’’عبد السمیع‘‘ ریل گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا۔
اسکا بوڑھا نابینا باپ اسکے پہلو میں کسی دیوھیکل کی مانند کھڑا تھا اگرچہ ان طویل سالوں نے اسکی کمر جھکا دی تھی ۔۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہنے لگتا:
ــ اﷲ ہر آن تمہارے ساتھ رہے ۔۔ تم جہاں بھی چلے جاؤ میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی، بیٹا پریشان نہ ہونا ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم اب چھوٹے نہیں رہے ۔۔ تم راحت کا حصول چاہتے تھے، اور تم الازھر میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے تھے ۔۔ لیکن اﷲ کی یہی مرضی ہے ۔۔ اور زندگی بڑی لمبی ہے ۔۔ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ کھو گیا ہے کبھی تمہیں دوبارہ مل جائے، اور تمہاری آرزوئیں پوری ہو جائیں۔ مسئلہ ڈگری کے حصول کا نہیں ۔۔ کتنے ہی جاھل جو اپنا نام تک صحیح نہیں لکھ سکتے اعلی درجے کی کامیابیاں حاصل کر لیتے ہیں ۔۔ کہو یا ربِّ ۔۔ عبد السمیع بیٹے۔
عبد السمیع نے تلخی سے سرد آہ بھری اور بڑبڑایا: یا ربِّ۔
٭۔۔٭
یہ لمحات کس قدر قساوت پر مبنی تھے، عبد السمیع کے تصوّر میں بھی نہ تھا کہ اسکا نابینا باپ جسے پانچ برس قبل مسجد میں واعظ کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا، اسے اچانک ریٹائر منٹ کا پروانہ مل جائے گا ۔۔ اور ماہانہ مشاہرہ کے بجائے معمولی پنشن اسکے ہاتھ میں رہ جائے گی ۔۔ کیونکہ اب وہ ساٹھ برس کا ہو گیا تھا، اور اب اسے بر سر ِ روزگار رہنے کا حق نہیں رہا تھا ۔۔ اسکو ملنے والی اکٹھی رقم بڑی تیزی سے ختم ہو گئی ۔۔ آہ عبد السمیع اگر تو ہی کچھ سمجھدار ہوتا اور آنے والے دنوں کی فکر کر لیتا اور اپنی تعلیم پر توجہ دیتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، اب تو حال یہ تھا کہ ’’المعھد الازھری‘‘ میں سات برس گزارنے کے بعد بھی تو شہادۃ الاعدادیۃ حاصل نہ کر پایا تھا ۔۔ اور اپنا بیشتر وقت ’’بدیعہ‘‘ اور اس سے متعلق باتوں کو سوچنے میں گزار دیا تھا۔
آہ ۔۔ بدیعہ ۔۔ ایک سہانا خواب ۔۔ کشش کا سرچشمہ ۔۔ جو بزنس کی ثانوی جماعت کی طالبہ تھی ۔۔ لیکن میں انکار نہیں کر سکتا کہ اسکے ساتھ گزارے گئے دن بے حد حسین اور مسحور کن تھے ۔۔ اسکی باتیں اور نگاہوں کا اٹھنا اور گرنا میری روح کی پیاس بجھا دیتا، میرے دل کی دھڑکنیں ساز بن جاتیں ۔۔ اور اس حال میں میں اسے چھوڑ کر جا رہا تھا ۔۔ میرے پاس اسے چھوڑنے کے سوا کوئی صورت نہ بچی تھی ۔۔ کس قدر عار تھی یہ بات کہ میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں ۔۔ میرے لئے اس سے بڑھ کر کیا عار ہوتی کہ میرا باپ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا، اور قبروں پر قرآن خوانی کر کے میرے لئے رزق کماتا، وہ بزرگ آدمی تھا، صحت بھی کچھ اچھی نہ تھی، وہ پرانے زمانے کا انٹر پاس تھا ۔۔ ضروری تھا کہ میں کچھ کمانے لگوں اور اسکی زندگی کچھ پرسکون ہو جائے ۔۔ تاکہ میں اپنے اور اسکے لئے دو وقت کی روٹی کسی شریفانہ طریقے حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤں ۔۔ تاکہ میں بدیعہ کو تمام تر احترام کے ساتھ اپنا سکوں ۔۔ اور کیا ممکن ہے کہ میں بدیعہ کو بھول جاؤں ۔۔ اس سے کئے وعدوں کو ۔۔ اور اسکے اصرار کو کہ وہ ہر حال میں میری رہے گی؟
عبد السمیع کی امیدوں کا مرکز وہ بڑا شہر بن گیا ۔۔ ’’المحلۃ الکبری‘‘ اپنے دھوئیں، شورو شغب اور بلند و بالا عمارتوں کی شان لئے ہوئے ۔۔ اور اس میں ہر آن متحرک زندگی ۔۔ اسے یہ شہر کس قدر پسند تھا؟!
