نواز کاوش کی’’مسافتوں کے حوالے‘‘
نوازکاوش سے میری ادبی شناسائی ستر کی دَہائی میں ہوئی تھی۔کب اور کہاں پہلی ملاقات ہوئی؟،یہ تو اب یاد نہیں لیکن اکتوبر ۱۹۷۸ء میں جب جدیدادب خان پورکا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس میں نواز کاوش کی غزل بھی شامل تھی۔پہلے شمارے کی اشاعت کے بعد ان کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انہوں نے رسالہ سامنے رکھ کر چند مفید مشورے بھی دئیے۔بہاول پور، ڈویژن کا مرکزی شہر ہونے کی وجہ سے خان پور کے مقابلہ میں کہیں زیادہ متحرک شہر تھا۔اس لیے یہاں کے شاعروں،ادیبوں میں مجلسی اور تقریباتی سطح پر بڑا تحرک پایا جاتا تھا۔علاقائی صحافت کے فروغ کے باعث مقامی طور پر اشاعت کی سہولت بھی موجود تھی۔اس زمانے کے بعض شاعروں،ادیبوں کو پلٹ کر دیکھتا ہوںتوان میں سے بعض تو دنیاوی فوائد کے حصول کے بعد مطلع ادب سے ہی غائب ہو گئے۔بعض نے تخلیقی عمل کے مقابلہ میں تقریبات کے انعقاداور تصاویر کی اشاعت کو فوقیت دی اور آج تک’’جیسے بھی ہیں اورجہاں بھی ہیں‘‘کی بنیاد پرتقریبات اور تصاویرکے بل پر جیئے جا رہے ہیں۔نتیجہ یہ کہ ایسے برائے نام شاعر اور ادیب پوری زندگی گزار کربھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن کھڑے تھے۔
نواز کاوش شروع سے ہی ترقی پسندافکار سے متاثر تھے تاہم ان کے ہاںغزل کا داخلی مزاج اور میلان بھی شروع سے ہی تھا۔میرے خان پور شہر کو چھوڑنے کے ساتھ جدیدادب خان پوربند ہو گیا۔پھر زندگی کی اپنی اپنی بھاگ دوڑ میں زمانے گزر گئے۔اب کہ انٹرنیٹ کی سہولت میسر آجانے کے بعدروابط آسان ہو گئے ہیں توہم انٹرنیٹ کے جہاں میں ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے ہیں۔’’ کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آکے ملے‘‘۔اس رابطے کے نتیجہ میں نواز کاوش کی ذاتی زندگی کا پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ وفات پا گئی تھیں۔پھر انہوں نے دوسری شادی کی۔درس و تدریس کے شعبہ سے باوقار طور پر وابستہ ہیں۔ذاتی زندگی کے ساتھ ان کی علمی،ادبی اور تخلیقی پیش رفت کا علم ہوا۔ شاعری کا ایک مجموعہ چھپ چکا ہے۔دوسرا مجموعہ’’مسافتوں کے حوالے‘‘ اب چھپنے جا رہا ہے۔ اس مجموعہ کی ان کی غزلیں میرے سامنے ہیں۔ ان کے اس مجموعہ کی شاعری ان کی زندگی کی اب تک کی مسافت کا شعری اظہار ہے۔پہلے ترقی پسند اثرات سے مزین ان کی غزلوں کے چند اشعار دیکھتے ہیں۔
منزلوں سے بھٹکنا پڑتا ہے
منفرد راستے بناتے ہوئے
عشق میں زہر کا پیالہ بھی
پینا پڑتاہے مسکراتے ہوئے
ہم اپنی سوچ کا پھر زاویہ بدلتے ہیں
یہ فیصلہ ہے کہ اب بادشہ بدلتے ہیں
اسی پہ نظریں جمی ہیں تمام بستی کی
کسان مر کے جو لڑکی جوان چھوڑ گیا
بکے ہیں بستے علالت میں میرے بچوں کے
انہیں بھی مہنگا پڑا ہے مِری دوا کرنا
یہ ترقی پسند روایت سے مخصوص شاعری ہے لیکن نواز کاوش نے اسے محض روایتی نہیں رہنے دیا۔انہوں نے اجتماعی موقف کے ساتھ اپنی ذاتی کیفیات کو سلیقے کے ساتھ بیان کرنے کی کاوش کی۔
شہر کے لوگ مرا ساتھ نہیں دے سکتے
میری منزل کوئی جنگل ، کوئی صحرا ہو گا
ایک مدت سے مرے گھر میں اندھیرا ہے محیط
آپ آئیں گے تو اس گھر میں اجالا ہوگا
