بابائے قوم مہاتما گاندھی ہندوستان کی وہ عظیم ہستی ہیں جنھیں رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتاآپ ہی کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ آج اہلِ ہند آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ آپ ہی کے زیرِ قیادت ہندوستان کی عوام نے انگریزوں کے ظلم و جور کو للکارا اورخود کو اُن کی حکومت سے نکال کر اُنھیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔آزادی کی راہ میں نہ جانے کتنے مشکل مرحلے درپیش رہے لیکن گاندھی جی نے ہمیشہ ہمت اور صبر و ضبط سے کام لے کر اپنی قوم و ملت کی آبرو قائم رکھی ۔اُنھوں نے ہندوستان کی عوام کو بھی صبر و تحمل کی تعلیم دیکر مسلسل آزادی کی راہ پر گامزن رہنے کا درس دیا۔وہ بہ یک وقت نہ صرف ایک اچھے اور سچے سیاست داں تھے بلکہ اپنے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل میں بلا تفریق ِ مذہب و ملت انسانیت کا درد بھی رکھتے تھے ہمیشہ امن و آشتی کے راگ گاتے تھے بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک اعلیٰ قسم کے تعلیم داں بھی تھے ۔اُنھوں نے تعلیم کے لئے جو خدمات انجام دیں یا جو نظریۂ تعلیم پیش کیا وہ بھی ہندوستان کی تاریخ سے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
گاندھی جی ہندوستان کی عوام کو بیدار کرنا چاہتے تھے تاکہ عوام اپنے حقوق کے بارے میں سمجھ سکے اور پُرامن طریقہ سے اپنے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرا سکے۔اُس کے لئے عوام کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری تھا۔کیو نکہ تعلیم انسان کی سوچنے سمجھنے کی قوت کو وسیع کر دیتی ہے اور وہ بہتر سے بہتر طریقہ سے اپنے کام اور منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہنچاپاتا ہے۔ایک تعلیم یافتہ انسان کے جسم میں ایک صحت مند ذہن کام کرتا ہے۔اس لئے گاندھی جی ہندوستانی عوام کو غلامی کی زنجیروں کے ساتھ ساتھ جہالت کے اندھیرے سے بھی آزادی دلانا چاہتے تھے۔
گاندھی جی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ وہ روحانیت پر مبنی ایک سماج قائم کرنے کے حامی تھے۔وہ سماج میںحق و صداقت،عدم ِتشدّد،لوگوں سے محبت،اخلاقیات اورانصاف کی باتیں عام کرنا چاہتے تھے۔جس کے لئے سماج کے ہر فرد کو تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری تھا۔اُن کا ماننا تھا کہ تعلیم ایسی ہو جو لوگوں کے سماجی،معاشی،سیاسی اور زندگی کے ہر پہلو کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو۔اِس لئے اُنھوں نے وَردھا اسکیم کامنصوبہ پیش کیا۔گاندھی جی کے مطابق صرف خواندگی یا کتابوں کو پڑھ لینا ہی علم نہیں ہے اُس کے ساتھ ساتھ انسان کو اچھے کردار،اخلاق،اطوار سے بھی مزین ہونا لازمی ہے۔گاندھی جی تعلیم کے ذریعہ سماج کی اخلاقی نشوونما(Moral development)کی حمایت کرتے تھے۔انھوں نے اس سے متعلق کچھ اس طرح لکھا ہے’’خواندگی (Literacy) نہ تو تعلیم کا آغاز ہے اور نہ ہی اختتام یہ اُن تمام ذرائع میں سے ایک ہے جس کے ذریعے مردوں اور عورتوں کو تعلیم یافتہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
