اقبال کی شاعری کی ہمہ جہتی دیکھ انگشت بدنداں رہ جانے کو دل چاہے ۔وہ بیک وقت فلسفی بھی ہیں تو حکیم امت بھی ،وہ عشق مجازی کے مجاز بھی ہیں تو عشق حقیقی کے فسوں ساز بھی ،وہ مفکر بھی ہیں تو سادگی و پرکاری کے پیکر بھی ،وہ دور ازکار تشبیہات واستعاروں کے جادوگر بھی ہیں تو سہل ممتنع کے کوزہ گر بھی ۔۔گویا وہ ہر مکتب فکر شاعر ہیں اور یہی بات انھیں دیگر شعراء سے ممیز کرتی ہے ۔
جہاں اقبال سعی پیہم ،یقیں محکم ۔۔آفتابِ تازہ ۔۔بطن گیتی یا آداب خود آگاہی جیسی تراکیب مستعمل کرتے ہیں وہیں وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر بچوں کی زبان استعمال کرتے ہیں ۔۔۔سادہ ،سہل ،سیدھا سادہ انداز جو راست دل وذہن میں اتر جائے ۔
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
دیکھیے ۔۔کتنی سادگی سے گائے شکایت کررہی ہے ،
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے
جبکہ شکوہ میں ان کا لہجہ جدا ہے ۔
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
بکری کی فہمائش پر گائے اعتراف کرتی ہے ،
یوں تو چھوٹی ہے بات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
اور وہاں جواب شکوہ میں ۔۔اقبال خجالت سے کہہ اٹھتے ہیں ،
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہی ہے اقبال کی ہما رنگی،یہی ہے مختلف کیفیات جس سے وہ نبردآزما ہیں کہ ۔۔ترانہ ہندی میں ،
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
کہلواتی ہے تو تڑپ کر ترانہ ملی میں بول پڑتی ہیں ،
مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ حقیقت ہے کہ افسر میرٹھی اور اسمعیل میرٹھی نے بچوں کی نفسیات اور ان کی استعداد کو ملحوظ رکھ ادب اطفال میں گراں قدر اضافہ کی،
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
یا
تم ندی پر جاکر دیکھو جب ندی میں نہائے چاند
ڈبکی لگائے غوطہ کھائے ڈر ہے ڈوب نہ جائے چاند
مگر وہ اقبال جو کبھی رومی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں ۔۔جو کبھی ابلیس کی مجلس میں تو کبھی لینن کے حضور نظر آتے ہیں یا ساقی نامہ میں نظر آتے ہیں ۔وہی اقبال جو کہتے ہیں ،
شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
وہی اقبال پرندے کی فریاد کس سادگی سے بیان کرتے ہیں ،
آتا ہے یاد مجھکو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ میرا آشیانہ
وہاں شکوے کا لہجہ دیکھیے اور یہاں شکایت کا انداز ۔۔بالکل جداگانہ ہے ۔ان کی مکالماتی شاعری اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے جو انہوں نے خصوصاً بچوں کے لیے کی ہے ۔
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
یا
کہتا تھا رات سر پہ آئی
اڑانے چگنے میں دن گزارا
یا ایک مکڑا اور مکھی کا مکالمہ دیکھیے ،
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
اقبال کے کلام کی نمایاں خصوصیات برمحل محاورے ،تشبیہات واستعاروں کا استعمال ہے ،
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
تو ہی آمادہ ظہور نہیں
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اقبال نے بچوں کے لیے بھی انھیں مستعمل کیا ہے مگر ۔۔عام فہم ،سہل۔الفاظ کا چناؤ بھی خوب ہے مترنم و سلیس وسادہ،
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
اک چراہ گاہ ہری بھری تھی کہیں
اقبال نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں اس میں جو درس دیا ہے وہ خصوصاً آخری شعر میں نظر آتا ،
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم ،وطن ہے ہندوستاں ہمارا
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
اقبال نے جہاں بچوں کو حرکت وعمل ،اخوت باہمی ،ایثار و قربانی اور جذبہ ہمدردی کی تعلیم دی وہیں حب الوطنی کو بھی مقدم رکھا ۔
چشتی نے جس زمیں پہ پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے ،میرا وطن وہی ہے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...