جناب محترم مودی صاحب!
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ میں یہاں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے۔ یہاں کے دن بوریت سے بھر پور ہیں۔
کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کروں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہاں میرے لئے کچھ بھی نیا نہیں۔ حوریں ہیں مگر عجیب پھیکی سی، نہ کسی کو گانا آتا ہے نہ اور کچھ۔ حد تو یہ ہے کہ کسی کے لئے کوئی سفارش بھی نہیں کرواتیں۔ رہ گئی شراب تو اس پر کیا تبصرہ کروں. ارے بھیا اگر شراب میں نشہ نہ ہو تو پھر دودھ کیا اور شراب کیا۔
اچھا خیر چھوڑیں آپ بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا پاکستان کا ایک سابقہ جرنیل۔ویسے سابقہ جرنیل ہوتے ہوں گے ہندوستان میں۔ ہمارے ہاں تو کوئی سابقہ جرنیل نہیں ہوتا۔ آپ لوگ بہت ظالم ہو ویسے۔ یعنی جنرل اروڑہ کے ساتھ آپ لوگوں نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ اگر جنرل اروڑہ نے جنرل نیازی کے آگے ہتھیار ڈالے ہوتے تو جنرل نیازی اپنی باقی زندگی پاکستان کا صدر بن کے گزاردیتا۔ ادھر آپ لوگوں نے جنرل اروڑہ کو بنگال کا گورنر بھی نہیں بننے دیا۔ چلیں خیر یہ آپ کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کرتے۔ ہاں میرے ساتھ ایوب خان اور ضیاء الحق بھی ہیں اور سلام کہتے ہیں۔
خط لکھنے کی ضرورت اس لئے آ پڑی کہ آپ کا شکریہ ادا کرنا ہم پر لازم ہو گیا تھا۔ بات یہ ہے کہ آپ نے حال ہی میں جو ڈھاکہ میں خطاب فرمایا اس کے نتیجے میں ہم پر ہونے والی لعن طعن کچھ کم ہو گئی۔ ہاں ہاں بھئی آپ ٹھیک کہتے ہیں ہمیں لعن طعن کی پرواہ کبھی بھی نہیں رہی مگر پھر بھی اگر لعن طعن کا سلسلہ رک گیا ہے اور اس کی وجہ آپ بنے ہیں تو ایک اچھے ہمسائے کی طرح ہمارا فرض بنتا ہے کہ آپ کا شکریہ ادا کر دیا جائے۔ ایوب خان بھی شکریہ کہتے ہیں اور ضیاء الحق بھی۔ یہ خبیث کل رضوان سے بہتر(۷۲) شٹل کاک برقعے مانگ رہا تھا۔
بھئی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری اپنے سر لے کر آپ نے کمال ہی کر دیا۔ اگرچہ ہم جرنیلوں نے تو پہلے بھی یہ ذمہ داری آپ کے سر ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر آپ نے اسے قبول کر کے کام آسان کر دیا۔ ہمارے لوگ فوراً ہی یہ بھول گئے کہ نیازی (کم بخت میرا بھی باپ نکلا) بنگالیوں کی نسل بدل دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لوگ یہ بھی بھول گئے کہ ہم نے بڑے سرکاری عہدوں پر کبھی بنگالیوں کو نہیں آنے دیا تھا۔
وہ کم بخت اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے ،ہم نے ۱۹۷۰ تک تو انتخابات ہی نہیں ہونے دیے۔بس میرا ہی دماغ چل گیا تھا۔ پتہ نہیں کس نے حرامی پن کا ثبوت دیا اور مجھے سے انتخابات کے متعلق نوٹیفیکشن پر دستخط کروالے گیا۔ یہ بے غیرتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جب ایک جرنیل انگور کا پانی چڑھا کر خدا کی بنائی جنت کا ٹریلر دیکھ رہا ہو اس وقت کسی دنیاوی حور کے ہاتھوں ایسا نوٹیفیکیشن بھیج کر ہم سے اس پر دستخط لے لے۔ شرافت تو نام کو نہیں رہی لوگوں میں۔
پھر نہ صرف یہ کہ مجھ سے ایک ناجائز نوٹیفیکیشن پر دستخط کروالیے بلکہ میرے علم میں لائے بغیر ملک میں انتخابات بھی کروا ڈالے۔ یعنی حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی بھی۔ بھئی میں مر تو نہیں گیا تھا بس ذرا نورجہاں کے طرف گیا تھاوہاں سے پتہ نہیں کس وقت جنرل رانی کی طرف چلا گیا اور جب واپس صدارتی محل پہنچا تو پتہ چلا کہ ملک میں عام انتخابات ہو بھی گئے ہیں اور مجیب الرحمان جیت گیا ہے۔ مجھے بہت دھچکا لگا۔ اپنا غم غلط کرنے کے لئے میں نے انگور کا پانی منگایا؛ نورجہاں ، جنرل رانی و دیگر میری تیمارداری و عیادت کے بہانے آ دھمکیں۔
خیر میں ریاستی امور کی طرف سے غافل پھر بھی نہ ہوا اور میں نے جنرل نیازی کے ذمے لگایا کہ وہ بنگالیوں کو ان کی اس گستاخی کی قرار واقعی سزا دی۔ نیازی نے بنگالیوں کوایسا سبق سکھایا کہ وہ آج بھی یاد کرتے ہیں بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں بھولیں گے۔ خیر وہ سارے ہندوستان کی طرف بھاگے اور ان کی مدد کے بہانے ہندوستان نے اپنی پروفیشنل فوج مشرقی پاکستان میں اتار دی۔ بھئی اندرا گاندھی نے یہ بڑی زیادتی کی۔ ایسے تو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ یعنی ہم اچھے بھلے غیر تربیت یافتہ اور زیادہ تر نہتے بنگالیوں کا اتنی دلیری اور حوصلے سے مقابلہ کر رہے تھے کہ اندرا گاندھی نے اپنی تربیت یافتہ اور اسلحے سے لیس فوج میدان میں اتار کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ مگر اب گڑھے مردے اکھیڑنے سے کیا حاصل اور ہمیں کون سا کوئی فرق پڑتا ہے۔
چلیں بات بہت لمبی ہوگئی۔ ڈھاکہ کے بیان پر ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔ رابطہ رکھیے گا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر لیجئے۔ دعا ہے کہ اس کے بعد آپ کی سورگ اور ہماری جنت کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہوجائے اور آپ کے دیہانت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے۔
آپ کا خیر اندیش!
جنرل یحیٰ خان قزلباش
پوسٹ سکرپٹ:
ویسے ذوالفقار علی بھٹو کا شکریہ ادا کرنا بھی بنتا ہے۔ اس نے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو دبا کر فوج کا مورال ہائی رکھنے میں بہت مدد دی۔ ضیا ء الحق میری اس بات پر ایک آنکھ دبا کر ہنس رہا ہے۔ چلو بھٹو کو خط لکھنے کی ڈیوٹی اسی کی لگاتا ہوں۔