طاہر عدیم صاحب کے توسط سے ہما فلک کے افسانوں کا مجموعہ ’’روح دیکھی ہے کبھی؟‘‘پڑھنے کا موقعہ ملا۔اس میں ان کے سترہ افسانے شامل ہیں۔جبکہ دس ادیبوں کے بعض افسانوں پر تاثرات اور چند ایک میں ان کے افسانوں پرمجموعی تاثر بیان کیا گیاہے۔ہما فلک کے افسانوں میں اہم خوبی یہ ہے کہ یہ خود کو پڑھنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ دو دہائی پہلے تک اردو افسانہ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر یا زیادہ تر جدید افسانے کی رو کے تحت لکھا جا رہا تھا۔ کچھ افسانے ان دونوں تحریکوں کے ملے جلے اثرات کے تحت بھی لکھے جا رہے تھے۔ہما فلک کے افسانوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مذکورہ افسانوی رویوں سے تھوڑا بہت استفادہ کرنے کے باوجود افسانہ نگاری کی اس روش کی نمائندگی کرتی ہیں جو اس وقت سوشل میڈیامیں پنپ رہا ہے۔ ہما فلک کے بعض افسانوں میں دو مختلف زمانوں یا دو مختلف کیفیات کو الگ الگ بیان کرکے پھر ایک دوسرے کے روبرو لے آنے کا انداز بھی ملتا ہے۔جیسے ’’ہلدی والی‘‘، ’’اگر‘‘اور’’دی وُنش فے‘‘ وغیرہ۔
’’اگر‘‘میں متضاد مزاج کے حامل میاں بیوی کی کہانی کو دو الگ الگ زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔پہلے زاویے میں دن رات کی جھک جھک ہے اور دونوں ہی لڑنے مرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ اسی کہانی کے دوسرے زاویے میں وہی اختلافی امور ہیں لیکن اختلاف کے اظہار کے باوجود مفاہمانہ رویہ نمایاں ہے۔یہ ٖافسانہ غوروفکر کی طرف مائل کرکے بہت سارے گھروں کی تلخ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنا سکتا ہے۔
’’ببول‘‘ اور ’’سچا‘‘ میں دو خصوصی نوجوانوں کی الگ الگ کہانیاں ہیں۔’’ببول‘‘کے آخر میں عاصمہ افتخار کا کرب کہانی کو زیادہ پُر تاثیر بنا دیتا ہے۔جبکہ’’سچا‘‘ میں ارحم کا بھولپن ماں باپ کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔’’وفادار‘‘میںجرمن وفادار بیوی کے ساتھ بے وفائی کرنے والے پاکستانی کے منفی کردار کو عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے۔جبکہ’’ تلاش ‘‘مراکو کی ایک عورت کی دلچسپ داستان ہے۔وہ دوشادیوں کی ناکامی کے بعد مردوں کے سخت خلاف ہے لیکن جیسے ہی اسے اپنی پسند کاکوئی تیسرا مرد ملتا ہے وہ پھر اس سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔’’حسرت‘‘سوشل میڈیا کی کچی پکی محبت اور ایک غربت زدہ جوڑے کی حسرت ہے۔ ’’وہ لمس‘‘،’دلداری‘‘ اور ’’زنجیریں‘‘ایسی کہانیاں ہیں جو زیادہ تر خواتین کے رسالوں میں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔تاہم اس مجموعہ میں انہیں پڑھنا بھی برا نہیں لگتا۔
’ ’خزاں موسم کے گلاب‘‘گھریلو زندگی بسر کرنے والی نور کی خیالی دنیا اور نفسیاتی مسائل سے بھری زندگی کی پُر امید داستان ہے جبکہ ’’آخری پیغام‘‘ماں باپ کی علیحدگی کے بعد نفسیاتی مسائل میں گھری بیٹی کی کہانی ہے جو قربانیاں دینے والی اپنی ماں کو قصور وار سمجھتی رہی اور بالآخر ماں کی موت کا سبب بن گئی۔
’’کاسہ باز‘‘نام سے قطع نظراس افسانے میں پاکستانی معاشرے کی عقیدوں،سیاسی و لسانی گروہ بندیوں اور دیگر نظریاتی تعصبات میں گھری ہوئی قوم کے منفی رویوں کو بہت عمدگی سے نشان زد کیا ہے،تاہم مایوس کن حالات کے باوجود امید کا دامن بھی تھام رکھا ہے۔’’ایک ادھوری کہانی‘‘کا اندازِ بیاں دلچسپ ہے اور کہانی کا ادھورا رہ جانا ہی کہانی کا مقدر تھا۔
’’وقت سے پرے‘‘اس مجموعے کی سب سے عمدہ کہانی ہے لیکن میں اس پر آخر میں بات کروں گا۔’’دی وُنش فے‘‘پڑھتے ہوئے مجھے ہلکی سی الجھن رہی۔کہانی کا عنوان جرمن زبان میں ہے۔افسانے کے کردار بھی جرمن (مغربی)ہیں۔کہیں یہ کسی مغربی کہانی کا ترجمہ تو نہیں ہے جس کا حوالہ دینا بھول گیا ہو؟ایسا ہے تو اس کا حوالہ دینا چاہئے۔لیکن اگر یہ ہما فلک کی طبع زاد کہانی ہے تو اپنی بنت کے لحاظ سے بھی اور مجموعی تاثر کے لحاظ سے بھی بے حد شاندار کہانی ہے۔ایسی شاندار کہانی لکھنے پر میری طرف سے ہما فلک کو مبارکباد!یہ مغربی کہانیوں کی ٹکر کی کہانی ہے۔ اس کا جرمن ترجمہ بھی شائع ہونا چاہئے۔