ویسے تو دیگر سرکاری محکمہ جات کی طرح عدلیہ کا محکمہ بھی ایک عرصہ سے بعض انوکھے فیصلے کرتا آرہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ عدلیہ نے اچھے فیصلے نہیں کیے۔بعض بہت اچھے اور تاریخی فیصلے بھی ہماری عدلیہ نے کیے ہیں اور کر رہی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسی عدلیہ کے بعض ادوار میں ایسے ایسے فیصلے بھی ہوئے جو بعد میں دنیا بھر میں پاکستان کی رُسوائی کا موجب بنے۔بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے لے کر آج دہشت گردوں کو شک کا فائدہ دے کر بری کردینے والے فیصلوں تک عدلیہ کا جو روپ سامنے آتا ہے، اسی کے پیش نظر نواز کاوش کہتے ہیں۔
یہ حرف حرف ہیں فلمی کہانیوں کی طرح
جو فیصلے مِیرے جج نے سنا دئیے اب کے
دہشت گردی کا ذکر ہوا ہے تو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ملک بھر میں دہشت گردی کی جو لگاتار کاروائیاں ہو رہی تھیں ان کا ذکر بھی نواز کاوش کی غزلوں میں دکھائی دیتا ہے۔آئے دن کے دھماکوں اور میڈیا میں موجود دہشت گردوں کے ہمدردوں کی نکتہ آفرینیاں،یہ سب کچھ نواز کاوش کے ہاں مایوسی میں گھرتا ہوا یوں آتا چلا گیا۔
کہاں یہ جبر میں لپٹی فضا تبدیل ہونی ہے
ابھی تو اس زمیں پر ظلم کی تکمیل ہونی ہے
سروں پر ظلم کی تلوار آ پہنچی ہے طے کر لو
کفن بردار لشکر کی ابھی تشکیل ہونی ہے
خدا بھی شہر کی دہشت گری پر
بہت حیران ہوتا جا رہا ہے
یہ پُر رونق سا رستہ شام ہی سے
بہت ویران ہوتا جا رہا ہے
گھروں میں اب قضا اترے گی کاوشؔ
یہ کیا اعلان ہوتا جا رہا ہے
نشانِ ظلمتِ شب کو مٹائیں گے کیسے
سپردِ صورتِ حالات ہو گئے ہم لوگ
ہر ایک سمت فصیلیں ہیں در نہیں آتا
یہ کس طرح کا سفر ہے کہ گھر نہیں آتا
ستر کی دَہائی پاکستان میں رائیٹ اور لیفٹ کے نظریات کی دَہائی تھی۔نواز کاوش فطری طور پر خود کو لیفٹ والوں کے قریب پاتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کہیں کہیں خود کو دونوں نظریات کے درمیان متوازن رکھنے کی کاوش بھی کرتے رہے۔شاید ایسی ہی متذبذب کیفیات تھیں جب انہوں نے کہا:
سفر طویل سہی اب تو فیصلہ ہے یہی
تھکن اتارتے ہیں ،قافلہ بدلتے ہیں
بس ایک سچ ہی ضروری نہیں محبت میں
منافقت بھی ہے جائزاشد ضرورت میں
فکری کشمکش ایک الگ مسئلہ ہے۔اس میں ذہن اور دل کی کھینچا تانی چلتی ہے۔نوازکاوش کا دوسرا شعر’’نظریۂ ضرورت‘‘کی باز گشت سی لگتا ہے۔ہم جنرل ضیاع الحق کے دور کے اثرات سے من حیث القوم ابھی تک باہر نہیں آسکے۔آج بھی زندگی کے ہر شعبہ میں جنرل ضیاع الحق کا مائنڈ سیٹ ہی چھایا ہوا ہے۔دہشت گردی کی ساری وارداتوں کے سلسلے بھی بنیادی طور پر جنرل ضیاع الحق کے دور سے جا کر ملتے ہیں۔ اس قومی المیہ کو نواز کاوش نے عمدگی کے ساتھ اپنے حوالے سے نشان زد کر دیا ہے۔
غزل کے عمومی مزاج میں رچی ہوئی نواز کاوش کی غزلوں میں سب سے پہلے ان کی پہلی اہلیہ کی وفات کے سانحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے دو نہایت جاندار شعر دیکھیں۔
لمبی مسافتوں کے حوالے کہاں گئے
بے چین ہو کے ڈھونڈنے والے کہاں گئے
کتنی ریاضتوں سے بنایا تھا اپنا گھر
لیکن اسے سنبھالنے والے کہاں گئے