لیکن وہ اب کیا کرے؟! اسے کوچ کرنا تھا تاکہ وہ دار الکتب میں خالی اسامی کو پر کرے ۔۔ جہاں اسکے ارد گرد کتابیں ہی کتابیں ہوں گی، اور پڑھنے کے لئے ڈھیروں وقت ۔۔ اور وہ ضرور تعلیم سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ الاعدادیہ کی سند حاصل کرنے کا ادھورا خواب مکمل کر سکے۔
عبد السمیع اپنے ہی سوالوں کی زد میں تھا۔
ــ زندگی اسی صورت کیوں نہیں گزرتی جیسے ہم اسے گزارنا چاہتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ میں کتنا غافل تھا ۔۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ زندگی مسلسل اوپر کی جانب گامزن خط ِ مستقیم ہے ۔۔ لیکن اب تو خط ِ مستقیم سب سے بڑا جھوٹ دکھائی دے رہا ہے ۔۔ وہم سے بڑھ کر وہم ۔۔ اسکا وجود صرف جیومیٹری کی کتابوں میں پایا جاتا ہے ۔۔ مجھے تو خط ِ مستقیم نہایت ٹیڑھا میڑھا اور بل کھاتا نظر آرہا ہے ۔۔ اوپر سے نیچے لڑھکتا ہوا اور دائیں بائیں ہچکولے کھاتا ہوا ۔۔ اسکے پیچھے بھاگتے بھاگتے میرا سانس پھولنے لگا ہے، اور لگتا ہے کہ سانس کی ڈور اب ٹوٹی کہ ٹوٹی ۔۔ اور بدیعہ ۔۔ اسکی خوبصورت آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہیں ۔۔ نہایت قیمتی آنسو ۔۔ بلا شبہ وہ بھی میری طرح اس اچانک صدمے کا شکار ہوئی ہے جب اس پر بھی خط ِ مستقیم کے عدم وجود کا انکشاف ہوا۔
ریل گاڑی بڑی بے رحمی سے پوں پوں چھک چھکا چھک کرتی سٹیشن پر آچکی تھی ۔۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس پر چڑھنے لگے ۔۔ ہر ایک نشست حاصل کرنے کی فکر میں تھا تاکہ سفر کھڑے کھڑے نہ کاٹنا پڑے ۔۔ بچے چیخ چلا رہے تھے، کتنے ہی لوگوں کے پاؤں ان پر آتے آتے بچے۔
عبد السمیع نے نظر اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا ایک آنسو پھسل کر اسکے گال کو بھگو گیا:
ــ اﷲ کے حوالے۔
اسکے باپ کے ہونٹ تھرائے:
ــ اﷲ تمہارا نگہبان ہو ۔۔
ــ لیکن ابا جان آپ اکیلے گھر کیسے جائیں گے؟
اسکے باپ کے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ آگئی:
ــ کوئی بھلا آدمی رہنمائی کر ہی دے گا ۔۔ بیٹے میں تمہاری پیدائش سے بھی پہلے اندھا ہو گیا تھا ۔۔ لیکن میں کم ہی کبھی راستہ بھولا ہوں گا ۔۔ بس تم اپنے بارے میں سوچو ۔۔ تمہیں مجھ سے بڑھ کر کسی مرشد کی ضرورت ہے ۔۔ سلامت رہو بیٹے۔
عبد السمیع نے تیسرے درجے کے ڈبے میں میں اپنا سامان رکھا، اور سروال کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹکٹ کی موجودگی کا یقین کیا، اور ایک کھڑکی کے قریب والی نشست پر بیٹھ گیا، تاکہ باقی کا وقت ابّا سے باتیں کر کے گزار دے ۔۔ ریل گاڑی چلنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا جب اس نے اسے آتے دیکھا ۔۔ وہ بھاگتی ہوئی آرہی تھی، اسکا سانس پھول رہا تھا، اسکے کندھے سے نیلا بیک لٹک رہا تھا، اور اسکے ریشمی بالوں میں سرخ ربن بندھا تھا ۔۔ گویا کہ عبد السمیع دور سے ہی اسکی خوشبو محسوس کر رہا تھا ۔۔ اس نے خود ہی اسے سٹیشن آنے کا نہیں کہا تھا، کیونکہ یہ اسکی کلاس کا وقت تھا ۔۔ لیکن وہ اندر سے بالکل بجھا ہوا تھا ۔۔ اسکی تمنا تھی کہ کاش وہ آجائے ۔۔ کوئی معجزہ ہو جائے تاکہ وہ اس پر الودائی نظر ڈال سکے ۔۔ اور ہاں ۔۔ اسکا خواب سچ ہو گیا تھا ۔۔ عبد السمیع کھڑا ہو گیا، اسکی باچھیں کھل گئیں ۔۔ اسکی خوبصورت آنکھیں سوجی ہوئی تھیں ۔۔ اور اسکے پھولے ہوئے منہ سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہوا۔
نابینا باپ کو بھی اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے، وہ بولا:
ــ کون آیا ہے؟
عبد السمیع کہنے لگا:
ــ بدیعہ ۔۔
وہ مسکرا کر کہنے لگا:
ــ میں نے کہا نہ تھا کہ مجھے کوئی نہ کوئی ہمدرد مل ہی جائے گا:۔؟! مطمئن ہو جاؤ اب مجھے بدیعہ بیٹی ہاتھ پکڑ کر گھر لے جائے گی ۔۔ ہاں مجھے تو اپنا مرشد مل گیا ہے ۔۔ لیکن تمہیں ابھی تک ایک مرشد کی ضرورت ہے۔
عبد السمیع کا دل چاہا کہ ابا سے کہہ دے کہ: آپ دیکھیں گے کہ میری مرشد بھی بدیعہ ہی ہو گی ۔۔ اسکی پاکیزہ روح میرے خوابوں کو جلا بخشتی رہے گی ۔۔ اور قاھرہ میں مشقت کرتے ہوئے بھی میرے قدموں کو مضبوطی عطا کرے گی ۔۔ وہ میرا حسین نغمہ ہو گی جسے میں طویل راتوں کی تنہائی میں گنگناؤں گا ۔۔ لیکن عبد السمیع اپنی فطری حیا کے سبب یہ سب محض سوچ کر رہ گیا۔
گارڈ نے سیٹی بجائی اور ریل گاڑی ہولے ہولے رینگنے لگی ۔۔ اس نے بے بسی سے ہاتھ ہلایا، اور بدیعہ سفید رومال سے اپنے گال پونچھنے لگی، جونہی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی ۔۔ وہ بوڑھے نابینا وجود کی طرف متوجہ ہوئی، خاموشی سے انکا ہاتھ تھاما اور بولی:
ــ آئیے چلیں چچا جان۔
٭۔۔٭
دار الکتب میں ــ اس نئی دنیا میں ــ چمکتی روشنیاں آنے جانے والے مؤلفین اور اہل ِ علم کی چکا چوند میں اضافہ کرتی رہتیں، وہ پوری لگن سے کام سیکھنے میں جت گیا، تاکہ یہاں اپنا آپ منوا لے، اور المحلہ میں گزارے غفلت، بے تو جہی اور کاہلی کے ایام کا مداوا کر دے ۔۔ اس متمدن شہر میں آکر پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ وہ بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، جو محبت کی قوی بنیادوں کے باوجود اسے اس سے دور لے جا رہا ہے، ٹیڑھے میڑھے راستوں پر، اسکے کام میں پوری لگن کے باوجود، اور کبھی اسے لگتا کہ وہ زندگی کے خط ِ مستقیم کے قریب آگیا ہے ۔۔ وہ خط جس پر اسکا بھروسہ اس وقت پاش پاش ہو گیا تھا جب اسکے باپ کو ملازمت سے بیدخل کیا گیا تھا، اور جب اس نے اپنے اندر بدیعہ سے دور جانے پر قلق اور اضطراب محسوس کیا تھا ۔۔ لیکن اسکا باس بڑا خشک طبیعت اور کھردرا انسان تھا ۔۔ اور جس خط کے بارے میں وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اب سیدھی عمودی لائن پر سفر کرے گا وہ اس روز ٹیڑھی میڑھی ہو گئی جس روز اسے بدیعہ کا پہلا مکتوب ملا، اس وقت وہ مکتبے سے باہر کام میں مصروف تھا ۔۔ اسکے باس نے بڑے توہین آمیز انداز میں خط اسکے ہاتھ سے جھپٹ لیا، لفافہ پھاڑا اور خط پڑھنے لگا، اس پر بدیعہ کا نام تھا ۔۔ انکی غمگین الوداعی ملاقات کے بعد بدیعہ کا پہلا آنسو برساتا خط ۔۔ باس کا غصّہ عروج پر پہنچ گیا ۔۔ اور اس نے عبد السمیع کو خوب آڑھے ہاتھوں لیا اور اس پر گالیوں اور شکووں کی بوچھار کر دی:
