رفعتیں جس پہ مٹیں کتنی حسیں عورت ہے
آسماں مرد اگر ہے تو زمیں عورت ہے
رنگ تخلیق کئے ،دنیا کو خوش بو بخشی
سچ اگر پوچھوتو یہ دھرتی نہیں ، عورت ہے
نسل ِ آدم کو بقا بخشی انہی دونوں نے
وجہِ تخلیق کہیں دھرتی ، کہیں عورت ہے
اس نے جنت سے نکالا تھا ہمیں لیکن آج
گھر وہ جنت ہے اگر گھرمیں مکیں عورت ہے
اس کے قدموں تلے رکھ دی ہے خدانے جنت
مرحبا آفریں جنت کی امیں عورت ہے
آبرو پورے پریوار کی، ہر بھائی کا مان
گھر کی ملکہ بھی یہی تخت نشیں عورت ہے
اس کو ہر روپ میں بخشی ہے بلندی رب نے
فہم و ادراک سے بالا و بریں عورت ہے
جنس ِ بازار نہیں ہے کہ خریدو ، بیچو
احترام اس کاہے جو پردہ نشیں عورت ہے
چاندنی میرے بھی آنگن میں بچھی جاتی ہے
میرے گھر میں بھی تو اک ماہ جبیں عورت ہے
دیکھ لو پلکوں کے گھونگھٹ میں حیا دلہن کی
پھر یہ بتلائو کہیں ایسی حسیں عورت ہے
اس کی مسکان کو ہم دیکھ کے جی اٹھتے ہیں
پھول پت جھڑ میں کھلادے،وہ زمیں عورت ہے
اس کےقدموں میں ہی جنت ہےسبھی نبیوں کی
مان لو فرش پہ یہ عرش بریں عورت ہے
پارسائی بھی تو ثابت ہے کنواری ماں کی
سوچو اس دنیامیں مریم سی کہیں عورت ہے
اس کی آغوش میں تہذیبوں نے آنکھیں کھولیں
مادر ِ شہنشہ ِ دنیا و دیں عورت ہے