گاندھی جی کے مطابق تعلیم کے ذریعہ طالبِ علموں کی ہمہ جہت ترقی(All round development)ہونا چاہئے کیونکہ ہمہ جہت ترقی کے بعد ہی وہ مکمل طور سے تعلیم یافتہ انسان اور اچھے شہری بن سکتے ہیں جو پورے سماج کے لئے مفید ثابت ہونگے۔وہ ہمہ جہت ترقی سے مراد طلباء کی روحانی،ذہنی،جسمانی،اور سماجی ترقی سے لیتے تھے۔اس سے متعلق وہ لکھتے ہیں’’تعلیم سے میری مراد بچے اور بالغ آدمی کے جسم،ذہن،اور روح میںموجود صلاحیتوں کو باہر لانے سے ہے‘‘۔ایک دوسری جگہ وہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں۔’’اصل (حقیقی) تعلیم وہ ہے جو بچے کی جسمانی،ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو اندر سے باہر لائے اور اُن میں اور نکھار پیدا کرے‘‘۔
گاندھی جی کے مطابق تعلیم کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔
تعلیم ایسی ہو جس سے طالبِ علم کی ہمہ جہت ترقی ہووہ تعلیم کے ذریعے سے روزگار فراہم کر سکے ،اُس کے توسل سے اُس کی ثقافتی نشوونما ہو سکے اور تعلیم اُس کی کردار سازی میںمعاون ہو۔
اِس کے علاوہ وہ تعلیمی نصاب کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔اُن کے مطابق تعلیمی نصاب افادیت کے اصول پر مبنی ہونا چاہئے اُس میں افادیت ہو جس کا مطالعہ کرنے کے بعد طالبِ علم میںایسی خوبیاں رونما ہوں جس سے وہ خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بن سکے۔اسی کی بنا پر وہ روزگار اور محنت پر قائم تعلیم کی ترجمانی اور اُس کی ہمایت کرتے تھے۔اِس کے ساتھ ساتھ وہ دستکاری مرکوز(craft centred)نصاب کی بھی ہمایت بھی کرتے تھے۔اُن کا یہ بھی ماننا تھا کہ بچّوں کو نصاب میں شامل مختلف قسم کے مضامین اِس طرح پڑھائے جائیں جس سے وہ الگ الگ محسوس نہ ہوں بلکہ ایک ہی موضوع لگے۔اس کے ساتھ ساتھ طالبِ علموں کی دلچسپی کا بھی خیال رکھا جائے اُن کو ایسے مضامین پڑھائے جائیںجن میں اُن کی ضرورتوں اور صلاحیتوں کو پیشِ نظر رکھا گیا ہو۔گاندھی جی جانتے تھے کہ طلباء کی ذہنی اعتبار سے الگ الگ دلچسپیاںہوتی ہیں اس لئے وہ تمام طالبِ علموں پر ایک جیسا نصاب لاگو کرنے کی مخالفت کرتے تھے۔
گاندھی جی اساتذہ کے تدریسی نظام میں ایسے طریقہ اختیارکرنے کی ہمایت کرتے تھے جس سے طالبِ علموں کو سیکھنے میں دشواری نہ ہو بلکہ وہ اس کو خوشی خوشی سیکھیں۔مثلاً سرگرمی مرکوز طریقہ(Activity method) اُس کے مطابق طالبِ علموں کو مختلف ایسے کام دئے جائیں جس میں اُن کی دلچسپی ہو،کیونکہ جب وہ اُن کاموں کو کریں گے تو اُن کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں میں نکھار آئے گا۔اور وہ خود اُس کام کو کرنے کے بعد بہت کچھ سیکھیں گے۔اِس کے ساتھ ساتھ اساتذہ طالبِ علموں میں خود مشاہدہ کر کے سیکھنے کے طریقہ(Learning by oservation) کو بھی پروان چڑھائیں۔اس کے لئے اساتدہ طالبِ علموں کو ایسے کاموں میں لگائیں جس سے وہ چیزوں کا مشاہدہ کریں۔ایسا کرنے سے اُن میں سوچ سمجھ کر کام کرنے کی صلاحیت کا جنم ہوگا جو اُن کی عملی زندگی کے لئے بہتر ثابت ہوگا۔