ــ دار الکتب کام کی جگہ ہے ۔۔ یہ عاشقی کے لئے مناسب جگہ نہیں ہے ۔۔ اور نہ ہی رقعے بازی کے لئے ہے ۔۔ اس طرح کے سلسلوں کا نتیجہ جانتے ہو کیا ہو گا ۔۔ تمہاری ملازمت جائے گی ۔۔ سمجھے تم؟ محنت کا کام کوئی شریک برداشت نہیں کرتا ۔۔ اگر تم اپنا پورا وقت اور فکر اس کام میں لگانے کو تیار ہو تو بسروچشم ۔۔ لیکن اگر اسی بے پرواہی کا اعادہ کرنا چاہتے ہو ۔۔ تو دروازہ کھلا ہے۔
عبد السمیع نے کپکپاتے ہاتھوں سے خط پکڑا، وہ اپنی جدوجہد کی قربانی تو دے سکتا تھا ۔۔ کیونکہ وہ اپنے اور ابّا کے لئے روزی کمانے نکلا تھا ۔۔ لیکن کیا اسے اپنے جزبات بھی قربان کرنے پڑیں گے ۔۔ یہ اس کے بس سے باہر تھا ۔۔ بلاشبہ وہ اپنا پسینہ، محنت اور وقت بیچ رہا تھا، لیکن یہ اسکے بس میں نہ تھا کہ اپنی روح کے شوق بھی دفن کر ڈالے ۔۔ یہی تو آگ تھی جو اسے سراپا متحرک رکھتی، اسے محنت کی جانب راغب کرتی، اور اسے زندگی میں بلند مقام حاصل کرنے پر ابھارتی ۔۔ عبد السمیع بڑی عاجزی سے پکارا:
ــ لیکن ۔۔ کیا میں نے اپنے کام میں کوئی کوتاہی کی ہے؟
ــ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں عملاً تقصیر واقع ہونے کا انتظار کروں گا؟
اور جب عبد السمیع نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ کہنے لگا:
ــ میں کام اور انسان کے کردار کے درمیان فرق نہیں کرتا، ہر ایک کا دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے، اور انکا ایک دوسرے پر اثر پڑتا ہے ۔۔ محبت کرنی ہے تو کام سے محبت کرو۔
اور قبل اسکے کہ وہ اس اچانک افتاد سے سنبھلتا، مدیر زور سے چلایا:
ــ بالٹی اور وائپر لاؤ اور فرش صاف کرو۔
کچھ لمحے تو وہ زمین سے چپک کر رہ گیا پھر کہنے لگا:
ــ میرا کام کتابوں کو ترتیب سے رکھنے اور انکی خرید و فروخت سے متعلق ہے۔
ــ دار الکتب کا کوئی بھی کام تمہیں سونپا جا سکتا ہے۔
عبد السمیع کو اپنا بوڑھا نابینا باپ یاد آیا، اور وہ بھاری ذمہ داری جو اسکے کندھوں پر آ پڑی تھی، اور اسکی امید کہ وہ شام کے اوقات میں تیاری کر کے اعدادیہ کی سند حاصل کر لے گا، اور اسے خط لکھنے والی کی یاد آئی ۔۔ بدیعہ کی ۔۔ کیا ہو اگر وہ اچانک آجائے اور اسے فرش دھوتے دیکھے؟ کیا عبد السمیع جیسے مہذب اور نابغہ روزگار با وقار شخص کا فرش کی ٹائلیں دھونے والے شخص سے کوئی میل تھا؟
مدیر چلایا:
ــ ہمارے پاس وقت نہیں ہے ۔۔ جو کہا ہے وہ کرو۔
