دل تو تھا کہ تمہید باندھی جائے۔ کچھ بچپن کی تربیت سنائی جائے، کچھ جوانی کی آزمائشیں، کچھ دل ناکردہ کار کے غموں کا ذکر ہو، کچھ ان قیامتوں کا جو اب بھی گزر رہی ہیں۔ پر قصہ طویل ہو جائے گا۔ بات مختصر یہ ہے کہ دل اداس بہت ہے۔ گلہ ان سے نہیں ہے جو عقل و خرد سے عاری ہیں۔ شکوہ ان سے ہے جو صف دوستاں میں کھڑے اپنی کمان کا رخ ہماری ہی طرف کیے بیٹھے ہیں۔ نگاہیں حیرت سے ان الزامات کو تکتی ہیں جو روز آنگن میں آ گرتے ہیں۔ کوئی منطق کا مقدمہ نہیں، کوئی تاریخی روایت نہیں، کوئی فلسفے کی بحث نہیں، کوئی علمی بنیاد نہیں، اقدار کا کہیں ذکر نہیں ہے، کوئی شہادت سر منظر کیا، پس منظر بھی نہیں ہے پر فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ روز سنائے جاتے ہیں، کمال تیقن سے سنائے جاتے ہیں۔
کہانی شاید اس دن شروع ہوئی تھی جب محترم حامد میر جونا گولڈ برگ کی لبرل فاشزم کی اصطلاح سوچے سمجھے بغیر استعمال کر بیٹھے۔ ہمارے دائیں بازو کے دانشوران ملت نے اسے اچکا اور اس کا منشور بنا ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصطلاح کی ایجاد کا مقصد بھی یہی تھا کہ لبرل اقدار کو بھی کسی بہانے داغدار کر کے اسی صف میں کھڑا کر دیا جائے جہاں قدامت پرست نیت باندھے کب سے اکیلے مطعون ہو رہے ہیں۔ اس اصطلاح کا سہارا لے کر قدامت پرست یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ فاشزم کا سرا کسی بھی نظریاتی تحریک سے اٹھانا ممکن ہے۔
اور اس طرح وہ اکیلے اس کے سزاوار نہیں۔ یار لوگ تحقیق سے گھبراتے ہیں اس لیے انہوں نے نعرے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر کرنے والی لبرل اقدار کے مقابل جو بیانیہ کھڑا کیا گیا وہ فاشزم تھا۔ یہ دو متوازی اور متضاد بیانیے تھے جنہیں کسی طرح جوڑنا ممکن نہیں تھا پر حامد میر صاحب جیسے نابغے بھی اس فریب میں آ گئے تو ہما شما کا کہنا ہی کیا۔ کلاسیکی لبرلزم روشن خیالی اور شخصی آزادی سے عبارت ہے اور فاشزم فلسفہ قومیت اور مطلق العنانی کا دوسرا نام ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ جونا گولڈ برگ نے ہٹلر اور مسولینی کو بھی لبرل فاشزم کا چولا پہنا دیا۔ لیجیے صاحب، پاکستان میں تو دانشوران ملت کی چاندی ہو گئی۔ بیک جنبش قلم اظہار رائے، شخصی آزادی اور انسانی آزادی کی جنگ لڑنے والے فاشسٹ قرار پائے۔ یہی جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہو گا۔
پھر ہمارے کپتان صاحب کو اپنی خفت چھپانے کو کچھ نہ ملا تو ایک دن وہ بھی لبرلز پر برس پڑے۔ یہ بیچارے وہی لبرل تھے جو ملک میں موجود سیاسی منظر نامے سے مایوس ہو کر ان کا ہراول دستہ بنے تھے پر جوں ہی کپتان محترم یہ رمز سمجھے کہ ملک میں اب بھی سواد اعظم قدامت پرستی سے پھوٹتا ہے انہوں نے سب الزامات کا پشتارا لبرلز کے کاندھوں پر دھرا اور وہ بن گئے خونی لبرل۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور لبرل فاشسٹ کے بعد خونی بھی ٹھہرے۔
دیسی لبرل، لنڈے کے لبرل اور ملحد لبرل جیسی اصطلاحات تو ہمارے پسندیدہ بیانیے کے نقیبوں کی نوک زبان پر یوں بھی دھری ہیں۔ گرد اتنی اڑائی گئی ہے کہ اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ لبرل ہے کون۔ لبرل فلسفہ اور بیانیہ اصل میں کیا ہے، اس پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تعریف ایجاد کر لی ہے اور ہر نئی تعریف پچھلی سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ اور کچھ نہیں سوجھتا تو لکیر کے دونوں جانب پیر رکھے دانشور ایک ہی سانس میں مذہبی شدت پسند کو ایک خود ساختہ لبرل شدت پسند کے ساتھ کھڑا کر کے چاند ماری کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مقصود محض یہی ہے کہ لوگ اعتدال پسندی کا شاہکار صرف انہی کو سمجھیں جو ایک سانس میں شدت پسندی کو لبرلز اور ملا پر چسپاں کر سکیں۔ کوئی یہ پوچھے کہ شدت پسندی کس چڑیا کا نام ہے تو جواب عنقا ہے۔
ملا کی شدت پسندی کے مظاہر ہم دیکھ چکے ہیں۔ ستر ہزار لاشوں کا تحفہ لبرلزم نے عنایت نہیں کیا ہے۔ سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کرنے والے کون سے لبرل ہیں۔ لڑکیوں کے سکول بم سے اڑانے والے بھی اپنے آپ کو لبرل نہیں کہتے۔ بینظیر کی موت ہو، ملالہ پر حملہ ہو یا اے پی ایس میں لہو ہوئے بچے ہوں، کوئی بندوق کسی لبرل کے ہاتھ میں نہیں پائی گئی۔ ابھی کچھ دن پہلے پورے پاکستان کو بند کرنے والے بھی لبرل نہیں تھے۔ تو ان شدت پسندوں کے مقابل، جن کے پاس ڈنڈا بھی ہے، تلوار بھی، بندوق بھی اور بم بھی، جو جب چاہیں قتل کا فتویٰ دے سکتے ہیں، ہر شاہراہ بند کر سکتے ہیں، سر عام کسی کو سنگسار کر سکتے ہیں، آگ میں جلا سکتے ہیں، گولیوں سے بھون سکتے ہیں، ان کے مقابل آپ جانتے ہیں لبرل شدت پسند کیا کر سکتا ہے۔
وہ بیچارہ ڈرتے ڈرتے ایک کالم لکھ سکتا ہے جسے کوئی چھاپتا نہیں ہے۔ وہ ایک تقریر کر سکتا ہے جس کے بعد نامعلوم افراد اسے گھر سے اٹھا سکتے ہیں۔ وہ بہت ہمت کرے تو پندرہ بیس لوگ اکٹھے کر کے پریس کلب کے باہر ایک مظاہرہ کر سکتا ہے جس کو کوئی میڈیا کا نمائندہ کور نہیں کر سکتا۔ وہ انتخابات میں اپنا بیانیہ سنانے کی پاداش میں اپنے پر کفر کے فتوے لگوا سکتا ہے۔ وہ سچ کی تفہیم کے جرم میں اورتوہین کے الزام میں اپنی جوانی جیل میں کاٹ سکتا ہے۔
وہ صرف اپنا فرض نبھانے کی کوشش میں اپنے سینے میں بتیس گولیاں کھا سکتا ہے۔ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس نفرت میں جھلستا ہوا ہجوم نہیں ہے۔ بم اور بندوق تو دور، اس کے پاس تو ایک چھوٹا چاقو بھی نہیں۔ ہے۔ اس کے پاس فتوے نہیں ہیں۔ اس کے پاس منبر نہیں ہے۔ اس کے سر پر دستار نہیں ہے۔ اس کی زبان پر مہر لگی ہے، اس کے الفاظ پر صاحب اختیار روز سیاہی پھیرتے ہیں۔ لیکن صاحب پھر بھی وہ شدت پسند کہلاتا ہے۔ عوام کی آنکھ میں اسے فاشسٹ بنا دیا گیا ہے۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ قلم کو تلوار سے بڑا ہتھیار کیوں کہتے ہیں۔ دانشوران ملت یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ شدت پسند کی تلوار سے زیادہ تباہی لبرل کے قلم میں ہے۔
ایک دوست ہیں۔ درد مند دل رکھتے ہیں۔ وضع قطع شرعی ہے۔ کبھی اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں، کبھی نہیں کہتے۔ گویا یہ ایک لباس ہے جسے جب چاہا پہن لیا جب چاہا اتار دیا۔ سمیع الحق صاحب کے قتل پر حضرت کچھ ایسے لوگوں پر برہم ہو گئے جو مولانا کے قتل کے بعد ان کا کردار زیر بحث لا رہے تھے۔ اس عالم برہمی میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ سب لوگ لبرلزم کے نمائندہ ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ غصہ کچھ اور بڑھا تو فرمایا کہ اگر شراب پینا، ناچنا گانا اور حسین لڑکیوں کا جسم بھنبوڑنا ہی لبرلزم ہے تو ہم ایسے لبرلزم سے باز آئے۔
