چرچل بھارت کے مخالف اور قائداعظمؒ کے حامی تھے: امریکی جریدہ
قائداعظمؒ کی کوششوں سے برطانیہ اگست 1948ء تک پاکستان کو آزادی دینے کے حق میں تھا، مگر ماﺅنٹ بیٹن نے عجلت میں مسلمانوں پر ”چُھری“ چلا دی۔ ماﺅنٹ بیٹن اور دوسرے انگریزوں نے مسلمانوں کو گروپوں میں تقسیم کیا، یہ محض اتفاق نہ تھا بلکہ پورے برطانوی سسٹم کی یہی منشا تھی۔
امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق ماﺅنٹ بیٹن کو 15 اگست کو قیامِ پاکستان کے عمل میں تیزی پیدا کرنے کے لیے ہی بھیجا گیا تھا۔ ماﺅنٹ بیٹن برطانیہ میں عجلت میں کام کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ پرنس فلپ کے انکل ماﺅنٹ بیٹن عرف ڈکی بعد ازاں آئرش ری پبلک آرمی کے بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد نہرو پہلے بھارتی وزیرِاعظم بنے اور جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل۔ نہرو نے 1946ء میں ایک صحافی سے کہا تھا کہ ”بھارت میں کسی قسم کا فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہو گا، جبکہ قائدِاعظم محمد علی جناحؒ قیامِ پاکستان کے مطالبے پر قائم تھے۔
برطانیہ نے ان کی باتوں کو درست مان لیا تھا۔ بالخصوص مسٹر چرچل قائداعظمؒ کے ساتھی تھے اور ان کی تجاویز کی حمایت کر رہے تھے۔ ہندو رہنما کیمونزم کے قریب تر ہوتے جا رہے تھے جسے برطانیہ اور امریکا میں خطرے کی گھنٹی سمجھا جا رہا تھا۔
چرچل سمجھتے تھے کہ سیکولر یا کیمونزم کی جانب بڑھتے ہوئے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا بہتر اور آسان تھا۔ وہ پاکستانی نظریے اور سوچ کو مغرب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ سوشلسٹ بھارت سے قربتیں بڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔
برطانوی سلطنت کے اندر پائی جانے والی اس سوچ سے بحران نے جنم لیا کیونکہ ان کا مقصد ہی بحران پیدا کرنا تھا۔ دراصل برطانیہ طویل عرصہ سے جمہوری روایات کی مزاحمت کر رہا تھا۔ 1660ء سے 1850ء تک تاج برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان کو محکوم بنا رکھا تھا اور یہ عمل قیامِ پاکستان تک جاری رہا بلکہ 1857ء کی جنگِ آزادی اس مزاحمت کا واضح ثبوت تھی۔
ریاستوں میں بھی اس عرصے میں برطانوی حکومت کے خلاف تحریکیں اٹھیں جنہیں بزور طاقت دبا دیا گیا۔ باﺅنڈری بظاہر پرامن مزاحمت کے حامی تھے لیکن تحریکوں کو دبانے کے لئے وہ طاقت کے استعمال کے حامی تھے جس کا لازمی نتیجہ ابھار کی صورت میں نکلا۔
بیسویں صدی میں جمہوریت کی آبیاری کے بہت سے مواقع تھے جو بھارت میں تاج برطانیہ نے پس پشت ڈال دیے۔ 1930ء میں جوشی نے آئینی اصلاحات کی تجویز پیش کی۔ وائسرائے کے مطابق اس تجویز کو مان کر ہم خطے میں اچھی جمہوریت بھی قائم کر سکتے تھے لیکن چرچل اور دوسرے سخت گیر رہنماﺅں کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔
کئی برطانوی اسے درست نہیں مانتے۔ مسٹر ایٹلی کہتے ہیں کہ ”یہ ان الزامات میں سے ایک ہے جو ہم نے اولڈ بوائے کیخلاف قائم کیے، ان کا اشارہ گاندھی کی طرف تھا۔ برطانوی سیاست دان اس بات سے باخوبی آگاہ تھے کہ ہندوستان میں برطانوی سسٹم کارگر ثابت نہیں ہو رہا لیکن وہ کسی تبدیلی کے حق میں نہ تھے لیکن اس بات پر بھی متفکر تھے کہ یہ تبدیلی کیسے لائی جائے۔
اس طرح ان کے خیالات تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور اس کے نتائج بھی اچھے نہیں نکلے۔ روڈیالڈ اٹلی نے واضح طور پر لکھا کہ ”ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر کمزور کر دیا جائے“۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے مضمون میں ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی حکمت عملی کو غلط قرار دیا ہے۔ اخبار نویس لکھتا ہے کہ ”ذات پات کا سسٹم ہزاروں سال سے بھارتی تاریخ کا حصہ ہے“ یعنی انڈیا ہزار ہا برس سے خود ہی اس کے شہریوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔
