آپ کا نیٹ سلو ہے ناں؟ اصل میں، سمندر میں بہت بڑی بڑی اور خوفناک دانتوں والی مچھلیاں ہوتی ہیں۔ یقیناً وہ سمندری کیبلوں کو کاٹ کر انٹرنیٹ ٹریفک کو معطل کر دیتی ہوں گی!! جیسا کہ کچھ عرصہ سے ہر ماہ پاکستان میں انٹرنیٹ ٹریفک میں کچرا آ رہا ہے۔ شارکیں تو پاکستان کے پیچھے ہی پڑ گئی ہوئی ہیں۔
ویسے شرعی اعتبار سے سمندر کی صرف مچھلیاں کھانا حلال ہے، باقی سمندری مخلوق حرام ہے۔ پرابلم یہ ہے کہ شارک عین ‘مچھلی’ کیٹیگری کی جانور ہے۔ چناچہ، اگر کبھی شارک سے مناظرہ مباہلہ ہو جائے تو کوشش کیجیے کہ آپ شارک کو کھا جائیں ورنہ وہ آپ کو کھا جائے گی۔
یقین کیجیے یہ خیال فطرتی سا محسوس ہوتا ہے کہ سمندر کے درندے ہماری کیبلز کو کاٹ ڈالتے ہوں گے۔ برسبیلِ تذکرہ، مَیں نے ایک پوسٹ پہلے بھی کی تھی جس میں گلوبل فائبر اوپٹِک نیٹ ورک کو تفصیل میں بیان کیا تھا۔ دنیا بھر میں تقریباً 12 لاکھ کلومیٹر کے لگ بھگ سمندری فائبر اوپٹِک کیبلیں بچھی ہوئی ہیں۔ مگر آخر بحیرہء عرب کی شارکوں کو آئی ہوئی ہے۔
فائبر اوپٹِک اور دیگر ٹیلی کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی میں کام کرنے والی ایک امریکی کنسلٹینٹ کمپنی ”ٹیلی جیوگرافی“ سے یہی سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا واقعی شارکیں ہماری کیبلوں کو چَک وڈ رہی ہیں؟
کمپنی کے سینیئر تجزیہ نگار مسٹر ایلن مولڈن نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ لکھی۔
ایلن فقیر مولڈن کہتے ہیں کہ، بین الاقوامی سَب میرین فائبر اوپٹِک پروٹیکشن کمیٹی کے تعاون سے، آج ہم آپ کو سمندری فائبر اوپٹِک کو درپیش مسائل کی تفصیل دیں گے۔ جی ہاں، ہر برس دنیا میں کہیں نہ کہیں 100 سے زیادہ فالٹ آ جاتے ہیں جن کی مختلف وجوہات ہیں۔ مگر آپ کو زیادہ پتا نہیں چلتا ہو گا کیونکہ:
1) ہر علاقے کی کوریج کے لیے بیک اَپ کے طور پر ایک سے زیادہ کیبلیں ہیں۔ ڈیٹا بآسانی ایک سے دوسری کیبل پر منتقل ہو جاتا ہے۔
2) اِس دوران ٹیلی کمپنیاں سبک رفتاری سے کیبلز کے مسائل ٹھیک کر دیتی ہیں۔
3) ہر کچھ عرصہ بعد پہلے سے زیادہ طاقت ور اور زیادہ ڈیٹا ٹرانسفر کرنے والی کیبل شامل ہو جاتی ہے۔
4) بیک اَپ سیٹلائٹس ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ اب تو سٹار لنک بھی کام کرنا شروع ہو گئی ہے۔
عام عوام میں عموماً دو وجوہات کو کیبلز کے مسائل کے پیچھے سمجھا جاتا ہے:
1) شارکیں
2) سمندری زلزلے
مگر جب سے ہم نے کیبلز بچھائی ہیں، نتیجا نکلا ہے کہ کم از کم یہ دو وجوہات ہرگز نہیں ہوتیں.. یا اُتنی نہیں ہوتیں جتنا اِن کو کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ 2007ء سے اب تک ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ کیبلز کے مسائل کے پیچھے شارک نہیں، بلکہ شارک سے بھی خطرناک جانور اصل وجہ ہے، اُس کا ذکر بعد میں کرتے ہیں۔
سمندری کیبلیں بعض اوقات 8 کلومیٹر زیرِ آب بحری فرش پر بچھی ہوتی ہیں۔ یہ اتنی زیادہ گہرائی ہے کہ آپ بے شک ماؤنٹ ایورسٹ کو اس گہرائی میں ڈال لیں۔ جبکہ شارک مچھلیاں 2 کلومیٹر سے نیچے نہیں جا سکتیں۔ البتہ کم گہرے سمندروں میں موجود کیبلز جو کہ چند سو میٹر ہی سمندر کے اندر ہوتی ہیں، شارکیں اُنہیں چَک مار سکتی ہیں مگر ہم نے کبھی اُن کے چک کے نشانات نہیں دیکھے۔ بالفرض اگر وہ چَک مار بھی لیں تب بھی وہ کیبلز کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ کم گہرے سمندروں میں موجود کیبلز بہت زیادہ موٹی ہوتی ہیں۔ اُنہیں ‘آرمر کیبلز’ کہتے ہیں۔ چناچہ آپ کو شارک سے زیادہ خطرناک جانور چاہیے۔ اور وہ موجود ہے۔
زلزلے کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ سمندری فرش کے ہلنے جلنے سے کیبل بھی ہل جُل جاتی ہے۔ اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیبلوں کو باندھ کے نہیں رکھا جاتا۔ البتہ کبھی کبھار ایسا بے قابو زلزلہ آ سکتا ہے جس سے سمندری فرش کھل جائے اور کیبل سرکتی چٹانوں میں آ کر ٹوٹ جائے۔ ایسا صرف 100 برس میں ایک بار ہونا ممکن ہے۔