ایسی مضحکہ خیز معروضات روز ہی سننے کو ملتی ہیں پر ایک پڑھے لکھے شخص کے منہ سے ایسا بے بنیاد تعصب برآمد ہو تو تکلیف کچھ بڑھ جاتی ہے۔ یہ وہ مقبول عام بیانیہ ہے جو ہمارے یہاں لبرلز پر چسپاں کر دیا گیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کردار کے یہ پیمانے کہاں تخلیق ہوئے ہیں اور ان پیمانوں پر انسانی اقدار کو کیونکر پرکھنا ممکن ہے۔ شراب پینے والوں کی فہرست میں صرف یحیی خان یا پرویز مشرف ہی نہیں آتے۔ بعض دعووں کے مطابق تو محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال بھی آتے ہیں۔ غالب، فراز اور فیض بھی آتے ہیں۔
بات یہ بھی ہے کہ جو شراب پر مکمل پابندی کا مطالبہ لیے پھرتے ہیں وہ خود میٹھا پان کھا کر بہک جاتے ہیں۔ شراب کی حرمت ایک الگ بحث ہے جس پر فقہاء بھی متفق نہیں ہو پاتے پر کسی کا شراب پینا یا نہ پینا اس کے کردار پر کیسے دلالت کرتا ہے، یہ رمز مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ خادم اپنے آپ کو لبرل کہتا اور سمجھتا ہے پر عمر کی نقدی ختم ہونے کو آئی، شراب کی ایک بوند نہیں چکھی۔ اور تو اور سگریٹ اور چائے بھی کبھی نوش نہیں کیے۔
یہ میری ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ ہے۔ کیا اس سے میرے لبرل ہونے پر ذک پڑتی ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق میرے دو بائیں پاؤں ہیں اس لیے شدید خواہش رکھنے کے باوجود کبھی ناچ نہیں پایا۔ پر رقص کو میں انسان کی لطافت کے اظہار کا ایک خوب صورت قرینہ مانتا ہوں۔ میں رقص کرتا ہوں یا نہیں کرتا اسے پسند نہیں کرتا یا کرتا ہوں اس سے آپ میرے کردار یا میری انسانی اقدار کا تعین کیسے کرتے ہیں۔ میں سمجھ نہیں پاتا۔
موسیقی کا بھی یہی حال ہے۔ وہ آواز اور گلا ودیعت نہیں ہوا کہ گا سکوں پر اگر ایک ہنر مانگنے کا اذن ہو تو یہی ہنر مانگنے کا من ہے۔ اچھی موسیقی سے زیادہ دل پذیر اور دل جو کیا ہوتا ہے۔ کیا نصرت فتح علی خان، مادام نور جہان اور محمد رفیع صاحب کو سننے والا قدامت پرست نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ صرف لبرل حضرات کے لیے خاص ہے کہ وہ موسیقی سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ رہ گئی بات حسین لڑکیوں کو بھنبوڑنے والی تو وہ ہمیں سمجھ نہیں آئی۔
شاید اس سے مراد یہ ہے کہ لبرل جنسی بے راہ روی کے مارے ہوتے ہیں۔ اب یہ کون سے سروے سے طے ہوا ہے۔ اس کے پیچھے کیا تحقیق ہے۔ کیا لبرل گھرانوں میں خواتین پر بے جا قدغن نہ لگانا جنسی بے راہ روی کی ذیل میں آتا ہے۔ کیا بیٹے اور بیٹی کو ایک نظر سے دیکھنا کسی جنسی نفسیاتی مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ کیا خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کی ہر کوشش جنسی ہراسانی ہے۔ کیا بچیوں کو اعلی تعلیم دلانا جنسی آزادی کو جنم دیتا ہے۔
کیا حسین لڑکیاں بازار میں دستیاب جنس ہیں جو محض لبرلز کے لیے خاص ہیں۔ کوئی ہمیں سمجھائے تو سہی کہ یہ مشاہدہ قدامت پرستوں نے کب اور کہاں کیا ہے۔ انہی قدامت پرستوں کو کیا اپنے خلفا کے حرم بھول گئے ہیں۔ لونڈیوں کے بازار بھول گئے ہیں۔ کنیزوں کی تجارت بھول گئی ہے۔ وہ کون سے لبرل تھے جو یہ کارنامے کرتے رہے۔ عورت کو چار دیواری میں چن دینے والا یہ وہی رویہ ہے جس کے حساب میں ہر وہ عورت جو برقعہ نہیں پہنتی، وہ فاحشہ ہے۔
