جگر
تو صاحب ! جگر یعنی کلیجا ۔۔جسم کا وہ عضو جو خون کا لوتھڑا ۔۔بقول شخصے اندر ہو تو کلیجا ۔۔باہر نکل آئے تو کلیجی ۔ ۔۔انتہائی ثقیل اور دیر ہضم ۔۔اگر آپ کا جگر گوشہ یا لختِ جگر کوئی جگر خراش کام کر جائے جس سے حاسدوں کی انگلیاں اٹھانے کا موقع اور کلیجا ٹھنڈا کرنے کا سامان میسر آجائے تو یقیناً آپ کا کلیجا منھ کا آجائے گا یا پھر جگر چھلنی ہو جائے گا ۔۔اور ان کے کلیجے میں ایسی ٹھنڈک پڑجائے گی کہ کشمیر کی یخ بستہ ہوائیں بھی اپنا جگر پیٹ لیں ۔۔۔واضح ہو ملکی جغرافیائی ماحول سے مثال دی ۔۔اگر غیر ملکی ہوائی چھوڑتا تو اس میں یار لوگوں کو غیر ملکی ہاتھ نظر آتا ۔۔ویسے برسبیلِ تذکرہ عرض ہے ۔۔برسوں پہلے غالب پٹنے پٹانے کا ذکر اپنے کئی اشعار میں کرچکے ہیں ،
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
اور ۔۔حیران ہوں کہ روؤں یا پیٹوں جگر کو میں ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔اب انہیں جگر پیٹ کر کیا ملا ؟۔۔یہ الگ موضوع ہے ۔مگر علامہ نے ،
چیتے کا جگر چاہیے شاہین کا تجسّس ۔۔۔کی ڈیمانڈ کی جو ہمارے شاہین بچوں میں عنقا ہے ۔۔اور وہ جو کارنامے انجام دے رہے ہیں اس سے جگر کانپ ہی نہیں جاتا بلکہ پاش پاش ۔۔حتیٰ کہ پھٹ جاتا ہے ۔
شاید دل اور جگر کا رشتہ کافی پرانا اور دیرپا ہے ۔۔دل جگر کو پڑوسی جو ٹھہرا ۔۔وہ پڑوسی کے حقوق بخوبی ادا کرتا ہے ۔۔ہر چند کہ ہم پڑوسیوں کے حقوق فراموش کر چکے ہیں ۔۔اب دیکھیئے ،
جگر پھٹنا ۔۔۔صدمے سے دل کے ٹکڑے ہو جانا
جگر تھام کے بیٹھ جانا ۔۔۔صدمے سے دل کو پکڑ کر بیٹھ جانا ۔۔۔۔جگر چاک ہونا ۔۔۔دل ٹوٹ جانا وغيرہ ۔۔۔مطلب عمل جگر پر ہوتا ہے ۔۔اور ردعمل ۔۔دل پر ۔
مطلب وہی ،
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنا دیا
اور تو اور ۔۔یہ جگر صاحب ۔۔خود جلتے ہیں ۔۔پھٹتے ہیں ۔۔ چاک ہوتے ہیں ۔۔پارہ پارہ ہوتے ہیں ۔۔حتیٰ کہ دوسرے کی چوٹ سے اپنا ہی جگر چاک کیے دیتے ہیں ۔۔مگر یہ معدودے چند امیر مینائی صاحب جیسے ہوتے ہیں ،
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
ایک بات سمجھ نہ آئی ۔۔ پہلے شعرا کتنے ہاتھ رکھتے تھے ؟ ایک شاعر نے کہا ،
آہیں نام بھریں شکوے نام کیے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا
ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہاتھوں سے کلیجا تھام لیا
شاید ان کا کلیجا کچھ زیادہ ہی شق ہوا تھا ۔۔اسی لیے ایک ہاتھ سے دل کو پکڑنے کے ساتھ دوسرے زائد ہاتھوں سے کلیجا تھامے ہوں !!
کچھ لوگ جگر والے ہوتے ہیں تو بعض اتنے کمزور کہ ذرا سی بات پر جگر کانپ جاتا ہے ۔۔کچھ جگر سوزی میں ماہر ۔۔ سنتے ہیں رگ وریشوں میں دھیما احتراق ہوتا ہے ،مگر جگر میں باقاعدہ جلن ہوتی ہے ۔۔اور پھر جگر سے دھواں بھی اٹھتا ہے ۔۔۔پتا نہیں یہ دھواں کہاں خارج ہوتا ہے ؟؟۔۔غالب بھی اسی لیے پریشان تھے کہ ،
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
شاید آہ سرد اسی لیے بھری جاتی ہے ۔۔۔قتیل کو بھی یہی شکایت تھی جبھی وہ آہ سرد نکالے کہتے ہیں ،
گرمئی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
اب یہ الگ بحث ہے کہ حسرت ناکام میں گرمی کہاں سے آگئی !!۔۔جگر پر چھریاں چلنے سے یہ چھلنی بھی ہو جاتا ہے ۔۔۔مگر پھر جگر لخت لخت کو جمع کیا جاتا ہے ۔۔غالب اگر اکثر اس کارگر نسخے پر عمل کرتے تھے ،ورنہ جام سفال کی طرح اور بازار سے جگر کو کہاں سے لاتے ؟۔۔اسی لیے کہہ گئے ،
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
تاکہ وقت ضرورت کام آئے ۔۔ تعجّب ہے !! کلیجا منھ کو آتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے !!۔۔جگر خون ہوتا ہے ۔۔بلکہ پانی پانی بھی ہوتا ہے ۔۔واضح رہے پتہ بھی پانی ہوتا ہے ۔۔۔اور شرم سے ہر شریف پانی ہوجاتا ہے ۔۔اقبال کی بات تو قلندر کو بھی پانی پانی کرگئی تھی ۔۔اف !۔۔محاوروں کے آگے کیسے کیسے پانی بھرتے ہیں !! خیر ۔۔۔جگر پر اتنی صعوبتیں جھیلنے کے باوجود ۔۔جگر والے جگر پر پتھر رکھ لیتے ہیں کہ یہ اپنا جگری دوست ہے ۔۔ایک شاعر کا جگر سے محبت کا یہ بین ثبوت ہے کہ انہوں نے تخلص ہی جگر رکھ لیا اور سب کو شعروں سے مارنے کا کام لینے لگے ۔۔۔مگر ہائے دختر رز سے مار کھا گئے ،
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا