1918 کے اوائل میں جب دنیا پہلی جنگ عظیم میں مصروف تھی، سپین کے ملک میں فلو کی وبا پھوٹی جس نے باقی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔ البتہ اس سے بہت کم اموات ہوئیں۔ زیادہ تر لوگ نزلہ زکام اور بخار کے بعد صحتیاب ہوگئے۔
پھر اسی سال 1918 میں جب سرما کا آغاز ہوا تو فلُو وائرس نئے سرے سے دنیا پر حملہ آور ہوا اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ متاثر کرنا شروع کیا۔ اس وقت عالم یہ تھا کہ جس شخص کو یہ وائرس لگتا، وہ چند گھنٹوں سے لے کر تین یا پانچ دن کے اندر اندر مر جاتا۔ اس وقت تک نہ تو ٹیسٹ کی سہولیات موجود تھیں، نہ ہی اینٹی وائرس یا انیٹی بیکٹریل ادویات موجود تھیں، چنانچہ دنیا بھر میں دو کروڑ سے لے کر دس کروڑ تک اموات ہوئیں اور یہ معلوم تاریخ کا سب سے خطرناک ترین وبائی مرض بن گیا۔ صرف امریکہ میں پونے سات لاکھ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگلے سال مارچ کے اواخر میں یہ وائرس خودبخود ختم ہوگیا۔
1951 میں جان ہلٹن نامی ایک 25 سالہ سویڈش مائکرو بائیولوجسٹ جو کہ امریکہ میں پی ایچ ڈی کررہا تھا، اس نے 1918 کے اس موذی وائرس پر تحقیق کرنے کا سوچا۔ اس مقصد کیلئے اسے اس وائرس کا سامپل چاہیئے تھا جو 1918 میں مرنے والے شخص کے پھیپھڑوں سے ہی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ہلٹن نے امریکی ریاست الاسکا جانے کا فیصلہ کیا جو پورا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ الاسکا کے ایک ٹاؤن میں 40 افراد کی ایک اجتماعی تدفین ہوئی تھی جو فلُو وائرس سے ہلاک ہوئے۔ ہلٹن کو امید تھی کہ برف کی وجہ سے ان کی نعشیں محفوظ ہوں گی۔
وہ اس علاقے میں گیا، وہاں کے لوگوں سے قبرکشائی کی اجازت حاصل کرکے اس نے قبر کھودی اور ایک شخص کے پھیپھڑوں کا سامپل لے کر واپسی کا سفر شروع کیا۔
جس فلائیٹ سے اس کی واپسی ہونا تھی، وہ جہاز کئی شہروں میں رک کر فیولنگ کرتا تھا۔ وائرس کا سامپل ٹھنڈا رکھنے کیلئے ہلٹن کو کئی پاپڑ بیلنا پڑے۔ منزل مقصود پر پہنچ کر اس نے لیب میں اس سامپل کا تجزیہ کیا لیکن کچھ حاصل نہ کرپایا۔
اس واقعہ کے ٹھیک 46 سال بعد 1997 میں جب ہلٹن 71 سال کا ہوچکا تھا، اس نے جیفری نامی ایک سائنسدان کا کسی میگزین میں آرٹیکل پڑھا جو اسی وائرس سے متعلق تھا۔ جیفری کے ہاتھ 1918 میں مرنے والے ایک فوجی کے پھیپھڑوں کا سامپل لگا تھا جسے نیویارک کے ہاسپٹل نے سردخانے میں محفوظ کرلیا تھا۔
ہلٹن نے یہ آرٹیکل پڑھ کر جیفری کو خط لکھا اور اس پر مشترکہ کام کرنے کی تجویز دی جسے جیفری نے قبول کرلیا۔
پھر اس 71 سالہ ہلٹن نے اپنی جیب سے سفر کے اخراجات ادا کرکے واپس الاسکا کا سفر کیا۔ ایک مرتبہ پھر ٹاؤن کے معززین سے اجازت طلب کی اور چند مزدوروں کی مدد سے کھدائی کرکے ایک خاتون کے پھیپھڑوں کا سامپل نکالا۔
اب کی بار سٹوریج کی سہولیات موجود تھیں۔ چنانچہ ہلٹن نے ساتھی سائنسدان سے مل کر اس وائرس پر تحقیقات شروع کیں۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح اس وائرس کا بلیو پرنٹ یعنی خدوخال حاصل کرلئے جائیں۔
قصہ مختصر، 1999 میں ہلٹن اور دوسرے سائنسدان اس خطرناک وائرس کا مکمل ڈھانچہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چونکہ 1918 سے قبل کے کسی بھی وائرس کی پراپرٹیز ان کے پاس نہ تھیں، اس لئے فلو وائرس کے سورس کے بارے میں ابھی تک اندھیرے میں ہی رہے۔
2000 میں مزید ریسرچ کے بعد معلوم ہوا کہ اس وائرس کے باہر موجود پروٹین کی سطح اسے انسانی خلیات میں سراعت کرنے میں مدد دیتی ہے اور یہ بآسانی سانس کی نالیوں سے ہوتا ہوا پھیپھڑوں میں پہنچ کر انفیکشن کردیتا ہے جو کہ انتہائی تیزی سے پھیل جاتی ہے۔
2005 میں ڈاکٹر ٹمپی نامی سائنسدان نے اس وائرس کو مزید جاننے کیلئے اسے بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے امریکی حکام سے بڑی مشکل سے اجازت ملی، جس لیب میں کام کرنا تھا، اسے ہر طرح سے سیکیورڈ کیا گیا اور تقریباً وہی سیکیورٹی بنائی گئی جو آپ کو ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آتی ہے۔
المختصر یہ کہ شب و روز کی محنت کے بعد ڈاکٹر ٹمپی بالآخر اس موذی وائرس کو لیب میں تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ میڈیکل سائنس کی تاریخ کے چند ایک اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
پھر اس وائرس کو چوہوں پر ٹیسٹ کیا گیا اور نتائج وہی نکلے جو 1918 میں انسانوں پر ہوئے تھے۔ اب کی بار سائنسدانوں کے پاس ایک جیتا جاگتا وائرس موجود تھا جس کی مدد سے اینٹی بائیوٹک اور اینٹی وائرل ادویات تیار کی جاسکتی تھیں۔