یہ وہی رویہ ہے جو عورت کو کبھی ٹافی، کبھی مٹھائی اور کبھی موبائل فون سے تشبیہ دیتا ہے۔ اور یہ وہی رویہ ہے جو معاشرے کے ہر فساد کی جڑ عورت ذات میں ڈھونڈنے کا متمنی ہے۔ میں اس رویے کے خلاف کھڑا ہوں، ہمیشہ سے کھڑا ہوں اور پورے قد سے کھڑا ہوں۔ میرے نزدیک لبرلزم یہ ہے کہ جنس، رنگ، ذات اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی قوانین اور امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ بیخ کنی کی جائے۔ رہے یہ جنسیات سے جڑے مفروضات تو یہ محض ایک بیمار ذہن کی نشان دہی کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
ایک مشہور کالم نگار نے کچھ دن پہلے تحریر کیا کہ سارے لبرل ٹرمپ کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ صاحب کو اگر امریکی سیاست کی ذرا سی بھی شد بد ہوتی تو یہ بات نہ کرتے۔ ٹرمپ قدامت پرستوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور لبرلز کو اپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں۔ شاید ہمارے کالم نگار بھی ناچ گانا، شراب اور جنسی بے راہ روی کو لبرلزم سمجھتے ہیں کیونکہ اس تعریف پر صرف ٹرمپ ہی نہیں، گرینڈ اولڈ پارٹی کی اکثریت پوری اترتی ہے۔ تاہم ان میں سے کسی کو آپ لبرل کہہ دیں تو وہ سمجھے گا کہ اسے گالی دی گئی ہے۔
ہمارے یہاں دائیں بازو، مذہب پرست، عسکریت پسند اور آمرانہ سوچ کے حامل ذہن نے اپنے لیے ایک خود ساختہ ولن بنایا۔ اس کی صفات کا فیصلہ کیا پھر اس ولن کا نام لبرل رکھ دیا۔ اس کے بعد اس ذہن نے جہاں بھی اپنے سے متصادم سوچ دیکھی اسے لبرلزم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ان میں سے کسی نے جان لاک، جان سٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام نہیں سنا۔ کسی کو قدیم یونان میں جنم لینے والی لبرل روایات کا علم نہیں ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ آج جس پارلیمانی نظام کے باعث عام آدمی کو آواز ملی ہے وہ اسی لبرلزم کی دین ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ لوگ باگ پرویز مشرف کو لبرل کہتے ہیں۔ بھلا کوئی آمر لبرل کیسے ہو سکتا ہے۔ لبرلزم تو آمریت کے خلاف سب سے مضبوط استعارہ ہے۔ ایک دوست لبرل پارٹی کی مثال دیتے ہیں تو سب سے پہلے ایم کیو ایم کا نام لیتے ہیں۔ کون ان کو بتائے کہ فاشزم اور لبرلزم کے ہجے مختلف ہوتے ہیں۔ فرق سمجھیے۔ عبدالستار ایدھی، راشد رحمان اور ملالہ یوسفزئی لبرل ہیں پر پرویز مشرف، الطاف حسین اور یحیی خان لبرل نہیں ہیں۔
ذرا زحمت کیجیے، لبرلزم کے بارے میں دو چار صفحات پڑھ لیجیے۔ کچھ لبرل اقدار پر نظر ڈال لیجیے۔ کلاسیکل اور جدید لبرلزم کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ آمریت اور جمہوریت کی کشمکش کو اس کے درست تناظر میں دیکھیے۔ مذہبی استحصال اور مذہبی اخلاقیات کو الگ کرنا سیکھ لیجیے۔ پھر آئیے۔ لبرلزم پر بات کرتے ہیں۔ پھبتیاں کسنا، بے ہودہ مفروضے بنانا اور بے بنیاد طنز و تشنیع کا دفتر کھولنا محض اس امر کا اظہار ہے کہ آپ کے پاس علمی اور تحقیقی سطح پر کہنے کو کچھ نہیں ہے اور آپ صرف کچھ ایسے خطیبوں کے مقلد ہیں جن کے منہ میں زبان تو ہے پر کاسہ سر میں دماغ نہیں ہے۔