لہذا شارک اور زلزلے.. یہ دونوں چیزوں کو ذہن سے نکال دیں اور تیسری وجہ پر غور کریں جو نہایت خطرناک ہے۔ اور وہ درندہ ہے…. انسان خود۔
جی ہاں، بحری جہازوں کے لنگر اکثر اِن کیبلوں پر گرتے رہتے ہیں جس سے کیبلوں کا نقصان ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ مچھلیوں کا شکار کرنے والے بحری جہاز جب گہرے سمندروں میں جال بچھاتے ہیں تو وہ جال سمندری فرش تک پہنچ جاتا ہے جس سے کیبل جال میں پھنس کر ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ جال، شارک کے دانتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، بلکہ سمندری فرشوں کو خراب کرنے میں انہی فش ٹریلرز کا جال ہے۔
مزید یہ کہ عموماً غریب ممالک کی کمپنیاں اپنے فائبر اوپٹِک سیکشنز کا خیال نہیں رکھتیں اور بروقت نئی ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کرتیں۔ چناچہ کیبلز کی ایک عمر ہوتی ہے جس کے بعد وہ خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے دنیا میں ہر چند برس میں نئی کیبلز بچھتی ہیں مگر غریب ممالک کی کمپنیاں زیادہ کواوپریٹ نہیں کرتیں۔ جب اُن کی کیبلیں مسائل کا شکار ہوتی ہیں تو کئی کئی ماہ اُن ممالک کی عوام کو انٹرنیٹ میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ یقین کیجیے اسے بھی ہم درندگی کہتے ہیں۔
البتہ کچھ پرانی کیبلیں جو خراب نہ ہوئی ہوں، اُنہیں بیک اَپ کے طور پر استعمال میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی کیبلیں 25 سے 30 برس تک کام کرتی رہتی ہیں۔ مگر یاد رہے کہ آپ ایک ملک کا پورا ڈیٹا اِن کیبلوں پر نہیں ڈالتے۔ نئی کیبلوں میں انٹرنیٹ کی رفتار تیز ہوتی ہے اور وہی قابلِ اعتماد ہوتی ہیں۔
ایلن فقیر مولڈن یہ تمام معلومات دے کر چُپ ہو گیا ہے۔
اب مجھے کچھ موقع دیں۔ پاکستان اس وقت 6 سمندری فائبر کیبلوں کے ساتھ دنیا کی کیبلوں سے کنیکٹِڈ ہے۔ سوائے دو کے جو سلطنت اوف اومان کی کمپنی ٹرانس ورلڈ اوپریٹ کرتی ہے، باقی سب کیبلیں قومی ادارہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے پاس ہیں جن کی رفتار 1 سے 40 ٹیرابائٹ تک ہے۔ جبکہ 4 مزید کیبلیں 2025ء تک لانچ ہو رہی ہیں جن کی رفتار 120 ٹیرابائٹ ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی-ٹی-اے) کی سُست رفتار کیبلیں جو ہزار سے زیادہ کلومیٹر سمندر میں موجود ہیں، یعنی سی-می-وی 3 & 4 میں اکثر مسائل آتے رہتے ہیں، وجوہات وہی جو ایلن بھائی نے بتائی ہیں: اپنی کیبلوں کی تعمیرومرمت میں سُستی دکھانا۔ آجکل بہت عرصہ سے واحد مناسب قومی کیبل سی-می-وی 4 میں مسئلہ آیا ہوا ہے۔ سی-می-وی 5 تو پرائیویٹ ہے۔
سی-می-وی 5 ٹرانس ورلڈ کے پاس ہے۔ پی-ٹی-اے نے ٹرانس ورلڈ سے کیبل ادھاری مانگی تھی۔ تھوڑی سی جگہ مل تو گئی مگر ضروریات پوری نہیں ہو پا رہِیں، پھر بھی پی-ٹی-اے مطمئن ہو کر بیٹھی ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان انفورمیشن ٹیکنالوجی میں کیا خاک ترقی کرے گا!!!!!
چناچہ… بے چاری سمندری شارکوں پر الزام نہ دھریے بلکہ اپنی قومی یعنی زمینی شارکوں کو پکڑیے.. خصوصی وہ شارک جو ہینڈسم سی بھی ہے۔ وہ حکم دے گی تو یہ پیچیدہ مسئلہ حل ہو گا ورنہ یونہی بار بار وائی-فائی کنیکٹ/ڈسکنیکٹ کرتے رہیں گے اور الگ سے خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ پاکستان آئی-ٹی سیکٹر میں ترقی کر رہا ہے۔ صرف اتنی ترقی ہوئی ہے کہ زرِ مبادلہ کمانے والے فری-لانسرز کو قابو کر کے رہا سہا زرِ مبادلہ بھی ہڑپ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر فری-لانسرز کو تنگ کیا گیا تو وہ دل برداشتہ ہو کر فری-لانسنگ چھوڑ دیں گے۔ جو زرِ مبادلہ آ رہا ہے، اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے سینیٹائزر لگا کر۔
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...