاں ہیں اور ان موسمی ہواؤں کو علامتی سطح پر بھی اور استعاراتی ڈھانچے میں بھی خوب خوب برتا گیا ہے۔ انگریزی شاعری اور خصوصاًجاپانی شاعری میں سارے موسموں کے ذائقے موجود ہیں۔ موسم برسات اردو شاعری میں بھی اصلی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔باکمال شعرا نے اسے بھر پور خراج تحسین پیش کیا ہے وہاں علامتی طور پر بھی اسے خوب خوب برتا ہے خواہ مضامین عشق کے ہوں یا دوسرے انسانی رویوں کے،برسات نے کسی کو مایوس نہیں کیا ہے ،در اصل کسی بھی خطے میں وہاں کے سماجی حالات و واقعات ،رسم و رواج وہاں کے موسم نظریات انسان کے مزاج پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ایسے میں تخلیق کار کا اس سے متاثر ہونا اور اس کے اثر کو قبول کرنا فطری عمل ہے ۔ایک تخلیق کار اپنی حسیات ،مشاہداتی قوت اور شعوری طاقت سے اک کیفیات کو فن کے قالب میں ڈھال کر امر کر دیتا ہے۔
اسی تناظر میں اگر اردو زبان میں ساون کے موسم کا ذکر آتا ہے تو اس کا تعلق بھی وہاں کے بسنے والے شعرا سے ہے۔اردو زبان کی شاعری اپنا سفر شمالی ہندوستان سے جب کرتی ہے تو وہاں کے حالات و موسمی مزاج سے اپنا خمیر اٹھاتی ہے۔شمالی ہندوستان میں چوں کہ شدید گرمی اور خشکی کی وجہ سے دُور دُورتک ہریالی نہیں ہوتی تھی مگر جب ساون کی بارش سے ہرسو سبزہ لہرانے لگتا تھا ۔وہاں اس موسم کا سارا سال شدت سے انتظار کرتے تھے اور ساون کے موسم میں ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔وہ آسمان پر چھانے والے بادلوں کو کبھی تو نیل فام پریاں کہتے تھے اور کبھی محبوب کی سیاہ زلفوں کو ساون کے کالے بادلوں سے تشبیہ دیتے اور انھی کالے بادلوں کو طرح طرح کے رومانوی رنگ دیتے۔
ایسے میں شعرا اس موسم کو اپنی شاعری میں اسی انداز میں خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ یہ موسم شاعری میں ایک رومانوی موضوع کی صورت میں داخل ہوگیا اور اس کے اثرات کو تمام اردو شاعری میں آغاز سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں رومانوی زنداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے ادب میں اس کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ وہ زبانیں جن ممالک یا خطوں میں بولی جاتی ہیں وہاں کے موسمی حالات اس سے یکسر مختلف ہیں جب کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ساون اردو شاعری کا خوبصورت رومانوی موضوع بن چکا ہے۔اردو شاعری میں نظیر اکبر آبادی ایک ایسی واضح مثال ہیں جس نے ہندوستان کے مقامی موسموں ،رواجوں ،مزاجوں رسومات سے متاثر ہو کر بہت کچھ تخلیق کیا ہے اگر ہم دیکھیں تو اختر شیرانی سے لے کر عصر حاضر کے نامور شاعر نور محمد نور کپور تھلوی نے اسی موضوع کو اپنی شاعری میں رومانوی انداز میں برتا ہے ۔اختر شیرانی کا یہ بند ملاحظہ کریں:
گھٹاؤں کی نیل فام پریاں
افق پر دھومیں مچا رہی ہیں
ہواؤں کو گد گدا رہی ہیں
فضائیں موتی لٹا رہی ہیں