ہما فلک نے اپنے افسانوں کے مجموعے کا نام ’’روح دیکھی ہے کبھی؟‘‘ رکھا ہے لیکن اس نام کا کوئی افسانہ اس میں شامل نہیں ہے۔کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴ پر اتنی وضاحت درج ہے کہ:’’افسانہ’روح دیکھی ہے کبھی؟‘ فی الحال اس کتاب میں شامل نہیںہے۔ ‘‘۔۔۔ روح کے بارے میں جاننے کا مجھے اشتیاق رہا ہے۔اس سلسلہ میں جو کچھ مطالعہ اور مشاہدہ میں آیا اسے اپنی تحریروں میں ڈسکس بھی کیا ہے۔چنانچہ میں خوش تھا کہ اس مجموعے میں روح کے حوالے سے کوئی نئی جانکاری ملے گی۔لیکن افسانہ ہی شامل نہیں تو کیا کیا جائے۔میری ذاتی رائے ہے کہ جب مذکورہ افسانہ اس میں شامل نہیں ہے تو اسے مجموعے کا نام دینا بھی مناسب نہیں تھا۔ اسی مجموعے کا افسانہ ’’وقت سے پرے‘‘اپنے عنوان کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے۔مجموعے کا نام بھی’’وقت سے پرے‘‘رکھ دیا جاتاتو زیادہ اچھا ہوتا۔
’’وقت سے پرے‘‘خیال کی رو سے بُنا ہوا افسانہ ہے۔اپنی ٹریٹ منٹ کے لحاظ سے یہ جدید افسانے سے بہت قریب ہے۔وقت اور اس کی ماہئیت پر فلسفیانہ طور پر اچھا لکھا ہے۔روح کی طرح وقت کے بارے میں بھی مجھے جاننے کا شوق رہا ہے۔ہما فلک اس حوالے سے کسی مضمون کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں تو پڑھ کر اچھا لگے گا۔ جہاں تک اس افسانے کا تعلق ہے اس میں وقت کے بارے میں فلسفیانہ رنگ میں تو بات کی گئی ہے لیکن کوئی ذاتی تخلیقی ٹچ دکھائی نہیں دیتا۔تخلیقی ٹچ کی ایک مثال کے طور پر اپنے ایک افسانے’’روشنی کی بشارت‘‘کا ایک اقتباس یہاں پیش کر دیتا ہوں۔
’’مجھے یادآتاہے اس سے پہلے ایک دفعہ میں اپنے وقت سے پچاس برس پہلے آیاتھا اور جب پچاس برس بعدمیںدوبارہ آیاتھا تو میں نے یہ دیکھا تھاکہ میں اپنے وقت سے ایک صدی پہلے آگیاہوں۔۔۔۔ پھر جب میں ایک صدی بعد آیا تو میری آمد اپنے وقت سے دو سو سال پہلے تھی۔ اور جب میں دو سو سال بعد آیاتو میری آمد میں چار سوسال رہتے تھے اور پھر جب میں چار سو سال بعد آیاتو میں اپنے وقت سے آٹھ سو سال پہلے آیا ہوا تھا۔ اور اب جب میں آٹھ سو سال بعد آیاہوں تو مجھے یقین ہوگیاہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو سال پہلے آگیاہوں۔۔۔۔۔۔ ۔اب جب میں سولہ سو برس کے بعد آؤں گا تو میری آمدمیں بتیس سو سال رہتے ہوں گے۔ اور جب میں بتیس سو سال بعد آؤں گا تو میری آمد میں چونسٹھ سو سال رہتے ہوںگے۔ اور اسی طرح کئی ہزار برس بیت جائیں گے۔ لیکن وہ صفر مدت کب آئے گی جب میرا آنابروقت ہوگا۔اور جب میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورج سوانیزے کی اَنی پر آجائیں گے۔‘‘
یہ میرا ۱۹۸۱ء کا لکھا ہوا افسانہ ہے اورمیرے اب تک کے آخری افسانے کا عنوان ہے’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘۔۔۔تاہم یہاں میں اس کا کوئی اقتباس پیش نہیں کروں گا۔
’’روح دیکھی ہے کبھی؟‘‘کے افسانوں کے مطالعہ کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہما فلک کے افسانے جرمنی میں سوشل میڈیا کی اردو فکشن رائٹرخواتین کے سامنے ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔ ہما فلک جرمنی میں ابھی تک اردو فکشن کی سب سے جاندار اور شاندارخاتون رائٹر بن کر ابھری ہیں۔میری طرف سے ہما فلک کو مبارک باد!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( یہ مضمون 8 دسمبر 2019 ء کو آفن باخ ،جرمنی میں حلقہ اربابِ ذوق جرمنی کی جانب سے ہونے والی ہما فلک کے افسانوں کے مجموعے کی تقریبِ پذیرائی میں پڑھا گیا)