ذات پات اور اندرونی تقسیم کا یہ نظام برطانوی دور میں شروع نہیں ہوا لیکن برطانویوں نے بھارت کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ اسی کو مارشل ریس اور کسی کو جرائم پیشہ قبیلہ قرار دے دیا۔
1870ء کے بعد سے ذات برادری اور زبان مردم شماری کے ہر ریکارڈ کا حصہ رہی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لاجسٹیو اسمبلی نے یورپیوں، سکھوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے الگ الگ سیٹیں مخصوص کیں۔
یہی نہیں پسماندہ طبقوں، جاگیرداروں، تاجروں اور زمینداروں سمیت متعدد طبقات اور گروپوں کی بھی نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ اس طرح درحقیقت ان کا مقصد ہندوستانی معاشرے کو مختلف برادریوں، گروہوں اور طبقات میں تقسیم کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا تھا اور ان کا مقصد اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
یہ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی سوچ کا عملی مظہر تھا۔ اسی طرح انگریزوں نے ہندوﺅں اورمسلمانوں میں انتشار ڈالا، انہیں مزید چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کرنے کی بھی سازش کی۔ یہ محض اتفاقیہ بات نہ تھی، اس کے پیچھے برطانوی حکومت کا پورا مینڈیٹ تھا۔
ماﺅنٹ بیٹن مارچ 1947ء میں بھارت آئے تھے۔ اس وقت برطانوی حکمران جو کچھ برصغیر میں کر سکے تھے، اسے رول بیک کرنا ممکن نہ تھا۔ مذہب، اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ہندوﺅں اور مسلمانوں میں بھی کئی گروپ تشکیل دئیے جا چکے تھے۔
مسلمانوں اور ہندوﺅں میں کسی انتشار کے باعث انگریزوں کیخلاف بد اعتمادی کی فضا قائم تھی۔ جس روز ماﺅنٹ بیٹن نے بھارت میں قدم رکھا اسی دن پٹنہ میں پولیس نے ہڑتال کر دی۔ جس میں 70 افراد ہلاک اور ہزار افراد زخمی ہوئے۔
کلکتہ میں بھی بم دھماکے ہوئے جس میں متعدد افراد ہلاک اور 3 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ امرتسر میں فرقہ وارانہ فسادات میں 360 افراد مارے گئے جبکہ مردان میں فرقہ وارانہ فسادات میں 14 پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔
دہلی میں انتہا پسندی کے واقعہ میں 2 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہ تھا۔ ماﺅنٹ بیٹن کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے نہ تو افرادی قوت تھی اور نہ ہی دوسرے ذرائع۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہندوستان کے معاملات براہ راست برطانوی حکومت نے سنبھال لیے تھے اور وہ یہاں مزید فوجی دستے یا وسائل بھیجنے پر آمادہ نہ تھے۔ پہلے سے پیدا شدہ بد اعتمادی سے ماﺅنٹ بیٹن کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی گروپ ان کے ساتھ نہ تھا۔ قیام امن کے لیے باﺅنڈری فورس بنائی گئی۔ 50 ہزار افراد پر مشتمل یہ دستہ لاکھوں افراد پر کیسے قابو پا سکتا تھا؟
برطانوی کنٹرول اور دلچسپی ختم ہونے سے بہت نقصان ہوا۔ یہی سوچ کر ماﺅنٹ بیٹن نے جلد از جلد جان چھڑا نے کی کوشش کی۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے لیے نئی سرحدی حد بندی پر کام شروع کر دیا۔
اسی کا حوالہ دیتے ہوئے ماﺅنٹ بیٹن نے 16 اگست کو کہا کہ ”ہم تقسیم کے عمل کو ملتوی کر سکتے تھے، مگر اس صورت میں برطانیہ کو بہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا“۔
اسی لیے ماﺅنٹ بیٹن نے ہندوستان سے نکلنے کے لیے اپنی رفتار تیز تر کر دی اور جلد از جلد برطانوی حاکمیت کے خاتمے کی تجویز پر غور شروع کر دیا۔ تاہم یہی سچائی ہے کہ جس تیزی سے برطانیہ نے برصغیر میں اپنی حاکمیت قائم کی، اتنی ہی تیزی سے یہاں نکلنے کی کوشش کی۔
اس سے انتظامی خلا پیدا ہوا اور ملک بھر میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ انہیں بچانے والی مشنری دم توڑ چکی تھی۔ شاید مغرب یہی چاہتا تھا۔ اس کا ایک ہی مقصد تھا، اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت سے مالا مال یہ علاقہ کبھی متحد نہ رہ پائے، یہ مقصد تو بہرحال حاصل ہو گیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