اور عبد السمیع غم کی تصویر بنے نیچے جھک گیا اور خاموشی سے ٹائلیں رگڑنے لگا، اسکا دل چاہ رہا تھا کہ گلا پھاڑ کر روئے مگر اسکے نالے طوفان بننے سے قبل اسکے دل پر گر رہے تھے، اس نے کھا جانے والی نظروں سے مدیر کو دیکھا ۔۔ اس کا چہرہ بالکل گھن گرج مچانے والی ریل گاڑی کی مانند تھا جو اسے المحلۃ سے قاھرہ لے کر آئی تھی ۔۔ لیکن عبد السمیع اپنے تاریک خیالات پر زیادہ دیر توجہ نہ مرکوز کر سکا ۔۔ مکتوب اسکی سروال کی جیب میں پڑا تھا ۔۔ بدیعہ کا مکتوب ۔۔ اسکی باتیں ۔۔ اس کے باوجود کہ ابھی اس نے اسے پڑھا نہ تھا، اسکے دل میں اسکی بھینی بھینی خوشبو بڑا شیریں اطمینان اور سلامتی انڈیل رہی تھی ۔۔ اگر اسکی پوری زندگی مدیر کے ہمراہ بسر ہوتی تو اس سے خوبصورتی کا لفظ ہی عنقا ہو جاتا ۔۔ لیکن جس نے مدیر کو تخلیق کیا، اس ذات نے اس کے مداوے کے طور پر اسکے لئے بدیعہ کو بھی پیدا کیا ۔۔ وہ اسکا خط پڑھنے کو کسقدر بیتاب تھا۔ لیکن صبر ۔۔ چھٹی ہونے میں محض آدھ گھنٹہ باقی تھا ۔۔ اور اسکے بعد ۔۔ آہ ۔۔ ان شیریں لمحات کے کیا کہنے! وہ اسکا خط کھولے گا ۔۔ اور پوری توجہ سے ایک ایک حرف پڑھے گا ۔۔ اور ان حسین ملاقاتوں کو دہرائے گا ۔۔ اپنی تنہائی کو ان لمحوں کے سحر میں جکڑ لے گا، ان بے رونق دنوں میں یہی سب سے مرغوب توشہ ہے، اس کے روح کے قلق کے لئے ۔۔ ان خیالوں کا کیا کہنا! اسکی زندگی کے سارے خطوط ِ مستقیم سانپوں کے بل کھاتے نقش ِ راہ میں تبدیل ہو گئے تھے ۔۔ سوائے ایک خط کے ۔۔ اور وہ اسکے اور بدیعہ کے درمیان محبت کا خط تھا ۔۔ واحد سیدھا خط ۔۔ اور وہ اﷲ کی اس نعمت ِ عظمی پر سر جھکا کر الحمدﷲ کہتا۔
دار الکتب میں تھوڑے سے عرصے میں وہ ایک لا ابالی نوجوان سے ایک پختہ ذہن، زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے شخص میں ڈھل گیا ۔۔ وہ جب آئینہ دیکھتا تو اسے اپنے چہرے میں بھی اس تبدیلی کا احساس ہوتا ۔۔ اسکے گندمی چہرے پر سنجیدگی اور وقار آگیا تھا ، جسے پسینے اور مٹی کے غبار نے گہرا کر دیا تھا ۔۔ اور اسکے نرم و ملائم ہاتھوں میں سختی اور کھردرا پن آگیا تھا ۔۔ اسے خود احساس ہوتا کہ وہ انیس برس ہی کی عمر میں پورا مرد بن گیا ہے۔
دار الکتب میں کام سے فارغ ہو کر وہ امتحان کی تیاری میں جت جاتا، اور ایسے لمحوں میں نجانے کہاں سے بدیعہ کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ۔۔ ان فاصلوں نے اسے روح کے اور بھی قریب کر دیا تھا ۔۔ ان محرومیوں نے اسکے دل میں ملن کی آگ کو اور بڑھکا دیا تھا ۔۔ اس کے ساتھ بیتے لمحات، باتیں اور مسکراہٹیں یادوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہتیں ۔۔ وہ خیالی دنیا میں اس سے باتیں کرتا رہتا ۔۔ اور کبھی تو وہ اتنا بے خبر ہو جاتا کہ اسکے منہ سے عجیب و غریب کلمات ادا ہو جاتے، اور رہائش گاہ پر اسکے ساتھی اس کی کیفیت کا مزا لیتے ہوئے جی بھر کر ہنستے ۔۔وہ چیخ کر ان سے احتجاج کرتا:
ــ اگر مجھے اسکی محبت کا پاس نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کر ڈالتا۔
وہ عجیب انداز میں ہونٹ سکیڑتے ۔۔ جب کہ وہ اپنا دکھڑا بیان کرتا رہتا:
ــ مدیر صاحب تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے اپنا غلام بنا لیں۔
ان میں سے ایک باس کا دفاع کرتا:
ــ وہ یہ سب تمہارے بھلے اور مصلحت کے تحت کہتے ہیں۔
دوسرا ساخرانہ انداز میں گرہ لگاتا:
