2005 سے 2016 بلوچی زبان کا سب سے زیادہ پُرآشوب دور رہا ہے۔
اِن گیارہ سالوں کے دوران پروفیسر صبادشتیاری اور بلوچ نوجوان ادیب اور شعرا کی بلوچی زبان پر خدمات قابلِ تحسین ہیں تو دوسری طرف اربابِ اختیار کی زبان اور ادب دشمن پالسیاں بھی کم نہیں۔
2005 میں پروفیسر صبادشتیاری نے بلوچی زبان کو اِسکولوں میں پڑھانے کے لیے ایک نصاب کمیٹی بنائی تھی، جس میں بلوچستان کے بہت سے پرائیوٹ اِسکولوں کے پرنسپلز، کالجز کے لکچرار اور جامعات کے پروفیسرز شامل تھے۔ اِس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ سید ظہور شاہ اکیڈمی کراچی کے تعاون سے پرائمری سے لے کر میٹرک تک بلوچی کورس کی کتابیں ترتیب دی جائیں گی اور پہلے فیز میں پرائیوٹ اِسکولوں میں نصاب لاگو انہیں کیا جائے گا۔ پروفیسر صبادشتیاری کی ذاتی محنت اور کاوشوں سے مکران، خاران، نوشکی اور ضلع آواران کے پرائیوٹ اِسکولوں میں بلوچی پڑھائی جانے لگی۔ لیکن 2011 میں پروفیسر صبادشتیاری شہید کر دیے گئے، جس سے بلوچی زبان و ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
2014 میں تربت شہر میں کتابوں کی دُکانوں پر چھاپے مارے گئے اور بلوچی زبان میں لکھی گئی بیشتر کتابیں ضبط کر لی گئیں اور دُکانوں کے مالکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ جب کتابوں کی چھان بین کی گئی تو یہ کتابیں خالصتا ادبی کتابیں نکلیں۔ اِس کے بعد دُکان مالکان کو رہا کر دیا گیا۔
2014 ہی میں گوادر میں پرائیوٹ اِسکول ''دی اویسسز'' کے پرنسپل زاہد آسکانی کو اِس لیے شہید کر دیا گیا کہ اُس نے پرائمری سے لے کر میٹرک تک بلوچی لینگوئج کورس لازمی قرار دیا تھا۔ 2014 کو بلوچی زبان کے مشہور شاعر مبارک قاضی کو چھ مہینے تک اِس لیے داخل زندان رکھا گیا کہ اُس کی شاعری نوجوانوں میں وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
2015 میں پنجگور کے ایک پرائیوٹ اِسکول پر نامعلوم مذہبی شدّت پسندوں نے اِس لیے حملہ کیا کہ (کو ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ) متعلقہ اِسکول میں بلوچی کی جگہ عربی کیوں نہیں پڑھائی جاتی۔
2016 کو گوادر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپا مارا گیا۔ بہت سے بلوچی ماہنامے اور بلوچی کی کتابیں ضبط کر لی گئیں اور دُکانوں کے مالکان کو بھی جیل جانا پڑا۔ تحقیقات کے بعد کُچھ حاصل نہ ہوا تو اُنہیں رہا کر دیا گیا۔
پسنی ضلع گوادر میں بلوچی کے بُزرگ شاعر انور صاحب خان کو ایک مہینے تک (بلوچی انقلابی) شاعری کی پاداش میں تہہ زندان ہونا پڑا۔ جب جیل سے چھوٹ گئے تو ملک چھوڑ کر ایران میں سکونت اختیار کر لی۔
لیاقت بازار کوئٹہ میں شعبہ بلوچی، جامعہ بلوچستان کے دو طالب علم اِس لیے گرفتار ہوئے کیونکہ اُن کے ہاتھ میں بلوچی روزنامہ ''نوائے وطن'' کی کاپیاں تھیں۔
جب حالات اس قدر سنگین ہوئے تو سیکڑوں کے حساب سے بلوچ ادیب اور شاعر مللک چھوڑ کر بیرونِ ملک چلے گئے، اُن میں سے زیادہ تر خلیجی ممالک اور یورپ چلے گئے، اور وہاں اپنی ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
(بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حامد بلوچ کی تحریر سے اقتباس)