تو گیا تھا تو تیرے ساتھ یہ سپنے جاتے
اب یہ بہتے ہوئے آنسو نہیں روکے جاتے
بات ایسی نہ بھی ہو لیکن پھر بھی بات بنتی ہے کہ وقت گزرنے اور جدائی کے زخم بھرنے کے ساتھ دوسری شادی کے امکانات ان کی غزل میں یوں ابھرنے لگتے ہیں۔
اک نئی کہانی ہے
جو تمہیں سنانی ہے
بخت جاگ اُٹھیں گے فاصلے مٹاؤ تو
دو قدم محبت میں میرے ساتھ آؤ تو
عشق کی عدالت میں دل ہے پیار کا مجرم
ایسے سخت مجرم کو فیصلہ سناؤ تو
ان سے پہلی بار مل کر دل یہ کہتا ہے نوازؔ
جیسے کچھ ہفتوں میں ہم سے آشنا ہو جائیں گے
چونکہ مجھے نواز کاوش کی شادیوں کا علم تھا اس لیے آسانی سے ایسے اشعار مل گئے جن میں ان کی ’’مسافتوں کے حوالے‘‘براہِ راست موجود تھے۔لیکن غزل فی ذاتہ زندگی کی مسافتوں کے کئی جہان آبادکرتی چلی جاتی ہے۔اس کے موضوعات با حوالہ ہوں یا بلا حوالہ ہوں اپنے قاری کی زندگی کے سفراور زندگی کی خواہشوں یاحسرتوں کا عکس بنتے چلے جاتے ہیں۔سو نواز کاوش کی غزل کے ایسے چند متفرق اشعار یہاں پیش کر رہا ہوں۔ان میں اردو غزل کی روایتی خوبیوں کے ساتھ نواز کاوش کی اپنی شخصیت کا عمدہ اظہار موجودہے۔انہیں آپ غزل کے اچھے اور بھرپور اشعار کہہ سکتے ہیں۔
کبھی خیال کبھی خواب مار دیتاہوں
ترے بغیر یہ دن یوں گزار دیتا ہوں
اسے ملال نہ ہو اس لیے بسا اوقات
میں دل کی بازی سہولت سے ہار دیتا ہوں
میں تیرے دل سے تو باہر نکل نہیں سکتا
کہ اس مقام تک آتے ہوئے زمانے لگے
زمیں پہ اترے کہ اب تک اسی اُڑان میں ہو
ہمارے بعد کہو گوشۂ امان میں ہو
کہیں یہ ردِ عمل تو نہیں ہے دوری کا
نہ دھڑکنوں میں ہو باقی نہ اب گمان میں ہو
زندگی سے کیا ڈرنا
یہ تو آنی جانی ہے
(آواگان کے تصور کا غیرارادی اثر)
اس سے اب نہیں ملنا
ہم نے دل میں ٹھانی ہے
میں نے ہاتھوں کی لکیروں کو کھرچ ڈالا ہے
ایک عامل نے کہا تھا تو پرایا ہو گا
کسی دن شام سے پہلے نکل آؤ میری جانب
بہت مصروف ہوں لیکن فراغت ساتھ رکھتا ہوں
کہیں جانا پڑے تو دل ہی رستہ روک لیتا ہے
میں ہجرت کی اگرچہ اک روایت ساتھ رکھتا ہوں
میں سوتے جاگتے کاوش اسی کو دیکھتا ہوں
یہ کیفیت بھی اسی کی کوئی شرارت ہے
یہیں کہیں تھا مرا گھر،یہیں تھے گھر والے
کنویں کی ،پیڑ کی اور نہر کی نشانی ہے
کہاں چلے ہو بہت رات ہو گئی کاوشؔ
نہ روشنی ہے، نہ رونق ہے،نے جوانی ہے
یہ آخری شعرہماری عمر کے سارے اہلِ دل کی ترجمانی کرتا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ نواز کاوش نے اپنی دوسری علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ شاعری کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جبکہ ان کے کئی مقامی ہم سفرکبھی کے مطلع ادب سے غائب ہو چکے ہیں۔زندگی کی ساری اونچ نیچ سے گزرتے ہوئے نواز کاوش کی شعرکہنے کی رفتاردھیمی ضرور ہے تاہم انہوں نے شاعری کو ترک نہیں کیا ۔پھر انہوں نے فکری اور فنی دونوں طور پر دھیرے دھیرے سہی لیکن ارتقائی سفر بھی کیا ہے۔
اپنے پرانے دوست نواز کاوش کے نئے شعری مجموعہ’’مسافتوں کے حوالے‘‘ کی اشاعت پر انہیں مبارک بادپیش کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنا علمی،ادبی اور تخلیقی سفرکامیابی کے ساتھ جاری رکھیں۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