ــ کیا تمہاری اس غیر حاضر دماغی کا سبب وہی نہیں ہے ۔۔ اس نے تمہیں کس حال میں پہنچا دیا ہے؟
وہ احتجاجاً چلاتا:
ــ بڑے خراب ہو تم لوگ ۔۔ وہ اسکا سبب نہیں ہے ۔۔ میں کس قدر غیر ذمہ دار لڑکا تھا ۔۔ ماں کے مرنے کے بعد ابّا نے بس میرے لاڈ ہی اٹھائے تھے ۔۔ ہمیں کبھی پرواہ بھی نہ ہوئی تھی کہ ہم پر کوئی ایسا دن بھی آئے گا جب ہم تلاش ِ معاش میں یوں در در کی ٹھوکریں کھائیں گے ۔۔ بدیعہ مجھے کتنی نصیحتیں کیا کرتی تھی ۔۔ لیکن میں نے اپنی غفلت اور حماقت میں اسکی قیمتی نصیحتوں کو یوں چٹکیوں میں اڑا دیا۔
وہ دور افق میں دیکھنے لگا ۔۔ اور کھو سا گیا ۔۔ اس نے تصوّر ہی تصوّر میں اعدادیہ کی سند حاصل کر لی ۔۔ پھر ثانویہ کی ۔۔ اور پھر ایک کامیاب آفیسر بن گیا ۔۔ اپنی زندگی اور فیصلوں کا آپ مالک ۔۔ اسکے جزبات اور روح کے شوق کسی کی قید میں نہ رہے ۔۔ کوئی باس اسکو خوابوں سے نہ جھنجھوڑتا، اور نہ اپنی رقابت میں اسکی تمناؤں کا گلا گھونٹتا ۔۔ تصوّر میں بدیعہ اپنے ملائکی حسن اور خوبصورت اندام کیساتھ اسکے ہمراہ ہوتی ۔۔ اور اپنی دھیمی آواز میں اسکی حوصلہ افزائی کرتی ۔۔ انکا چھوٹا سا گھر ہوتا ۔۔ جہاں چڑیاں چہچہاتیں ۔۔ اور ہر طرف چین ہی چین ہوتا ۔۔ اسکے ابّا اپنے کمرے میں بے داغ سفید لباس پہنے اپنی نشست پر بیٹھتے، انکے عمامے سے رونق اور جلال کی کرنیں پھوٹتیں ۔۔ زندگی ایک خط ِ مستقیم پر گامزن ہو جاتی ۔۔ نہ اسمیں ٹیڑھے میڑھے راستے ہوتے، نہ نشیب و فراز ۔۔ انکے بچے کی کلکاریاں اور توتلی باتیں گھر میں نغمے بکھیر دیتیں ۔۔ اس اونچی اڑان اور قیمتی تمنا کے کیا کہنے!
لیکن مدیر اسکے حسین گلابی خوابوں سے اسی طرح جھنجھوڑ کر اسے جگاتا رہا۔
عبد السمیع آسانی کے ساتھ ــ یا شائید سادگی سے ــ یہ نہ سمجھتا تھا کہ ان حقیقتوں کا اظہار اس کے لئے کسی طور نقصان دہ ہو سکتا ہے لیکن مدیر باتوں باتوں میں اس سے بہت کچھ اگلوا لینا چاہتا، وہ اس سے اس فتنہ گر کے بارے میں کرید کر پوچھتا جس نے اسکی عقل پر جادو کر دیا تھا،وہ اسے کیسے ملی؟! ان کے بیچ یہ رشتہ کیسے استوار ہوا؟! جب وہ ملتے تو کیا باتیں کیا کرتے؟ اور اس رشتے کی نوعیت کیا تھی؟
ایسے ہی دسیوں سوالات عبد السمیع کو دہشت زدہ کر دیتے، کیونکہ وہ انکے معاملے میں مدیر کی سختی اور شدت کی پالیسی سے متفق نہیں تھا ۔۔ اور وہ مدیر کے سامنے ان موضوعات پر بات کرنے میں خجالت محسوس کرتا ۔۔ لیکن مدیر مسکرا دیتا ۔۔ اور برق رفتاری سے اسکا اعتماد حاصل کر لیتا ۔۔ اور عبد السمیع بلا تکان بولتا چلا جاتا ۔۔ اس گفتگو کے دوران اسکی زبان کی ساری گرہیں کھل جاتیں ۔۔ وہ بے مثال محبت کے بارے میں بتاتا چلا جاتا ۔۔ ان پربہار شاموں کے بارے میں، انکے عہد و پیمان اور مستقبل کے خوابوں کے متعلق ۔۔ اسکے گالوں کی سرخی جو اسکے اندر شعلے بھر دیتی ۔۔ اچانک مدیر چلّا اٹھتا:
ــ تم جھوٹ کہتے ہو ۔۔
ــ کیوں؟
ــ ایسے مناظر صرف ناولوں میں ہوتے ہیں۔
ــ لیکن واقعی ایسا ہی ہوتا تھا ۔۔ میں نے کسی تصنع کے بغیر آپ کو بتایا ہے۔
