اس ملک میں دو بیانیے ہیں ۔ ان میں سے ایک بیانیہ چودہ صدیوں سے جامد ہے ۔ کبھی کبھی بیچ میں کسی ابن رشد ، کسی اقبال ، کسی پرویز یا کسی غامدی نے تالاب میں چند اجتہادی کنکر پھینکنے کی جسارت کی ہے پر ان کے ساتھ اس ضمن میں جو سلوک ہوا اس سے بہتوں کو کان ہو گئے ۔ اس سے پہلے کہ آپ اقبال کے بارے میں گھسا پٹا بیان دہرائیں ، جان لیجئے کہ ان کی سب سے عظیم تصنیف پر او آئی سی کے اجلاس میں باقاعدہ بحث کے بعد ستائیس اسلامی ممالک میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ سر فرانسس ینگ ہزبنڈ کو لکھے گئے ان کے خطوط بھی پڑھ لیجئے جن میں انہوں نے ایک الگ اسلامی ریاست کے ان سے موسوم نظریے سے کلی براءت کا اعلان کیا تھا ۔ یہ بھی نہ بن پائے تو خطبہ آلہ باد کا اصل متن ہی پڑھ لیجیے گا ۔ علاج کے لئے یہ بھی کافی ہو گا ۔
خیر چھوڑیے اس بحث کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ابھی بات کریں بیانیوں کی تو جناب ایک بیانیہ ہے جس کے آپ صدیوں سے مقلد ہیں اور ایک بیانیہ ہے وہ جو ہر دن علم ، شعور ، آگہی، تجربے اور دریافت کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے اور روز بدلتی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی سعی کرتا ہے ۔ یہ بیانیہ آپ کا دامن پکڑ کرآپ کو پیچھے نہیں کھینچتا بلکہ آپ کو زندگی کی شاہراہ پر آگے کا راستہ دکھاتا ہے۔ یہ کسی پنجرے اور کسی کنویں میں مقید نہیں ہے اور نہ رہنا چاہتا ہے ۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے علمبرداروں کے ہاتھ میں نہ شمشیر ہے نہ کمان نہ بندوق نہ ہی ڈنڈا اور نہ ہی ان کے سروں پر ضیاءالحقی قوانین اور قرارداد مقاصد کی ڈھال ۔ تو بیچارے ذرا زور سے بولیں تو ’سر تن سے جدا‘ سے کم پر آپ کے صالح اور متقی بیانیے کے محافظوں کا گزارا نہیں ہوتا ۔
جنید حفیظ، راشد رحمان اور سلمان تاثیر کے بعد کون سا مکالمہ اور کون سی بحث ۔ آپ کا جو دل چاہے آپ کہہ سکتے ہیں ۔ آپ ڈی چوک میں بیٹھ کر لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں ۔ آپ شہباز بھٹی اور سورن سنگھ کو سر عام چھلنی کر سکتے ہیں ۔ آپ ملالہ کے سر میں گولیاں مار کر اسے ڈرامہ کہہ سکتے ہیں ۔ آپ لوگوں کے ایمان کا فیصلہ پارلیمنٹ سے کرا سکتے ہیں ۔ آپ اقلیتوں کو ہجرت پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ آپ مائی باپ ہیں آپ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ اور سچ کہا عامر صاحب کہ درمیان کا راستہ کوئی نہیں ۔ شکر ہے آپ نے یہ سچ تو بولا ۔ تو میدان کے جس سرے پر آپ کھڑے ہیں جہاں آپ ظاہری شباہت کو پیمانہ بناتے ہیں جہاں موسیقی اور فلم کو آپ گناہ ٹہراتے ہیں انہی صفوں میں آپ کے بیانیے کے محافظ بھی کھڑے ہیں ۔ کبھی وہ ممتاز قادری کہلاتے ہیں ۔ کبھی ابوبکر بغدادی ، کبھی اسامہ بن لادن اور کبھی ملا فضل اللہ ۔ آپ لاکھ ان سے دامن چھڑائیں پر بات تو آپ بھی وہی کہتے ہیں جو ان کا طرز بیان ٹہری ہے ۔
تو حضور ہم کمزور لوگ لڑیں گے بھی تو زیادہ زیادہ آپ کا گھٹنا اپنے پیٹ میں مار لیں گے ۔ اور اس کے بعد اور جوش چڑھا تو اپنا گال کھینچ کر آپ کے مکے پر جڑ دیں گے اور بالکل ہی اخیر ہو گئ تو اپنا سینہ آپ کی قرولی میں بھونک دیں گے ۔ اس سارے کا نتیجہ کیا نکلے گا آپ جانتے ہی ہیں ۔ مذہب کے ٹھیکیداروں پر جہاں انگلی اٹھانا بھی ارتداد ٹہرایا جائے وہاں کون سی بحث اور کیسی بحث ۔ جہاں ایک لفظ لکھنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا پڑے کہ اس کے نتیجے میں تعزیرات پاکستان کی کون سی دفعہ لگے گی وہاں کیا اپنا مقدمہ پیش کریں ۔ ہمارے پاس نہ کفر کے فتوے ہیں ، نہ ایف آئی آر درج کرانے کا اختیار، بندوق اور تلوار تو دور کی بات ہے ، ہمیں تو صحیح طرح غلیل بھی چلانی نہیں آتی اور یہی حال ان سب کا ہے جو لکیر کے اس پار ہمارے ساتھ کھڑے ہیں پر سچ کہیے کیا یہی دعوی آپ لکیر کے اس جانب کھڑے لوگوں کے بارے میں کر سکتے ہیں ۔