چوں کہ شاعری حالات اور خیالات کے زیر اثر پیدا ہونے والے جذبات و احساسات کا نام ہے جس کو شاعر علامات ،اشارات ،تشبیہات اور استعارات میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔مختلف تشبیہات اور استعارے جغرافیائی حالات اور تہذیبی اثرات سے تشکیل پاتے ہیں ۔برسات کے استعارے کو اردو شاعری میں کئی جہتوں کی جذباتی منظر نگاری کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔موسم کے حوالے سے برصغیر پاک و ہند کا جس خطہ ارضی سے تعلق ہے وہ شدید تمازت کی زد میں رہنے والا ہے اور برسات کا موسم کڑی دھوپ اور تمازت میں یوں بھی ایک خیر کی خبر لاتا ہے۔ اَبر سے سیراب ہو کر ہی سبزہ وگل ایک شاداب فضا کو ہموار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادؔ کی نظم ’’ابر کرم‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
ساون کے گیت اٹھا رہے طوفاں دلوں میں ہیں
پردیسیوں کی یاد سے ارماں دلوں میں ہیں
قدیم شعرا میں جوش ؔ کے ہاں منظر نگاری کے کئی نمونے برسات کے حوالے سے ملتے ہیں ۔برسات استعارے کی حیثیت سے قدرتی منظر نگاری کے کام بھی آئی لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی معنی آفرینی میں اس کی وسعت فزوں تر ہوتی چلی گئی۔برسات کے استعارے کو موجودہ دور کے اردو شعرا نے اپنے اپنے کمالِ تخیل کے زور پر ہزار پہلوؤں سے پیش کیا ہے۔ہجر کی کیفیت میں غم اُمڈ تے ہوئے بادلوں کو ،آنسوؤں کی جھڑی کو، پیڑوں کی سبز بختی کو،محبوب کی آرزو وصل کی تڑپ کو،زمین کی تشنگی اور سیرابی کو،محبت و التفات کے تسلسل سے میسر آنے کو اور حالات کی ستم ظریفی و کم نصیبی کے اظہار کو ،غرض کہ اشعار میں الگ الگ طرح کی معنی آفرینی کا ایک جہان تازہ ہے جو شعرا نے برسات کے استعارے سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
ہر زبان و ادب کے استعارے تہذیبی اور زمینی لحاظ سے الگ ہوئے ہیں۔ فارسی ادب میں بہار و گلستان کو فوقیت حاصل رہی ہے۔اور اسی بہار کے استعارے نے اس شاعری سے کئی حوالوں سے جگہ بنائی ۔اسی طرح انگریزی ادب میں نیچر کی شاعری جہاں جہاں بھی کی گئی اس میں بارش کو منظر نگاری کے لیے استعمال کیا گیا ،یہ الگ بات ہے کہ برسات کو مغربی شاعری یا دوسری زبانوں کی شاعری میں الگ انداز اور الگ معنی سے پیش کیا گیا لیکن برسات کو ہر شاعری میں خارجی اور قدرتی منظر نگاری میں بہر حال ایک اہمیت دی گئی ہے۔ شاعری چوں کہ جذبات کے منظوم و مربوط اظہار کا نام ہے ۔ اس میں اکثر اندر کا موسم باہر کے موسم کو متاثر کرتا ہے اور کبھی کبھار باہر کا موسم اندر کے موسم پر اثر اندازہونے لگتا ہے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کیوں کہ بہر حال ہماری ذات کے اندر کا موسم بہت مضبوط ہوتا ہے۔عزیز اعجاز نے کہا تھا:
جیسا موڈ ہو ویسا موسم ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
جہاں تک سوال بارشوں کے موسم پر زیادہ تر شاعری کرنے کا ہے تو بارشیں فطرت کی شاعری کانام ہے۔ ان کی ہر بوند ایک مکمل شعر ہے اور شاعر کا اس موسم سے متاثر ہونا فطری عمل ہے۔ساون میں تبدیلی کے کئی رنگ نظر آتے ہیں۔مثلاً کہیں موسلا دھار بارش ہے تو کہیں پھوارہے اور کہیں رم جھم تو کہیں کن من بوندوں کی برسات۔یہ سب چیزیں ہرانسان کی طبیعت پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔شاعر تو حساس احساسات رکھتے ہیں اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی لیے باہر کا موسم اچھا ہو تو اندر کا موسم بھی بے حد شگفتہ ہو جاتا ہے۔بارش کے بعد مناظر کی خوبصورتی اور نکھار شباب پر آ جاتا ہے ۔کوئل کی کوک،پرندوں کی چہچہاہٹ،دور کہیں بانسری کی لَے اور بارش کا جل ترنگ طبیعت پر کیسے اثر انداز نہیں ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ اسے بطور استعارہ شاعر اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔
برصغیر کی شاعری کے علاوہ دیگر زبانوں کی شاعری میں بھی برسات کا استعارہ بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے یہ یہاں ہندی مہینوں کے نام ساون بھادوں کے حوالے سے شاعری میں بہت تذکرہ ہوا ہے اور خاص طور پر اس مٹی اور برصغیر کے لوگوں کے مزاج میں موسموں کا عمل دخل زیادہ ہے۔چوں کہ برسات کا موسم لوگوں کی عام زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے برسات رجائیت اور حزن و ملال کے دونوں پہلو رکھتی ہے۔اسی طرح فارسی ادب میں بھی برسات کا حوالہ ملتا ہے لیکن چوں کہ یہ لفظ ہندی کا ہے اور برصغیر میں ہی بولا جاتا ہے۔اس لیے فارسی میں برشگال کے حوالے سے بہت سے اشعار ،لتے ہیں جب کہ مغربی زبانوں انگریزی،فرانسیسی اور اطالوی میں بارش کو انھی معنوں میں ادا کیا گیا ہے۔جو ان کے حقیقی معنی ہیں ۔انگریزی شاعری کے برعکس ایشیا کی شاعری میں دلی کیفیات کا اظہار چوں کہ زیادہ ہوتا ہے اور دل کو آنسوؤں کا منبع سمجھا جاتا ہے اس لیے برسات ہماری شاعری میں ہجر کی کیفیت اور حزن و ملال کے رویوں اور استعاروں کو زیادہ نمایاں کرتی ہے۔جب دل سے آنس نکلتے ہیں تو پھر ان کا اخراج آنکھوں کے ذریعے ہوتا ہے اور آنکھیں دو ہی ہیں اور دو ہی مہینے ساون اور بھادوں برسات کے حوالے سے ہیں جنھیں بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مغربی شعرا ورڈز ورتھ اور کالرج تو مشہور مناظر فطرت کے شعرا کے طور پر ہیں ۔امریکی شعرا میں رابرٹ فاسٹ اور والٹ وٹ مین نے مناظر فطرت کو جدید انسان کی داخلی کیفیت سے مربوط کر کے پیش کیا ہے لہٰذاکوئی بھی شاعر برسات کے موسم کو نظر انداز نہیں کر سکتا تاہم یہ اس پر ہے کہ وہ اسے کن معنوں میں لیتا ہے۔
اک لڑی اشکوں کی زنجیر بنے پاؤں کی
وہ میرے سامنے گر اور کوئی دم ٹھہرے
برسات انسانی نفسیات کے بہت قریب تر ہے ہم میں سے قریب قریب ہر ذی شعور ،صاحب احساس شخص برسات سے جذباتی لگاؤ ضرور رکھتا ہے ۔برسات نے نہایت لطیف جذبوں کو بھی بہت اعلیٰ پیرائے میں برتا ہے۔ ہندی میٹھ میں تلسی داس اور دوسرے حوالے خالص روایتی رومانوی جذبات کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔جاپانی شاعرہ میکواتامی نے برسات کو اپنے ہاں خوب استعمال کیا ہے۔ا س کے علاوہ رمبو ،بودلیئراور ٹیڈہیو کے ہاں بھی ہمیں برسات ایک تخلیقی اپچ کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔
ولیم ڈیویز،نظیر اکبر آبادی ،حالی،سیف الدین سیف ،ایلیٹ کے Wastelane میں کچھ امیجز اور سلویا پلاتھ نے کہیں کہیں برسات کو استعمال کیا ہے… حالی کا ایک شعر دیکھیں۔
وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے
مہینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
لہٰذا برسات وصل کی خواہش ،انتظار کی کیفیت اور محبوب سے ایک رومانوی لگاؤ کا اظہار سمجھا جاتا ہے اور یہ خدا وند کریم کے پیدا کردہ موسموں میں سے دیدہ زیب اور دلکش موسم ہے جس سے ہر چھوٹے بڑے شخص میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں اور مسکراہٹوں سے تیزی سے دوڑنے لگتی ہے۔