اور عبد السمیع کی زبان پھسلتی اور وہ مدیر سے پوچھتا:
ــ سر آپ ۔۔ کیا آپ کو ایسا تجربہ نہیں ہوا کبھی؟ جب آپ نوجوان تھے ۔۔
مدیر ایسے بدکتا جیسے اسے کسی سانپ نے ڈس لیا ہو، اور چیخ کر کہتا:
ــ تم پاگل تو نہیں ہو گئے۔
ــ میں تو یونہی پوچھ رہا تھا ۔۔ میرا خیال تھا کہ سب لوگ ایسے ہی کرتے ہوں گے۔
عبد السمیع سر کھجانے لگتا، اسکی حیرت بڑھتی چلی جاتی، جبکہ مدیر بالٹی اور وائپر کی جانب اشارہ کر کے دھاڑتا:
ــ دیکھ نہیں رہے کہ فرش کی ٹائلیں کتنی گندی ہو رہی ہیں۔
٭۔۔٭
اور جس روز عبد السمیع اعدادیہ کے امتحان میں کامیاب ہوا ۔۔ اسکے لئے اپنی کامیابی کی خوشی سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔ یہ آزادی کی راہ کے زینے کی جانب اسکا پہلا قدم تھا، اور اپنی تمناؤں کے حصول کی جانب ۔۔ اسکی مسلسل محنت نے اسکے اور بدیعہ کے بیچ پاکیزہ تعلق کی رسی کو مضبوط کر دیا تھا ۔۔ وہ اپنی رہائش پر اکیلا ہی نغمے بکھیرتا رہا، اسکا انگ انگ جھوم رہا تھا ۔۔ صرف اسکی کامیابی ہی اسکی زندگی کو خط ِ مستقیم کی جانب لوٹا سکتی تھی ۔۔ وہ خط جو اسے توازن، سلامتی اور اطمینان کا احساس دلاتا تھا ۔۔ وہ بدیعہ کو خبر سنانے ٹیلیگراف آفس کی جانب بھاگا ۔۔ اور آخری لمحے اسے خیال آیا کہ اسے کہے گا کہ وہ اسکے باپ سے بھی رابطہ رکھے، اور اسے انکے بارے میں آگاہ کرے ۔۔ مدیر کو خبر ہوئی تو اس نے سب کچھ بھلا کر اسے گلے لگا لیا ۔۔ اور اسے انعام کے طور پر ایک دن کی اضافی تنخواہ دینے کا وعدہ کیا، اور کہنے لگا:
ــ تمہاری اس کامیابی پر ہزار بدیعائیں قربان کی جا سکتی ہیں ۔۔ اور اگر میں تم پر اس قدر سختی نہ کرتا اور اس درشتی سے پیش نہ آتا تو یہ کامیابی تمہارا مقدر نہ بنتی۔
عبد السمیع اسوقت اس جھگڑے میں پڑنے کے موڈ میں نہ تھا، اس نے شکر گزاری سے سر ہلایا، اور کھلے دل سے مسکراتا ہوا باہر نکل آیا ۔۔ اس نے مدیر سے والد سے ملنے جانے کے لئے دو روز کی رخصت مانگی۔
وہ رہائش گاہ پر آیا تو سفر کے لئے تیاری کرنے لگا، وہ اتنا خوش اور مطمئن تھا کہ اسکی بھوک ہی اڑ گئی ۔۔
اسکے ایک ساتھی نے آکر اسکے سامنے ایک خط ڈالا، اس نے اشتیاق سے خط اٹھایا ۔۔ لیکن اسے پتا چلا کہ یہ بدیعہ کا نہیں بلکہ محلہ کے ایک لا ابالی نوجوان کا خط ہے ۔۔ اسے کسی قدر تنگی کا احساس ہوا ۔۔ اسکا دل چاہتا تھا کہ اسے ملنے والا ہر مکتوب اسی کا ہو، لیکن وہ بڑبڑایا: ’’دوستی کی خوشبو اور سلامتی کی دعا کیساتھ ۔۔ مجھے تو المحلہ سے آنے والی ہر ریل گاڑی سے بھی اسی کی یاد آتی ہے، پرانے دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔۔ عبد السمیع اس طویل خط کو پڑھنے کے لئے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، جس میں اسکے ہنسوڑ دوست نے بیسیوں چھوٹے بڑے قصّے بیان کئے تھے ۔۔ سکول کی خبریں ۔۔ ہم جماعتوں کی ۔۔ محلے کی لڑکیوں کی ۔۔ عاشقوں کی مشکلات کی ۔۔ محلے کے کامیاب اور ناکام لڑکوں کی، اور جنہوں نے ناکامی سے گھبرا کر خود کشی کی ناکام کوشش کی، یا سکول چھوڑ دیا ۔۔ عبد السمیع کا دل اچانک زور سے دھڑکا ۔۔ اور پھر وہ دھک دھک کرنے لگا ۔۔ یہ خبر اسکے آشیانے پر پڑنے والی بجلی کی کڑک سے کم نہ تھی ۔۔ ’’رہی بدیعہ تو اسکی نسبت طے ہو گئی ہے ۔۔ اسکے لئے مبارک اور تمہارے لئے صبر اور تعزیت کی دعا ۔۔ ہمیں پتا چلا تھا کہ اس نے رشتے سے انکار کر دیا تھا، اور بھاگ کر اپنی خالہ کے ہاں چلی گئی تھی، لیکن اسکے گھر والوں نے اسے ہاں کہنے پر کافی مجبور کیا ۔۔ اور آخر کار وہ مان ہی گئی ۔۔ باقی باتیں ملاقات پر‘‘۔
اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اس نے تشنج زدہ انگلیوں سے خط کو پرزہ پرزہ کر دیا۔
اور اپنی چارپائی پر آڑھا ترچھا لیٹ گیا ۔۔ وہ اپنی کشادہ پیشانی پر مکے مار رہا تھا ۔۔ اسکی زندگی کا واحد خط ِ مستقیم ذبح شدہ خرگوش کی خون آلود آنتوں میں تبدیل ہو گیا تھا ۔۔ جن سے خون رس رہا تھا ۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔ اسکے ساتھی نے ہمدردی میں اسکا سر سہلایا ۔۔ اور ہولے سے بولا:
ــ اپنے آپ کو سنبھالو ۔۔
ــ میں اپنے آپ سے جھوٹ کہتا رہا ۔۔
ــ کون جانے؟ دنیا میں کسی چیز کو اتنی توجہ نہیں دینی چاہیے ۔۔ اٹھو اور سفر کی تیاری کرو
ــ میں ہر گز نہیں جاؤں گا۔!
ــ کیوں؟
ــ مجھے اس حسین خواب کے جنازے کو کندھا دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ــ لیکن تجھے ابّا کو تو ملنا ہے نا۔
اور اسے بوڑھا باپ یاد آیا ۔۔ نابینا ۔۔ جو تنہا زندگی کے دن پورے کر رہا ہے ۔۔ اپنی طویل عمر کی تاریکیوں میں ۔۔ اس بڑھاپے میں پڑوسی اسکی خدمت پر مامور ہیں ۔۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا:
ــ تم سچ کہتے ہو ۔۔ میں جاؤں گا اور ابّا کو ساتھ لے آؤں گا ۔۔ اب وہ میرے ساتھ رہیں گے۔
پھر وہ اچانک کہنے لگا:
ــ دنیا میں وہی تو ہیں جنکی محبت کو زوال نہیں آسکتا۔
اسے المحلہ الکبری لے جانے والی ریل گاڑی سٹیشن پر پہنچ چکی تھی ۔۔
اسکا چہرہ پرعزم تھا، پختہ سوچ کا غمّاز، جسے کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔۔ عبد السمیع تھرڈ کلاس کے ڈبّے میں لوگوں کے ازدحام میں بمشکل کھڑا تھا ۔۔ گرمی، غبار اور شور میں ۔۔ زندگی کے شور و شغب کی مانند جو کبھی نہیں رکتا ۔۔ اس سب کے باوجود وہ بدیعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ خواب جو اسکے مشکل دنوں اور تاریک راتوں میں اسکا ساتھی رہا تھا ۔۔ کیا اسکی امید دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی ۔۔ کہ وہ پھر واحد خط ِ مستقیم کی جانب لوٹ آئے ۔۔ جس پر وہ ایمان رکھتا ہے؟!
Writeen by:
Naguib al-Kilani, Born: June 1, 1931, Shershabah, Egypt, Arabic novelist. Died: March 7, 1995
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 211 : وہمی لکیریں
تحریر: ڈاکٹر نجیب الکیلانی (مصر)
ترجمہ:ڈاکٹر میمونہ حمزہ (راولپنڈی، پاکستان
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...