گاندھی جی کا ماننا تھا کہ اساتذہ کے اندر بہت سی خوبیاں ہونا بے حد ضروری ہیں مثلاًانھیں اچھے اخلاق و اطوار کا آئینہ دار ہونا چاہئے تاکہ وہ سماج میں اچھے طلباء پیدا کر سکیں گے۔اُن پر لازم ہے کہ وہ طلباء میںاچھائیوں اور برائیوں میں امتیاز کرنے اور ان کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔اگر اساتذہ یہ کام مکمل طور سے انجام نہیں دے پاتے ہیں تو اُن کے طلباء اور مشینوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔اُن کا نظریۂ فکرہے کہ ایک اچھے اُستاد کی یہ خوبی ہے کہ وہ اُن قابلیتوںاور صلاحیتوں کو اپنے اندر شامل کرے جو وہ اپنے طلباء کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔اُن کا ماننا تھا کہ اساتذہ جن چیزوں کی تعلیم اپنے شاگردوں کو دینا چاہتے ہیںاُن کو پہلے وہ اپنی عملی زندگی میں شامل کریں تاکہ وہ اپنے طلباء کو بہتر تعلیم دے سکیں اور سماج اُن سے متاثر ہو سکے۔اُن کی نگاہ میں اساتذہ کا فریضہ ہے کہ وہ طلباء میںتعلیم کے لئے رجحان پیدا کریں اور اُن کی دلچسپی اورجزبات کے مطابق اُنھیں تعلیم سے ہم کنار کرائیںساتھ ہی وہ اُن کی پریشانیوںاور دشواریوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ایک اچھے استاد کے لئے لازم ہے کہ وہ قدم قدم پر طلباء کی رہنمائی کرے اور اُن کے مسائل کا حل تلاش کرے۔اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ اساتذہ کی یہ بھی ذمیداری ہونی چاہئے کہ وہ طلباء کے ذہن کے ساتھ ساتھ اُن کے دل کی تربیت کا کام بھی انجا م دیں ۔
اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے گاندھی جی نے کچھ تعلیمی تجربے بھی کئے جس میں ’’ٹالسٹا ئے فارم‘‘ قائم کرنا یہ گاندھی جی کا سب سے پہلا اسکول تھا جو انھوں نے جنوبی افریقہ میں ۱۹۱۱ء میںقائم کیا تھا۔جہاں وہ ایک والد کی طرح بچّوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔وہ بچّوں کو اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کو کہتے تھے اِس کے ساتھ ساتھ وہ اُن کی سیرت و اخلاق کی تربیت پر زیادہ زور دیتے تھے۔اُن کا دوسرا تجربہ ہندوستان میںسابرمتی آشرم قائم کرنا تھا جو انھوں نے۱۹۱۴ء میں قائم کیا۔یہاںاُنھوں نے اپنے مخصوص اُصولوں کی ترجمانی کے لئے ایک اسکول احمدآباد میں قائم کیا جہاں اُنھوں نے اپنے کام کو اپنے ہاتھ سے کرنے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ چرخہ کاتنے کا کام بھی لازم و ملزوم قرار دیا۔ گاندھی جی اپنے اِس عمل سے طلباء میں یہ جزبہ بھی پیدا کرنا چاہتے تھے کہ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ہے۔اپنے کام خود کرنے سے انسان خود کفیل ہوتا ہے،وہ خود مشاہدہ کرتا ہے اور اس کی ذہنی،اور جسمانی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔
الغرض گاندھی جی کا نظریۂ تعلیم وہ نظریۂ تعلیم ہے جس پر عمل کرکے طلباء سماج و کائنات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنواسکتے ہیں اور اپنے ملک و قوم کا نام مزید روشن کر سکتے ہیں۔المختصراپنے نظریۂ تعلیم کے باعث بھی بابائے قوم مہاتما گاندھی ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...